سنو ! عنایہ نے ہنزہ کو پکارا جو اپنی دوستوں کے ساتھ واٹس ایپ پر چیٹنگ کر رہی تھی۔اسکے پکارنے پر ہنزہ نے سر اٹھاکر اسے دیکھا اور پھر کہا
"بولو! کیا ہوا ؟" تو وہ بولی
"یار مجھے لگتا ہے کہ وصی بھائی شزا کو پسند کرتے ہیں۔" اسنے بول کر ہنزہ کی طرف دیکھا تو وہ بولی
"شاید۔لیکن جو بھی ہے ہمیں کیا۔جس گلی میں جانا نہیں ہے وہاں کے خواب کیا دیکھنا۔" اس نے کہہ کر دوبارہ اپنی توجہ موبائل کی طرف مبذول کر دی تو عنایہ نے پہلے اسے دیکھا اور پھر کہا
"ہاں یار ! کہہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔لیکن مجھے شزا کا رویہ پسند نہیں آیا۔" اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا
"تمہیں تو صرف رویہ پسند نہیں آیا۔مجھے تو وہ بندی ہی اچھی نہیں لگی۔" اسکی بات سن کر تو عنایہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
تب ہی کسی نے اسکے کمرے کا دروازہ ناک کیا تو عنایہ نے" کم ان "کہا۔
اسکی اجازت دینے پر ملازمہ نے اندر آکر انہیں رحمانہ بیگم کا پیغام دیا کہ وہ ان لوگوں کو بلا رہی ہیں۔اسکی بات سن کر عنایہ نے اسے اچھا آتے ہیں کہہ کر وہاں سے رخصت لیا اور پھر ہنزہ کی طرف مڑی ۔جو اب بھی واٹس ایپ پر اپنی دوستوں کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔عنایہ نے جھنجھلاتے ہوئے اسے بے فکری سے بیٹھے دیکھا اور پھر بولی
"یار چلو پھوپھو بلا رہی ہیں"۔اسکے کہنے پر ہنزہ نے خاموشی سے موبائل بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور خود اٹھ کر ان سے بات کرنے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"آو آو " ۔رحمانہ بیگم نے دونوں کو آتے دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولیں۔وہ بھی جاکر مسکراتے ہوئے انکے برابر میں جاکر بیٹھ گئیں۔تب ہی ولی یونی سے گھر آیا اور سامنے ان دونوں کو بیٹھے دیکھا تو وہ حیرت سے بولا
"یہ میں سچ میں محترمہ عنایہ بی بی اور محترمہ ہنزہ بی بی کو دیکھ رہا ہوں؟ کوئی مجھے چٹکی کاٹو۔مجھے حقیقت کی دنیا میں لاو۔" اسکی ڈرامہ بازی پر رحمانہ بیگم نے اسکے بازو پر تھپڑ مار کر کہا
"ڈرامہ نہیں کرو۔" تو وہ ہنس دیا۔اور پھر سنگل صوفے پر بیٹھ کر اسنے ان دونوں کا حال احوال پوچھنا شروع کیا ہی تھا کہ ملازمہ نے رحمانہ بیگم کو آکر بتایا کہ انکی این جی او سے کال ہے۔وہ سر ہلاکر فون سننے چلی گئیں۔انکے جاتے ہی ولی نے دوبارہ بات شروع کرتے ہوئے کہا
"اور سناو۔تم دونوں بد روحیں یہاں کیسے ٹپک گئیں؟ تم لوگ تو ہمارے یہاں آنا ہی پسند نہیں کرتیں۔" اسکے بولنے پر عنایہ نے فورن کہا
"او میرے پیارے بھائی۔ایسا کچھ نہیں ہے۔بس فنکشن وغیرہ میں آنے کا دل ہی نہیں کرتا۔" تو وہ بولا
"ویسے خوبصورت لڑکیوں کے منہ سے میں بھائی سننا پسند نہیں کرتا لیکن تم خیر سے میری دودھ شریک بہن ہو۔اسلئے کہنے دے رہا ہوں۔" اسکی بات سن کر ہنزہ نے فورن کہا
"ایک تو تم سب لڑکے ایک جیسے ہوتے ہو۔"اسکی بات سن کر ولی نے کہا
"توبہ ہے یار۔انفرادی اختلاف بھی کسی چیز کا نام ہے۔تم نے تو انفرادی اختلاف کی تھیوری کو ہی غلط قرار دے دیا ہے۔"اسکی بات پر وہ بولی
"یہ دیکھو میں ہاتھ جوڑ رہی ہوں۔خبردار تم نے مجھے انفرادی اختلاف پر لیکچر سنایا تو۔"اسکی بات سن کر پہلے تو وہ ہنستا رہا اور پھر بولا
"تمہارا کچھ بھی نہیں ہو سکتا یار۔" تو وہ بولی
"بس کیا کرو۔ہو ہی اتنی اچھی۔" تو وہ بولا
"کون اچھا ہے ؟تم ؟ " اسنے مصنوعی حیرت سےآنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا تو ہنزہ نے کشن اٹھاکر اسے دے مارا۔جبکہ اسنے کشن کو کیچ کر کے کہا
"یار جھوٹ وہ بولا کرو جو ہم برداشت کر پایا کریں۔چلو میں تو پھر لڑکا ہوں۔عنایہ بیچاری کا ہی خیال کر لیا کرو ۔کسی دن تمھارے جھوٹ سنتے سنتے اسکو ہارٹ اٹیک آگیا تو ہم دوسری عنایہ کیسے لائیں گے؟"اسکے سنجیدہ انداز میں کہنے پر عنایہ کا تو ہنس ہنس کر برا حال تھا۔جبکہ ہنزہ غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔
تب ہی عنایہ نے کہا
"ہاں ولی اسے سمجھاو مجھ بیچاری بچی پر یہ ظلم ناں کیا کرے۔تب ہی ولی نے کہا
"یار اسے تو آج تک ممانی نہیں سمجھا سکیں۔میں چھوٹا ساانسان کیسے سمجھا سکتا ہوں۔"عنایہ نے اسکی بات سن کر کن اکھیوں سے ہنزہ کو دیکھا جو اب غصے سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔تب ہی ولی نے ہنزہ کو مزید چھیڑتے ہوئے کہا
"یہ تم اتنی لال کیوں ہو رہی ہو ؟ کہیں جن ون تو نہیں آنے لگے تم پر ؟" تو ہنزہ نے غصے سے کہا
"ہاں جن آتے ہیں۔بلکہ بھوت آتے ہیں۔رکو تمہیں تو میں بتاتی ہوں۔"کہہ کر وہ جیسے ہی اسکی طرف بڑھی تو وہ اٹھ کر باہر کی طرف بھاگا۔
فون سن کر اندر آتی رحمانہ بیگم نے بھاگتے ہوئے ولی کو دیکھا اور مسلسل ہستی عنایہ کو دیکھ کر وہ بے ساختہ مسکرائیں۔اسی وقت سلمان صاحب گلاس ڈور کھول کر اندر داخل ہوئے ۔اور ٹھٹھک کر لاونج میں رکے۔بہت عرصے کے بعد انہیں لگا تھا کہ وہ واقعی اپنے گھر واپس آئے ہیں۔ورنہ روزانہ جب بھی واپسی ہوتی تھی تو خاموشی ہی انکی منتظر ہوتی تھی۔
وہ خوشگوار حیرت میں گھرے آگے بڑھے۔تب ہی عنایہ اور ہنزہ کی نظر ان پر پڑی ۔تو ان دونوں نے اٹھ کر انہیں سلام کیا۔تو انہوں نے بھی خوشدلی سے جواب دیتے ہوئے ان دونوں کے سر پر ہاتھ پھیرا۔اور حال احوال پوچھ کر فریش ہونے کے لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔جبکہ وہ تینوں اپنی اپنی باتیں کرمے لگ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"یار میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔میں آج کل بہت بزی ہوتا ہوں۔اسلئے تمھاری طرف نہیں آتا۔" اسکی بات سن کر فون کی دوسری جانب سے شزا نے کہا
"تم مانو یا ناں مانو وصی۔تم بہت بدل گئے ہو۔مصروف تو تم پہلے بھی بہت ہوتے تھے۔مگر اب تم مجھے نظر انداز کرتے ہو۔" اسکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے خاموش ہوا اور پھر بولا
"تم جس وقت کی بات کر رہی ہو۔تب میں ایک غیر ذمہ دار اسٹوڈنٹ تھا۔اب میں بزنس مین ہوں۔
انسان تمام زندگی ایک سا نہیں رہتا۔وقت اور حالات ہمیں بدل دیتے ہیں۔" اسکے بولنے پر شزا نے کہا
"اگر تم اتنے مصروف تھے تو اپنی کزنز کو کیسے لئے لئے مال میں گھوم رہے تھے؟" تو وہ بولا
"مما میرے ساتھ نانو کے گھر گئیں تھیں۔وہاں سے مما ان دونوں کو بھی اپنے ساتھ لے آئیں۔تو اس طرح میں انہیں لیکر آیا ۔تو وہ بولی
"ہاں بھئی۔غریب لوگ ہیں وہ ۔کیسے تمھارے گھر آنے سے ناں کرتیں؟"اسکی بات سن کر وصی نے غصے میں آتے ہوئے کہا
"ایسا نہیں ہے۔وہ لوگ بھی کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں۔"تو شزا نے کہا
"لگتی تو نہیں ہیں۔" ابکی بار وصی نے بھی سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا
"دیکھو شزا ان لوگوں کی تربیت جن اصولوں پر ہوئی ہے وہ ان اصولوں پر چلتی ہیں۔تمہاری تربیت جن اصولوں پر ہوئی ہے تم ان پر چلتی ہو۔ تو میرے خیال سے تمہیں کسی پر کمنٹ نہیں کرنا چاہیے۔"شزا تو وصی کی سائیڈ لینے پر بلکل ہی آگ بگولہ ہو گئی اور کہا
"دیکھا۔تمہیں بھی برا لگ رہا ہے۔" تو وہ بولا
"تم نے بات ہی غلط کی ہے۔"اسکے غصے سے بولنے پر شزا نے اپنے آپ کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا
"تم آج ہمارے گھر آرہے ہو کہ نہیں ؟" تو وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا
"یار ۔۔" تب ہی شزا نے اسکی بات کاٹی اور کہا
"ہاں یا ناں میں جواب دو۔" تو وہ بولا
"نہیں آج نہیں۔" اسکے جواب پر شزا نے غصے سے فون بند کر دیا۔
وہ کچھ لمحے فون کی بنداسکرین کو دیکھتا رہا اور پھر منہ میں بڑ بڑایا۔
"نجانے یہ ایسا بی ہیو کیوں کر رہی ہے؟" وہ کچھ دیر وہیں لان میں بیٹھا سوچتا رہا اور پھر اٹھ کر اندر کی طرف بڑھ گیا۔
ٹی وی لاونج سے گزرتے اسے قہقہوں کی آواز یں آئیں تو وہ سر جھٹکتا اپنےکمرے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔،*۔۔۔۔۔
اپنے کمرے میں جاکر وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گیا۔اور شزا کے روئیے کو سوچنے لگا ۔ساتھ میں وہ اپنی مما کے رویہ کا بھی موازنہ کر رہا تھا۔
اسے علم تھا کہ مما شزا کو ناپسند کرتی ہیں۔اسے آج سے پہلے اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ اسے کیوں ناپسند کرتی ہیں۔لیکن آج حقیقت کا ادراک ہو رہا تھا۔
کیا واقعی میں شزا مادہ پرست لڑکی ہے ؟کیا واقعی میں وہ لوگوں کو انے کردار اور رویہ سے نہیں بلکہ انکے بزنس سے ناپتی ہے؟کیا یہی وہ سبب ہے جسکی وجہ سے مما اسے ناپسند کرتی ہیں ؟وہ ان ہی باتوں کو سوچتا کب سوگیا اسے علم ہی ناں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
ہنزہ نے کروٹ بدل کر عنایہ کو دیکھا جو گہری نیند سو رہی تھی۔پھر موبائل اٹھا کر وقت دیکھا۔رات کے ساڑھے تین ہو رہے تھے۔اور نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
اسکے ساتھ یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ اسے کسی اور کے گھر نیند نہیں آتی تھی۔اسلئے وہ اپنے گھر میں رہنے کو پسند کرتی تھی۔
"یااللہ جی اب پلیز نیند آجائے۔"اسنے دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے آنکھیں بند کیں۔اور کافی دیر کروٹیں بدلنے کے بعد آخر کار نیند اس پر مہرباں ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
دوسری دفعہ اسکی آنکھ سات بجے کھلی۔اسنے گردن موڑ کر عنایہ کو دیکھا جو بے سدھ سو رہی تھی۔وہ خاموشی سے اٹھی اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
فریش ہونے کے بعد واپس آئی تو دیکھا عنایہ میڈم تب بھی سو رہی تھیں۔اسنے عنایہ کو ہلکا سا ہلایا تو وہ بولی
"یار مت کرو ۔سونے دو۔"وہ کہہ کر کروٹ بدل گئی۔تو ہنزہ نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔
اسے علم تھا کہ اگر عنایہ کو زبردستی اٹھایا تو نیند پوری ناں ہومے کی وجہ سے وہ پورا دن چڑ چڑی رہے گی۔تب ہی اسنے اسے سونے دیا اور خود اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ایسے ہی چلتے چلتے وہ لاونج میں گئی تو دیکھا پورا گھر ہی خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے۔
"پتہ نہیں کیسے یہ لوگ اتنی خاموشی میں رہ لیتے ہیں۔" اسنے دل میں کہتے ہوئے لان کی طرف قدم بڑھائے ۔
سبز نرم و ملائم گھاس پرننگے پاوں چلتے اسے ایک سکون محسوس ہو رہا تھا۔وہ اسی طرح چلتی گلاب کے پودے کی طرف بڑھی۔پہلے جھک کر اسنے پھول کی خوشبو سونگھی۔اور پھر دل میں نجانے کیا آئی کہ اسنے پھول توڑ دیا۔
اور ایک توڑنے کے بعد یکا یک اسنے تین چار پھول توڑے اور پھول توڑ کر وہ چلتی ہوئی لان چئیر پر آکر بیٹھ گئی۔اور ایک ایک کر کے پھولوں کی پتیوں کو توڑنے لگی۔وہ اپنے خیالوں میں مگن پھولوں کی پتیوں کو توڑ توڑ کر پھینک رہی تھی کہ اسی وقت جاگنگ سے واپس آئے وصی نے اسے پھولوں کی پتیوں کو توڑتے دیکھا۔
اپنے پھولوں کا یہ حال دیکھ کر وہ دو سیکنڈ خاموش کھڑا دیکھتا رہا ۔اس پودے پر اسنتے خود بہت توجہ دی تھی اور یہ اسکے پسندیدہ پودوں میں سے ایک پودا تھا۔
وہ اپنے پودے کا یہ حشر دیکھ کر اسکی طرف بڑھا اور غصے سے جاکر کہا
"تم نے کس کی اجازت سے یہ پھول توڑے ہیں ؟" تو وہ حیرت سے بولی
"مطلب؟ اتنے سارے تو پھول ہیں۔اگر میں نے کچھ توڑ دئیے تو کیا غلط کیا؟" اسکے یہ بولنے پر وہ غصے سے کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا اور پھر بولا
"بات سنو ! یہ حرکتیں یا تو تم اپنے گھر میں کیا کرو یا پھر اپنی پھوپھو کے پودے کے ساتھ کیا کرو۔میرے پودوں کو اگر تم نے چھوا بھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔جبکہ وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی۔اور جب حیرت سے باہر آئی تو وہ اندر کی طرف بڑھ گئی۔
جہاں عنایہ اٹھ چکی تھی۔اسے منہ لٹکائے اندر آتے دیکھا تو عنایہ بولی
"کیا ہوا؟" تو ہنزہ نے کہا
"یار میں نے باہر لان سے کچھ پھول توڑے تھے۔وصی بھائی نے اتنا ڈانٹ دیا۔اسکی بات سن کر عنایہ نے ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا اور پھر کہا
"مطلب ؟صرف پھول توڑنے پر؟" تو وہ بولی
"ہاں"۔اسکے ایک لفظی جواب پر عنایہ نے کہا
"پوری بات بتاو۔" تو اسنے بیزاری سے اسے دیکھتے ہوئے پوری بات کہہ سنائی۔جسے سن کر پہلے تو وہ ہنسی اور پھر کہا
"ویسے یار تمہیں اصولن تو پھول نہیں توڑنے چاہیے تھے لیکن خیر اس سے سیک بات تو ہمیں معلوم ہوئی کہ وصی بھائی کے کچھ کام ہم گرلز والے ہیں۔جیسے کہ پھول کے پودے کے لئے اتنا ٹچی ہونا۔" وہ اپنی بات کہہ کر دوبارہ ہنسی۔جبکہ ہنزہ نے اسکی طرف دیکھ کر کہا
"مجھے لگتا ہے کہ انہیں غصہ کسی اور بات پر تھا۔جو انہوں نے ایسے نکالا۔اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا
"فضول سوچ رہی ہو۔ایسا کچھ نہیں ہے۔"تو وہ بولی
" شاید" ۔تب ہی عنایہ نے کہا
"چلو میں فریش ہو کر آےتی ہوں۔" تو وہ سر ہلا دی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ہنزہ نے رحمانہ رحمانہ بیگم سے گھر واپس بھجوانے کی بات کی تو وہ بولیں
"تم کونسا دوسرے شہر میں رہتی ہوں۔آرام سے شام میں چلی جانا۔تو اسنے گردن گھماکر اپنے برابر میں بیٹھی عنایہ کو دیکھا
"جو اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔"
"ہاں یار !آرام سے جانا۔" ولی نے بھی رحمانہ بیگم کی بات کی تقلید کی ۔تب ہی وصی وہاں آیا
"گڈ مارننگ۔اسکے گڈ مارننگ کہنے پر رحمانہ بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر کہا
" آو ناشتہ کرو۔" تو وہ مسکراتا ہوا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔اسکے بیٹھنے پر ہنزہ نے چہرہ اٹھاکر اسے دیکھا ۔جو اب صبح کے برعکس پیکنٹ شرٹ میں ملبوس تھا۔اسے دیکھتے ہی ہنزہ کو اسکی کہی ہوئی بات یاد آئی تو اسنے منہ بناکر ناشتہ کرناشروع کر دیا۔
وصی نے ناشتہ کرتے کرتے اچانک ہنزہ کی طرف دیکھا تو اسے اسکی صبح کی حرکت یاد آئی تو اسنے بے ساختہ لب بھینچ کر سر جھٹکا اور زیر لب"بد تمیز لڑکی" کہہ کر ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔
وہ ابھی ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ جب وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھی۔اسے اٹھتا دیکھ کر رحمانہ بیگم نے کہا
" ہنزہ بیٹے ناشتہ ٹھیک سے کرو۔تو وہ بولی
"پھوپھو کر لیا ہے ناشتہ" اسنے مسکرا کر انہیں تسلی دی اور وہاں سے چلی گئی۔اسکے جانے کے بعدباقی سب بھی دوبارہ سے ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
شام میں جب وہ گھر پہنچیں تو ان دونوں ہی نے گھر میں غیر معمولی خاموشی کو محسوس کیا۔وہ دونوں ہی دل ہی دل میں حیران ہوتی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
"عنایہ تمہیں عجیب سی خاموشی محسوس ہو رہی ہے ؟" ہنزہ نے عنایت سے پوچھا تو وہ بولی
"ہاں۔بی جان نے بھی ہم سے ٹھیک سے بات نہیں کی ۔" عنایہ نے بھی سوچتے ہوئے کہا تو ہنزہ نے کہا
"تمہیں کیا لگتا ہے کہ کیا بات ہوئی ہو گی ؟" تو وہ بولی
" نو آئیڈیا بہن" تو ہنزہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
"میں امی سے پوچھتی ہوں۔" تو عنایہ نے بیزاری سے کہا
تمہیں اتنا تجسس کیوں ہو رہا ہے ؟" تو وہ بولی
"یار پتہ تو چلے کہ آخر ہوا کیا ہے ۔جسکی وجہ سے گھر میں خاموشی ہے۔اسکی بات سن کر عنایہ نے اسے دیکھ کر کہا
"تمہارا کوئی حل نہیں ہے۔" تو اسنے مسکراکر کہا
" ہونا بھی نہیں چاہیے۔" یہ کہہ کر وہ چھپاک سے کمرے سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
وہ جاکر بی جان کے تخت پر بیٹھ گئی اورانکے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے کگی۔انہوں نے سلام پھیر کر اسکی طرف دیکھ کر کہا
"کیا ہوا ہے ہنزہ ؟" تو وہ بولی
"آپ نے نماز پڑھ لی ؟تو وہ بولیں
"ہاں لیکن لڑکی تمھاری یہ کیا عادت ہے کہ سوال کچھ کرو جواب کچھ دیتی ہو۔" وہ انکی بات سن کر ہنسی اور پھر کہا
"بی جان مجھے ایک بات پتہ کرنی ہے۔"اسکی بات سن کر انہوں نے بغور اسے دیکھا اور پھر کہا
"کیا پوچھنا ہے ؟"تو وہ اٹھ کر انکے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔اور کہنے لگی۔
" گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے بی جان ؟کچھ ہوا ہے ؟" ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ حمزہ ادھر آیا اور آتے ساتھ ہی بولا
"بی جان آپ بابا کو سمجھائیں۔میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔عنایہ صرف میری کزن ہے۔اور کزن ہی رہے گی۔انہوں نے ایک نظر تپے ہوئے حمزہ کو دیکھا اور پھر ہنزہ کو۔تب ہی وہ دوبارہ بول پڑا۔
"ابھی بابا کے کمرے سے آرہا ہوں۔وہ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔اسنے تلخ لہجے میں کہا تو بی جان نے پہلے ہنزہ کو مخاطب کر کے کہا
"جاو ہنزہ جاکر آرام کرو۔تو وہ بحث کرنے کے بجائے اٹھ کھڑی ہوئی اور جاکر لاونج میں بیٹھ گئی۔اسکے جاتے ہی بی جان نے حمزہ کی طرف رخ کیا اور پھر بولیں
"تم باپ بیٹا اپنی اپنی ضد میں لگ چکے ہو تو وہ بولا
"بی جان بابا مجھ پر زبردستی کر رہے ہیں۔تمام زندگی مما بابا بولتے رہے کہ جہاں تم لوگوں کی پسند ہو گی وہیں تم لوگوں کی شادیاں کریں گے۔اور اب یہ لوگ ایسے کر رہے ہیں۔انکی بات سن کر بی جان نے اسکی طرف جانچتی نظروں سےدیکھا اور پھر بولیں
"سچ سچ بتاو بات کیا ہے ؟کوئی اور پسند ہے تمہیں ؟" انہوں نے کہہ کر گہری نظروں سے اسکے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا۔وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر سر ہلا دیا۔اسکے سر ہلانے پر انہوں نے پو چھا
"کون ہے وہ؟" تو وہ بولا
" شازمہ ۔ مجھے وہ پسند ہے۔" انہوں نے نام سن کر بغیر حیرانی سے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"چلو میں تمھارے بابا سے بات کرتی ہوں۔"تو وہ انکا چہرہ دیکھے گیا اور پھر بولا
"بی جان پلیز۔آپ بابا کو منا لیں۔بابا میری شازمہ اور عنایہ کی زندگی کو برباد کر رہے ہیں۔انہو ں نے اسکی بات پر خاموشی سے اسے دیکھا اور پھر کہا
"میں بات کرونگی تمھارے بابا سے۔لیکن آج کل کی اولاد سنتی ہی کسی کی نہیں ہے ۔اسلئے میں وعدہ تو نہیں کر سکتی۔لیکن کوشش کرونگیں کہ تمھارا مسئلہ حل ہو جائے۔وہ انکی بات سن کر خاموشی سے اٹھ کر لاونج میں چلا گیا۔جبکہ بی جان بیٹھی اسکی پیٹھ کو تکتی رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
وہ جیسے ہی لاونج میں جاکرصوفے پر بیٹھا تو پہلے سے وہاں بیٹھی ہنزہ نے اس سے پوچھا
"حمزہ کیا ہوا ؟ کیا بات ہے ؟" تو وہ جو آنکھیں بند کر کے صوفے کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اسنے چونک کر آنکھیں کھولیں اور پھر ہنزہ کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
"مما بابا عنایہ سے میری بات طے کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ میں شازمہ خو پسند کرتا ہوں۔بابا نے مجھ سے پوچھنا تو درکنار بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔اور خود سے سب کر لیا۔یار ایسے بھی کوئی کرتا ہے ؟" تو وہ بولی
"لیکن حمزہ بابا نے بھی کچھ سوچ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا۔"تو وہ بولا
"نہیں انہیں بس اپنی منوانی ہے۔"تو وہ بولی
"لیکن حمزہ عنایہ میں کیا برائی ہے ؟"تو وہ بولا
"میں کب کہہ رہا ہونکہ اس میں برائی ہے ؟میں اسے کزن کے طور پر پسند کرتا ہوں۔اس سے زیادہ نہیں تو دہ بولی
"لیکن اگر دیکھا جائے تو عنایہ ہر چیز میں شازمہ سے بہتر ہے۔خاص طور پر کردار میں۔"وہ بولتے بولتے تلخ ہوئی ۔اسکے یہ بولتے ہی حمزہ نے اسے غصے سے دیکھا اور سخت لہجے میں بولا
"ہنزہ۔۔یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔"تو وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولی
"کم از کم کسی کو پسند کرنے سے پہلے انسان اسکے کردار کو دیکھ لیتا ہے۔لیکن افسوس صدا افسوس کہ"۔۔۔۔۔
ابھی وہ بول ہی رہی تھی اسکی نظر سامنے پڑی جہاں سے اسے عنایہ کے ڈوپٹہ کا پلو نظر آیا۔تو وہ اپنی بات پوری کئے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے کی طرف گئی۔
"اسے یہی ڈر تھا کہ کہیں عنایہ نے حمزہ کے انکار کا ناں سنا ہو۔"اسنے جیسے ہی دروازہ کھولا تو کمرہ خالی تھا۔
اسنے چاروں طرف دیکھا اور پھر واش روم کی طرف بڑھی۔جسکا دروازہ بند تھا۔اور لائٹ جل رہی تھی۔
اسنے دروازہ ناک کر کے عنایہ کو آواز دی۔لیکن کوئی جواب موصول ناں ہوا۔اسنے دوبارہ دروازہ ناک کیا۔
اندر واش بیسن کے سامنے کھڑی عنایہ منہ پر ہاتھ رکھے زارو قطار رو رہی تھی۔
یار عنایہ۔۔۔اسنے دوبارہ دروازے کو بجایا تو اب کی بار عنایہ نے ایک نظر دروازے کو دیکھا اور پھر منہ پر پانی کے چھپاکے مارکر تولیہ سے منہ صاف کرتی باہر آئی۔
"تم ٹھیک ہو عنایہ ؟" ہنزہ نے اسکی لال آنکھیں دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ بولی
"ہا مجھے کیا ہونا ہے؟میں تو بلکل ٹھیک ہوں۔اسکی بات سن کر ہمزہ نے بے ساختہ اسکا ہاتھ پکڑکر کہا
"حمزہ کی باتوں کا برا مت ماننا۔وہ پاگل ہے۔تمہیں پتہ ہے ناں ۔اسکی بات سن کر عنایہ نے زخمی مسکراہٹ لئے اسے دیکھا اور پھر بولی
"ہاں پتہ ہے۔تبھی تو دکھ ہے کہ پتہ کیوں ہے۔"اسکی بات پر ہنزہ نے شرمندگی سے سر جھکاکر کہا
"آئی ایم سوری ۔میں تمھارے لئے کچھ ناں کر سکی تو عنایہ نے اسکاہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
" تم معافی مت مانگو ہنزہ۔تمام بات ہی نصیب کی ہے۔شاید میرا نصیب ہی خراب ہے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا
"نصیب تمھارا نہیں۔اسکا خراب ہے۔" وہ اس با ت کے جواب میں کچھ بولے بنا بس اسے دیکھے گئی۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔
جاری ہے۔
ESTÁS LEYENDO
محبتوں کا موسم(complete)
Fantasíaیہ کہانی ہے ٹوٹ کر پھر سے جڑنے کی،یہ کہانی ہے اعتماد کے بحالی کی،یہ کہانی ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی اور یہ کہانی ہے محبت کی۔۔۔