Episode 1

207 8 18
                                    

"یار میں ایک بات سوچ رہی ہوں۔"عنایہ نے کینو کھاتےہوئے اچانک کہا
"ارے واہ تم سوچتی بھی ہو؟" ہنزہ نے کہہ کر حیرت سے اسکی طرف دیکھا
"ارے سنو تو!اتنا زبردست آئیڈیا آیا ہے میرے دماغ میں"۔عنایہ نے کہتے ہوئے ابکی بار اسکا ہاتھ پکڑا تو اسنے کہا
"نہیں بہن معاف کرو جب جب تمہارا کوئی آئیڈیا سنا ہے تب تب کسی نہ کسی مسئلے میں لازمی پھنسے ہیں۔"
"ارے یار اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔تم سنو گی تو واہ واہ کرو گی۔"عنایہ نے پھر اپبی بات زور دیتے ہوئے کہا تو اسنے بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسکی طرف بے چارگی سے دیکھا اور پھر کہا
"اچھا بتاو کیا آئیڈیا آیا ہے تمہارے اس فسادی دماغ میں۔"اسکی بات پر عنایہ نے اسے گھورا اور پھر سر جھٹکتے ہوئے کہا
"میں سوچ رہی ہونکہ دوپہر کا وقت ہے اور آس پاس بھی کوئی نہیں ہے "۔اسنے اتنا کہہ کر ہنزہ کی طرف دیکھا جو اسکی طرف ہی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔اسکی خاموشی پر اسنے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کہا
"آگے بولو!"اسکی بات پر عنایہ نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی اور کہا
"آو باہر چلتے ہیں۔اور وہ جو کونے والا بنگلہ ہے ناں اسکی گھنٹی بجا کر گھر واپس آجائیں گے"۔اسکی بات سنکر ہنزہ نے آنکھیں سکیڑیں
"اور اگر کسی کو پتہ چل گیا تو ؟"اسکے کہنے پر وہ بولی
"ارے نہیں پتہ چلتا کسی کو بھی۔آو چلتے ہیں۔"کہہ کر اسنے پلیٹ سینٹرل ٹیبل پر رکھی اور خود اٹھ کھڑی ہوئی اور ساتھ ہی ہنزہ کا ہاتھ بھی پکڑ کر اسے کھڑا کر دیا ۔تو وہ بھی گہری سانس بھرتی اسکے ساتھ دبے قدموں چلتی ادھر ادھر دیکھتی لاونج سے باہر نکلیں اور پھر لان کراس کر کے گھر سے بھی باہر نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

باہر نکل کر سب سے پہلے انہوں نے گہرے گہرے سانس لئے اور پھر سڑک کے کنارے چلنے لگیں۔
کچھ ہی دیر کے بعد وہ دونوں اپنی منزل سے چبد قدم دور کھڑی تھیں۔
"تم یہاں کھڑی رہو ۔اور بھاگنے کے لئے تیار رہنا۔میں ابھی گھنٹی بجاکر آتی ہو"۔اسنے ہنزہ کو ہدایات دیں ۔جسے سن کر اسنے پہلے تو سر ہلایا اور پھر کہا
"دو دفعہ گھنٹی بجانا تاکہ مزہ بھی آئے" ۔اسکی بات سن کر وہ بولی
"ارے تم ٹینشن ہی ناں لو"۔کہہ کر وہ بنگلے کے بلکل سامنے جا کھڑی ہوئی اور پھر اگلے ہی لمحے اسنے کھنٹی کے بٹن کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔
گھنٹی بجاکر اسنے اپنے کارنامے پر شاباشی حاصل کرنے کےلئےاسنے ہنزہ کی طرف دیکھا تو وہ اسے کچھ پیلی پیلی سی دکھائی دی ۔
"اسے کیا ہوا ہے "؟ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسنے ہنزہ کو اندھا دھند بھاگتے ہوئے دیکھا
"یہ کہا جارہی ہے ؟"اسنے دل میں سوچا اور پھر خود بھی اسکے پیچھے بھاگنے لگی۔
"ہنزہ کیا ہوا ہے ؟ میری بات تو سنو ۔"اسکی آواز پر ہنزہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر زور سے کہا
"عنایہ بھا گو کتا ہے "۔اسکی بات پر اسکے قدم ٹھٹکے اور جیسے ہی اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسکی چیخ نکل گئی۔
ایک کالا سیاہ کتا ،لال زبان باہر لٹکائے جسکی رال بھی بہہ رہی تھی انکے پیچھے بھاگا چلا آرہا تھا۔اسے دیکھ کر وہ جھرجھری لیکر رہ گئی۔اور پھر اسنے بھی بھاگنا شروع کر دیا۔
اب صورتحال یہ تھی کہ آگے ہنزہ تھی ، ،اسکے پیچھے عنایہ اور ان دونوں کے پیچھے کتاچلا آرہا تھا۔اگر کوئی انہیں دیکھتا تو لازمی سوچتا کہ جیسے ان تینوں میں فرسٹ آنے پر مقابلہ بازی ہورہی ہے۔
آخر پندرہ منٹ بھاگنے کے بعد ہنزہ نے ایک گلی میں ٹرن لیا ۔یہ ایک کشادہ گلی تھی۔جس میں سے کوئی بھی گاڑی آسانی سے گزر سکتی تھی۔اسکے پیچھے عنایہ بھی اسی گلی میں داخل ہوئی۔
اسے دیکھتے ہی ہنزہ نے عنایہ کا ہاتھ پکڑا اور دائیں طرف جو تھوڑی تنگ گلی بنی تھی اس میں جا کھڑی ہوئیں۔اور اپنا سانس درست کرنےلگیں۔
تین منٹ تک وہ دونوں وہاں خاموش کھڑی رہیں ۔جب انہیں یقین ہو گیا کہ اب کتا انکے پیچھے نہیں آرہا تو ہنزہ نے عنایہ کی طرف دیکھا اور پھر کہا
"دیکھا کہا تھا ناں میں نے۔تمہارے آئیڈیاز صرف اور صرف ہمیں مرواتے ہیں۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"جی نہیں میرا آئیڈیا بلکل ٹھیک تھا ۔تم خود ہی کتے کو دیکھ کر بھاگنا شروع ہو گئی تھیں۔اگر تم بھاگتی نہیں تو وہ ہمارے پیچھے ناں لگتا۔"
اسکی بات سن کر وہ بولی
"میں اکیلی نہیں بھاگ رہی تھی۔تم بھی بھاگ رہی تھیں ساتھ میرے"۔تو عنایہ کی آنکھوں کے سامنے کتے کی رال ٹپکاتی زبان آگئی
تو اسنے جھرجھری لیکر کہا
"مجھے تو لگتا ہی ڈر ہے کتوں سے۔"اسکی بات پر ہنزہ نے فورن کہا
"ہاں جیسے مجھے تو بہت پیار ہے کتوں سے۔"اسکی بات سن کر وہ ہنسی تو ہنزہ نے بھی ہنستے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف چلنے لگی۔
"کدھر لیکر جارہی ہو "؟ عنایہ نے اسکے ساتھ چکتے چلتے لوچھا تو اسنے ایک لفظی جواب دیا
"گھر"۔اسکے جواب پر عنایہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر کہا
"تو جہاں سے آئے ہیں وہیں سے واپس چلتے ہیں"۔اسکی بات سن کر ہنزہ نے اسے گھورا اور پھر کہا
"ہاں جی تاکہ وہ محترم کتے صاحب ہمارا سواگت بھوکنے سےکریں اور ہمیں کاٹ ڈالیں"۔اسکی بات سن کر وہ بھی خاموشی سے اسکے ساتھ چلنے لگیں۔لیکن چونکہ وہ زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتی تھی اسلئے اسنے ہنزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"یہاں سے ہم گھر پہنچ جائیں گے ناں ؟تو اسنے اثبات میں سرہلایا"۔اور پھر کہا
"مجھے ایک دفعہ بھائی یہیں سے کوچنگ سے واپس لائے تھے"۔اسکی بات پر وہ سر ہلاکر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا بیس منٹ کے بعد وہ دونوں اپنے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی تھیں۔گھر کے دروازے کو دیکھ کر انہوں نے شکر کا کلمہ پڑھا اور دروازے کو تھوڑا سا دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا تھا۔یقیناان دونوں کے بھائیوں میں سے کوئی دروازہ کھلا چھوڑ کر باہر گیا تھا۔وہ اللہ کا شکر ادا کرتیں دروازے سے اندر داخل ہوئیں اور ادھر ادھردیکھ کر انہوں نے لان کراس کر کے جیسے ہی گلاس ڈور کھولا تو سامنے ہی بی جان بیٹھی تھیں۔
ان دونوں کو باہر سے آتا دیکھا تو بولیں
"کدھر سے آرہی ہو تم دونوں ؟ "انکے سوال پر عنایہ نے گھبرا کر انکی طرف دیکھا تو وہ بولی
"یہیں باہر واک کرنے گئے تھے۔سب سو رہے تھے تو ہم نے سوچا واک کر آئیں۔"اسکی بات سن کر وہ کچھ لمحے مشکوک نظروں سے اسے دیکھتی رہیں اور پھر کہا
"تم لوگ جھوٹ تو نہیں بول رہی ہو؟ "انکی بات سن کر عنایہ بولی
"ارے میری شہزادی دادو۔جھوٹ اور وہ بھی آپ سے ؟"توبہ توبہ کہتی انکے پاس ہی جاکر بیٹھ گئی۔اور انکے پائیدان میں سے چھالیہ نکال کر منہ میں ڈالا ۔اور پھر ان کے قریب ہوکر آہستگی سے پوچھا
"ویسے بی جان آپس کی بات ہے۔آپ کیوں جاگ رہی ہیں ؟یہ تو آپ کے قیلولے کا وقت ہوتا ہے ناں "۔اسکی بات سن کر انہوں نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"ہاں میرا بچہ۔۔لیکن بس اس بڑھاپے میں اب ڈھنگ کی نیند بھی نہیں آتی۔آنکھ کھل گئی تھی تو پھر یہیں آکر بیٹھ گئی۔"انکی بات سن کر اسنے سر ہلایا اور پھر کہا
"اچھا ہم دونوں چلتے ہیں سونے۔تھوڑا آرام کر لیں۔"کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ہنزہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے اپنے مشترکہ کمرے کی طرف چل پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔
بوگن ویلیا کی بیل سے ڈھکا یہ بنگلہ بخاری ہاوس تھا۔جہاں شہام بخاری ،حسام بخاری اپنی اپنی اولادوں کے ساتھ یہاں قیام پزیر تھے۔یہ گھرانہ محبت کی ڈور سے کچھ ایسی مضبوطی سے بندھا تھا کہ آج کل کے نفسا نفسی کے ماحول میں یہ لوگ پیارومحبت سے ساتھ رہتے تھے۔
شہام بخاری کی صرف دو ہی اولادیں تھیں۔ہنزہ بخاری اور حمزہ  بخاری۔جبکہ حسام بخاری کی تین اولادیں تھیں۔شارم بخاری ،حسن  بخاری اور عنایہ بخاری۔
شارم بخاری شادی شدہ تھے اور ملک سے باہر قیام پزیر تھے ۔جبکہ حسن اور حمزہ انجینئرنگ کے لاسٹ ائیر کے اسٹوڈنٹس تھے۔اور جہاں تک بات تھی عنایہ اور ہنزہ کی تو دونوں بی ایس سی کی اسٹوڈنٹس تھیں۔لیکن پڑھنے لکھنے کی طرف کچھ خاص دھیان نہیں دیتی تھیں۔لیکن ذہین تھیں۔اسلئے تھوڑی سی محنت سے بہی پاس ہو جاتی تھیں۔
شہام بخاری اور حسام بخاری کی اپنی فیکٹری تھی۔جسے فلحال
وہ دونوں ہی سنبھال رہے تھے
ہنزہ اور عنایہ ہم عمر اور اکلوتی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی کزنیں بھی تھیں ،دوستیں بھی تھیں،اور بہنوں والے تمام چاو بھی وہ دونوں ایک دوسرے سے ہی پورے کرتی تھیں۔
اور چونکہ دونوں ایک ہی کالج میں تھیں تو وہاں بھی دونوں کا ہنسی مزاق چلتا ہی رہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
"شکر ہے جان بچ گئی۔"ہنزہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو عنایہ نےبھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔
"ہاں بھئی۔اگر سوچو کتا کاٹ لیتا تو ؟"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا
"آہستہ بولو !دروازہ بھی کھلا ہے اور دوسرا تمہارا والیم اتنا تیز ہوتاہے کہ مردہ بھی سن کر جاگ جائے"۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ ہنزہ کی والدہ خالدہ بیگم انکے کمرےمیں داخل ہوئیں اور کہا
"کس کا والیم اونچا ہوتا ہے ؟" انہوں نے چونکہ صرف آخری جملہ سنا تھا اسلئے اندر آکر ان دونوں سے پوچھا تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے کہا 
"کچھ نہیں امی آپ بتائیں کیا ہوا "؟تو وہ بولیں
تمہاری پھوپھو کی کال آئی تھی ۔انہوں نے تمہید باندھتے ہوئے اندونوں کی طرف دیکھا جو پریشان نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہیتھیں۔انکے خاموش ہونے پر ہنزہ نے ہی کہا
"آگے تو بتائیں"۔تو وہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے بولیںکہ تمہاری پھوپھو چاہ رہی ہیں کہ کل کا جو فنکشن ہے اس میں تمدونوں بھی شریک ہو۔اپنی بات مکلمل کر کے انہوں نے ایک نظران دونوں کو دیکھا تو ہنزہ نے ہی جواب دیتے ہوئے کہا
"امی آپکو معلوم ہے ناں کہ ہم وہاں کتنا عجیب محسوس کرتے ہیں۔وہ لوگ ہماری طرح کے نہیں ہیں امی ۔ہمارا پہناوا الگ ہے ۔انکالائف اسٹائل ہمارے لائف اسٹائل سے مختلف ہے۔آپ کیوں نہیں ہمارامسئلہ سمجھتی۔ہم دونوں جب بھی وہاں جاتے ہیں اتنا عجیبسا محسوس کرتے ہیں۔ہم اپنے گھر میں ہی ٹھیک ہیں"۔ہنزہ نےمنہ بسورتے ہوئے کہا تو عنایہ نے بھی اسکی بات کی تائید کرتےہوئے کہا
"ہاں ناں تائی امی۔سمجھا کریں ۔آپ کوئی بھی بہانہ بنادیں ۔لیکنپلیز پھوپھو کو منع کردیں۔پلیز پلیزپلیز"۔۔اسنے انکے ہاتھ پکڑتےہوئے کہا تو انہوں نے ان دونوں کو بغور دیکھا ۔دونوں کے چہروںسے ہی صاف لگ رہا تھا کہ وہ لوگ وہاں جانے پر راضی نہیں ہیں!تو وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں
"بیٹے بار بار منع کرنا برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھی تم لوگوں نے منعکروا دیا تھا۔وہ اتنی چاہ سے بلاتی ہیں اور تم دونوں اس طرح منعکر دیتی ہو۔اس دفعہ میں نے ہاں کر دی ہے۔اور میں یہی بتانے آئیتھی۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔انکے جاتے ہی وہ دونوں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔تھوڑی دیر کے بعد ہنزہ نے سر اٹھایا اور پھرکہا
"ایک تو یار پتہ نہیں کیوں روز روز فنکشن رکھ لیتی ہیں"۔اسکیبات پر عنایہ نے اسے دیکھا اور پھر کہا
"پیسہ میری جان پیسہ۔"اسکی بات سن کر وہ بولی
"یار میں کہ رہی کہ جو دل چاہیں کریں۔بس ہمیں ناں بلایا کریں۔"اسکی بات پر عنایہ نے اسے دیکھا ضرور۔لیکن بولی کچھ نہیں توہنزہ نے اپنی بات کے جواب میں کوئی جواب موصول ناں ہونے پرسر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر کہا
"تم کون سی دنیا میں ہو؟زندہ بھی ہو کہ مر گئی ہو یہ خبر سن کر۔"تو وہ بولی"نہیں ابھی تھوڑی ناں مرونگی۔تمھارے مرنے کے بعد مرونگی۔اورچپ اسلئے ہوں کیونکہ میں کوئی بہانہ سوچ رہی ہوں۔"اسکی باتسن کر ہنزہ نے اسے دیکھا اور پھر سوچتے ہوئے کہا
"امی تو کبھی نہیں مانیں گی یار۔انکی بات تو پتھر کی لکیر ہوتیہے"۔اسکی بات پر عنایہ نے اسےگھورا اور پھر اسکے پاس بیٹھتےہوئے بولی۔
"ایسا کرتے ہیں کہ ہم جاکر بی جان سے بات کرتے ہیں۔انکو کہتے ہیںکہ پھوپھو کو بولیں کہ پرسوں ہمارا ٹیسٹ ہے ۔وہ دونوں نہیںآسکتیں۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا

"آئیڈیا تو بہت اچھا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بی جان بھی

ہمیں ہی سمجھائیں گی کہ چلی جاو کچھ نہیں ہوتا۔کچھ گھنٹوںکی تو بات ہے"۔ہنزہ کی بات سن کر عنایہ بھی خاموش ہو گئی لیکنپھر تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا
"کوشش کر لینے میں کیا ہے یار۔آو گل جان سے بات کرتے ہیں"۔وہاسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے بولی تو ہنزہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتےہوئے کہا
"ابھی نہیں۔کل بات کریں گے۔"تو وہ بولی
"نہیں۔ابھی چلتے ہیں۔ہم ابھی اپنی بات ان تک پہنچاآتے ہیں"۔اسکیبات سن کر آخر ہار مانتے ہوئے وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔
"بی جان سمجھا کریں ناں۔ہم نہیں جانا چاہتے ادھر۔"عنایہ نے انکیگود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے کہا تو مسکرا دیں۔
"لیکن میرا بچہ بار بار منع کرنا بھی تو برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھیتو تم لوگ نہیں گئے"۔اسکی بات سن کر وہ بولی
"آپ لڑکوں میں سے کسی کو بھیج دیں ۔یاں مما بابا چلے جائیں۔لیکن ہم دونوں کو بخش دیں۔پلیز۔بی جان۔آپ کو پتہ تو ہے سب۔ہمیں کسی اور کے گھر نیند نہیں آتی۔سکون نہیں ملتا۔آپ منع کردیں ۔پلیز پلیز۔ "اسکی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ہنزہ نے کہا
"ہاں بی جان۔ہم ٹھیک ہیں ادھر۔آپ انکو بول دیں کہ ہمارے ٹیسٹ ہورہے ہیں۔"انکی بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر کہا
"اچھا چلو ٹھیک ہے۔لیکن یہ آخری دفعہ ہے۔اگلی دفعہ اگر اسنے بلایا تو تم دونوں کو جانا ہی پڑے گا۔"انکی ہاں سنتے ہی وہ دونوںکھلکھلا کر ہنس دیں تو وہ بھی مسکرادیں۔انکے گھر کی یہیدونوں تو رونق تھی۔وہ انکو دیکھتے سوچے جارہی تھیں کہ اچانکانہیں عنایہ کی آواز نے خیالا ت سے باہر نکالا۔
"آپ کب کریں گی پھوپھو سے بات ؟"اسکے پوچھنے پر وہ بولیں
"کچھ دیر کے بعد کرونگی۔تم لوگ پریشان ناں ہو۔"انکی تسلی دینےپر وہ اٹھ کر ان کے گلے سے لپٹ گئی۔
"یو آر گریٹ بی جان"۔اسکا یہ جملہ سن کر وہ ہنسیں اور پھر کہا
"اچھا چلو جاو تم دونوں۔میرے نوافل پڑھنے کا وقت ہو رہا ہے۔"تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔انکے جانے بعد وہ بھی اٹھ کر وضوکرنے چل دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمانہ بیگم جو کہ شہام بخاری اور حسام بخاری کی بڑی بہن
تھیں انکی شادی بہت امیر کبیر خاندان میں ہوئی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکے شوہر نے مزید محنت کی تھی ۔کچھ قسمت بھ ساتھ تھی اور کچھ محنت بھی نہوں نے بہت کیتھی جسکا صلہ انہیں یہ ملا تھا کہ وہ اپنے شہر کے جانے مانےبزنس مین تھے۔جیسے جیسے رحمانہ بیگم کے پاس دولت آئی تھی ۔ویسے ویسے انکا لائف اسٹائل بھی بہت بدل گیا تھا۔کھاتہ پیتا گھرانہ شہام اور حسام بخاری کا بھی تھا لیکن انہوں نےاپنی روایات کو برقرار رکھا تھا۔تب ہی ہنزہ اور عنایہ کو رحمانہبیگم کے گھر میں بے چینی محسوس ہوتی تھی۔اسلئے وہ دونوںہی وہاں جانے سے کتراتی تھیں۔
رحمانہ بیگم کے صرف دو ہی بیٹے تھے۔وصی احمد اور ولی احمد۔وصی کچھ سنجیدہ طبیعت کا تھا۔اپنے کام سے کام رکھنے والا۔جبکہ ولی ہنس مکھ سا لڑکا تھا۔جو اپنی شوخ طبیعت کے بدولتسب کو بہت جلد اپنا دوست بنالیا کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

محبتوں کا موسم(complete)Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin