Episode 3

62 4 0
                                    

 "ویسے بھابھی  ہنزہ لوگ صحیح کہہ رہی تھیں ۔انکے لائف اسٹائل اور ہمارے لائف اسٹائل میں بے حد فرق   ہے۔"حسینہ بیگم نے ٹائٹ جینس شرٹ میں دور کھڑی شزا  کو وصی  کے ساتھ کھڑے دیکھ کر کہا  تو خالدہ  بیگم  بولیں  
"یہ لڑکی ہر فنکشن میں وصی کے ساتھ ہوتی ہے۔تمھارے بھائی مجھے بتارہے  تھے کہ وصی آج کل   اکثر پارٹیز میں بھی  ایک لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔شاید یہی وہ لڑکی ہے " ۔تو حسینہ  بیگم نے کہا
"ہاں !یہی ہو گی۔مجھے لگتا ہے وہ اسکو پسند کرتا ہے"۔تو وہ بھی بولیں
"لگتا تو ایسا ہی ہے۔"انکی بات پر حسینہ بیگم نے کہا
"اللہ نصیب اچھا کرے ۔"تو  بے ساختہ خالدہ بیگم نے "آمین "کہا ۔
تب ہی انکے پاس مسز تنویر چلی آئیں تو وہ انکی طرف متوجہ ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
" مما   امی !اب گھر چلیں ناں "۔حمزہ نے اکتاتے ہوئے  خالدہ بیگم کو سائیڈ پر لے جاکر کہا تو وہ بولیں
"ہاں بس چلتے ہیں۔"وہ یہ کہہ کر دوبارہ  خالدہ بیگم کے پاس جاکر کھڑی ہو گئیں  تو وہ جھنجھلا کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"شکر ہے یار ۔۔۔ادھر جانے سے جان بچ گئی ۔"ہنزہ نے  lays کہاتے ہوئے کہا 
"ہاں بھائی  !مجھے تو عجیب و غریب  فیشن دیکھ کر بہت ہی برا لگتا ہے۔" اسکی بات  سن کر عنایہ نے بے ساختہ قہقہہ لگایا  تو ہنزہ نے اسے سنجیدگی سے دیکھا اور پھر کہا
"زرا آپ بتانا پسند کریں گیں کہ یہ بتتیسی کیوں  دکھائی جارہی ہے ؟"تو عنایہ بولی
"مجھے تمھاری بات یاد آگئی تھی۔"اسکی بست سن کر ہنزہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر کہا
"کونسی بات ؟"تو وہ بولی
"وہ لڑکی یاد ہے تمہیں جسے تم نے  پر کٹی کا نام دیا تھا "۔اسکی بات سن کر ہنزہ کی آنکھوں کے سامنے شزا کا سراپا گھوم گیا تو  بھی ہنس دی ۔اور پھر اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا
"یار ایسی باتیں مت یاد دلایا کرو۔قسم سے پھر مجھے بار بار اس لڑکی کا سراپا نظر آتا ہے اور میں ہنستی رہتی ہوں۔"
"اگر کوئی انجان انسان مجھے ایسے  بلاوجہ ہنس تا دیکھے تو کہے کہ  یہ لڑکی تو پاگل ہے۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا
"ویسے تم نے نام بلکل ٹھیک دیا تھا اسے۔"عنایہ کی بات پر وہ بولی
"تمہیں تو پتہ ہے میں جب جب جو  بھی بولتی ہوں ٹھیک ہی بولتی ہوں۔"اسکے شاہانہ انداز میں کہنے پر عنایہ نے اسے گھورا اور پھر کہا
"ویسے حیرت کی بات ہے یار کہ وصی بھائی کو اس میں کیا نظر آتا ہے ؟"تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے کہا
"وہ خود جیسے ہیں انکو ویسے ہی لوگ پسند ہیں۔خود پسند اور مغرور۔"تو عنایہ نے تائیدی انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا
"سہی کہہ رہی ہو تم۔"تو ہنزہ بولی 
"دفع کرو ۔آو مووی دیکھتے ہیں"۔تو عنایہ نے کہا
"ہاں یار۔آج تو انجوائے کرنا ہے۔آخر کو پھوپھو کے گھر کے عجیب سے فنکشن میں جو نہیں گئے۔"اسکی بات پر صدا کی سست ہنزہ نے  سر اثبات میں  ہلاتے ہوئے کہا
"تو ایسا کرو وہ اندر کمرے سے لیپ ٹاپ اٹھا کر لے آو ۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے اسے گھورا تو وہ بولی
"یار میں نے ایک فلم ڈاون لوڈ کی تھی ۔بہت مزے کی ہے۔جاو شاباش لے آو۔"تو عنایہ نے کہا
"محترمہ !آپ کچھ ناں کریں۔سب کچھ بس باقی لوگ کریں۔"اسکی بات پر پہلے تو وہ ہنسی اور پھر کہا
"لوگ نہیں صرف  تم۔"تو عنایہ  بھی ہنستی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی اور لیپ ٹاپ لینے چلدی۔
"شکر ہے بھئی آپ لوگ واپس جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھی تو سہی۔"حمزہ نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا تو خالدہ بیگم بولیں
"ایک تو تم سب کو نجانے کس بات کی جلدی  ہوتی ہے۔ہر کام تم لوگوں نے جلدی کرنا ہوتا ہے۔یہ جلد بازی ہی تم لوگوں کو نقصان پہنچارہی ہے  اور آگے بھی پہنچائے گی۔"انکی بات پر وہ ہنستے ہوئے بولا
"بھئی جلدی کام  کرنا چاہیے تاکہ ہم دوسرا کام شروع کر سکیں۔"اس بات پر انہوں نے خفگی سے اسے دیکھا اور پھر کہا
"صبر بھی کسی چیز کا نام ہوتا ہے جو ہمیں تو کم از کم تم لوگوں میں نظر نہیں آتا۔
اب   تم لوگ وصی کو دیکھو  کتنا بردبار ہے۔سنجیدہ ہے۔"تم لوگوں کے تو ہمسی مزاح ہی ختم نہیں ہوتے۔انکی بات پر حسن آخر کار بول پڑا
"آپ وصی بھائی سے تو ہمیں بلکل بھی مت ملائیں ۔وہ اور طرح کے بندے ہیں۔"تب ہی خالدہ بیگم نے کہا
"کیسے اور طرح کا بندہ ہے ؟"انکے سوال پر حسن نے حمزہ کو دیکھا۔جو اسے آنکھوں کے اشارے سے کچھ بھی بولنے کو منع کر رہا تھا۔تو وہ بات بدلتے ہوئے بولا
"مطلب یہی کہ ہر انسان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔جو کہ اس انسان کی خاصیت ہوتی ہے۔جو خاصیت ان میں ہے وہ ہم میں نہیں۔اور جو ہم میں ہے وہ ان میں نہیں ہو گی۔"
اسکی بات کے جواب میں حسینہ بیگم نے کہا
"تو برخوردار بتانا پسند کریں گے کہ آپ میں کیا خاصیت ہے ؟"تو وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
"بہت سی ہیں۔کوئی ایک ہوتی تو بتا بھی سکتا۔"اسکے  لاابالی انداز پر وہ دونوں بھی اپنی ہنسی پر قابو نییں رکھ پائیں۔اور ہنس  دیں۔انکو ہنستے دیکھا  تو وہ اور  حمزہ بھی ہنسنے لگ گئے۔تب ہی خالدہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا
"بس ہنسی مزاح کرالو تم لوگوں  سے۔"اسی وقت ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی تو حمزہ نے  کھڑکی  کے پار دیکھا۔جہاں وصی کی گاڑی کھڑی تھی اور صدا کا سنجیدہ وصی  ہنس رہا تھا۔اسنے گردن گھماکر آنکھوں کے اشارے سے حسن کو اس طرف دیکھنے کا کہا تو وہ   بھی  دیکھے گیا۔
اچانک ہی ٹریفک سگنل کھلا  تو وصی گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔
ان دونوں کو ساتھ گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر حمزہ نے سرد آہ بھری اور دل میں سوچا
"واقعی ہم میں بہت فرق ہے۔شازمہ کبھی بھی میرے ساتھ اتنی رات کو گاڑی میں جا نہیں سکتی اور ناں میں لے جا سکتا ہوں۔کاش کہ میں بھی اسے وصی کی طرح اپنی گاڑی میں بٹھاکر لے جا سکتا۔"وہ اپنے ہی خیالات میں کھویا ڈرائیونگ کر رہا تھا کہ  سامنے سے آنے والی ٹیکسی نے بروقت ہارن دیا ۔اگر ٹیکسی ڈرائیور  ہارن ناں دیتا اور وہ  بروقت بریک ناں مارتا تو اب تک انکی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو چکا ہوتا۔
جھٹکا لگنے پر خالدہ بیگم نے غصے سے کہا
"دیکھ کر چلاو حمزہ۔"تو وہ سوری کہتا ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔

محبتوں کا موسم(complete)Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ