"ارے ہاں ۔۔۔۔یاد آیا !" عنایہ نے اچانک کچھ یاد آنے پر ہنزہ کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا۔جس پر پہلے تو ہنزہ نے اسے گھورا اور پھر کہا
"یہ ہاتھ زرا کم چلایا کرو۔اور ہاں بتاو کیا کہہ رہی تھی تم ؟" تو وہ بولی
"کل حمزہ کہاں گیا ہوا تھا؟ تائی امی اور مما دونوں ہی اسکا انتظار کر رہی تھیں۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا
"رمضان کی امی طبیعت خراب ہو گئی تھی تو وہ وہی گیا تھا۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا
"لیکن یار تم نے نوٹ کیا ہے کہ آج کل حمزہ انکے یہاں بہت جانے لگا ہے ۔"اسکی بات پر ہنزہ نے اسکا پر سوچ چہرہ دیکھا اور دل میں سوچا
"اسے بھی علم ہو گیا ہے کیا" لیکن پھر بے فکرانداز اپناتے ہوئے کہا
" وہ تو شروع سے ہی وہاں جاتا ہے۔اس میں نئی بات کیا ہے ؟ "تو عنایہ نے سامنے دیوار کی دیوار کو دیکھتے ہوئے کہا
"وہ انکی جو بہن ہے رمضان بھائی کی ۔مجھے زرا نہیں پسند۔آج آئی تھی ہمارے یہاں۔اپنی آپی کے ساتھ شکریہ ادا کرنے کہ بروقت حمزہ انکی امی کو ہسپتال لے گیا تھا۔ورنہ نجامے کیا ہو جاتا ۔اور تب ہی حمزہ وہاں کسی کام سے آیا تھا تو وہ اسے دیکھ کر بھی مسکرائی تھی۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا
"تو پھر ؟ کیا ہوا ہے ؟" تو وہ بولی
"یار مجھے وہ لڑکی ہی عجیب لگی ہے۔اپنی طرف خود حمزہ کو متوجہ کر رہی تھی۔"عنایہ کے بتانے پر ہنزہ نے کہا
"ویسے یہ بات میں نے بھی بہت دفعہ نوٹس کی ہے۔وہ باتوں باتوں میں حمزہ کا زکر کرنے لگتی ہے۔ لیکن خیر ہمیں کیا۔اگر حمزہ کو پسند ہے تو پھر ہمیں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔"ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ اسکے موبائل پر اسکی دوست کی کال آنے لگی تو موبائل اٹھاکر ٹیرس پر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ پیچھے عنایہ اپنے بیڈ پر بیٹھی اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
"واقعی یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔کیا پتہ وہ بھی اسے پسند کرتا ہو۔یہ سوچ کر ہی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسکے دل میں چبھن ہوئی ہو۔"بے ساختہ اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔اور دل میں بے ساختہ کہا
"یا اللہ !ایسا کیوں ہوا؟میں نے تو کبھی اسطرح کے خیال کو بھی دل میں آنے ناں دیا کہ وہ کسی کو پسند بھی کر سکتا ہے۔اسکے دل میں کوئی اور بھی آسکتی ہے۔میں تو ہمیشہ یہی سوچتی رہی کہ وہ میرا ہے۔لیکن۔۔۔۔۔۔" تب ہی ٹیرس کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تو اسنے بے ساختہ اپنے آنسو پونچھے اور پھر جلدی سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہنزہ کو اسکی دلی کیفیت کا علم ہو۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"یہ دیکھو پیزا۔" ہنزہ نے پیزے کے دو پیکٹس لاکر بیڈ پر رکھے تو عنایہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر کہا
"تمہاری لاٹری نکل آئی ہے ؟" تو وہ بولی
"نہیں یار ! حمزہ کو بلیک میل کیا تھا کہ اگر اسنے میری فرمائش پوری ناں کی تو میں بی جان اور امی کو اسکے رازوں کا بتا دونگی۔اسکی بات سن کر عنایہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور پھر حیرت سے پوچھا
"کیسا راز؟ " تو وہ بولی
"یار یہ جو اپنا حمزہ ہے ناں یہ شازمہ کو پسند کرتا ہے۔وہی رمضان کی بہن جو ہے۔میں اس دن بھی تمہیں بتانے والی تھی لیکن پھر کال آگئی تو میرے دماغ سے بات نکل گئی ۔"ہنزہ نے بتاتے جیسے ہی عنایہ کی طرف دیکھا تو اسے وہ پیلی پیلی سی لگی۔وہ اپنی بات بھول کر اسکی طرف متوجہ ہو گئی۔
"تمہیں کیا ہوا ہے ؟ تم ٹھیک ہو ؟" ہنزہ نے فورن اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو وہ بولی
"ہاں میں ٹھیک ہوں۔شاید بی پی لو ہو رہا ہے ۔اور میرا سر درد بھی کر رہا ہے۔"تو ہنزہ پریشانی سے بولی
"میں امی کو بتاتی ہوں۔"تو عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے کہا
"نہیں یار ! میں ٹھیک ہوں۔آرام کرونگیں تو ٹھیک ہو جاونگی۔" اسکی بات پر ہمزہ نے اسے گھورا اور پھر کہا
"فضول ناں بولو تم! بیٹھو تم۔میں نیم گرم دودھ میں چینی ڈال کر لاتی ہوں۔اس سے سر درد تمھارا ٹھیک ہو جائے گا۔"لاسٹ ٹائم امی نے مجھے دیا تھا تو میرا سر درد ٹھیک ہو گیا تھا۔
وہ اپنی بات کہہ کر کچن کی طرف بڑ ھ گئی جبکہ عنایہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
دودھ ابالتے ہوئے اچانک اسے عنایہ کی کہی بات یاد آئی۔اور پھر آج حمزہ کی پسند بتانے پر عنایہ کی طبیعت خراب ہونا"۔۔۔۔
وہ جتنا ان نقطوں پر سوچ رہی تھی اتنی ہی حیران ہو رہی تھی۔
"یعنی عنایہ حمزہ کو پسند کرتی ہے ؟ "اسنے دل می سوچا اور پھر دوبارہ حیرت زدہ ہوئی
"کیا میں عنایہ سے پوچھو اس بارے میں؟" اسنے ابلتے ہوئے دودھ کو دیکھ کر سوچا اور پھر خود ہی اپنے ہی خیال کی ترتید کر دی۔
"نہیں مجھے نہیں پوچھنا چاہیے۔جب اسے ٹھیک لگے گا تب وہ خود بتا دے گی۔"جب تک وہ اپنے خیالات سے باہر آئی تب تک دودھ کو ابال آچکا تھا۔
اسنے دودھ کو گلاس میں ڈال کر چینی اس میں ملائی اور پھر اپنے اور عنایہ کے کمرے کی طرف چل دی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"یہ لو ! پہلے پی لو۔"اسنے بیڈ پر لیٹی عنایہ کو لیٹے دیکھ کر کہا تو وہ خاموشی سے اٹھ کر بیٹھ گئ۔اور پھر کہا
"یار !میں نے کہا بھی تھا کہ میں ٹھیک ہوں۔مت لاو۔" اسکی بات پر ہنزہ کہا
"ابھی مار کھانی ہے یا تھوڑی دیر کے بعد؟ کہہ کر اسنے دودھ کا گلاس اسکی طرف بڑھایا تو عنایہ نے مسکراتے ہوئے گلاس تھامتے ہوئے کہا
"تم بھی ناں۔"کہہ کر وہ دودھ پینے لگی۔جبکہ ہنزہ خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھے گئی۔اور دل میں سوچا
"کاش عنایہ ۔۔تم مجھ سے اپنا دکھ شئیر کرتی ۔میں جانتی ہونکہ تم اس وقت بہت برامحسوس کر رہی ہو اور میری بد قسمتی یہ ہے کہ میں تمھارے دکھ کو کم نہیں کر سکتی۔"اسنے افسردگی سے سوچا تب ہی عنقیہ کی آواز اسے خیالات سے باہر لائی
"لو بی اماں۔پی لیا دودھ ۔اب آرام کرنے دو۔"تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے گلاس اٹھایا اور پھر کہا
"ہاں سوجاو تم۔" کہہ کر وہ اٹھی اور کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے لائٹ آف کر کے کمرے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا ۔دروازہ بند ہوتے ہی عنایہ نے سر اٹھاکر دروازے کی سمت دیکھا اور پھر دوبارہ سر تکیہ پر رکھتے ہوئے کہا
"کاش میں اسے پسند ناں کرتی۔۔کاش ۔اے کاش"۔۔۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
YOU ARE READING
محبتوں کا موسم(complete)
Fantasyیہ کہانی ہے ٹوٹ کر پھر سے جڑنے کی،یہ کہانی ہے اعتماد کے بحالی کی،یہ کہانی ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی اور یہ کہانی ہے محبت کی۔۔۔