Episode 12

119 5 21
                                    

تو ہنزہ جو اب تک سن بیٹھی تھی اچانک اٹھی اور اس سے پہلے کہ وہ دروازہ سے باہر نکلتیں وہ انکے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
انہوں نے اسے سامنے کھڑے دیکھا توغصے سے بولیں
"کیا مسئلہ ہے ؟"انکے کہنے کی دیر تھی کہ وہ انکے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے بولی
"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔"اسکی بات سن کر وہ جیسے ٹھنڈی پڑ گئیں اور پھر نرمی سے اسے خود سے ہٹا کر اسکا چہرہ دیکھا جو پیلا لگ رہا تھا۔۔
تمام سوچوں کو جھٹک کر انہوں نے اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولیں
"تم اس پر سوچ لو ہنزہ۔میں اور تمھارے بابا اتنے بے حس نہیں ہیں کہ بچوں کی مرضی کے خلاف جائیں۔لیکن ہم بےبس ہیں۔"انہوں نے آہستگی سے کہہ کر اسے گلے سے لگایا تو وہ انکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی
"نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔"اسکی بات پر انہوں نے نرمی سے اپنی گرفت اس پر مضبوط کی اور پھر بولیں
"بہت شکریہ ہنزہ ۔بی جان کی بھی یہی خواہش تھی کہ تم وصی کی دلہن بنو اور مجھ میں اور تمھارے بابا میں اتنی ہمت نہیں کہ اب دوبارہ سے بی جان کی خواہش کو جان کر بھی پورا ناں کر سکیں۔اور سچ بتاو تو حمزہ نے عنایہ کے رشتے سے انکار کر کے میرا اور تمھارے بابا کا سر اتنا جھکا دیا ہے کہ ہم کبھی گھر ولوں کے سامنے اٹھا ہی نہیں سکتے۔"وہ بے بسی سے بولیںتو ہنزہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی
"وہ نصیب کا کھیل تھا ۔"اسکی بات سن کر انہوں نے آہستگی سے ہاں کہا اور پھر اسکا ماتھا چوم کر ہاں سے چلی گئیں۔جبکہ وہ بے جان ہوتی ٹانگوں سمیت بیڈپر بیٹھتی چلی گئی۔
اور پھر اچانک بڑبڑائی
"یہ ہے میرا نصیب۔جس جگہ جانے سے میں جتنا بھاگتی رہی قسمت مجھےآ خر وہی لے گئی۔"کہہ کر وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپاکر رودی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
ہاں کرتے ہی دونوں طرف زور و شور سے منگنی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ایسے ہی ایک دن وصی اپنے پاپا کے ساتھ لاونج میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا جب رحمانہ بیگم شاپنگ سے تھکی ہاری واپس آئیں ۔اور صوفے پر سلمان صاحب کے برابر میں بیٹھ گئیں۔
"سکینہ۔۔۔۔پانی لو۔"انہوں نے تھکے تھکے انداز میں ملازمہ کو آواز دی ۔
تب ہی سلمان صاحب نے مسکراکر پوچھا
"ہوگئی شاپنگ ؟"تو وہ بولیں
"ابھی کہاں۔۔۔۔"انکو جواب دیکر انہوں نے ملازمہ کا لایا یوا پانی پیا اور پھر گلاس اسے تھمادیا۔جب وہ وہاں سے چلی گئی تو وہ وصی کومخاطب کرتے ہوئے بولیں
"تمھاری منگنی کی تیاریوں نے مجھے اتنا تھکا دیا ہے تو شادی کے وقت کیا ہوگا۔اب واقعی بڑھاپا آگیا ہے۔"تب ہی وہ ہنستے ہوئے بولا
"تو آپکو کس نے کہا تھا کہ منگنی کا جھنجھٹ پالیں؟ڈائیریکٹ شادی کی بات کرتیں اور کرنے کی وجوہات بھی زیر غور لاتیں کہ آپ اکیلی ہے یہ وہ۔تو وہ کبھی بھی آپکی بات سے اختلاف ناں کر پاتیں۔"اسکی بات سن کر سلمان صاحب بولے
"کہہ تو ٹھیک رہا ہے۔"تو وہ سوچتے ہوئے بولیں
"اسطرف میرا دھیان کیوں ناں گیا پہلے؟میں بی جان سے بلکہ نہیں میں وہا ں جاکر بھسئی سے بات کرونگی۔"وہ زیر لب بڑبڑائیں اور دل میں معصم ارادہ کیا کہ وہ لازمی اس سلسلے میں بات کریں گی۔
۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"تم ٹھیک کہتی ہورحمانہ ۔لیکن ہنزہ کی ابھی پڑھائی بھی تو مکمل نہیں ہوئی ۔"بی جان نے سوچتے ہوئے کہا تو وہ بولیں
"وہ سب تو ہے بی جان لیکن ہنزہ شادی کے بعد بھی توطپڑھ سکتی ہے۔میں کونسا منع کرونگی اور وصی بھی نہیں منع کریگا۔آپ میری مجوری کو سمجھیں۔میعی طبیعت سب کچھ وقتسے بہت خراب رہنے لگی ہے۔"وہ لجاجت سے بولیں تو شہام صاحب نے سب کے چہروں پر نظریں ڈوراتے ہوئے کہا
"میرے خیال میں اتنا ناجائز مطالبہ بھی نہیں ہے رحمانہ کا۔اس بے چاری کی بھی مجبوری ہے۔اور پھر ہنزہ شادی کے بعد بھی اپنی پڑھائی مکمل کر سکتی ہے۔شہام بخاری کی نیم رضامندی کر بی جان نے بھی تھوڑے سے اعتراض کے بعد انکی بات مان لی۔
"شکریہ بھائی۔۔۔میں آپکا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکتی۔"انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تو جواب میں شہام صاحب نے جوابن کچھ بھی کہنے کے بجائے اٹھ کر انکے سر ہاتھ پھیر کر بولے
"عنایہ کے بعد زندگی اب قابل بھروسہ نہیں لگتی۔اسلئے جو کام جتناجلدی ہو اتنا ٹھیک ہے۔کہہ کر وہ نم آنکھوں سے وہاں چل دئیے۔جبکہ عنایہ کے زکر پر باقی سب بھی ملول سے بیٹھےتھے کہ اچانک نفیسہ بیگم کے منہ سے بے آواز نکلا
"میری پھول سی بچی۔۔"اورپھر ڈوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر رونے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
جہاں پہلے منگنی کی تیاریاں ہو رہی تھیں وہاں اب شادی کی تیاریاں ہونے لگی تھیں۔
ہر چیز عمدہ سے عمدہ ترین تھی۔آخر کیوں ناں ہوتی۔
دونوں گھروں میں یہ پہلی شادی تھی۔تو سج دھج اور رونق تو ہونی ہی تھی۔
ان مصروفیت سے بھرےدنوں میں وہ خاموشی سےگھر میں ہونے والے ہنگامے کو دیکھتی رہتی اور پھر چادر میں منہ لپیٹ کر لیٹ جاتی۔
عجیب سی افسردگی تھی جسے وہ کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔شاید گھر چھوٹنے کا دکھ تھا یا کچھ اور ۔وہ یہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔لیکن جو بھی تھا اسکا دل کہتا تھا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔
یوں ہی زمدن گزرتے چلے گئے اور نکاح کا دن آپہنچا ۔
مہندی کا دن ناں صرف مہندی کا دن تھا بلکہ آج نکاح بھی تھا۔
ایک عجیب سی بےچینی اس پر طاری تھی۔
مہندی کا فنکشن شروع ہونے سے پہلے مولوی صاحب ،شہام صاحب اور دوتین لوگ اور اسکے کمرے میں آکر اس سے قول و ایجاب وغیرہ قبول کرا گئے تھے۔
اور کچھ دیر کے بعد وصی سے بھی قول وایجاب کو قبول کرولیا گیا تھا۔
مہندی کافنکشن چونکہ دونوں گھرانوں نے باہمی مشورے سے مشترکہ رکھا تھا۔جسکے نتیجے میں اسکی اور وصی کی رسم ایک ساتھ ہی ہونی تھی۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے اسکی کزنز اسے باہر لے جاکر وصی کے برابر مین بٹھا آئیں تھیںاور وہ جو پہلے ہی بے چینی کاشکار تھینکاح کے بعد عجیب بے حسی خود میں محسوس کر رہی تھی۔
اسے اپنا آپ ایک ربورٹ کی طرح محسوس ہو رہا تھا جو سب کے اشاروں پر چل رہا تھا۔
وہ خاموش بیٹھی اپنی کزنز کے قہقہوں کو سن رہی تھی کہ اچانک اسے وصی کی آواز سنائی دی جو اس سے مخاطب تھا۔وہ بے خیسلی میں اسکی باتوں کو دھیان سے سننے لگی۔
"بہت سکون میں تھی ناں تم۔۔۔۔اب تمہیں سمجھ آئے گا کہ بے چینی کسے کہتے ہیں۔"اسنے اپنی بات مکمل کر کے اسکے لمبے سے گھونگھٹ کو گھورا ۔
ابھی وہ اسکے گھونگھٹ کو گھور ہی رہا تھا کہ جب کیمرہ مین نے اسے اپنی طرف دیکھنے کا کہا تو وہ اسکی طرف دیکھنے لگ گیا۔جبکہ وہ حیرت سے اسکی باتوں کو سوچے جارہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
رات گئے جب فنکشن ختم ہوا تو وہ جان چھوٹنے پر شکر ادا کرتی کافی بناکر ٹیرس پر آکھڑی ہوئی۔
ٹیرس کی ریلنگ پر اپنا کپ رکھ کر وہ گزرے دنوں کو یاد کرنے لگی۔
کتنے ہی راتیں اسنے اور عنایہ نے کبھی یہاں کھڑے ہو کر باتیں کرتے گزاری تھیں ۔کتنی خوشیاں اور کتنے ہی غم انہوں نے ساتھ منائے تھے۔
عنایہ کی یاد آتے ہی بے ساختہ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
کتنی دور چلی گئی ہو عنایہ ۔۔میں چاہ کر بھی تم سے اپنا کو ئی دکھ سکھ نہیں بانٹ سکتی۔یہ سوچ کر کتنے ہی آنسو اسکے چہرے پر بہہ گئے۔
یوں ہی روتے روتے اسکی نظریں اپنے ہاتھوں کی مہندی پر پڑی تو اسے وصی کی بات یاد آئی۔کچھ دیر وہ اسکی بات کو سوچتی رہی اور پھر اچانک اسے کبھی کہی عنایہ کی بات یاد آئی جو اسنے ولی سے کہی تھی۔
"یار ولی یہ وصی بھائی اتنے عجیب سے کیوں ہیں ؟اسکی بات سن
کر وہ بولا
"کیوں کچھ کہا ہے کیا انہوں نے ؟تمہیں تو خیر سے وہ اپنی بہن مانتے ہیں۔"اسکے حیرت زدہ ہوکر پوچھنے پر عنایہ بولی
"نہیں مجھے تو کچھ نہیں کہا لیکن عنایہ کو آج پھول توڑنے پر ڈانٹا تھا۔"اسکی بات سن کرولی نے سر جھٹکتے ہوئے کہا
"تم انکی باتوں کو سیریس مت لیا کرو۔وہ کسی کا بھی غصہ کسی پر بھی نکال دیتے ہیں۔کہہ کر وہ اور عنایہ اپنی باتیں کرنے لگے تھے۔"
یہ بات یاد آتے ہی وہ خود سے بولی
"شاید کسی اور کا غصہ مجھ پر اتار رہے ہو۔"سوچ کر وہ کندھے اچکا کر کافی پینے لگی۔
۔۔۔۔۔۔*۔ ۔۔۔۔۔
"تم۔۔۔۔تم شادی کر رہے ہو ؟"شزا نے تقریباچیختے ہوئے کہا تو وہ بولا
"ہاں تم آوٹ آف کنٹری تھی تب ہی تمہیں بتا نہیں سکا۔اور میں کچھ بزی تھا اسلئے تم سے خود کانٹیکٹ نہیں کیا۔"وہ اپنی بات کہ کر اسکی بات سننے لگا جو اب غم زدہ سی بول رہی تھی
""تمہیں علم تھا وصی کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔لیکن تم۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر رونے لگی جبکہ وہ گہری سانس لیکر بولا
"آئی نو کہ تم میرے لئے دوست سے زیاد ہ کے جزبات رکھتی تھی لیکن میں کبھی حد سے آگے نہیں بڑھا۔جو کچھ ہوا اس میں میری کوئی بھی غلطی نہیں ہے۔لیکن پھر بھی میں معذرت کرتا ہوں۔اسکی بات سن کر وہ ہذیانی انداز میں ہنسی اور ہنستی چلی گئی۔پھر رک کر بولی
"تم ایک گھٹیا انسان ہو۔کہہ کر کال ڈراپ کر دی جبکہ وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔
۔۔۔*۔۔۔۔
باقی آئندہ

محبتوں کا موسم(complete)Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin