Episode 9

65 4 7
                                    

اپنے کمرے میں جاکر وہ بے جان سی بیڈ پر بیٹھ گئی۔اسکی کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی۔لیکن کچھ دیر کے بعد  گھبراکر اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ مسلسل  اپنی زندگی کو سوچ رہی تھی۔اپنی آنے والی  زندگی کو سوچ رہی تھی۔۔جتنا وہ ان باتوں کو سوچ رہی تھی اتنی ہی اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔اسی  بے چینی کے حال میں وہ  جاکر بیڈ پر بیٹھی لیکن جب بے چینی ختم ناں ہوئی  تو اٹھ کر کمرے میں چکر کاٹنے لگی۔لیکن بے چینی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اسے اپنا گلا سوکھتا ہوا محسوس ہوا  تو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا جگ  اٹھا کر  پانی گلاس ڈال کر پینے لگی۔
پانی پیکر وہ بیڈ پر جاکر لیٹ گئی  اور یوں ہی لیٹے لیٹے نجانے اسے کتنی دیر گزری تھی  کہ جب ہنزہ کمرے میں داخل ہوئی ۔
اسے یوں لیٹے دیکھ کر اسکی طبیعت پوچھ بیٹھی  تو اسنے اثبات میں سرہلاکر مہمانوں کے جانے کے بارے میں پوچھا  تو وہ بولی
"ہاں چلے گئے۔لیکن تمہیں کیا ہوا ہے ؟چلو اٹھو باہر چلتے ہیں۔"اسکے یہ بولنے پر عنایہ نے کہا
"نہیں ہنزہ میرا دل نہیں کر رہا۔تم چلی جاو۔میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔"کہہ کر اسنے آنکھیں موند لیں۔تو ہنزہ  کچھ پل وہی کھڑی اسکے چہرے کو دیکھتی رہی اور پھر لائٹ آف کر کے کمرے سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
وہ دوسری چڑیل کہاں ہے ؟حسن نے اسے اکیلے لاونج میں آتے  دیکھا تو  عنایہ کے بارے میں پوچھ بیٹھا۔جس پر اسکے براطر میں بیٹھے حمزہ نے بھی سوالیہ نظروں  ہنزہ کو دیکھا تو وہ بولی
"وہ آرام کر رہی ہے۔"اسکی بات کے جواب میں حمزہ نے حیرانی  سے صرف اسکے چہرے کو دیکھنے پر اکتفا کیا۔جبکہ حسن پھر بول پڑا۔
"یہ آج کل اسے کچھ زیادہ نیند نہیں آنے لگی ؟"تو وہ اسکی سائیڈ لیتے ہوئے بولی
"تھکن ہو جاتی ہے۔"اسکی بات کے جواب میں وہ بولا
"بے شک ہوتی ہے لیکن انکو ہوتی ہے  جو کام کرتے ہیں اور جو کام ہی نہیں کرتے انکو کیسی تھکن۔اور تم دونوں نکمیاں کرتی کراتی تو کچھ ہو نہیں ۔پھر تھکن کیسی؟"
وہ اسکی بات کو سنتے ہوئے سنگل صوفے پر بیٹھتے ہو ئے بولی
"جسمانی تھکن ہی سب کچھ نہیں ہو تی۔کبھی کبھی دماغی تھکن  جسمانی تھکن سے  زیادہ بری ہوتی ہے۔"اسکی بات  پر حمزہ نے چونک کر  اسے دیکھا جو کسی کو بھی نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ وہ بول کر اب خود کچھ سوچ رہی تھی۔اسےاسطرح دیکھ کر  وہ سوچ میں پڑگیا۔
"ایسا کیا ہوا ہے کہ یہ اتنی افسردہ ہے ؟ کیا میں اس سے پوچھو ؟"اسنے دل میں سوچا اور پھر خود ہی اپنے خیالات کی تردید کر دی۔
تب ہی ملازمہ ان سب کو کھانے کے لئے بلانے آئی تو وہ  تینوں ہی اٹھ  کھڑے ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"عنایہ کدھر ہے ؟"ڈائننگ ٹیبل پر اسکی غیر موجودگی کو بی جان نے محسوس کرتے ہوئے پوچھا   تو ہنزہ بولی
"بی جان وہ سوگئی ۔اصل میں ہم لوگ کل جاگتے رہے تھے اسلئے اسے جلدی نیند آگئی۔"اسکے بتانے پر انہوں نے  اسے گھورتے ہوئے کہا
"کتنی دفعہ کہا ہے کہ روٹین ٹھیک کرو۔یہ راتوں کو جاگناصبح سونا ٹھیک نہیں ہے۔رات اللہ نے آرام کے لئے بنائی ہے اور دن کام کے لئے۔لیکن آجکل کی نوجوان نسل اس بات کو سمجھتی ہی نہیں۔"انہوں  نے بڑ بڑاتے ہوئے  کہا اور کھانا کھانے لگیں۔
کھانا کھا کر انہوں نے شہام بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"کھانے کے بعد تم دونوںاپنی بیویوں کے ساتھ میرے  کمرے میں آنا۔میں نے کچھ بات کرنی ہے۔"انکی بات سن کر وہ سر ہلا گئے۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"حسن تمہیں کیا لگتا ہے کہ اندر  کس بارے میں میٹنگ ہو رہی ہے ؟"تو وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
"یار  ہنزہ میں انسان  ہوں اور انسان ہوتے ہوئے میں یہ کیسے بتا سکتا ہونکہ اندر  کیا باتیں ہو رہی ہیں۔"تب ہی وہ عاجزی سے بولی
"پھر بھی ۔بات کیا ہوسکتی ہے ؟اسنے  ایک نظر پریشان  سی ہنزہ کا چہرہ دیکھا  اور پھر تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے بولا
"عنایہ  کے رشتے کے بارے میں ہی بات ہو رہی ہو گی۔"اسکے   بتانے پر وہ بولی
"مطلب"؟ تو اسنے کہا
"مطلب کی بچی۔یعنی کہ گھر کے بڑے اپنی اپنی رائے دے رہے ہونگے۔"تو وہ اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی
"کوئی اور بات بھی تو کر سکتے ہیں گھر کے بڑے۔"تو وہ بولا
"ہاں کر تو سکتے ہیں۔لیکن ابھی یہی بات ہو رہی ہے۔"وہ اسکے پر یقین لہجے  کو سن کر اس سے پوچھ بیٹھی   کہ 
"تمہیں اتنا یقین کیوں ہے  کہ یہی بات ہو رہی ہے ؟"تو وہ بولا
"کیونکہ میں جانتا ہوں۔"اسکے جواب پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور  بھر غصے سے بولی
"میں ہی پاگل ہوں۔جو تم سے پوچھ بیٹھی۔سیدھی طرح تو جواب ہی نہیں دیتے تم۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں داخل ہو ئی تو عنایہ  اسے  کارپٹ پر خاموش  گٹھری بنی بیٹھی دکھائی دی۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے سر اٹھاکر اندر آنے والی شخصیت کو دیکھا اور پھر دوبارہ سر گھٹنوں پر گرالیا۔
دوسری طرف ہنزہ نے جب اسے ایسے  بیٹھے دیکھا تو فورن اسکی طرف بڑھی ۔
"عنایہ ؟طبیعت ٹھیک ہے؟ایسے کیوں بیٹھی ہو؟"وہ بولتے بولتے اسکے قریب بیٹھ گئی۔"تو عنایہ نے کچھ کہنے کے بجائے اسکے کندھے پر سر رکھا اور رونے لگ گئی۔
وہ اسکی کیفیت سمجھ رہی تھی اسلئے کچھ کہنے کے بجائے  اسے صرف رونے دیا۔جب وہ رو رو کر دل کا غبار نکال چکی  تو  خود ہی اسکے کندھے پر سے سر ہٹا کر آمکھیں پونچ لیں۔ہنزہ جو اسکو روتے دیکھ کر خود بھی رو رہی تھی اسنے بھی اپنے آنسو صاف کئے  اور پھر نارمل انداز میں بولی
"چلو یار کل کا ٹیسٹ یاد کرلیں۔ورنہ مس رخسانہ  نے بہت بے عزتی کرنی ہے اور سچ پوچھو تو میرا دل اب  اس بے عزتی کو سہہ نہیں سہہ سکتا۔"اسکے مزاحیہ انداز میں کہنے  پر وہ روئی روئی آنکھوں سے مسکرائی  اور پھر کہا
"اور تم ہمیشہ انکی نظر میں رہتی ہو۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے بے چارگی سے کہا
"پتہ نہیں یار۔کیسے میں انہیں یاد رہ جاتی ہوں۔شاید وہ میری فین ہیں۔"اسکی بات سن کر وہ ہنستی چلی گئی۔اور پھر کھڑے ہوتے ہوئے کہا
"چلو آو ۔ٹیسٹ یاد  کریں۔تو وہ بھی اسکی پیروی کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔
تم لوگ کیا کہتے ہو ؟ وہ لوگ منگنی کے بجائے نکاح پر زور دے رہے ہیں۔"
بی جان اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی  اپنے بہووں  اور بیٹوں سے مشورہ  کر رہی تھیں۔انکی بات سن کر تقریبا سب ہی خاموش تھے ۔جہاں تک بات شہام بخاری کی تھی  تو انہیں عنایہ بلکل ہنزہ کی  جتنی پیاری تھی۔اور انکی خواہش تھی کہ عنایہ انکی ہی بہو بنے۔لیکن قسمت نے انکا ساتھ ناں دیا تھا۔وہ خاموش بیٹھے اپنے خیالوں میں گم تھے جب بی جان نے انہیں مخاطب کیا
"شہام  تم کیا کہتے ہو ؟ آخر تایا ہو اسکے۔"تو وہ بولے
"جو آپکو بہتر لگے بی جان۔آپ نے آج تک اس گھر کے لئے جو  بھی فیصلے کئے ہیں ٹھیک کئے ہیں۔"انکی بات سن کر انہوں نے اپنا سوال حسام بخاری سے  کیا  تو وہ بولے
"بھائی بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔جو آپ کو بہتر لگے۔وہی مناسب ہوگا۔"تب ہی انہوں نے نفیسہ بیگم   سے کہا
"نفیسہ تم اسکی ماں ہو۔تم کیا کہتی ہو ؟ تمھاری کیا رائے ہیں؟"تو وہ بولیں۔
"جو آپکی رائے ہے وہی  میری رائے ہے۔میں آپکی رائے کو دل و جان سے قبول کرتی ہوں۔"انکی بات سن  کر وہ ہلکا سا مسکرائیں اور  پھر کچھ لمحے سوچنے کے بعد بولیں
"میرے خیال میں نکاح کی تجویز جائز ہے۔اگر منگنی کے بجائے نکاح کرالیتے ہیں تو کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ان لوگوں نے ایسی خواہش نہیں کی جو ہم پوری ناں کر سکیں۔تو پھر ہم انہیں اپنی رضامندی کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔"انہوں نے اپنی بات مکمل کر کے سب کے چہروں کی طرف دیکھا جہاں اطمینان تھا ۔سکون تھا۔اور خوشی تھی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔
جب  سے نکاح کا دن طے ہوا تھا تب  سے ایک گہری چپ  اسکے ہونٹوں پر لگ گئی تھی۔پہلے تو وہ اپنے کمرے میں بند ہو جایا کرتی تھی  لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں تھا  ۔اسے کوئی جو بھی کام کرنے کو کہتا وہ خاموشی سے کر دیتی۔
اور ہنزہ کو اسکا اتنا پرسکون رہنا ہی بے سکون کر رہا تھا۔اسے علم تھا کہ وہ ٹھیک نہیں  ہے لیکن خود کو ٹھیک  ظاہر کر رہی ہے۔وہ ابھی بھی ٹی وی پر نظریں جمائے عنایہ کے بارے  میں سوچ رہی تھی  جب بی جان آہستگی سے اسکے برابر میں آبیٹھیں۔وہ انکے بیٹھنے پر بھی متوجہ ناں ہوئی  تو انہوں نے اسکا بازو پکڑ کر  ہلاکر اسے پکارا  تو وہ چونک کر اپنے خیالات سے باہر آئی۔
انہوں نے  اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا
"کیا ہوا ہے ؟ طبیعت ٹھیک ہے ؟"تو وہ بےاختیار اثبات میں سر ہلاکر رہ گئی۔
جبکہ  بی جان  اسے گہری نظروں سے گھورتی رہیں اور پھر بولیں
"تم مجھ سے کچھ چھپارہی ہو۔"انکی بات  سن کر اسنے بے ساختہ کہا
"نہیں تو۔"اسکی بات کے جواب میں انہوں نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا
"پھر کیا مسئلہ ہے ؟خاموش رہنے لگی ہو۔"تو وہ بولی
"بی جان عنایہ اب پرائی ہو جائے گی ناں۔"اسکی بات سن کر پہلے تو وہ ہنسیں اور پھر کہا
"بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں ۔"پھر بات کا رخ بدلتے ہوئے بولیں
"تم لوگ شاپنگ پر کیوں نہیں جاتیں؟نکاح میں ویسے بھی صرف آج کا دن ہے۔کل تو نکاح ہو جانا ہے۔وہ انکی بات سن کر انکا چہرہ دیکھنے لگی  تو وہ بولیں
"جاو جاکر عنایہ سے کہو کہ اپنی مرضی کا سوٹ لے آئے۔بلکہ تم رہنے دو۔"انہوں نے سامنے سے گزرتی ملازمہ کو آواز  دیکر کہا
"جاو عنایہ کو کہو  شاپنگ پر جانا ہے ۔تیار ہو جائے۔"وہ جی اچھا  کہہ کر انکا پیغام عنایہ کو دینے چلی گئی۔اسکے جانے کے بعد وہ بھی اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئیں اور اسے  کہا
"گھر جلدی واپس آنا۔تو وہ  بولی
"جی اچھا۔"
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"عنایہ باجی۔۔۔بی جان کہہ رہی ہیں  کہ تیار ہو جائیں۔شاپنگ پر جانا ہے۔"اسکی بات سن کر  اسنے سر کو ہلایا  اور پھر کہا
"اچھا  جاو۔میں آتی ہوں۔"کہہ کر پہلے اسے وہاں سے روانہ کیا اور پھر  اٹھ کر  واشروم میں جاکر منہ دھویا اور باہر آکر وارڈ روب سے چادر نکال کر اوڑھ لی۔
پھر کچھ سوچ کر اپنا پرس اور موبائل اٹھایا  اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
راستے میں اسکی نظر ٹی وی لاونج کی طرف اٹھی جہاں اسے ہمزہ بیٹھی دکھائی دی ۔اب ہی وہ اس طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ  بی جان کے کمرے سے نفیسہ بیگم نکلیں اور  انکی نظر عنایہ پرپڑی تو وہ اسکے پاس چلی آئیں۔۔
"تمہیں تیار ہونے کو بولا تھا اور تم نے صرف  چادر اوڑھی ہے۔کپڑے بھی نہیں بدلے۔"انکی بات سن کر وہ بے زاری سے بولی
"میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔"انہوں نے اسکی بے زاری کو نوٹس تو کیا لیکن کچھ کہنے کے بجائے  ہنزہ کو آواز دی۔
کچھ دیر بعد وہ وہاں آموجود ہوئی تھی۔انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"جاو ہنزہ تم بھی جاکر چادر کر آو۔اور  اسکے ساتھ شاپنگ پر چلی جاو۔یہاں پہلے ہی بہت کام  ہیں۔ہم نے یہ سب سمیٹنا ہے۔انکی بات سن کر وہ سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔جبکہ عنایہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر اسکے آنے کا انتظار کرنے لگی ۔
کچھ منٹوں کے بعد وہ بھی چادر اوڑھ کر آگئی تو عنایہ اسے دیکھتے اٹھ کھڑی  ہوئی۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔
تمام راستہ دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات ناں کی تھی۔اس وقت ان دونوں کو دیکھ کر کوئی  یہ کہ بھی نہیں سکتا تھا  یہ لوگ بغیر سانس لئے گھنٹوں سیک دوسرے سے باتیں کرتی  تھیں۔اسی خاموشی میں دونوں نے شاپنگ کی اور گھر چلی آئیں۔
ابھی وہ  گیٹ سے اندر داخل ہوئی ہی تھیں کہ انہیں  پورچ میں رحمانہ پھوپھو کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔
دونوں ہی آگے پیچھے چلتی لاونج میں  داخل ہوئیں  تو سب سے پہلی نظر خالدہ بیگم کی ہی ا ن پر پڑی۔
"آگئی بچیاں۔"انکے بولنے پر سب  نے گردن گھما  کر انکی طرف دیکھا ۔
تب تک وہ  بھی انکے پاس پہنچ چکیں تھیں۔
پھوپھو سے ملنے کے بعد عنایہ تو تھکن کا کہہ کر  اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ ہنزہ وہی بیٹھی رہی۔
"کیسی رہی شاپنگ ؟"اچانک بی جان نے  اس سے پوچھا تو  وہ  بولی
"اچھی رہی بی جان۔"تب ہی ولی نے کہا
"سب ہی خواتین شاپنگ کو اچھا بولتی ہیں۔بھلے ہی وہ کیسی  ہی بکواس شاپنگ کیوں ناں ہو۔"اسکی بات سن کر سب ہی مسکرائے۔جبکہ وہ بولی
"میں خواتین میں شمار نہیں ہوتی۔لڑکی ہوں میں لڑکی۔"اسنے ہر ایک لفظ چبا چبا کر کہنے پر  سب کے چہروں پر دوبارہ مسکراہٹ آئی ۔جبکہ سلمان صاحب بھی اسکے بچکانہ انداز پر مسکرائے۔
اچانک ہی انہیں شزا کا رویہ  یاد آیا۔اور دوسرے ہی لمحے ایک خیال سے انکی آنکھیں چمکنے لگیں۔
تب ہی ولی کی آواز  انہیں خیالات سے باہر لے آئی جو اب بھی ہنزہ کو چھیڑ رہ تھا۔انہوں نے دل ہی دل میں اپنے خیال کے بارے میں رحمانہ بیگم کو آگاہ کرنے کا سوچا اور  پھر دونارہ سب کی طرف متوجہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
رات جب سب اپنے اپنے کمروں میں  چلے گئے تو ہنزہ بھی اپنے کمرے میں چلی آئی۔
کمرے میں داخل ہومے کے بعد اسنے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا  تو اسے ٹیرس کا دروازہ کھلا نظر آیا۔وہ سمجھ گئی کہ عنایہ بھی وہی ہے۔
کچھ سوچ کر  وہ بھی ٹیرس کی طرف بڑھ گئی۔
کسی کے آنے کااحساس اسے ضرور  ہوا تھا اور اسے یہ بھی علم تھا کہ کون ہے تب ہی نارمل انداز میں کھڑی رہی اور پھر اچانک بولی
"ہنزہ  تم نے ایک دفعہ کہا تھا ناں کہ میں اگر چاہو تو  تمہارے  کندھے پر سر رکھ کر رو سکتی ہو ۔تم سے اپناغم شئیر کر سکتی ہوں۔اسکے سوال پر ہنزہ ساکت سی اسے دیکھتی رہی ۔جبکہ وہ اسکے جواب کا انتظار کئے بغیر بولی
"کچھ دنوں سے مجھے ایسا لگ رہا ہے میرے اندر  سے سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔حتی کہ زندہ رہنے کی خواہش بھی۔میں نہیں جی پاونگیں ہنزہ۔مجھے بچالو۔مجھے موت سے بچالو۔مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔ممم۔۔۔۔۔۔۔مجھے قبر سے ڈر لگتا ہے۔ لیکن مریرے اندر سے زندگی دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہے۔مجھے بچالو۔"اسکے آہستہ آہستہ بولنے میں بھی جو درد تھا ہنزہ کا دل اس درد سے کٹ رہا تھا۔وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور اسے گلے لگا گئی۔
مجھ۔۔۔۔۔۔مجھ میں حوصلہ نہیں ہے ہنزہ ۔میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔میری مدد کرو۔اسکے منہ میں جو آرہا تھا وہ بولے جا رہی تھی۔جبکہ ہنزہ خاموشی سے اسے سنتے روئی جا رہی تھی۔
جب وہ بول بول تھک گئی تو خود ہی اس سے پیچھے ہٹی۔تب  ہی ہنزہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"میں۔۔۔۔میں بابا سے بات کرتی ہوں۔وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔وہ بول کر جیسے ہی جانے لگی تو عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا
"مجھے پتہ ہے تایا ابو وہی کریں گے جو میری خواہش ہے۔لیکن میں۔۔۔۔وہ تزبزب کے عالم میں کھڑی سوچتی رہی اور  پھر بولی تو بس اتنا کہ 
"تم کسی کو کچھ نہیں بتاوگی۔وعدہ کرو۔اسکی اس بات پر ہنزہ نے غصہ اور حیرانگی بھری نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا  اور پھر کہا
"نہیں میں بتاونگی۔میں یہ سب نہیں ہونے دونگی۔"تو عنایہ نے دونوں ہاتھ اسکے آگے جوڑتے ہوئے کہا
"میں منت کرتی ہوں۔تمہیں میری قسم۔تم وعدہ کرو کہ تم کسی کو یہ بات نہیں بتاوگی۔وہ اسکی بات سن کر سکتے کے عالم میں کھڑی رہی اور پھر دھیرے سے بولی
"میں نہیں بتاونگی"۔اور پھر  اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
"عنایہ یہ ظلم مت کرو اپنے ساتھ۔"تو اسنے جواب دینے کے بجائے بس ایک زخمی مسکراہٹ لئے اسے دیکھا اور  پھر کہا
"میں کہاں کر رہی ہوں ظلم ۔میرا نصیب ہی ظالم ہے۔ہر دفعہ ایسا وار کرتا ہے کہ میں بلک اٹھتی ہوں۔وہ یہ کہہ کر اسکے کندھے لر سر رکھ کر پھر سے رونے لگ گئی۔
جبکہ وہ اسے چپ کراتے کراتے خود بھی رونے لگ گئی۔
رات دونوں کی یونہی بیٹھے بیٹھے گزری تھی۔
صبح ہو ئی تو  افراتفری میں سب لوگ اپنے اپنے زمے لگے کام کرنےلگ گئے تھے۔
تقریبا پانچ بجے کے قریب بیوٹیشن اسے گھر آکر تیار کر گئی تھی۔
اب اس وقت سوائے اسکے اور  عنایہ  کے کمرے میں کوئی  بھی نہیں تھا۔جب  بیوٹیشن نے اسکا پیلا پڑتاچہرہ دیکھا ۔اسکا دوپٹہ کو سیٹ کرتا ہا تھ وہی رک گیااور پھر اسنے فکر مندی سے اس سے پوچھا
"آپ ٹھیک ہیں؟"تو وہ بولی
"میرا دم گھٹ رہا ہے۔"بیوٹیشن اسکی حالت دیکھ کر گھبرا گئی تھی فورن کمرے سے باہر نکلی اور کوریڈور سے گزرتی ہنزہ کو دیکھا تو  فورن اسکے پاس گئی  اور جاکر کہا
"وہ آپکی کزن کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔"ہنزہ نے اسکی بات بھی پوری ناں سنی تھی  کہ فورن کمرے کی طرف ڈور لگا دی۔
جیسے ہی وہ کمرے میں پہنچی تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ سکتے میں آئی اور پھر تیزی سے آگے بڑھی۔
"عنایہ۔۔۔"اسنے کارپٹ پر بے جان  انداز میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی عنایہ کو پکارا 
اسکی آواز سن کر عنایہ نے اپنی نم آنکھیں کھولیں  اور پھر سوکھتے لبوں   سے  بمشکل  بولی
"میرا دم گھٹ رہا ہے ہنزہ۔۔۔۔مم ۔۔۔مجھ۔مجھے  اندھیرے سے خوف آتا ہے۔۔۔اسمے یہ کہہ کر اسکا ہاتھ ایسے پکڑا جیسے کوئی اپنے آخری سہارے کو پکڑتا ہو۔۔
ہنزہ کو اسکی کیفیت ڈرا رہی تھی۔وہ اٹھی اورکسی کو بلانے کے لئے بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔
بی جان۔۔۔۔۔مما۔۔۔۔بابا۔۔۔۔عنایہ کی طبیعت خراب ہو رہی ہھ۔وہ ریلنگ سے نیچے جھکی سب کو آوازیں دے رہی تھی۔
گھر میں سب ہی مہمان موجود تھے۔انہوں نے  جب یہ آواز سنی  تو فورن سب اوپر کی طرف بھاگے۔
وہ دوبارہ پاگلوں کی طرح  اپنے کمرے میں گئی  جہاں عنایہ  تھی۔
اب وہ بیٹھے  سے زمیں پر جھک گئی تھی۔منہ کارپٹ پر لگا ہوا تھا۔ہمزہ نے اسکے پاس پہنچ کر اسکا  سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا اور پھر کچھ عجیب سا محسوس ہونے پر  فورن نیچے جھک  کر اسکے سینے پر سر رکھ کر اسکی دھڑکنوں کو سننے لگی۔
جو بلکل دھیمی ہو رہی تھیں۔اسمے گھبراکر اسکا ہاتھ پکڑا اور زور سے چیخی
عنایہ۔۔۔۔آنکھیں کھولو۔۔۔۔عنایہ۔۔۔۔۔کوئی ہے اسے بچاو۔یہ مر رہی ہے۔وہ صرف یہ دو جملے بولے جارہی تھی۔اور کوئی دوسرا لفظ اسکے منہ سے نکل ہی نہیں رہا تھا۔
کیا ہوا  کیا ہوا۔۔۔کی آوازیں ہر طرف گونج رہی تھیں۔تب ہی بی جان  نفیسہ بیگم اسکے کمرے میں آکر اسکے پاس بیٹھ گئے تھے۔
"عنایہ بچے"۔۔بی جان نے اسکسا پسینہ سے تر چہرہ کو تھپتھپایا  اور پھر اسکے چہرے کی رنگت دیکھ کر اندر آتے حسن کو  دیکھ کر زور سے بولیں۔
"حسن اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاو۔میری بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے جاو۔۔۔وہ انکی بات سن کر گھبراتا ہوا آگے بڑھا اور پھر   بے ہوش ہوئی عنایہ کو اٹھاکر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اسکے پیچھے روتی ہوئی نفیسہ اور خالدہ بیگم بھی تھیں۔جبکہ ہنزہ وہیبیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔
"میری بچی۔۔۔"بی جان منہ پر ڈوپٹہ ڈال کر رونے لگیںاور پھر اچانک انکے منہ سے نکلا
"یا میرے مولا مجھے اس عمر میں  دکھ ناں دکھانا۔کہہ کر وہ دوبارہ رونے لگیں۔
"یہ حسن کسے اٹھاکر لا رہا ہے ؟"گلاس ڈور کھول کر اندر آتے حمزہ نے سیڑھیوں سے اترتے حسن کو دیکھا اور ہھر اسکے پیچھے اپنی ماں اور تائی کو۔
ابھی وہ صورتحال سمجھ ہی رہا تھا کہ حسن اسکے پاس آکر بولا
"اسکی طبیعت بگڑ گئی ہے۔ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔"کہہ کر وہ فورن اسے اٹھائے باہر کی طرف بھاگا تو اسنے بھی کچھ بات سمجھتے کچھ ناں سمجھتے اسکے پیچھے ڈور لگا دی۔
"تم یہی رہو نفیسہ۔میں جاتی ہوں۔تمھارا اپنا بی پی لو ہو رہا ہے۔"انہوں نے روتی ہوئی نفیسہ بیگم کو بولا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولیں
"میری بچی بھابھی"تب ہی کوئی ان کے پاس بھاگ کر آیا اور آکر بتایا کہ بی جان کی طبیعت بگڑ گئی ہے۔"تو خالدہ بیگم انکو دیکھنے اندر کی طرف بھاگیں۔جبکہ نفیسہ بیگم عنایہ کو لیکر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔
اسکا سر انکی گود میں تھااور ہاتھ انکے ہاتھ میں۔نجانے  کس احساس کے ساتھ   اچانک  اسکے سینے  پر رکھے ہاتھ کے نیچے  اپنے ہاتھ کو انہوں نےتعجب سے  دیکھا ۔انہیں ایسا محسوس ہوا تھا جیسے اسکی دل کی ڈھرکنیں تھم گئیں ہو۔
انہوں نےبہت زور سے  ڈھرکتے دل کے ساتھ  اپنا کان اسکی دل کی جگہ پر رکھا  اور پھر کوئی آواز ناں سن کر وہ کچھ لمحوں کے لئے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
"مما آنے والا ہے ہسپتال۔"حسن نے بھرائی ہوئی آواز میں گردن موڑ کر انہیں تسلی دینی چاہی تب ہی  وہ جیسے سکتے میں بولیں
"یہ مر گئی ہے۔انکے  اس جملہ پر بے ساختہ حمزہ کا پاوں بریک پر پڑا اور حسن تو انکی بات پر تڑپ کر رہ گیا۔وہ ماں جایا تھا۔۔کیسے اس بات کو برداشت کرتا۔
"مما ۔۔۔ہسپتال۔۔۔ابھی وہ بول ہی رو رہا تھا کہ وہ زور سے چیخی
"تمہاری بہن مر گئی ہے۔مر گئی میری عنایہ۔۔مجھے لادو میری بچی۔۔۔"انکی بات سن کر تو حسن تو وہیں برف کی طرح جم گیا۔
تب ہی  حمزہ ہمت کرتے ہوئے دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر نکلا۔
یہ ایک کشادہ گلی تھی۔مصروف شاہراہ نہیں تھی۔اسلئے وہ آرام سے گاڑی روک گیا تھا۔
اسنے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور  پھر نیچے جھک کر اسکا نیچے گرا ہاتھ پکڑ کر نبض چیک کی۔اس دعا کے ساتھ کہ  ڈھرکنیں چل رہی ہوں۔لیکن  حقیقت کا ادراک ہوتے ہی اسنے ہاتھ سے اسکا ہاتھ چھوٹ کر نیچے گرپڑا۔۔اور اسنے بے یقینی سے عنایہ کا چہرہ دیکھا
اسکی یہ حالت دیکھ کر حسن نے اسے پکارا تو وہ  جیسے خواب سے باہر آیا اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر جتنی تیز گاڑی چلا سکتا تھا  چلانے لگا۔راستے میں کتنے ہی جگہ انکا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔لیکن وہ اس سب سے لاپرواہ  گاڑی چلا رہا تھا۔
آنکھیں اسکی ہر دم لال ہوتی جارہی تھیں۔
وہ یہاں اپنے شک کی تصدیق کرانے آیا تھا۔وہ اب بھی دل میں دعا کر رہا تھا کہ یہ جھوٹ ہو۔
گاڑی جیسے ہی ہسپتال کے سامنے رکی  تو اسے اسٹریچر پر لٹاکر اندر لے جانے لگے۔
ابھی وہ ایمرجنسی کے قریب پہنچے ہی تھے  ایک ڈاکٹر  بھاگتا ہوا انکے پاس آیا ۔۔اسے دیکھتے ہی حسن نے عنایہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اسکی طبیعت ۔۔۔۔ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ اسنے ڈاکٹر کے چہرے پر عجیب سے تاثرات دیکھے ۔۔۔ڈاکٹر نے  اسکی بات پوری سنے بغیر اسکی نبض چیک کی ۔۔اسکا چیک اپ کیا اور پھر  مایوسی سے بولا
سوری۔شی از ڈیڈ۔۔۔۔
انکے اس جملہ کو وہاں ابھی پہنچے حسام بخاری اور شہام بخاری نے بھی سنا تھا۔۔۔اور ان دونوں کے قدم وہی بے جان ہو گئے تھے۔
انکے پیچھے آتی  بی جان چادر سے ڈھکا وجود دیکھ کر  گر پڑی تھیں۔
نفیسہ بیگم کے بین  وہاں ہر کوئی سن رہا تھا۔اور خالدہ بیگم  تو جیسے شاکڈ میں تھیں۔ہاتھوں پلی بچی انکے ہاتھ سے موت کے منہ میں چلی گئی تھیاور وہ کچھ نہیں کر پائی تھی۔
انہوں نے ساکت نگاہوں سے اسکے سفید چادر میں لپٹے وجود کو دیکھا اور انہیں اسکی پیدائش یاد آنے لگی۔
گلابی کمبل میں لپٹی وہ گلابی سی بچی جسے ڈاکٹر نے سب سے پہلے انہیں ہی لاکر دیا تھا۔۔۔
وہ پتھرائی ہوئی نگاہوں سے  اسکے وجود کو دیکھی جارہی تھیں۔
۔۔۔۔۔*۔ ۔۔۔۔۔
ہنزہ گھر میں بیٹھی ٹکر ٹکر سب لوگوں کی باتیں سنتی جارہی تھی۔جب ملازمہ اسلے پاس آئی اور آکر روتے ہوئے کہا
"باجی ہسپتال فون کریں۔۔پتہ کریںعنایہ باجی کا۔"اسنے چونک کر اسکی طرف دیکھا  اور پھر بڑ بڑائی
"ہاں مجھے پتہ کرنا چاہیے۔"ابھی وہ بول ہی رہی تھی  کہ  گیٹ سے باہر گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئی تو وہ فورن اپنا ہاتھ چھڑاتی گلاس ڈور کھول کر باہر نکلی
لیکن سامنے کے منظر کو دیکھ کر  وہ اپنی چیخ روکتی وہیں بیٹھتی چلی گئی۔
کسی کی لاش کو  کندھوں پر اٹھا کر لایا جا رہا تھا۔جس جس نے بھی یہ منظر دیکھا تھا سب کی چیخیں نکل گئیں تھیں۔
ایک آہ و بکا تھی ۔۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔پھر اس لاش کو لاکر چارپائی پر رکھ دیا گیا تھا۔ پھر اسکی نظر بی جان پر پڑی  جنہیں حمزہ اندر لا رہا تھا۔وہ تو جیسے ہوش میں ہی ناں تھیں۔پھر اسنے نگاہیں گھماکر  سفید کپڑے سےڈھکے اس وجود کو ساکت نظروں سے  دیکھا  ۔
وہ قیامت تک نہیں چاہتی تھی کہ اسے یہ معلوم ہو کہ اس سفید کپڑے کے نیچے کسکا وجود ہے۔
مہمان آہستہ آہستہ لاش کے گرد جمع ہو نے لگے تھےبین کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں۔
پھر اسنے روتی دھوتی نفیسہ اور خالدہ بیگم کو آتے دیکھا۔اسنے دروازے کو تھام کر  خود کو کھڑا کیا  اور آہستہ آہستہ چلتی لاش کے قریب پہنچ گئی۔چہرہ اب بھی لاش کا ڈھکا تھا۔
پھر اسنے ہاتھ بڑھاکر لاش پر سے کپڑا ہٹا دیا۔سامنے ہی عنایہ کا چہرہ نظر آرہا تھا۔
ہر وقت کے   بولتے ہونٹ اس وقت خاموش تھے۔ستارہ کی سی چمکتی  آنکھیں آج ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی  تھیں۔اسکا چہرہ دیکھتے ہی اسکا ہاتھ ڈھلک کر نیچے ہو گیا۔وہ بے یقینی سے اسے دیکھی جا رہی تھی۔لوگ آگے بڑھ بڑھ کر عنایہ کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
جبکہ اسکے کانوں میں عنایہ کی آواز گونج رہی تھی۔
"مجھے پسند نہیں کہ لوگ مجھے دیکھیں۔میں کوئی عجوبہ تھوڑی ہوں۔"جیسے ہی اسکی آواز اسکے کانوں میں گونجی 
اسنے  چونک کر  اپنے برابر میں دیکھا اور پھر نا امید ہوتے ہوئے سامنے پڑی عنایہ کو دیکھا تب ہی ایک اور آواز اسکے کانوں میں گونجی
"مجھ ۔۔۔مم۔مجھے بچالو  ہنزہ ۔۔۔مجھے موت سے ڈر لگتا ہے مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔وہ اس آواز کو سنتے ہی اسکی چارپائی کے پاس ڈھے گئی۔
"مجھے قبر سے ڈر لگتا ہے۔"ایک اور آواز اسکے کانوں میں گونجی تو آنسو اسکے چہرے کو بھگونے لگے ۔
"کچھ دنوں سے میرے اندر سے سب کچھ ختم ہو رہا ہے ہنزہ۔۔۔۔حتی کہ زندہ رہنے کی خواہش بھی۔۔۔۔"جیسے ہی یہ آواز اسکے کانوں میں گونجی  تو بے ساختہ اسکے منہ سے چیخ نکلی
"عنایہ۔۔۔۔۔"لیکن اس آواز کو سننے والی دور جا چکی تھی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

محبتوں کا موسم(complete)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora