"اب کیسی طبیعت ہے؟" جاوید صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا
"دعا کریں۔انہیں اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہوش آجائےورنہ یہ کامے میں بھی جاسکتی ہیں"۔۔وہ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔
تب تک صفیہ بیگم بھی انکے قریب پہنچ چکی تھی۔
"کیا کہا ہے ڈاکٹر نے؟ " انہوں نے جاوید صاحب سے پوچھا
"دعا کرنے کا کہا ہے۔اگر چوبیس گھنٹوں میں ہوش میں ناں آئی تو کومے میں جا سکتی ہے"۔وہ بتا کر تھکے تھکے قدموں سے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔
"میری بچی!" وہ وہی بینچ پر بیٹھ کر سسکنے لگیں۔
"امی حوصلہ کریں آجائے گا اسے ہوش" ۔ضمیر نے انہیں اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا تو وہ اسکے ساتھ لگ کر رونے لگیں۔
جاوید صاحب خاموشی سے انہیں دیکھے گئے۔دو ہی تو اولادیں تھیں انکی۔اور عرشی میں تو انکی جان بستی تھی۔اور آج وہی عرشی اندرپڑی ہوش و حواص سے بیگانہ تھی۔
"ایسا کیا ہوا تھا کہ اسنے اتنا دماغ پر اثر لیا کہ نروس بریک ڈاون ہو گیا"۔وہ خاموشی سے سوچے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
بیس گھنٹے گزر چکے تھے وہ اب بھی ہوش میں نہیں آئی تھی۔انہوں نے آنکھیں بند کی ہوئی اپنی بیٹی کو دیکھا جو خاموش بھی مشکل سے ہوتی تھی۔اور اب ایسے خاموش پڑی ہوئی تھی جیسے دنیا سے اسکا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اسے دیکھتے ہوئے آنکھیں انکی نم ہو ئیں۔
تب ہی دروازہ کھول کر ضمیر اندر آیا اسکے ساتھ کوئی لڑکی بھی تھی۔
"یہ عرشی کی دوست ہے۔اسے دیکھنا چاہتی تھی"۔اسنے کہا
"آو بیٹا!" انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر باہر جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
انکے پیچھے ہی ضمیر بھی کمرے سے نکل گیا۔
فری خاموشی سے اسکے پاس بیٹھ گئی۔
"ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ دوستیں پاس ہو اور خاموش ہو۔"
آج یہ پہلی دفعہ تھی اورعرشی کو اس حالت میں دیکھ کر اسکا دل روئے جارہا تھا۔
"عرشی "۔۔۔۔فری نے کپکپاتے ہونٹوں سے اسکا نام لیا ۔لیکن اس میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔
"یہ تم نے اچھا نہیں کیا عرشی۔مجھے منع کر رہی تھی کہ اسلام آباد مت جاو ۔اور خود تم دنیا چھوڑکر جا رہی ہو"۔فری نے روتے ہوئے کہا
لیکن اس میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔
"عرشی میری جان آنکھیں کھولو۔یوں ہمت مت ہارو۔ہم نے وعدہ کیا تھا ناں کہ ہر بات ایک دوسرے کو بتائیں گے پھر تم نے وعدہ خلافی کیوں کی ؟ کیوں نہیں بتائی یہ بات جو تمہیں اس حال تک لے آئی۔"فری نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔
لیکن عرشی ویسے ہی ساکت پڑی ہوئی تھی۔
تب ہی ڈاکٹر وزٹ پر آئے تو وہ خاموشی سے کمرے سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسکا اچانک دل کیا کہ وہ واپس چلا جائے۔
لیکن دل کو مضبوط کرتا ہوا وہ آگے بڑھتا چلا گیا۔لیکن جیسے جیسے قدم بڑھا رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ اسکا دل بند ہو رہا ہے۔
آخر وہ جاکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔اسکے برابر میں ہی اسکے پاپا کی سیٹ تھی۔
کچھ دیر کےبعد جہاز نے اڑان بھری تو وہ سیٹ سے ٹیک لگا گیا۔
لیکن اگلے ہی پل عرشی کا چہرہ اسکی نظروں کےسامنے تھا۔وہ آنکھیں کھول کر سیدھا ہو بیٹھا
"تم ٹھیک ہو ؟ "انہوں نے اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے دیکھے تو پوچھا
"جی!" اسنے جواب دیکر کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا لیکن اسے اب بھی اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔اسکا دل گھبرا رہا تھا۔
"یہ مجھے کیا ہو رہا ہے"۔اسنے دل میں کہا
"پاپا میرے پاس ہیں۔اور یہ بلکل ٹھیک ہیں۔تو کیا عرشی کسی پریشانی میں تو نہیں ؟ " اسنے گھبرا کر سوچا اور پھر ایک دم ان سے پوچھا
"پاپا !عرشی سے آپ کی بات ہوئی تھی ؟"
"نہیں اسکا موبائل آف تھا۔" انہوں نے کہا تو وہ انگلیوں سے اپنے ماتھے کو مسلنے لگا
"کیا بات ہے علی ؟" انہوں نے اسکی بے چینی نوٹ کی تو پوچھا
"کچھ نہیں پاپا"۔۔اسنے جواب دیا تو وہ خاموش ہو گئے۔
وہ بھی دوبارہ آنکھیں بند کر کے سیٹ سے ٹیک لگا گیا۔
"علی بھائی انکی رنگت بھی پیلی ہو رہی تھی۔"اسکے کانوں میں رحیم کی آواز گونجی تو اسنے پھر آنکھیں کھول لیں۔
"یااللہ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیسی ہے لیکن اگر وہ کسی پریشانی میں ہے تو اسکی پریشانی کو ختم کر دے۔میں اس سے ناراض ضرور ہوں لیکن وہ لڑکی میری زندگی ہے یارب۔میری خوشیاں میراغم سب اس سے منسوب ہے۔وہ پریشان ہوگی تو سکون مجھے بھی نہیں ملے گا۔۔اسکی پریشانی کو دور کر۔اور مجھے اطمینان نصیب کر۔اسنے دل ہی دل میں اسکے لئے دعا مانگی۔"
اسکے آنسو اسکے دل پر گر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں کے سامنے پھر وہی منظر تھا۔
"لیکن مجھے تمھاری کوئی بات نہیں سننی۔"کہہ کر اسنے بازو سے پکڑ کر اسے دروازہ سے نکال دیا۔
"علی میری بات سنیں۔۔۔وہ آہستہ بڑ بڑا رہی تھی"۔ضمیر کی نظر اس پر پڑی تو فورن اسکے پاس گیا
"علی میری بات سنیں"۔اسنے پھر کہا اور اب کی بار ضمیر کو اسکا جملہ صاف سمجھ آیا۔
"عرشی آنکھیں کھو لو۔" ضمیر نے اسے آواز دی تب تک اسکی والدہ اور بابا بھی اسکے قریب آچکے تھے۔
ڈیوٹی پر موجود نرس ڈاکٹر کو بلانے بھاگی۔
"عرشی"۔۔۔۔اسے دور دور سے اپنے نام کی پکار سنائی دے رہی تھی۔
تب ہی نرس اور ڈاکٹر وہاں آئے۔
"آپ لوگ باہر جائیں۔"انہوں نے سب کو کہا اور اسکا ٹریٹمنٹ کرنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا تو اسنے جاوید صاحب سے کہا
"آپ بے حد خوش قسمت ہیں کہ آخری ایک گھنٹے میں انکو ہوش آگیا ہے"۔ڈاکٹر کی بات سن کر وہ نم آنکھو ں سے مسکرائے
"وہ بلکل ٹھیک ہیں اب۔لیکن ہم نے انہیں بے ہوشی کا انجیکشن دیا ہے۔کچھ دیر کے بعد جب ہوش آجائے گا تو آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔"وہ بتا کر آگے بڑھ گئے۔
"اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔"صفیہ بیگم نے کہا
۔۔۔۔۔۔*۔،۔۔،۔۔
"عرشی کیسی ہے ؟ اسکا موبائل نمبر آف جا رہا تھا۔اور تم نے بھی میری کالز ریسیو نہیں کی۔۔" حسین صاحب نے اسکی خیریت پوچھتےہوئے ساتھ میں ان سے شکوہ بھی کیا
"عرشی کی وجہ سے ہی پریشان تھا حسین"۔انہوں نے کہا
"کیا ہوا ہے ؟" انہوں نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا
"نروس بریک ڈاون ہو گیا تھا اسے۔اسلئے میں تم لوگوں سی آف کرنے بھی نا آسکا۔"انہوں نے بتایا
"عرشی کو نروس بریک ڈاون ؟" حسین صاحب نے حیرت سے کہا انکی بات سن کر آتش دان کے قریب بیٹھے ہاتھ سینگتے علی نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر انہیں دیکھا اور بے دھیانی میں اسکا ہاتھ سلگتے انگاروں سے جالگا
"سی"۔۔۔اسکے منہ سے بے ساختہ سی کی آواز نکلی تو انہوں نے اسے دیکھا اور پھر پوچھا
"اب کیسی ہے وہ ؟ "
"ٹھیک ہے۔رکو میں تمھاری بات کراتا ہوں"۔جاوید صاحب
نے کہا
"عرشی ؟" وہ اسکے کمرے کا دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوئے
"حسین تم سے بات کرنا چاہتا ہے"۔انہوں نے موبائل آگے بڑھایا جو اسنے خاموشی سے لے لیا۔
"اسلام و علیکم"۔اسنے سلام کیا
"وعلیکم سلام۔کیسی ہو بیٹا ؟ اور یہ میں کیا سن رہا ہو؟ نروس بریک ڈاون کیسے کر لیا اپنا؟ "انہوں نے اس سے کہتے ہوئے علی کی طرف دیکھا جس نے انکی بات پر اپنا رخ موڑ دیا۔
"خود ہی ہو گیا۔"اسنے کہا
"خود سے تو کچھ نہیں ہوتا"۔انہوں نے کہا تو وہ خاموش رہی۔
"اچھا یہ لو علی سے بات کرو۔"۔انہوں نے کہہ کر موبائل اسکی طرف بڑھایا وہ تزبزب کے عالم میں بیٹھا رہا اور پھر آگے بڑھ کر موبائل تھام کر کان سے لگا یا اور کہا
"ہیلو!"اسکی آوز سن کر ہی وہ خاموشی سے روئی گئی۔
"ہیلو"۔۔اس نے پھر کہا تو وہ بولی
"علی میری بات سن لیں"۔۔۔۔اسکا جملہ سنتے ہی اسنے جھوٹ موٹ کا "ہیلو۔،۔۔۔ہیلو۔۔۔۔۔پاپا آواز نہیں آرہی "۔کہہ کر کال کٹ کر دی۔
اسکے رویہ سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ تکیہ منہ پر رکھ کر روئے گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
دن یوں ہی گزرتے چلے گئے تھے۔۔۔وہ ٹھیک ہو کر گھر آگئی تھی۔
فری اسلام آباد چلی گئ تھی۔اقصی اپنے ہسبنڈ کے ساتھ لاہور شفٹ ہو گئی تھی۔
شروع شروع میں وہ تینوں کانفرنس کال پر باتیں کرتی تھیں۔لیکن آہستہ آہستہ اقصی اپنی لائف میں بزی ہو گئی اور فری اپنی لائف میں۔
اور وہ کبھی بوکھلائی بوکھلائی سی پورے گھر میں گھومتی رہتی۔اور پھر اپنے کمرے میں آکر بیٹھ جاتی۔اسے وہ لوگ یاد آتیں۔اپنی مستیاں یاد آتیں۔واقعی وہ لمحے تھے جو انہوں نے جی لئے تھے۔اب تو بس زندگی انہیں گزار رہی تھی۔
لیکن جو بھی تھا اسنے اپنی زندگی کا بہترین وقت ان دونوں کے ساتھ گزارا تھا۔۔۔
کالج ٹائم میں بہت سے اپ اینڈ ڈاون آئے تھے لیکن ان دونوں نے اسے کسی مشکل میں اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔بہلے وہ مشکل مس شمیم کی پیداکر دہ ہو یا انکا اسکے کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش۔۔۔
وہ دونوں ہر قدم پر ساتھ رہیں تھیں۔اسے ان دونو ں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا۔۔کیونکہ کہیں ناں کہیں وہ بھی اب بدل گئی تھی۔اسے بھی صبر کرنا آگیا تھا۔
کچھ مہینوں کے بعد انکا رزلٹ آیا تو اقصی ایک پیپر میں فیل تھی جبکہ وہ اور فری پاس تھی۔
ان لوگوں نے اپنی اپنی پسند کی یونی میں ایڈمیشن لینے لے لئے دل و جان سے تیاری کرنا شروع کر دی تھی۔ ۔۔
بس فرق یہ تھا کہ فری کو واقعی پڑھنے کاشوق تھا جبکہ عرشی خود کو اتنا مصروف رکھنا چاہتی تھی کہ اسے علی کا خیال بھی ناں آئے۔
آخر کار وہ دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی تھیں۔اور انہیں انکی پسند کی یونیورسٹیز میں ایڈ میشن مل گیا تھا۔
زندگی کی روٹین پھر وہی سے شروع ہو گئی تھی جہاں سے ٹوٹ گئی تھی۔ ۔بس فرق یہ تھا کہ عرشی وہ عرشی نہ رہی تھی۔
وہ لمحوں میں کسی کو بھی اپنی دوست بنا لیتی تھی۔لیکن یونی میں اسنے کسی کو بھی اپنی دوست نہیں بنایا تھا لیکن ہاں مبینہ نے اس سے خود دوستی کی تھی۔
اور پھر وقت نے ثابت کیا تھا کہ ایک دفعہ پھر اسکی کی قسمت میں بے غرض دوست آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
آج نیو ائیر تھا۔
اسےبھی اسکےایک امریکن دوست نے نیوائیر سیلیبریٹ کرنے کے لئے اپنے گھر بلایا تھا۔۔اور وہ خلاف معمول وہاں چلا گیا تھا۔
بارہ بجنے کے بعد وہ سب ڈانس کرنے میں مگن ہوئے تو وہ خاموشی سے جاکر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
اس سے تھوڑا دور ایک کپل بیٹھا تھا۔انہیں دیکھ کر اسے عرشی کا خیال آیا۔
"پتہ نہیں اب بھی ویسی ہی بیوقوف ہو گی۔"اسنے دل میں سوچا
تب ہی اسکے پاس سینڈی آئی اور اسکی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا
"ول یو بی مائی پارٹنر(کیا آپ میرے پارٹنر بنیں گے )
"سوری"اسنے مسکرا کر کہا تو وہ چلی گئی۔
اسکے جانے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔اور وہاں سے خاموشی سے نکل کر اپنے گھر کے راستے پر چل پڑا۔
دسمبر کی آخری رات تھی ۔اور آج خلاف معمول سردی زیادہ تھی۔
وہ ایسے ہی کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے سڑک کنارے چلتا گیا۔۔
کچھ دور اسے کچھ اسٹال لگے نظر آئے۔
آج نیو ائیر نائٹ تھی۔اسلئے کچھ لوگ خریداری کر رہے تھے اور کچھ ایسے ہی گھوم رہے تھے۔۔۔
وہ بھی جاکر ایک اسٹال پر کھڑا ہوگیا۔
جہاں اسے مختلف چیزیں نظر آرہی تھیں۔اسنے اپنے لئے ایک کی چین خریدا ۔اچانک اسکی نظر چھوٹے چھوٹے نگوں والے ایک بریسلیٹ پر پڑی
اسکو دیکھتے ہی اسے عرشی کا بریسلیٹ یاد آیا تو وہ بے ساختہ لب بھینچ کر آگے بڑھ گیا۔
"یہ لڑکی میرے دماغ پر حاوی ہے۔"اسنے دل میں کہا اچانک یوں ہی چلتے چلتے اسے محسوس ہوا کوئی اسکے پیچھے آرہا ہے۔اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا تو سینڈی تیز تیز قدم اٹھاتی اسکے پیچھے چلی آرہی تھی۔
"تم وہاں سے کیوں چلے آئے ؟" اسنے کہا
"ایسے ہی۔"علی نے جواب دیا
"اچھا"۔وہ اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
"آآلی رکو۔وہاں چلتے ہیں"۔اسنے اپنے لہجے میں اسکا نام لیا اور اسکا بازو پکڑ کر اسٹال کی طرف لے گئی۔
لاشعوری طور پر اسکے دماغ میں عرشی کی جیلسی کا خیال آیا تو بے ساختہ اسنے اپنا بازو اسکے ہاتھ سے چھڑوایا۔
تب ہی اسے سینڈی کی آواز آئی
"یہ کیسا لگ رہا ہے ؟" سینڈی کی آواز پر اسنے اسکے ہاتھ کی طرف دیکھا جہاں اسے اسکی کلائی میں چھ چوڑیاں نظر آئیں تو اسے فواد کی شادی میں عرشی کے ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں یاد آگئیں تو وہ مسکرا گیا
"اچھی ہیں"۔اسنے کہا
"میں اسکا پوچھ رہی ہو"۔۔سینڈی نے اپنے ہاتھ میں پکڑا کڑا اسکے آگے کیا
"ہاں ہاں ٹھیک ہے۔"وہ پھر سے سنجیدہ ہو گیا۔
"چلو۔۔"سینڈی نے کہا تو وہ آگے بڑھ گیا۔
"تمہیں یہ کہاں سے ملیں ؟ "علی نے اسکی چوڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"میری فرینڈ نے دی تھی۔"اسنے بتایا اور پھر کہا
"علی ڈو یو لائک سم ون ؟"(کیا تم کسی کو پسند کرتے ہو )
اسکے سوال پر اسنے مڑ کر سینڈی کو دیکھا اور پھر کہا
"آئی ایم میریڈ"۔(میں شادی شدہ ہو)
اسکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے بھونکچا ہو ئی اور پھر خاموش ہو گئی۔
ہمم اسلئے تم ہم گرلز سے فری نہیں ہوتے۔اسنے کہا تو وہ ہنس دیا۔
۔،۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
VOCÊ ESTÁ LENDO
یادگار لمحے (Completed)
Humorیہ کہانی ہے دوستوں کی ،یہ کہانی ہے محبت کی،یہ کہانی ہے احساس کے رشتے کی جو بغیر خون کے رشتے کہ ایک دوسرے سے محبت کی ڈور میں بندھے ہیں۔یہ کہانی ہے ان دوستوں کی جنھوں نے اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کو تھامے رکھا۔