Episode 2

69 4 2
                                    

شکر ہے جان بچ گئی۔ہنزہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو عنایہ نے
ب

ھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔ہاں بھئی۔اگر سوچو کتا کاٹ لیتا تو ؟اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہاآہستہ بولو !دروازہ بھی کھلا ہے اور دوسرا تمہارا والیم اتنا تیز ہوتاہے کہ مردہ بھی سن کر جاگ جائے۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ ہنزہ کی والدہ خالدہ بیگم انکے کمرےمیں داخل ہوئیں اور کہاکس کا والیم اونچا ہوتا ہے ؟ انہوں نے چونکہ صرف آخری جملہ سناتھا اسلئے اندر آکر ان دونوں سے پوچھا تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے کہاکچھ نہیں امی آپ بتائیں کیا ہوا ؟تو وہ بولیںتمہاری پھوپھو کی کال آئی تھی ۔انہوں نے تمہید باندھتے ہوئے اندونوں کی طرف دیکھا جو پریشان نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہیتھیں۔انکے خاموش ہونے پر ہنزہ نے ہی کہاآگے تو بتائیں۔تو وہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے بولیںکہ تمہاری پھوپھو چاہ رہی ہیں کہ کل کا جو فنکشن ہے اس میں تمدونوں بھی شریک ہو۔اپنی بات مکلمل کر کے انہوں نے ایک نظران دونوں کو دیکھا تو ہنزہ نے ہی جواب دیتے ہوئے کہاامی آپکو معلوم ہے ناں کہ ہم وہاں کتنا عجیب محسوس کرتے ہیں۔وہ لوگ ہماری طرح کے نہیں ہیں امی ۔ہمارا پہناوا الگ ہے ۔انکالائف اسٹائل ہمارے لائف اسٹائل سے مختلف ہے۔آپ کیوں نہیں ہمارامسئلہ سمجھتی۔ہم دونوں جب بھی وہاں جاتے ہیں اتنا عجیبسا محسوس کرتے ہیں۔ہم اپنے گھر میں ہی ٹھیک ہیں۔ہنزہ نےمنہ بسورتے ہوئے کہا تو عنایہ نے بھی اسکی بات کی تائید کرتےہوئے کہاہاں ناں تائی امی۔سمجھا کریں ۔آپ کوئی بھی بہانہ بنادیں ۔لیکنپلیز پھوپھو کو منع کردیں۔پلیز پلیزپلیز۔۔اسنے انکے ہاتھ پکڑتےہوئے کہا تو انہوں نے ان دونوں کو بغور دیکھا ۔دونوں کے چہروںسے ہی صاف لگ رہا تھا کہ وہ لوگ وہاں جانے پر راضی نہیں ہیں۔!تو وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولیںبیٹے بار بار منع کرنا برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھی تم لوگوں نے منعکروا دیا تھا۔وہ اتنی چاہ سے بلاتی ہیں اور تم دونوں اس طرح منعکر دیتی ہو۔اس دفعہ میں نے ہاں کر دی ہے۔اور میں یہی بتانے آئیتھی۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔انکے جاتے ہی وہ دونوں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔تھوڑی دیر کے بعد ہنزہ نے سر اٹھایا اور پھرکہا

ایک تو یار پتہ نہیں کیوں روز روز فنکشن رکھ لیتی ہیں۔اسکی

بات پر عنایہ نے اسے دیکھا اور پھر کہا

پیسہ میری جان پیسہ۔اسکی بات سن کر وہ بولی

یار میں کہ رہی کہ جو دل چاہیں کریں۔بس ہمیں ناں بلایا کریں۔اسکی بات پر عنایہ نے اسے دیکھا ضرور۔لیکن بولی کچھ نہیں توہنزہ نے اپنی بات کے جواب میں کوئی جواب موصول ناں ہونے پرسر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر کہاتم کون سی دنیا میں ہو؟زندہ بھی ہو کہ مر گئی ہو یہ خبر سن کر۔تو وہ بولینہیں ابھی تھوڑی ناں مرونگی۔تمھارے مرنے کے بعد مرونگی۔اورچپ اسلئے ہوں کیونکہ میں کوئی بہانہ سوچ رہی ہوں۔اسکی باتسن کر ہنزہ نے اسے دیکھا اور پھر سوچتے ہوئے کہاامی تو کبھی نہیں مانیں گی یار۔انکی بات تو پتھر کی لکیر ہوتیہے۔اسکی بات پر عنایہ نے اسےگھورا اور پھر اسکے پاس بیٹھتےہوئے بولی۔ایسا کرتے ہیں کہ ہم جاکر بی جان سے بات کرتے ہیں۔انکو کہتے ہیںکہ پھوپھو کو بولیں کہ پرسوں ہمارا ٹیسٹ ہے ۔وہ دونوں نہیںآسکتیں۔اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہاآئیڈیا تو بہت اچھا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بی جان بھیہمیں ہی سمجھائیں گی کہ چلی جاو کچھ نہیں ہوتا۔کچھ گھنٹوںکی تو بات ہے۔ہنزہ کی بات سن کر عنایہ بھی خاموش ہو گئی لیکنپھر تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا

کوشش کر لینے میں کیا ہے یار۔آو گل جان سے بات کرتے ہیں۔وہ

اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے بولی تو ہنزہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتےہوئے کہاابھی نہیں۔کل بات کریں گے۔تو وہ بولینہیں۔ابھی چلتے ہیں۔ہم ابھی اپنی بات ان تک پہنچاآتے ہیں۔اسکیبات سن کر آخر ہار مانتے ہوئے وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔بی جان سمجھا کریں ناں۔ہم نہیں جانا چاہتے ادھر۔عنایہ نے انکیگود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے کہا تو مسکرا دیں۔لیکن میرا بچہ بار بار منع کرنا بھی تو برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھیتو تم لوگ نہیں گئے۔اسکی بات سن کر وہ بولیآپ لڑکوں میں سے کسی کو بھیج دیں ۔یاں مما بابا چلے جائیں۔لیکن ہم دونوں کو بخش دیں۔پلیز۔بی جان۔آپ کو پتہ تو ہے سب۔ہمیں کسی اور کے گھر نیند نہیں آتی۔سکون نہیں ملتا۔آپ منع کردیں ۔پلیز پلیز۔ اسکی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ہنزہ نے کہاہاں بی جان۔ہم ٹھیک ہیں ادھر۔آپ انکو بول دیں کہ ہمارے ٹیسٹ ہورہے ہیں۔انکی بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر کہااچھا چلو ٹھیک ہے۔لیکن یہ آخری دفعہ ہے۔اگلی دفعہ اگر اسنےبلایا تو تم دونوں کو جانا ہی پڑے گا۔انکی ہاں سنتے ہی وہ دونوںکھلکھلا کر ہنس دیں تو وہ بھی مسکرادیں۔انکے گھر کی یہیدونوں تو رونق تھی۔وہ انکو دیکھتے سوچے جارہی تھیں کہ اچانکانہیں عنایہ کی آواز نے خیالا ت سے باہر نکالا۔آپ کب کریں گی پھوپھو سے بات ؟اسکے پوچھنے پر وہ بولیںکچھ دیر کے بعد کرونگی۔تم لوگ پریشان ناں ہو۔انکی تسلی دینےپر وہ اٹھ کر ان کے گلے سے لپٹ گئی۔یو آر گریٹ بی جان۔اسکا یہ جملہ سن کر وہ ہنسیں اور پھر کہااچھا چلو جاو تم دونوں۔میرے نوافل پڑھنے کا وقت ہو رہا ہے۔تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔انکے جانے بعد وہ بھی اٹھ کر وضوکرنے چل دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

رحمانہ بیگم جو کہ شہام بخاری اور حسام بخاری کی بڑی بہن

تھیں انکی شادی بہت امیر کبیر خاندان میں ہوئی تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکے شوہر نے مزید محنت کی تھی ۔کچھ قسمت بھ ساتھ تھی اور کچھ محنت بھی نہوں نے بہت کیتھی جسکا صلہ انہیں یہ ملا تھا کہ وہ اپنے شہر کے جانے مانےبزنس مین تھے۔جیسے جیسے رحمانہ بیگم کے پاس دولت آئی تھی ۔ویسے ویسے انکا لائف اسٹائل بھی بہت بدل گیا تھا۔کھاتہ پیتا گھرانہ شہام اور حسام بخاری کا بھی تھا لیکن انہوں نےاپنی روایات کو برقرار رکھا تھا۔تب ہی ہنزہ اور عنایہ کو رحمانہبیگم کے گھر میں بے چینی محسوس ہوتی تھی۔اسلئے وہ دونوںہی وہاں جانے سے کتراتی تھیں۔

رحمانہ بیگم کے صرف دو ہی بیٹے تھے۔وصی احمد اور ولی احمد۔

وصی کچھ سنجیدہ طبیعت کا تھا۔اپنے کام سے کام رکھنے والا۔

جبکہ ولی ہنس مکھ سا لڑکا تھا۔جو اپنی شوخ طبیعت کے بدولت

سب کو بہت جلد اپنا دوست بنالیا کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

محبتوں کا موسم(complete)Kde žijí příběhy. Začni objevovat