وہ سب ہال سے واپس گھر جارہے تھے۔
"اور سنا و علی! کیسا محسوس ہو رہا ہے نکاح کے بعد ؟" عمر نے ڈرائیو کرتے ہوئے علی کو چھیڑا
"بہت اچھا فیل ہو رہا ہے۔میری مانو تو تم بھی کر لو شادی۔"اسنے عمر کو جواب دیا
"اب تم مت شروع ہو جانا۔مما نے جب سے تمھارے نکاح کا سنا ہے تب سے میرے پیچھے پڑ ی ہوئی ہیں"۔۔عمر نے اسے اپناحال بتایاتو وہ ہنسنے لگ گیا۔
"ارے یار !روز کسی نہ کسی لڑکی کی تصویر دکھا تی ہیں۔اور اب تو مجھے اپنی دوستوں کی بیٹیاں دکھانی شروع کر دی ہیں۔"علی ہنسا
"تمھارا نکاح میرے گلے پڑ گیا ہے۔"عمر نے اپنا رونا رویا۔
"تو تمہیں کوئی بھی پسند نہیں ہے ؟" علی نے پوچھا
"نہیں بھائی!اور ابھی میں شادی نہیں کرنا چاہتا"عمر نے جواب دیا
"اتنی بری چیز بھی نہیں شادی۔کرلینی چاہیے انسان کو"۔علی نے اسے کہا تب تک گاڑی اسکے گھر کے گیٹ کے سامنے پہنچ چکی تھی۔
"آج رات یہی رک جا۔"اس نےگاڑی سے اترتے ہوئے عمر کو کہا
"نہیں یار! گھر جانا ہے۔بابا نے ایک کام کا کہا تھا اسے پورا کرنا ہے" ۔عمر نے جواب دیا جسے سن کر وہ سر ہلا کر گاڑی سے نیچے اتر گیا۔
اسکے اترنے کے بعد وہ گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔جبکہ وہ سر جھٹک کر گیٹ کی طرف بڑھا۔
تبھی اسکا موبائل بجا۔
اسنے جیب سے نکال کر موبائل کو دیکھا جس پر ایک انجان نمبر سے کال آرہی تھی۔
اسنے ریسیو کرنے کے بجائے کال کٹ کی اور گیٹ کھول کر گھر کے اندر چلا گیا۔
"وہ آج بے حد خوش تھا۔خوشی اسکی انگ انگ سے پوٹ رہی تھی۔
مجھے شکرانے کے نفل ادا کرنےچاہیے وہ دل میں کہتا اندر داخل ہوا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"یہ کال کیوں نہیں ریسیو کر رہے؟ "فارحہ نے آستگی سے کہتے ہوئے موبائل نیچے رکھا
اور اپنے پاپا کی طرف بڑھی۔
جو پریشانی کے عالم میں ادھر سے ادھر مارچ کر رہے تھے۔اندر روم میں اسرا کے میدے کی صفائی کی جارہی تھیں۔
کچھ دیر کے بعد دروازہ کھولا اور ڈاکٹر باہر نکلا
"انکے میدے کی صفائی کر دی گئی ہے۔اور سلیپنگ پلز کو نکال دیا ہے۔لیکن ابھی وہ بے ہوش ہیں۔کچھ گھنٹوں کے بعد وہ ہوش میں آجائیں گی تو آپ انہیں گھر لے جاسکتے ہیں۔ڈاکٹر نے انہیں بتایا اور تسلی دینے کے انداز میں انکے شانے پر ہاتھ رکھ کر خود آگے بڑھ گیا۔"
اس کی طبیعت کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد وہ فارحہ کی طرف مڑے اور کہا
"کچھ علم ہے کہ اسرا نے یہ حرکت کیوں کی ؟ " فارحہ نے ایک لمحہ کے لئے انکا غصہ سے لال چہرہ دیکھا اور پھر کہا
"نہیں بابا۔مجھے نہیں علم" ۔اسکا جواب سن کر وہ سوچ میں پڑ گئے۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"اسرا یہ سوپ پی لو " !فارحہ نے کہا
"نہیں میرا دل نہیں کر رہا۔اسنے ہاتھ سے سوپ کا پیالہ پیچھے کیا"
"تھوڑا سا تو ہے" ۔فارحہ نے اسے زبردستی سوپ پلاتے ہوئے کہا
"نہیں بس" ۔اسرا نے کہا تب ہی انکے بابا دروازہ ناک کرکے کمرے میں داخل ہوئے۔
"کیسی ہو بیٹا ؟ "انہوں نے چئیر پر بیٹھتے ہوئے کہا
"ٹھیک ہوں بابا۔" اسنے جواب دیا
"بابا یہ سوپ ختم نہیں کر رہی" ۔فارحہ نے ان سے اسکی شکایت کی۔
"میرا دل نہیں چاہ رپا پینے کا" ۔اسنے کہا تو انہوں نے فارحہ سے کہا
"بعد میں پی لے گی"۔تو فارحہ نے کہا
"جی جی آپ اسے سپورٹ نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔"
اسکی بات سن کر وہ ہنس دئے تو وہ بھی ہنستی ہوئی پیالہ لیکر باہر چلی گئی۔
فارحہ کے جانے کے بعد انہوں نے اسرا کو بغور دیکھا اور پھر اٹھ کر اسکے پاس جاکر بیڈ پر بیٹھ گئے۔
"اسرا بچے !کیا بات ہے ؟ ایسا کیا ہوا کہ تم نے سلیپنگ پلز لے لیں ؟" انہوں نے کہا تو اس نے انہیں دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں۔
"اپنے بابا کو بتاو اسرا! " انہوں نے پھر ملتجی انداز میں اسے کہا
"بابا کوئی بات بھی نہیں ہے۔"اسنے کہا تو وہ کچھ پل تکتی باندھے اسے دیکھتے رہے اور پھر اچانک پوچھا
"وہ کیا نام تھا اس لڑکے کا ؟ ہاں علی !" انہوں نے سوچتے ہوئے کہا
"اس سے تو کوئی لڑائی نہیں ہوئی تمھاری ؟ " انہوں نے پوچھا
"نہیں" ۔اسنے جواب دیا
"جو بھی بات ہے اسرا مجھ سے شئیر کرو۔تم بے ہوشی میں بھی اسکا نام لیتی رہی ہو۔" انہوں نے جھجھکتے ہوئے کہا
ایک باپ کے لئے یہ سب سے مشکل مرحلہ تھا کہ وہ یہ بات اپنی بیٹی کو بولے لیکن وہ مجبور تھے۔
"بولو بچے !" انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
"اگر تم اس سے شادی کرناچاہتی ہو تو میں اسکے باپ سے بات کر لیتا ہوں۔مجھے بس تمھاری زندگی عزیز ہے۔اگر مجھے اسے خریدنا بھی پڑا تو میں اسے خرید لونگا۔"" انکی بات سن کر اسرا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
"بابا وہ نکاح کر چکا ہے۔وہ کہتا ہے وہ لڑکی اسکی محبت ہے"۔آخر اسرا نے بتایا تو وہ کچھ لمحے کے لئے خاموش رہ گئے۔
"مجھے علی چاہیے بابا۔" اسرا نے کہا
تو وہ خاموش بیٹھے روتی ہوئی اسرا کو دیکھتے رہے اور پھر اٹھ کر باہر چلے گئے۔
"اسرا انکی لاڈلی بیٹی تھی۔اگر علی کوئی چیز ہوتا تو وہ اسے خرید دیتے ۔لیکن وہ اس جزبے کو کیسے خریدتے جو علی کے دل میں اپنی بیوی کے لئے تھا۔"
انہوں نے لان میں مارچ کرتے ہوئے سوچا
مجھے اسرا کو سمجھانا ہو گا ۔۔انہوں نے دل میں فیصلہ کرتے ہوئے خود سے کہا
۔۔۔۔۔۔*۔ ۔۔۔۔۔
"فری آپ کو میم شمیم بلا رہی ہیں" ۔رضیہ نے آکر فری سے کہا تو وہ مس کی بات سننے چلدی۔
"فری کا برتھ ڈے قریب آرہا ہے۔تم نے کوئی لفٹ لیا ؟" اسکے جاتے ہی اقصی نے عرشی سے پوچھا
"نہیں !" اسنے جواب دیا
"میں نے بھی نہیں لیا۔آج کالج کے آف ہونے کے بعد بازار چلیں ؟ " اقصی نے کہا
"ہاں ! یہ ٹھیک رہے گا۔" عرشی نے جواب دیا
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"یار بس اب۔مجھ سے اور نہیں گھوما جاتا"۔عرشی نے اب اکتاتے ہوئے اقصی سے کہا
"اچھا ناں یار بس۔یہ لاسٹ ٹائم ہے۔مجھے لازمی یہاں گفٹ پسند آجائے گا" ۔اقصی نے کہا تو عرشی اسے گھورتی ہوئی اسکے ساتھ شاپ میں داخل ہوئی۔
"یہ کیسا ہے ؟" عرشی نے ایک شاپیس اقصی کو دکھایا
"نہیں یار ۔کوئی خاص نہیں ہے۔" اقصی نے کہا اور پھر دوسرے شاپیس کی طرف متوجہ ہو گئی۔
"اقصی کی بچی میں بتا رہی ہونکہ میں نے اب مزید گفٹ کی تلاش میں تمھارے ساتھ کسی اور شاپ میں نہیں جانا ۔" عرشی نے اسکے کان میں سر گوشی کی۔تو اقصی نے مڑ کر اسے دیکھا
"بس یہ والی فریم پیک کرا لو۔اسے بھی اچھے لگے گی" ۔عرشی نے کہا تو اقصی نے شاپ کیپر کو وہ فریم پیک کرنے کے لئے دے دی۔
پے منٹ کرنے کے بعد جب وہ گفٹ لیکر شاپ سے باہر نکلیں تو اقصی نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
"بہت لیٹ ہو گئے ہیں عرشی۔"
"آپکی مہربانی سے۔"اسنے جواب دیا جسے سن کر وہ ہنسنے لگ گئی۔
"میری امی تو مجھے کہتی ہیں کہ کالج کے آخری دن آخری دن کر کر کے تم روز پورے علاقہ کی گشت کر آتی ہو۔"
وہ بے دھیانی سے چلتے ہوئے اقصی کو یہ بتا ہی رہی تھی کہ اسکی زور دارقسم کی کسی سے ٹکر ہوئی۔
"یااللہ "!اسکےمنہ سے نکلا اور بے ساختہ اسکا ہاتھ اپنے ماتھے تک گیا۔
کچھ سیکنڈز کے لئے تو اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
"آپکی آنکھیں ہیں کہ بٹن۔عرشی نےغصے سے کہتے ہوئے سامنے والے بندے کو دیکھا اور پھر اسکو دیکھتے ہی اسکی بولتی بند ہو گئی۔"
"تم ٹھیک ہو ؟" علی نے اسے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔
جبکہ اقصی بڑے مزے سے کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"اکیلی آئی ہو ؟ " علی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو بے ساختہ عرشی کو اس دن والی ڈانٹ یاد آئی
اور پھر خود بخود اسکا سر نفی میں ہلا۔
"کس کے ساتھ آئی ہو ؟" علی نے پھر پوچھا
"یہ میرے ساتھ آئی ہے" ۔اقصی نے عرشی کی صورتحا ل سمجھتے ہوئے آگے بڑھ کر کہا تو وہ سر ہلا گیا۔
"ہمیں ایک فرینڈ کا گفٹ لینا تھا "۔اقصی نے مزید بتایا اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی ان سب کو ایک نسوانی آواز نے متوجہ کیا۔
"ہائے علی !"جس پر علی کے ساتھ ساتھ ان دونوں نے بھی آواز کی سمت دیکھا
تب تک وہ لڑ کی انکے قریب پہنچ چکی تھی۔
"تم تو اس دن کے بعد ملے ہی نہیں۔میری طبیعت پوچھنے بھی نہیں آئے"۔اس نے علی کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اسکی نظر ان دونوں پڑی۔
"یہ کون ہیں ؟"اسنے پوچھا
"یہ میری وائف عرشی۔اور یہ انکی فرینڈ ۔"اب کی بار علی نے جواب دیا
"او۔آئی سی"۔اسرا نے عرشی کو دیکھتے ہوئے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہا
"آئیں کہی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔" اسرا نے عرشی کو کہا
"نہیں ہم پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں۔پھر کبھی سہی"۔کہتے ہوئے اسنے اقصی کو چلنے کا اشارہ کیا۔
اسکی بات سن کر علی نے بے ساختہ اسرا کا چہرہ دیکھا اور مسکراہٹ دباتے ہوئے عرشی سے کہا
"میں چھوڑ آتا ہوں تمہیں"۔کہہ کر اسکے جواب کا انتظار کئے بغیر اسکے آگے چلنے لگا۔
"کچھ زیادہ ہی مغرور ہے یہ عرشی تو"۔اسرا نے پاوں پٹکتے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"بس بھائی یہاں روک دیں"۔اقصی نے کہا تو اسنے گاڑی روک دی ۔
"تھینک یو بھائی "۔اقصی نے کہا
"آیا بڑا بھائی۔"عرشی نے منہ کھڑکی کی طرف کرتے ہوئےدل میں کہا
"ویلکم" ۔اسنے مسکرا کر جواب دیا تو وہ ہنستی ہوئی گاڑی سے اتر گئی۔
اسکے اترنے کے بعد علی نے عرشی کی طرف دیکھا جو کھڑکی کی طرف منہ کئے بیٹھی تھی۔
اسنےکچھ کہنے کے لئے منہ کھولا پھر سوچ کر چپ ہو گیس اور خاموشی سے گاڑی اپنے گھر کے راستے پر ڈال دی۔
"یہ میرے گھر کا راستہ تو نہیں ہے"۔عرشی نے انجان راستے کو دیکھتے ہوئے دل میں کہا اور پھر اسکی طرف دیکھا جو سنجیدگی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔
"سنیں!" عرشی نے اسے پکارا تو اسنے کہا
"ہاں بولو ؟ "
"یہ میرے گھر کا راستہ نہیں ہے"۔عرشی نے کہا
"یہ آپ ہی کے گھر کا راستہ ہے"۔کہتے ہوئے اسنے گاڑی گیٹ سے اندر داخل کی۔
"اور پھر گاڑی روک کر اپنا سیلٹ بیلٹ کھولنے لگا۔وہ خاموش بیٹھی اسکی حرکات دیکھتی رہی۔۔
جب وہ اپنا سیلٹ بیلٹ کھول چکا تو اسکی طرف مڑا
"سیلٹ بیلٹ کھول کر اندر آجاو۔پاپا انتظار کر رہے ہونگے۔"
"مجھے نہیں جانا کہیں بھی۔مجھے میرے گھر چھوڑ کر آئیں"۔اسنے ضدی لہجے میں کہا
اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سوچا
"یہ نرمی سے نہیں مانے گی"۔تب ہی اسکا بازوزور سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا اور کہا
"تمہیں شاید ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی۔میں نے بولا ہے ناں کہ اترو ! گاڑی سے نکلو!"
"مجھے نہیں جانا کسی کے بھی گھر " ۔عرشی نے کہا
"یہ کسی کا نہیں آپکے شوہر کا گھر ہے"۔علی نے جواب دیا
"جسکا بھی ہے ۔مجھے نہیں جانا"۔عرشی نے اپنے بازو پر سے اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے ضدی پن سے کہا
"اگر یہاں نہیں آنا تھا تو مجھ سے نکاح نہ کرتی "۔اب کی بار علی نے بھی غصے میں آتے ہوئے اسکے بازو کو جھٹکا دیکر کہا
"اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں آپ جیسے جنگلی انسان سے کبھی نکاح ناں کرتی۔"کہتے ہوئے آنسو اسکے گالوں پر پھسلے۔
"تم !" وہ اسے کچھ سخت کہتے کہتے رکا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل کر زور سے دروازہ بند کر دیا۔
جس پر وہ اچھل کر رہ گئی۔
"جنگلی!جاہل،بدتمیز" ۔۔۔۔اسنے روتے ہوئے کہا
"کیا لڑکی ہے یہ"۔اسنے چلتے ہوئے سوچا اور پھر کچن میں جاکر فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔
جب پانی پی کر غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو اسنے سبزی کاٹتے رحیم سے کہا
"باہر گاڑی میں عرشی ہے۔جاو اسے اندر لیکر آو۔"
تو وہ جی کہتا باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔*۔۔۔،
"پتہ نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔مجھے ساتھ لیکر بھی اندر نہیں گیا۔اب میں خود کیسے اندر جا"و۔اسنے پاوں پٹختے ہوئے خود سے کہا اور گاڑی سے باہر نکل کر کھڑی ہو گئی۔
"اب کیا کرو " ۔وہ وہی کھڑی سوچ رہی تھی۔
"یااللہ انکل کو ہی بھیج دے۔"اسنے دل میں دعا مانگی
"جب اندر نہیں لے جانا تھا تو لایا ہی کیوں تھا" ۔اسنے پھر بے بسی سے پاوں پٹخا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
رحیم نے باہر جاکر دیکھا تو اسے وہ گاڑی کے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی نظر آئی۔
"عرشی بی بی !آئیے آپ" ۔اسنے جاکر اسے کہا تو وہ چونکی اور اس کی طرف دیکھا
"میں رحیم ہوں جی" ۔اسنے بتایا
"اچھا !" وہ اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
"انکل ہیں ؟ " اچانک عرشی نے پوچھا
"جی۔" اسنے جواب دیا اور گلاس ڈور کھول کر اسے لیکر لاونج میں چلا گیا۔
"عرشی بی بی آپ یہاں بیٹھیں۔میں صاحب کو بلا کر لاتا ہوں" ۔رحیم نے کہا
وہ بیٹھنے کے بجائے وہی کھڑی رہی۔
تب ہی اسے حسین انکل آتے دکھائی دئیے تو وہ انکی طرف بڑھی
۔
"میرا بچہ ! کیسی ہو بیٹا " انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا تو وہ رونے لگ گئی۔
"عرشی کیا ہوا ہے بیٹا ؟" انہوں نے پریشان ہوتے ہوئے اسے کہا
لیکن وہ جواب دینے کے بجائے روتی رہی۔
"اچھا ادھر آو۔صوفے پر بیٹھو۔" وہ اسے لئے صوفے کی طرف بڑھے۔
"کیا ہوا ہے اسے ؟" انہوں نے رحیم سے پوچھا تو اسنے کندھے اچکا دئیے۔
"جاو پانی لیکر آو !"انہوں نے اسے پانی لانے بھیجا اور خود اسکے پاس ہی بیٹھ گئے۔
"علی بھائی !علی بھائی !عرشی بی بی رو رہی ہیں"۔رحیم نے کچن میں کھڑے علی کو جاکر بتایا
"اسکا اور کام کیا ہے۔" وہ منہ میں بڑ بڑا یا پھر پوچھا
"کیوں رہ رہی ہے ؟ "
"پتہ نہیں صاحب جی بھی پوچھ رہے ہیں" ۔رحیم نے جواب دیا۔
"اچھا میں دیکھتا ہوں۔"اسنے کہا اور لاونج کی طرف چلا گیا۔
اسکے پیچھے ہی رحیم بھی پانی کی بوتلاور گلاس لیکر کچن سے باہر نکلا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"عرشی !میرا بیٹا کیا ہوا ہے بتاو تو سہی۔کسی نے کچھ کہا ہے ؟ " انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے پوچھا تو وہ اور شدت سے رونے لگی
"ہاں۔" اسنے اثبات میں سر ہلایا
"کس نے کہا ہے ؟" انہوں نے پوچھا
"مجھے وہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی۔" اسنے روتے ہوئے کہا
"کس نے کہا ہے ؟ علی نے ؟ انہوں نے شک کی بنیاد پر اسکا نام لیا تو اسنے اثبات میں سر ہلایا۔"
"اور کیا کہا ہے اسنے ؟" انہوں نے پوچھا
"یہ بھی کہ اگر یہاں نہیں آنا تھا تو نکاح کیوں کیا تھا " ۔اسنے مزید بتایا
اسی وقت علی لاونج میں داخل ہوا ۔جو اسکی آخری بات سن چکا تھا۔
"تو محترمہ یہاں میری شکایتیں لگا رہیں ہیں "اسنے دل میں کہا
"عرشی بی بی پانی۔رحیم نے گلاس میں پانی نکال کر عرشی کی طرف بڑھا یا تو اس نے تھام لیا"۔
وہ پانی دیکر خود وہاں سے چلا گیا۔
تب تک علی بھی صوفے پر آکر بیٹھ چکا تھا۔
"تم نے اسے کیوں ڈانٹا ہے علی ؟ " انہوں نے اس سے پوچھا
"پاپا یہ ضد کر رہی تھی۔" اسنے جواب دیا
"نہیں انکل !اس دن بھی گاڑی میں انہوں نے مجھ پر بلاوجہ غصہ کیا تھا۔" عرشی کی بات پر انہوں نے غصے سے علی کی طرف دیکھا
"پاپا تب بھی یہ میری بات نہیں مان رہی تھی۔"علی نے احتجاج کرتے ہوئے ان سے کہا
"انکل یہ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔پہلے خود خود سے کہنے لگے کہ تمہیں نجانے کونسا دکھ ہے جو ہر فنکشن میں اکیلی بیٹھتی ہو۔اور پھر جب میں رونے لگی تو میری ساری چوڑیاں بھی توڑ دی تھی۔"
"اور یہ دیکھیں یہ میرے کٹ بھی لگے تھے۔"اس نے ثبوت کے طعر پر اپنی کلائیاں آگے کیں۔
اس کی بات پر علی نے بے ساختہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
"بلکل ہی پاگل ہے یہ۔پاپا کو چوڑیوں کا کیوں بتایا ہے۔پاپا کیا سوچتے ہونگے۔"اس نے دل میں کہا
انہوں نے کچھ کہنے کے بجائے بس غصے سے علی کی طرف دیکھا
"آئی ایم سوری پاپا!اسنے مزید صفائیاں دینے کے بجائے معافی مانگنا ٹھیک سمجھی۔اسے لگ رہا تھا کہ اگر اسنے مزید صفائی دی تو وہ ایک ایک کرکے تمام باتیں انہیں بتا دے گی۔"
کچھ لمحے وہ اس کو گھورتے رہنے کے بعد عرشی کی طرف متوجہ ہوئے۔
"بیٹا نہ ہی ڈرنے کی ضرورت ہے نہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے ۔آئندہ کے بعد یہ کچھ بھی بولے تو بلا جھجھک مجھے بتانا۔اور پھر میں جانو اور یہ جانے۔"انہوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تو عرشی نے اثبات میں سر ہلا یا۔
"میں امی کو کال کر کے بتا دونکہ میں آپکے یہاں ہو؟" اسنے کہا
"بھابھی کو علم نہیں ہے کہ تم یہاں ہو " ؟ انہوں نے حیران ہوتے ہوئے کہا
"نہیں وہ میں نے راستے میں اسے گاڑی میں بٹھایا تھا۔پھر میں نے سوچا آپ سے ملوا کر اسے اسکے گھر لے جاو۔" علی نے کہا جس پر وہ اسے دیکھ کر رہ گئے۔اور پھر عرشی سے کہا
"ہاں جاو بیٹا آپ بتا دو گھر کال کر کے بلکہ میری بھی بھابھی سے بات کرانا تو وہ جی کہتی کال ملانے لگی۔"
۔۔ ۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"ہیلو! امی" عرشی نے کہا
"عرشی کدھر ہو ؟ "انہوں نے پریشان ہوتے ہوئے اس سے پوچھا
"میں حسین انکل کہ گھر ہو" ۔اسنے بتایا
"تم انکے گھر کیسے گئی ؟" انہوں نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا
"وہ میں اوراقصی شاپنگ سے واپس آرہے تھے تو انہوں نے دیکھ لیا اور یہ گھر لے آئے" ۔اسنے بتایا
"اچھا ۔" انہوں نے کہا
"بیٹا مجھے کال دینا" ۔تبھی حسین صاحب نے اس سے کہا
"امی انکل آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں" ۔اسنے کہ کر موبائل انکو دے دیا
"اسلام و علیکم بھابھی" ۔انہوں نے سلام کیا
"وعلیکم سلام" !صفیہ بیگم نے جواب دیا
"بھابھی وہ آپ اگر برا ناں مانیں تو آج عرشی رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھالے ؟ " انہوں نے عاجزی سے پوچھا
بلکل بھائی صاحب۔اب یہ آپکی ہی بیٹی ہے "۔انہوں نے کہا
"شکریہ بھابھی۔"انہوں نے کہا اور خداحافظ کہہ کر کال بند کر دی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
یادگار لمحے (Completed)
Humorیہ کہانی ہے دوستوں کی ،یہ کہانی ہے محبت کی،یہ کہانی ہے احساس کے رشتے کی جو بغیر خون کے رشتے کہ ایک دوسرے سے محبت کی ڈور میں بندھے ہیں۔یہ کہانی ہے ان دوستوں کی جنھوں نے اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کو تھامے رکھا۔