Episode : 15

4K 188 143
                                    


صبح کے اجالے نے رات کی تاریکی کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ طلوع ہوتا سورج آسمان پر سرخی پھیلا رہا تھا۔ 

چرند پرند بھی آہستہ آہستہ اپنے آشیانے چھوڑ کر ، اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوۓ رزق کی تلاش میں مشغول ہو رہے تھے۔  

ایسے میں ولید ہسپتال کی عمارت کے باہر لان میں لگے بینچ پر بیٹھا آسمان کو دیکھنے میں مصروف تھا۔ 

رات میں وہ اس لڑکی کو ایک نجی ہسپتال میں لے کر آیا تھا۔  جب نرس نے ولید سے پوچھا کہ اس کا مریضہ سے کیا تعلق ہے تو ولید نے سب سچ بتا دیا۔  

ڈاکٹر نے یہ کہہ کر علاج کرنے سے منع کر دیا کہ یہ پولیس کیس ہے کیونکہ لڑکی کے جسم پر کافی چوٹیں لگی تھیں اور تشدد کے نشان بھی تھے۔ 

لیکن چونکہ یہ ایک نجی ہسپتال تھا اس لیے ولید نے کچھ پیسے دے کر ڈاکٹر کو علاج کرنے لے لیۓ رضامند کر لیا تھا۔ 
ولید نے اسمارا کو فون کر کہ جھوٹ بولا تھا کہ وہ آج رات اپنے دوست کے گھر ہی رکے گا۔

نفیسہ کی طبعیت پہلے ہی ٹھیک نہیں تھی اور وہ ان کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ 

ساری رات ہسپتال میں کبھی بیٹھ کر اور کبھی کھڑے ہو کر گزری تھی۔ اب وہ شدید نیند اور تھکاوٹ کا شکار تھا اس لیے باہر لان میں آ گیا تھا۔  

اب اسے انتظار تھا کہ کب وہ لڑکی ہوش میں آۓ اور ولید اُس سے اُس کے گھر والوں کا پوچھ کر اُسے ان کے حوالے کرے اور خود سکون سے گھر جاۓ۔

کچھ دیر باہر کی ٹھنڈی اور پرسکون ہوا کو محسوس کرنے کے بعد جب وہ واپس اندر گیا تو اس لڑکی کے کمرے سے ایک نرس باہر نکل رہی تھی۔

"وہ ٹھیک ہے؟ کیا اسے ہوش آ گیا؟ " ولید نے نرس کو روکتے ہوۓ پوچھا۔

"مکمل طور پر تو ہوش میں نہیں آئی لیکن وہ نیم بیہوشی میں بار بار کسی ولید خان کو پکار رہی ہے۔"

نرس اپنی بات مکمل کر کے چلی گئ تو ولید نے کمرے کے بند دروزے کو دیکھا اور پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔

نرس کے منہ سے ولید نام سن کر وہ چونکا تھا لیکن پھر خان کہنے پر پرسکون ہو گیا تھا۔

"What a coincidence  (!کیا اتفاق ہے)

اب جلدی سے ہوش میں آ جاؤ لڑکی تاکہ تمہیں،  تمہارے ولید خان کے حوالے کر کے یہ والا ولید اپنے گھر جا سکے۔" 
وہ بڑبڑایا اور آنکھیں موند کر سر کرسی کی پشت سے ٹکا دیا۔ 

لیکن وہ یہ بات نہیں جانتا تھا کہ ولید خان ایک نام نہیں بلکے دو علیحدہ نام تھے۔

****************

مناہل جاۓ نماز پر بیٹھی اپنے اللہ کے آگے ہاتھ پھیلاۓ دعا مانگ رہی تھی۔

وہ فجر کی نماز ادا کر چکی تھی۔ چونکہ اب گرمیاں تھیں تو دن طویل اور راتیں چھوٹی ہو گئ تھیں اس لیے فجر کی نماز کا وقت بھی جلدی ہو جاتا تھا۔ 

MOHABBAT by Haya Fatima Where stories live. Discover now