Episode 10

70 4 14
                                    

جنازے کو تو اٹھنا ہی تھا۔لیکن  جب جنازے کو اٹھانے کی صدا آئی تو ہر طرف آہ و بکا مچ گئی تھی۔
نفیسہ بیگم  تو جیسے غشی  کی حالت میں تھیں۔اور بی جان اب تک بے یقینی کی کیفیت میں گھری  عنایہ کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
اور  جہاں تک بات ہنزہ کی تھی تو  وہ تو عنایہ کی چارپائی سے پیچھے ہٹی  ہی ناں تھی۔
آسان تھوڑی ہوتا ہے  جس انسان کے ساتھ ہنسی خوشی کے پل گزارے ہو اسکو چھوڑ دینا۔
اچانک  جنازے کو اٹھانے کا شور اٹھا تھا  اور پھر ہنزہ نے  حمزہ ،حسن اپنے چچا اور بابا کو آتے دیکھا ۔
دعا پڑھ کے وہ لوگ جھکے اور کلمہ شہادت پڑھتے  ہوئے اسکا جنازہ اٹھالیا گیا تھا۔
ہر طرف شور  تھا،آہ و بکا تھی۔لیکن وہ اس سب سے بے نیاز  اپنی بہنووں جیسی  دوست کو جاتا دیکھ رہی تھی۔
پھر اسکی آنکھوں نے  عنایہ کی میت کی ڈولی  کو لان سے گزر کر گھر سے باہر لے جاتے دیکھا۔
وہ بنا پلکیں جھپکے  تب تک اسکو دیکھتی رہی  جب تک اسکے جنازے میں شریک آخری بندہ گیٹ سے باہر ناں نکل گیا۔
وہ ساکت  و جامد نگاہوں سے سب دیکھتی جا رہی تھی۔اب اسے  اپن پاس ہوتے شور کی آوازیں بھی نہیں آرہی تھیں۔اچانک نفیسہ بیگم نے  اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنے  گلے سے لگایا تھا۔
عنایہ چلی گئی ہنزہ۔۔۔کوئی اسے میرے پاس لادو۔۔موت اتنی ارزاں کیوں ہو گئی ہے۔کوئی تو بتائے ۔کوئی لادو مجھے میری بچی کو۔۔۔وہ اسے گلے سے لگائے بے ربط بولتی روئے جارہی تھیں۔جبکہ اسکے اعصاب مزید برداشت ناں کر پائے تھے  اور وہ  بے ہوش ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
رات کا جانے کون سا پہر تھا  جب اسکی آنکھ کھلی ۔۔اسنے دکھتے سر کو ہاتھ سے دباتے ہوئے تھوڑا سا اوپر کھسک کر ٹیبل لیمپ جلایا۔لیکن  جیسے ہی اسکی نظر عنایہ کے بیڈ پر گئی  تو شام کا منظر اسکی نظروں  کے سامنے گھوم گیا۔
وہ چکراتے سر کے ساتھ اٹھی اور بھاگتی ہوئی اپنے  کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف گئی۔
ابھی وہ راستے میں ہی تھی  کہ جب  حمزہ نے اسے دوپٹے  سے بے نیاز پاگلوں کی  طرح بھاگتے دیکھا  تو وہ بھی  اسکی طرف لپکا۔
اسے وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔اسکے قریب پہنچ کر حمزہ نے اسکا  نام لیتے ہوئے اسکا  بازو پکڑ کر اسے روکا اور پھر  پوچھا
"کیا ہوا ہے ؟"جبکہ وہ خاموش کھڑی اسکا چہرہ دیکھتی رہی تو  حمزہ نے اسکا بازو پکڑ ا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔
پھر  اسے بیڈ پر بٹھاکر خود سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھاکر اس میں پانی ڈالا  اور پھر گلاس لئے اسکی طرف چلا آیا ۔
"ہنزہ پانی پیو۔"اسنے گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  اسے کہا تو  اسنے بغیر کچھ کہے  گلاس اٹھاکر اس میں سے پانی پیا اور جب تھوڑی ریلکس ہوئی  تو  وہ بولا
"کیا ہوا ہے ؟بھاگ کیوں رہی تھی ؟طبیعت ٹھیک ہے ؟"کل کے واقعہ سے سب ہی بہت ڈرے ہوئے تھے اسلئے گھبرائے ہوئے لہجے میں  اسنے اس سے پوچھا  تو ہنزہ نے اسے کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔
جبکہ وہ کچھ لمحے اسکے بولنے کا انتظار کر تا رہا اور پھر بولا
"ہنزہ سنبھالو خود کو۔اگر اپنا نہیں سوچ رپی تو گھر والوں کا ہی سوچ لو۔سب پہلے ہی ٹوٹ کر بکھرے ہیں۔اب تم مزید سب کو پریشان کر رہی ہو۔اسکی اس  بات پر ہمزہ نے تلخ مسکراہٹ لئے اسکا چہرہ دیکھا اور پھر کہا
"کیوں کرو اپنوں کی فکر ؟ تم نے کی تھی ؟ تم۔۔۔۔۔ابھی لفظ اسکے منہ میں ہی تھے  جب وہ حیرت سے بولا
"کیا بول رہی ہو ؟دماغ ٹھیک ہے تمھارا ؟"تو وہ بولی
"کیوں برا لگ رہا ہے  اپنی اصلیت دیکھنا؟"اسکی بات پر وہ غصے میں بولا
"مجھے لگتا  ہے تمھارا دماغ  اپنی جگہ پر نہیں ہے۔لیکن اپنے اس دماغ کو  اسکی اصلی جگہ پر لے آو۔میں نہیں چاہتا  کہ گھر والے پریشان ہو۔"اسکی بات سن کر وہ زور سے ہنسی اور پھر تالی بجاتے ہوئے کہا
"حیرت کی بات ہے  جس انسان نے زندگی  سے پیار کرنے والی لڑکی کو نگل لیا ۔جو سب  کی خواہشوں کو کھا گیا  صرف ایک دو نمبر لڑکی کے پیچھے  وہ مجھے سبق سکھا رہا ہے  کہ مجھے کیسا رہنا ہے  اور کیا کرنا ہے۔"اسکی اس بات  پر وہ ہاتھاٹھاتے اٹھاتے رہ گیا۔اور پھر غصے سے بولا
"کیا بکواس کر رہی ہو؟"تو  وہ بولی
"تم قاتل  ہو عنایہ کے ۔تم نے میری بہن جیسی دوست کو قتل کیا ہے۔تم۔۔۔۔۔وہ بولے جارہی تھی جبکہ اسکے الزام سن کر حمزہ سن ہوتا جا رہا تھا۔جبکہ کمرے کے اندر آتے وصی کے قدم وہی جم گئے تھے۔
لیکن وہ کسی چیز پر دھیان دئیے بغیر بولتی جارہی تھی ۔
"تم نے  اسکی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیا۔اسے اس قدر دکھ دیا کہ وہ اس بوجھ کو برداشت ہی ناں کر پائی۔پھر رک اسکا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر بولی
"تم تو گھر کے فرد تھے ۔تمہیں  پتہ تھا کہ عنایہ کا دل کتنا نازک ہے۔لیکن تم نے اسے مار دیا۔تم خود غرض انسان ہو۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرا بھائی ایسا ہوگا۔لوگ تو غیروں پر بھی ترس کھالیتے ہیں ۔کیا واقعی تمہیں اس ہر ترس نہیں آیا تھا  جب تم نے اسکے منہ سے ناں کرائی تھی ؟اس سے آگے مزید وصی سے سنا نہیں گیا تھا۔اور وہ وہاں سے پلٹ کر لان میں چلا گیا تھا۔
جبکہ وہ  دو قدم اٹھاتی مزید حمزہ کے قریب ہوئی اور پھر بولی
"تم قاتل ہو عنایہ کے۔اور میں تمہیں  کبھی معاف نہیں کرونگی۔یہ میرا تم سے ہی نہیں  بلکہ خود سے بھی وعدہ ہے۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی۔
پیچھے کھڑا حمزہ  بے یقینی سے اسکی کہی باتوں  کو ذہن میں دہراتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"اتنا بڑا دکھ کیسے اٹھالیا تم نے عنایہ؟حسن کو ناں سہی گھر والوں کو ناں سہی لیکن مجھے تو بتایا ہوتا۔دودھ شریک بہن تھی تم  میری۔ایک دفعہ صرف ایک دفعہ تم مجھے یا ولی کو بتا دیتی ۔ہم۔
مما  سے بات کر کے یہ سب ناں ہونے دیتے۔"اسنے تاسف سے سوچا  اور پھر تصور کی آنکھ سے عنایہ کو دیکھا
جسکی قبر کی مٹی سوکھے ابھی چوبیس گھنٹے بھی ناں گزرے تھے۔
"یہ ظلم کیا ہے تم نے  عنایہ۔خود پر  بھی اور ہم سب پر بھی۔"اسنے پھر جیسے  اس سے شکایت کی۔اور دوبارہ چکر کاٹنے لگا۔
"کاش مجھے علم ہو جاتا۔"اسنے تاسف سے سوچا اور پھر اسکے دماغ میں کچھ اسپارک ہوا  تو وہ سگریٹ  پھینک کر اسے جوتے سے مسلتا اندر آیا اور کسی کو ڈھونڈنے لگا۔
لاونج میں بھی جب وہ اسے ناں ملی تو  ٹی وی لاونج کی طرف  آگیا۔جہاں اسے وہ خاموش بیٹھی دکھائی دی۔وہ جاکر اسکے سامنے کھڑا ہو گیا۔
وہ جو اپنے ہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی  اسنے کسی کی موجودگی کو محسوس کر کے جب سامنے دیکھا  تو  اسے وصی کھڑا سامنے نظر آیا۔اسکے متوجہ ہوتے ہی  وہ سخت لہجے میں بولا
"سکون مل گیا تمہیں عنایہ کو مار کے ؟"اسکی اس بات پر پہلے تو وہ سن ہو ئی اور پھر بولی
"میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔میں اسے بچانا چاہتی تھی۔لیکن۔۔۔"ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ جب وصی نے انگلی اسے دکھاتے ہوئے کہا
"بس۔۔۔۔فضول بکواس مت کرنا۔تم دونوں بہن بھائی  نے میری معصوم سی بہن کو قبر  کے دہانے پر پہنچا دیا۔
ایک نے اسکو اتنا دکھ دیا کہ زندگی بوجھ لگنے کگی۔اور بہن نے بجائے اس کے بوجھ کو بانٹنے کے   خود سے یہ فرض کر کے بیٹھ گئی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔وہ بہت آہستہ لیکن سخت لہجے میں بولتا چلا گیا۔
اور وہ تو الزام سن کر ہی اتنی شاکڈ تھی  کہ صفائی دینے کا اسے خیال ہی ناں آیا۔جبکہ وہ اسے روتا دیکھ کر بولا
"اب کیوں  یہ جھوٹا ناٹک کر رہی ہو؟ اگر تم اسکو بچانا چاہتی تو گھر والوں کو بتا تی۔"وہ اسکے زخموں کو ادھیڑتے ہوئے بولا
 تو وہ بولی
"میں۔۔۔۔"ابھی وہ اتنا ہی بول پائی تجی کہ وہ اسکی بات کاٹ گیا۔اور پھر تنے ہوئے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ کر بولا
"تم دونوں بہن ،بھائیوں کو تم لوگوں کو کئے کی سزا ملے گی۔"کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
صبح جب فجر کے قریب بی جان تہجد کے لئے اٹھیں  تو  لاونج سے گزرتے انہیں سوتی ہوئی ہنزہ  دکھائی دی۔وہ اسے دیکھ کر اسکے پاس چلی آئیں۔اور پھر نرمی سے اسے پکارا
"ہنزہ۔۔۔۔"ہنزہ اٹھو۔اپنے کمرے میں جاو۔"وہ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئی تھی  بی جان کی آواز پر جھٹکے  سے اٹھ بیٹھی۔
اسے اٹھتا دیکھ کر وہ بولیں
"جاو اپنے کمرے میں جاکر آرام کرو۔"تو وہ بولی
"بی جان مجھے وہاں سکون نہیں آتا۔میں آپکے روم میں چلی جاو ؟اسکی اجازت لینے پر وہ دھیرے سے مسکائی اور پھر کہا
"ہاں جاو سوجاو۔"تو وہ اٹھ کر انکے کمرے میں چلی گئی۔
جبکہ بی جان افسردگی سے اسے جاتا دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولیں
"میری ہستی کھیلتی بچیوں کی زنفگی میں کیا طوفان آیا کہ جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔
میری عنایہ مجھ سے چھن گئی۔اور میری ہنزہ تو خود اپنی بھی ناں رہی  تو میری کیا رہے گی۔"پھر ماضی کی کوئی بات  یاد آنے پر انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا
"عنایہ ہنزہ کہتی تھی ناں کہ کہیں اور جاکر دیکھنا۔میم کبھی تمہیں یاد نہیں کرونگیں۔
لیکن آج آکر دیکھو  وہ اپنی اور تمھاری یافوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے راتوں  کو میرے کمرے میں آکر سوجاتی ہے۔"کہہ کر انہوں نے آنکھوں میں آئی نمی کو ڈوپٹے کے  پلو سے صاف کیا اور وضو بنانے وش روم کی طرف چلی گئیں۔
ہر طرح کی موت دکھ دیتی ہے لیکن  اچانک ہوئی موت سے  گھر کے لوگ جلدی نکل نہیں پاتے۔اور یہی کچھ یہاں بھی ہو رہا تھا۔"
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
"ہنزہ  چائے کا کپ پکڑانا"۔حسن نے ہنزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو اسنے خاموشی سے اسے کپ پکڑا دیا۔
تب ہی ولی دروازہ کھول کر وہاں آیا اور سب کو باآواز بلند سب کو سلام کیا۔
"تم کیسے آگئے آج ؟"خالدہ بیگم نے ولی سے پوچھا  تو وہ زور سے ہنسا اور پھر بولا
"قریب میں ایک دوست سے ملنے آیا تھا۔سوچا آپ لوگوں سے بھی مل لو۔"اسکا جواب سن کر نفیسہ بیگم بولیں
"بہت اچھا کیا بیٹے۔رحمانہ کیسی ہے ؟"تو وہ بولا
"ٹھیک ہیں وہ۔"بتاکر نفیسہ بیگم کے پکڑائے کپ سے چائے پینے لگا۔
تھوڑی دیر کے بعد جب سب بڑے اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے تو  اسنے خاموش بیٹھی ہنزہ کو دیکھا  اور پھر اسے چھیڑتے ہوئے بولا
"اوہو۔۔یہاں بھی ایک عدد بد روح بھی پائی جاتی ہے۔"اسکی اس بات پر  ہنزہ نے چونک کر  اسے دیکھا   اور پھر کچھ بولے بغیر  چائے پینے لگی۔
جب اسکی بات  کا کوئی جواب ناں آیا  تو وہ بولا
"کیا بات ہے ؟لوگ بہت خاموش رہنے لگےہیں۔کیا لوگوں کو ج
خاموش رہنے کے پیسے مل رہے ہیں کیا ؟ "تو وہ بولی
"ہاں  بولنے والے لوگوں کو  لوگ کھا جاتے ہیں ۔"کہہ کر اسنے ایک تیکھی نگاہ حمزہ پر ڈالی۔جونظریں چرا گیا تھا۔جبکہ ولی نے ہنزہ کو دیکھتے ہوئے کہا
"تم نے  کب سے خاموش رہنا شروع کیا ؟"تو وہ ایک جھٹکے  سے کھڑے ہوتے ہوتے بولی
"جب سے عنایہ مری ہے۔کیونکہ بولنے کی عادت تو اسکے ساتھ ہی تھی۔"کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔جبکہ وہاں بیٹھے حسن اور ولی تاسف سے اسے جاتا دیکھتے رہ گئے۔
آج چھ ماہ ہو چکے تھے عنایہ کو  ان سے بچھڑے۔لیکن عنایہ  کے جانے کے بعد ہنزہ کوبھی چپ لگ گئی تھی۔کبھی یہ گھر انکی آوازوں سے گونجتا تھا۔اور اب وہ اتنا دھیرے بولتی تھی کہ پاس بیٹھے  انسان کو بھی بمشکل آوازسنائی دے۔
حمزہ یہ سب سوچتا ہوا حسن کی طرف مڑا  جو عنایہ کے زکر پر  آنکھوں میں آئی نموں کو چھپا رہا تھا۔
ایک بچپن ساتھ گزرا تھا۔ہر وقت کا چھیڑنا تو اسکی عادتوں میں شامل تھا۔کیا پتہ تھا کہ اسکی بہن کا ساتھ تو بہت کم ہے۔کاش میب اسکی خواہش کو پورا کر  پاتا۔وہ دل ہی دل میں سوچتا  ولی کی طرف متوجہ ہوا تب ہی  اسکے موبائل پر شازمہ کی کال آئی۔
تو وہ اٹھ کر لان میں چلا گیا اور پھر ٹہل ٹہل کر بات خرتے کرتے اچانک اسنے شازمہ  کی کسی بات کو سنتے گردن گھماکر لان چئیر  کی طرف  دیکھا تو اسکی نگاہوں کے سامنے چھ ماہ پہلے کا منظر گھوم گیا۔
وہ چئیر کو دیکھتے دیکھتے ماضی میں پہنچ گیا تھا۔اسے اب شازمہ کی آواز آنا بھی بند ہو چکی تھی۔
اسے عنایہ یاد آنے لگی تھی۔وہ اکثر شام میں یہاں بیٹھتی تھی۔یہ جگہ اسکے بیٹھنے کے لئے لازم و ملزوم تھی۔ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ جب اسے  شازمہ کی آواز آئی
"تم مجھے لینے آرہے ہو ناں۔"اسکا سوال سن کر اسے اپنا سوال یاد آگیا تھا جو اسنے عنایہ سے کیا تھا کہ
"کیا تم ایک بٹے ہوئے انسان کے ساتھ خوش رہ سکتی ہو؟"جسکے جواب میں وہ حیرت زدہ  سی اسکا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر ناں میں سر ہلایا تھا۔
ماضی کی ایک یاد دوبارہ اسکے دماغ   کے دریچوں میں آئی تھی۔وہ کھڑے کھڑے دوبارہ ماضی میں پہنچ چکا تھا۔
"حمزہ؟تم سے بول رہی ہوں۔ایک تو تم نجانے کہاں  گم ہوجاتے ہو؟"تب ہی اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا
"میں نہیں آونگا۔"اسکے جواب پر شازمہ کو تعجب ہوا تو وہ بولی
"تم نے ہی تو کہا تھا کہ آج باہر کھانا کھائیں گے اور اب خود منع کر رہے ہو۔"تب ہی وہ بے زاری سے بولا
"ہاں لیکن  اب میرا دل نہیں کر رہا۔"اسکی اس بات ہر شازمہ نے انتہائی غصے  سے ابھی کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا   جب وہ مزید بے زاریت سے بولا
"اوکے بائے۔"کہہ کر کال بند کر دی۔جبکہ شازمہ  نے حیرت سے  فون کو دیکھا۔
"اسے کیا ہوا ہے؟اتنی مشکل سے اسکو اپنی طرف راغب کیا تھا۔اور اب یہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟اب تو اسکی کزن عنایہ بھی مر گئی ہے۔جسے دیکھ کر اسکی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔اور یہ بے وقوف سمجھتا تھا کہ صرف کزن کی حد تک پسند کرتا ہے۔
"کتنی مشکل سے میں نے اسے اپنا گرویدہ کیا تھا کہ اسے میرے علاوہ اور کوئی نظر ناں آئے  لیکن اب کون ہے  اسکی زندگی میں ؟"وہ فون ہاتھ میں پکڑی سوچے جا رہی تھی۔
تب ہی اسکی بہن اسکے قریب چلی آئی ۔اسے یوں سوچوں میم گھرے دیکھا تو بولیں
"کیا ہوا ہے شازمہ ؟"تو وہ چونکتے ہو ئے بولی
"آپی آج کل حمزہ عجیب سا رویہ رکھ رہا ہے۔"اسکی بات سن کر وہ پوچھ بیٹھیں 
"جیسے کہ ؟"تو وہ بولی
"جیسے کہ وہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔اچانک بات کرتے کرتے خاموش ہو جاتا ہے۔اور اگر پکارو تو وہ مجھ سے بھی اتنی اجنبیت سے بات کرتا ہے کہ بس۔"شازمہ نے انکو الجھتے ہوئے بتایا تو وہ بولیں
"کسی کو رلاکر کبھی خوش رہا ہے شازمہ جو تم خوش رہتی؟"اسکی بات سن کر  شازمہ حیرت سے بولی
"آپی آپ۔۔۔ آپ کیا بول رہی ہیں؟"تو  وہ مزید بولیں
"تم جانتی تھی کہ عنایہ حمزہ کو پسند کرتی تھی اور شاید حمزہ بھی۔لیکن اس بے وقوف کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ  صرف کزن کی حد تک نہیں بلکہ  محبت کرتا ہے عنایہ سے۔اسکے زکر پر اسکی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔گھر والے انکو بہت جلد رشتہ ازدواج میں باندھ دیتے کہ تم نے آہستہ آہستہ اسے  اپنی طرف متوجہ کیا۔وہ مرد زات تھا۔ہو گیاوہ بھی متوجہ ۔پھر تم نے اس پر دباو ڈالا اور اسنے اپنے گھر والوں کو زبردستی یہاں بھیجا۔لیکن تمہیں یہ  سب کر کے کیا ملا ؟
مشکل سے چھ مہینے  تم اپنا کھیل کھیلتی رہی۔"اور پھر دیکھو 
"اللہ نے  کیسی  تمہاری رسی کھینچی کہ اب تم سامنے بھی ہو تو تم اسے نظر نہیں آتی۔"انکی بات سن کر وہ غصے سے بولی
"آپی ۔۔۔آپ۔۔۔۔"تب ہی وہ مزید کرخت لہجے میں بولیں
"دوسروں کے ساتھ برا کرنے والے کبھی خوش نہیں رہ پاتے۔اور تم  ہمارے گھر میں اسکی زندہ مثال ہو۔میں شرمندہ ہونکہ میں تمھاری بہن ہوں۔اب  تمام زندگی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنسی رہو گی۔
حمزہ تمھارا ہو کر بھی تمھارا نہیں ہوگا۔اسکے خیالوں میں ،سوچوں میں،اسکے دل میں ہر جگہ عنایہ ہے ،تھی اور اب تو مرتے دم تک رہے گی۔اور تم اور تمہاری جگہ کہاں ہے ؟ تم خود یہ بات سوچو۔بلکہ رہنے دو۔جنکی کوئی جگہ ہو وہ سوچ سکتا ہے تم تو  اپنی ہوشیاری اور چالاکی  سے  کسی کی جگہ  کو حاصل کرمے کی کوشش کی تھی۔تمہاری مثال تو وہ ہے
"دھوبی کا کتا ناں گھر کا ناں گھاٹ کا۔"تب ہی وہ زور سے چیخیں 
"آپی بس۔اب اور نہیں۔"تو وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولیں
"اوہو۔۔۔برا لگ رہا ہے کیا ؟لیکن تم  نے خود کسی کو ریپلیس کر کے خود کو اس جگہ پر زبردستی فٹ کیا ہے ۔حالانکہ تمھاری کوئی جگہ نہیں  بنتی تھی۔"پھر تھوڑی اور اسکے قریب ہو کر بولیں
"جو کانچ تم نے  عنایہ  کے راستے میں بکھیرے تھے ناں۔اور جن پر وہ ننگے پاوں چل کر اپنی منزل پر پہنچ کر وہ سر خرو ہوئی تھی۔اب انہی کانچوں کو تمنے اپنے پلکوں سے اٹھانا ہوگا۔"
"تم ہر دن جئیوگی اور ہر دن مرو گی۔اور یہ ازیت تمہیں حمزہ دیگا۔تم نے جان بوجھ کر اسے اپنا شکار بنایا تھا  لیکن آہ اب دیکھو 
شکاری خود اپنے شکنجے میں پھنس گیا۔ابھی تو میری جان شروعات ہے ۔۔آگے آگے دیکھو۔ہوتا ہے کیا۔۔"
"دوسروں کو ازیت دینا زرا بھی مشکل نہیں ہوتا بس اسکے لئے ضمیر کو مارنا پڑتا ہے۔اور وہ تو تم میں تھا ہی نہیں زندہ۔لیکن حمزہ میں ہے زندہ۔اور پھر دھیرے دھیرے بولتیں وہ سختی سے بولیں
"مکافات عمل شروع ہو چکا ہے شازمہ۔اور یہ بات دماغ میں رکھنا کہ مکافات عمل کی چکی چلتی بہت آہستہ ہے لیکن   پیستی بہت باریک ہے۔اور تم پسو گی شازمہ۔۔۔"
"جس بندے کو تم نے اسکی محبت سے دور کیا  آج اگر تم غور سے دیکھو تو وہ اب عنایہ  سے محبت نہیں عشق کرتا ہے۔
جو جذبہ کسی  کے مرنے پر  ختم ہوجانے کے بجائے مزید تقویت پکڑ جائے اسے محبت نہیں عشق کہتے ہیں۔"وہ یہ کہہ کر اسے تیز نگاہوں سے گھورتی وہاں سے چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔،۔
جاری ہے

محبتوں کا موسم(complete)Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin