دن اسی طرح گزرتے رہے ۔کسی نے بھی اس دن کے بعد حمزہ اور عنایہ کی شادی کے مسئلے کو نہیں اٹھایا تھا۔
ان ہی دنوں اچانک حسام بخاری کے بزنس پارٹنر کی بیوی نے عنایہ کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لئے مانگا تو گھر میں یہ مسئلہ دوبارہ اجاگر ہو گیا۔
اور جب عنایہ کے کانوں میں یہ خبر پڑی تو وہ کچھ لمحوں کے لئے سن رہ گئی۔یہ تو اسنے سوچا ہی ناں تھا۔ابھی تو وہ اپنی محبت کے اجڑنے پر کھل کے رو بھی ناں پائی تھی کہ منہ کھولے یہ مسئلہ بھی آگیا تھا۔ابھی بھی وہ لان میں بیٹھی یہ سب سوچ رہی تھی کہ اچانک ہنزہ نے آکر اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ نرمی سے مسکرا دی۔
اور پھر اسکے ہاتھ آنکھوں پر سے ہٹاتے ہوئے کہا
"مجھے پتہ ہے کہ یہ تم ہو۔"اسکی بات سن کر ہنزہ ہنسی اور ہنستے ہوئے سامنے والی چئیر پر آبیٹھی۔
"اور سناو محترمہ ! یہاں اکیلے اکیلے کیوں بیٹھی ہو؟" اسکے بولنے پر عنایہ نے چند لمحے اسے دیکھا اور پھر کہا
"ایسے ہی" تب ہی ملازمہ نے آکر عنایہ سے کہا
" عنایہ باجی ! آپکو آپکی مما بلا رہی ہیں۔" وہ اپنی بات کہہ کر اندر چلی گئی تو عنایہ نے ہنزہ کی طرف دیکھا اور کہا
"چلو یار تم بھی آجاو اندر" تو وہ بولی
" نہیں میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھونگی۔تم جاو۔" اسکے بولنے پر وہ سر ہلاتی اندر کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"مما !آپ نے بلایا تھا ؟"عنایہ نے اندر کمرے میں جاکر بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ بولیں۔
"ہاں کچھ کام تھا بلکہ کچھ بات کرنی تھی تم سے۔" انکے اس طرح بولنے پر عنایہ نے حیرت سے انہیں دیکھا اور پھر بولی
"جی ؟" تو وہ اسکے پاس آکر بیٹھ گئیں۔
"بیٹا وہ آپ سے ایک بات پوچھنی ہے؟" تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی
"جی ؟" اسکے ہاں کرتے ہی انہوں نے نرمی سے اسکا ہاتھپکڑتے ہوئے کہا
"تمہارے تایا ابو اور تائی امی نے تمھارا ہاتھ حمزہ کے لئے مانگا ہے۔"اسنے انکی بات سن کر حیرت سے انکی طرف دیکھا جبکہ وہ مزید بولیں
" مسز ہاشمی بھی حامد کے لئے تمھارا رشتہ لیکر آئی ہیں۔اب تم سوچ کر جواب دینا کہ کس کو ہاں کریں۔اگر میرے دل کی بات پوچھتی ہو تو ہمیں تو اپناحمزہ پسند ہے۔"وہ بغیر کچھ ری ایکٹ کئے انکی طرف دیکھتی رہی انہوں نے بات کرتے کرتے اسکی غائب دماغی نوٹس کی تو اسے پکارا ۔انکی آواز پر وہ خیالات سے باہر آتے ہوئے بولی
"مما آپ لوگ جو فیصلہ کریں گے ٹھیک کریں گے۔آپ لوگوں کو جو بہتےلر لگتا ہے آپ لوگ وہ کریں۔" تو وہ بولیں
"ہم تمھاری مرضی جاننا چاہتے ہیں۔سوچو اور پھر آرام سے جواب دینا۔" انہوں نے نرمی سے کہہ کر اسکا گال تھپتھپایا تو وہ خاموشی سے انہیں دیکھے گئی۔تب ہی وہ بولیں
"اچھا عنایہ ایسا کرو اپنی تائی امی کو بلاکر لاو زرا۔انکے کہنے پر وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔اور جاکر انہیں اپنی مما کا پیغام دیا تو وہ بولیں
"آتی ہو بیٹے" وہ جیسے ہی انکے کمرے سے پیغام وصول کر کے باہر نکلی تو کوریڈور میں حمزہ اسے کھڑا دکھائی دیا ۔حمزہ نے جیسے ہی اسے دیکھا تو کہا
"عنایہ میری بات سننا" تو وہ خانوشی سے اسکے قریب جاکر کھڑی ہو گئی۔تب ہی وہ آہستہ سے بولا
"مجھے اکیلے میں تم سے بات کرنی ہے۔"تو وہ بولی
"اچھا آو لان میں جاکر بات کرتے ہیں۔"تو وہ بولا
پہلے تم جاو۔پھر میں آتا ہوں۔"اسنے اسکی بات سن کر غور سے اسکا چہرہ دیکھا اور پھر بولی
"ہم لوگ پہلے کزن ہیں حمزہ" تو وہ بولا
"ایسا ہمارا ماننا ہے۔گھر والے ایسا نہیں مانتے ۔" تو وہ خاموش ہو گئی۔تب ہی حمزہ نے کہا
"تم جاو لان میں۔میں آتا ہوں۔" تو وہ سر ہلاتی لان کی طرف بڑھ گئی۔کچھ ہی دیر کے بعد حمزہ بھی لان میں چلا آیا۔اور اس طرف بڑھ گیا جہاں وہ دونوں بیٹھی تھیں۔اسنے ادھر جاتے ہی ہنزہ سے کہا
" تم اندر جاو۔ہم نے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے دونوں کے چہرے کے تاثرات جانچے۔
دونوں ہی بہت سنجیدہ لگ رہے تھے۔تب ہی وہ "اچھا"کہہ کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔
اسکے جاتے ہی حمزہ نے عنایہ کی طرف دیکھا جو اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔
اسنے پریشان سی عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا
"میرے خیال میں بات تم تک پہنچ چکی ہو گی یا پہنچنے والی ہو گی۔"تو عنایہ نے فورن کہا
"کون سی بات ؟" تو وہ بولا
"ہماری منگنی کی بات" تو وہ سر ہلاتے ہوئے بولی
"جی مما نے آج ہی بتائی ہے۔" تو وہ بولا
"میں تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولنا چاہتا عنایہ ۔میں سچ بتاو تو مجھے شازمہ سے پیار ہے۔تم صرف اور صرف کزن ہو۔اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا
"جی میں جانتی ہوں۔لیکن آپ کو مجھ سے کونسی ضروری بات کرنی تھی ؟ یہ بات تو آپ ہنزہ کے سامنے بھی کر سکتے تھے۔تو وہ اسکے چہرے کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے بولا
"تم ناں کر دو۔میں ناں خود خوش رہ پاونگا ناں تمہیں رکھ پاونگا۔۔تب ہی وہ بولی۔
"آپ خود کیوں نہیں کرلیتے ناں"تو وہ بولا
" میری کوئی بھی نہیں سن رہا "وہ اسکی بات سن کر خاموشی سے اسے دیکھتی رپی تو وہ بے چینی دے بولا
"پلیز عنایہ"تو اسنے سینے پر ہاتھ بامدھ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا
"میری طرف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن اسکے بعدصبھی اگر ناں نہیں ہوئی تو پھر آپ کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔تو وہ بولا
"مجھے جو کرنا پڑا میں کرونگا"وہ خاموشی سے اسکے چہرے کو دیکھے گئی۔تب ہی حمزہ نے کہا
"تھینک یو ان ایڈوانس "تو وہ بولی
"مینشن نوٹ" وہ یہ کہہ کر اندر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
جبکہ حمزہ نے وہیں چئیر کی بیک سے ٹیک لگاکرپر سکوں انداز میں آنکھیں موند لیں۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"میرے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟"عنایہ نے سوچا
"مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟"ایک اور سوچ نے اسکے دماغ میں سر اٹھایا
"جب سے وہ حمزہ سے بات کر کے آئی تھی تب سے مختلف باتوں کو سوچے جارہی تھی۔اچانک ہی ہنزہ دروازہ کھول کر اندر آئی اور اسکے پاس آکر کہا
"حمزہ نے کیا بات کرنی تھی ؟تو وہ بولی
"ایسے ہی نارمل بات کر رہا تھا۔"تو ہنزہ نے کہا
"اگر نارمل بات تھی تو مجھے جانے کا کیوں بولا تھا ؟"اسکی بات سن کر عنایہ نے خاموشی سے ادھر ادھر دیکھا تو ہنزہ نے کہا
"جو بھی بات ہے مجھے بتا دو عنایہ "تو وہ بولی
"جب کوئی بات ہے ہی نہیں تو کیا بتاو؟" تو ہنزہ نے دکھی لہجے میں کہا
"تم مجھے اپنا نہیں سمجھتی کیا؟"تو وہ بولی
"اس میں اب اپنوں کی کیا بات ہے ہنزہ ۔"تو ہنزہ نے کہا
"تو تم مجھے بتا کیوں نہیں رہی ؟"تو وہ بولی
"اگر کوئی بات ہو گی تو بتاونگی ناں۔اور وہ بس یہ پوچھ رہا تھا کہ ولی آج کل یونی جا تہا ہے کہ نہیں۔کوئی نوٹس لینے ہیں اسے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے اسے دیکھا اور پھر بولی
"سچی؟"تو عنایہ بولی
"ہاں ناں"اسکے یہ بولنے پر ہنزہ نے پھر کہا
"میں تمہیں ایک دفعہ پھر کہہ رہی ہوں عمایہ کہ جو بھی بات ہے مجھے بتا دو۔"تو عنایہ نے کہا
"مجھ پر یقین رکھو ۔جب مجھے کگا کہ میں چیزیں نہیں سنبھال پارہی تو تمہیں بتا دونگیں۔اسکے تسلی دینے پر ہنزہ نے اسکا ہاتھ تھپتھپایا تو عنایہ مسکرا دی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔
"مما میں آجاو ؟وہ رات کا کھانا کھا نے کے بعد اپنی مما کے کمرے سے باہر کھڑی اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔انہوں نے اسکی آواز سن کر کہا
"آجاو عنایہ ۔"تو وہ دروازہ کھول کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔
"مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔اسنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو کپڑوں کو تہہ کرتی نفیسہ بیگم نے فورن اسکی طرف دیکھا اور پھر بولیں
"ہاں بولو"تو وہ جھجھکتے ہوئے بولی
"مما مجھے آپکے سوال کا جواب دینا ہے تو وہ بولیں
"ہاں بتاو"انکی اجازت دینے پر وہ بولی
"مما میں چاہتی ہونکہ آپ مسز ہاشمی کو ہاں کر دیں۔"اسکی یہ بات کہتے ہی انہوں نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"عنایہ"۔۔۔۔تو وہ بولی
"پلیز مما۔۔۔"تو انہوں نے کہا
"لیکن ہم لوگ چہ رہے تھے کہ حمزہ سے ہو"تو وہ بولی
"لیکن مما"۔تب ہی انہوں نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا
"ایک منٹ۔کہی تم اس لڑکی کی وجہ سے تو انکار نہیں کر رہی ہو؟"تو وہ بولی
"نہیں۔"تو انہوں نے کہا
"میں مان ہی نہیں سکتی"۔تب ہی عنایہ نے نر می سے انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
"مما پلیز میری بات کو سمجھیں۔آپ سب زبردستی حمزہ کی شادی مجھ سے کروا رہے ہیں۔یوں ناں وہ خوش رہے گا ناں میں۔"تو وہ بولیں
"شادی کے بعد لڑکے خود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔"تو اسنے کہا
"ہوتے ہونگے۔لیکن مجھے بٹا ہوا انسان نہیں چاہیے ۔وہ اسکی بات سن کر خاموشی سے اسکی طرر دیکھتی رہ گئیں۔جبکہ وہ اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
یہ بھی ہونا تھا ؟مجھے اپنے منہ سے ناں کر نی تھی؟"اسنے دل ہی دل میں خود سے کہا
"اور ایک آنسو اسکے چہرے سے ٹپکا۔
"نہیں مجھے نہیں رونا۔مجھے اب کبھی نہیں رونا۔"اسنے خود کو باور کراتے ہوئے خود سے کہا
"جبکہ آنسو اب بہل بہل اسکے چہرے پر بکھر رہے تھے۔وہ خاموشی سے کھڑی چاند کو دیکھتی رہی۔
"کاش کہ ایسا ناں ہوتا
کہ مجھے تم سے محبت ناں ہوتی
کاش اے کاش کہ ایسا ناں ہوتا
میں نے تمہیں خیالوں میں ناں بسایا ہوتا
کاش اے کاش کہ ایسا ناں ہوتا
کہ میں نے تمہیں سوچا ناں ہوتا
کاش اے کاش ۔۔۔
کہ میں نے تمھارے خواب ناں دیکھے ہوتے
کاش اے کاش"
اسنے کہیں پڑھے ہوئے یہ اشعار سوچتے ہوئے بغیر آواز پیدا کئے روتی چلی گئی۔
نجانے ایسے روتے روتے کتنی دیر گزری تھی جب ہنزہ نے ٹیرس کا دروازہ کھول کر اسے وہاں دیکھ کر شکر کا سانس لیتے ہوئے کہا
"تم یہاں ہو۔اور میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں۔اسکی آواز سن کر اسنے پیٹھ پھیرے پھیرے ہی جلدہ جلدی آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"ہاں"۔جب ہی ہنزہ نے کہا
"یار اندر کمرے میں آجاو۔وہاں سردی ہے۔"تب ہی وہ بولی
"نہیں اتنی نہیں ہے۔"اسکی ناں کرنے پر ہنزہ نے اندر آکر اسکا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹتی ہوئی اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گئی۔
"جاو پہلے کپڑے بدلو"۔ہ نزہ نے اسکے ہاتھ میں کپڑے تھماتے ہوئے اسے واشروم کی طرف دھکا دیا تو وہ خاموشی سے واشروم کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے مما؟"ہنزہ نے حیرت سے کہا
"یہ سچ ہے۔"انہوں نے افسردگی سے کہا تو وہ بے چینی سے بولی
"میں جاکر اس سے پوچھتی ہوں۔"کہہ وہ فورن اپنے اور اسکے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھی۔
اندر کمرے میں جاکر دیکھا تووہ وہاں کہیں نہیں تھی۔وہ وہاں سے نکل کر کچن کی طرف بڑھی۔لیکن اسے وہ وہاں بھی ناں نظر آئی تو اسنے کچن میں کام کرتی ملازمہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو
وہ بولی
"وہ تو چھت پر گئی ہیں۔"مطلوبہ جواب ملنے پر وہ فورن چھت کی طرف بڑھی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
چھت پر پہنچتے ہی اسے وہ دیوار سے ٹیک لگائے نظر آئی تو وہ غصے سے لال پیلی ہوتی اسکے پاس گئی اور کہا
"یہ کیسا مزاق ہے عنایہ ؟"اسکی بات سن کر وہ اسکی طرف گھومی اور پھر کہا
"کس بارے میں بات کر رہی ہو ؟"تو وہ بولی
"تم نے حمزہ کے رشتے سے انکار کیوں کیا ہے ؟"تو اسنے کہا
"میرے پاس اس سے بہتر آپشن موجود تھا تو میں نے اسے سیلیکٹ کیا ہے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تم تو حمزہ کو پسند کرتی تھی۔"تو وہ بولی
"وہ میری بے وقوفی تھی۔"اسکی بات سن کر تو ہنزہ کا دماغ ہی گھوم گیا۔اور پھر غصے سے کہا
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے ناں ؟ تو وہ اسی پر سکون انداز میں بولی
"ہاں"۔تب ہی ہنزہ کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تو اسنے عنایہ کا بازو سختی سے پکڑتے ہوئے کہا
"اس دن حمزہ نے تمہیں رشتے سے ناں کرنے کا کہا تھا ۔ہیں ناں؟"اسکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے گڑبڑائی اور پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولی
"وہ مجھے ناں کرنے کا کیوں بولے گا؟جبکہ اسکے پاس خود کی زبا ن ہے۔"تو ہنزہ نے سختی سے کہا
"یہ ڈرامہ کسی اور کے ساتھ کرنا۔مجھے سچی بات بتاو۔"تو عنایہ نے انجان بنتے ہوئے پوچھا
"کیسا ڈرامہ "۔تو ہنزہ نے صدمے سے اسے دیکھا
"کم از کم مجھ سے تو سچ بولو"۔اسے دکھی دیکھ کر آخر وہ ہار مانتے ہوئے بولی
"اسکے ساتھ ناں میں خوش رہتی ناں وہ۔ایک بٹے ہوئے انسن کے ساتھ میں کیسے شادی کرسکتی ہوں؟جو مجھے خود منع کر رہا ہو کہ مجھے تم سے شادی نہیں کرنی۔تم صرف کزن ہو۔اگر میں پھر بھی اس سے شادی کرتی تو یہ میری تو ہین ہوتی۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے اسے گلے سے لگا لیا۔وہ بھی مزید کچھ کہنے کے بجائے روتی چلی گئی۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
اسکے انکار کرنے سے حمزہ کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔شازمہ کے گھر مسز حسام اور مسٹر حسام رشتہ مامگنے گئے تھے۔اسکے گھر والوں نے بھی رسمی طور پر سوچنے کا ٹائم لیکر کچھ دنوں کے بعد ہاں کر دی تھی۔اور آج باقاعدہ طور پر حمزہ اور شامہ کی منگنی ہو گئی تھی۔
عنایہ نے اسکی منگنی میں بھر پور شرکت کی تھی تاکی کوئی اسکی دلی کیفیت ناں سمجھ سکے۔
وہ لوگ ابھی ہی ہال سے تھکے ہارے واپس آئے تھے۔سب تھکن سے بے حال تھے۔اسلئے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
وہ اور ہنزہ بھی اپنے کمرے میں آگئیں تھیں۔ہنزہ تو آتے ساتھ ہی چینچ کئے بغیر سو گئی۔
جبکہ وہ بیڈ پر لیٹے اپنے نصیب کو سوچ رہی تھی۔حیرت کی بات تھی کہ اسے رونا،نہیں آرہا تھا۔اسنے پورا وقت ان دونوں کو اپنے سامنے اپنی آنکھوں سے ایک ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔پھر دونوں کو ایک دوسرے کے نام کی انگوٹھیاں پہنتے دیکھا تھا۔
اسنے ایک دفعہ پھر تصور کی آنکھ سے اس منظر کو دیکھا اور پھر حیرت سے کہا
"مجھے لگتا تھا کہ یہ بندہ مجھے ناں ملا تو میں مر جاونگی یا یہ کسی اور کا ہو گیا تو پھر شاید مجھے سانس بھی ناں آئے "لیکن حیرت کی بات ہے کہ مجھے سانس بھی آرہی ہے اور میں زندہ بھی ہوں۔اسنے خود سے دل میں یہ کہا اور اسے ایک دفعہ پھر حیرت ہوئی۔کیونکہ اسے کوئی رونا نہیں آرہا تھا ناں دکھ ہو رہا تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ سن ہوچکی ہے۔جس پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔" تب ہی اسے ہلکی ہلکی سی ٹیسیں اپنے دل کی بائیں طرف اٹھتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟شاید میں زہنی دباو کا شکار ہوں۔لیکن پھر مجھے رونا کیوں نہیں آرہا ؟" اسنے پھر حیرت سے خود سے کہا
اور پھر درد کو برداشت کرتے ہوئے ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر لیٹ گئی۔
کچھ دیر تک تو وہ درد برداشت کرتی رہی پھر وہ اٹھی اور جاکر پین کلر لیں۔جسکو لینے کے بعد درد میں تھوڑا ساافاقہ ہوا تو وہ سوگئی۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"اب تو حمزہ کی بھی منگنی ہو گئی ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے وصی کی بھی منگنی کرواو۔"رحمانہ بیگم نے تقریب سے واپسی پر گھر جاتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا
"وہ انکی بات سن کر ہلکا سا مسکرائے اور پھر کہا
"تو پھر اپنے بیٹے سے ہاں کروائیں اور پھر لگ جائیں کام پر"۔تو وہ افسردگی سے بولیں
"مجھے ایک ڈر ہے ۔تب ہی میں اس سے اس سلسلے میں بات نہیں کرتی۔"انکی بات سن کرانہوں نے ڈرائیو کرتے کرتے گردن موڑ کر اپنی زوجہ کی طرف دیکھا اور پھر پوچھا
"کیا ڈر ہے آپکو ؟"تو وہ بولیں
"یہی کہ کہیں وہ شزا کا نام ناں لے لے۔بچی اچھی ہے لیکن اسکا مزاج ہماری طرح کا نہیں ہے۔وہ اور وصی کبھی بھی ایک کامیاب زندگی نہیں گزارسکتے۔"انکی بات سن کر انہوں نے کہا
"تو آپ کو لگتا ہے کہ وصی اس میں دلچسپی لیتا ہے ؟"تووہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولیں
"ہاں لگتا تو ایسا ہے۔"تو انہوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا
"آپ ایک دفعہ بات تو کریں ۔"تو وہ بولیں
"نہیں جب تک وصی خود بات نہیں کرے گا تب تک میں بھی نہیں کرونگیں۔"انکی بات سن کرانہوں نے خاموشی سے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
YOU ARE READING
محبتوں کا موسم(complete)
Fantasyیہ کہانی ہے ٹوٹ کر پھر سے جڑنے کی،یہ کہانی ہے اعتماد کے بحالی کی،یہ کہانی ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی اور یہ کہانی ہے محبت کی۔۔۔