Episode : 8

5.7K 186 110
                                    


سورج کی پہلی کرنیں سرسبز اور بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرا کر ان پہاڑوں کے درمیان کھڑی پتھروں سے بنی حویلی پر پڑ کر اسے مزید خوبصورت بنا رہی تھیں۔

باہر سے یہ حویلی جتنی مضبوط اور خوبصورت نظر آتی تھی, اندر سے اتنی ہی کھوکھلی اور بدصورتی سے بھری تھی۔

اس کے اندر بسنے والوں کے دل پتھر کے تھے اور ان کا ضمیر مردہ ہو چکا تھا۔

حویلی کے سامنے سے بہتے دریائے سوات کی لہریں پتھروں سے ٹکرا کر شور مچاتی بہہ رہی تھیں۔

صبح سویرے ہی خان حویلی میں افراتفری کا عالم تھا۔ ملازمین پھرتی سے اپنے اپنے فرائض انجام دینے میں مصروف تھے۔

خاندان کے تمام افراد حویلی میں موجود تھے جبکہ دیگر رشتہ داروں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔

کیونکہ آج احمد خان کی اکیسویں برسی تھی۔

بتول خانم برآمدے میں موجود اپنے تخت پر بیٹھیں ہر چیز کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ نئے احکامات بھی جاری کر رہیں تھی۔

احمد خان کی وفات کے بعد وہ خود کو اس حویلی اور قصبے کا حاکم سمجھتے ہوئے شاید اصلی خدا کو بھول بیٹھیں تھی۔

"بشیر....!"

"بشیر...!"

وہیں تخت پر بیٹھے ہی بتول خانم نے اپنے ملازم کو آواز لگائی۔

"جی.. حکم کریں خانم۔"

پیٹ پر ہاتھ باندھے اور سر جھکائے کھڑا آدمی تقریباً تیس یا بتیس سال کا تھا۔

بظاہر وہ مؤدب انداز میں کھڑا تھا مگر اس کی آنکھوں سے جھلکتی نفرت بتول خانم کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔

بشیر کچھ عرصہ قبل ہی زخمی حالت میں حویلی کے سامنے سے بہتے دریا کے کنارے سے ملا تھا۔

چند ملازمین اسے بتول خانم کی اجازت سے حویلی لے آئے تھے۔

اُسے کچھ ڈاکوؤں نے لوٹنے کے بعد زخمی کر دیا تھا۔

بقول بشیر کے وہ ایک غریب آدمی تھا مزدوری کر کے گزر بسر کرتا تھا اور اب اس کے پاس واپس گھر جانے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔

بتول خانم نے اُسے صحت یاب ہونے تک حویلی میں رہائش کی اجازت دے دی تھی اور اس دوران اس نے بتول خانم کا اعتماد جیت لیا تھا.

اب وہ حویلی میں ملازمِ خاص کا درجہ رکھتا تھا.

"داخلی دروازے کے سارے انتظامات اور اندر آنے جانے والوں پر نظر رکھنا تمہارا کام ہے. کسی بھی نا معلوم شخص کو ہماری اجازت کے بغیر اندر داخل نہیں ہونے دینا. کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے بشیر! ہم تم پر اعتماد کر رہے ہیں۔" وہ رعونت سے بول رہیں تھی.

"جی بہتر خانم...، ان شاء اللہ کوئی کوتاہی نہیں ہوگی۔" بشیر اسی طرح سر جھکائے الٹے قدموں پیچھے ہٹا اور پھر مڑ کر حویلی کے پچھلے جانب بنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا.

MOHABBAT by Haya Fatima Where stories live. Discover now