Episode 11

60 4 4
                                    

"بی جان آپکی طبیعت کا پوچھ رہی تھیں۔"رات کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک ولی نے رحمانہ بیگم کو کہا تو وہ چونک کر اسکی طرف دیکھنے لگیں۔
"لیکن انکا کوئی فون نہیں آیا تو تمہیں کیسے علم ہوا؟" انکی بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرایا اور پھر بولا
"میں آج وقاص سے ملنے گیا تھا تو واپسی پر بی جان سے ملنے ان کے یہاں چلا گیا۔"اسکے بتانے پر وہ وہاں کے لوگوں کا حال احوال پوچھنے لگیں تو وہ بھی نرمی سے انکے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے اچانک بولا
"باقی سب تو ٹھیک ہیں لیکن ہنزہ بہت ڈسٹرب لگ رہی تھی۔"اسکی بات سن کر رحمانہ بیگم نے تاسف سے سر ہلاکر کہا
"ہاں عنایہ کے بعد ہنزہ بہت خاموش رہ گئی ہے۔"انکی اس بات ڈش اٹھاتے وصی نے انکی طرف دیکھا اور پھر دل میں کہا
"ناٹک کر رہی ہے۔"یہ سوچ کر وہ سر جھٹک کر کھانا اپنی پلیٹ میں نکالنے لگا۔
تب ہی سلمان صاحب نے نیکپن سے اپنا منہ صاف کرتے ہوئے وصی کو مخاطب کر کے کہا
"کھانا کھانے کے بعد میرے روم میں آنا۔کچھ بات کرنی ہے۔"وہ انکی بات سن کر سر ہلاکررہ گیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
کھانا کھاکر جب وہ انکے روم میں گیا تو وہ کتاب ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچ رہے تھے۔
انکو سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر اسنے زور سے انہیں پکارا تو انہوں نے خیالات سے باہر آتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور پھر خوشدلی سے بولے
"آو بیٹھو۔کچھ بات کرنی تھی۔بلکہ رائے لینی تھی۔"انہوں نے کہہ کر اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے سنکے پاس بیٹھ گیا۔
"کچھ دیر تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیسے بات شروع کریں پھر اسے دیکھتے ہوئے وہ تمہید باندھتے ہوئے بولے
"اسٹڈی تم کمپلیٹ کر چکے ہو اور بزنس بہت اچھے طریقے سے سنبھال رہے ہو۔اب میرا دل کرتا ہے کہ ہمارے گھرمیں بھی بچوں کے قہقہے گونجے۔لہذا میں سوچ رہا ہونکہ کیوں ناں تمھاری شادی کر وا دی جائے۔"انہوں نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہتے ہوئے اپنے دل کی بات کہہ کر اسکی طرف دیکھا تو وہ جو ٹکٹکی باندھے انہیں ہی دیکھ رہا تھا ایک دم گڑبڑا کر رہ گیا۔
تب ہی وہ اسکی کیفیت کو نوٹ کرتے ہوئے بولے
"تو پھر کوئی لڑکی پسند کی ہوئی ہے یا ہم اپنی پسند کی بچی سے شادی کرا دیں ؟" انکی اس بات پر اسکی نظروں کے سامنے شزا کا چہرہ آیا لیکن پھر اچانک اسنے سر جھٹکتے ہوئے ہنزہ کا نام لے لیا ۔
اسکے منہ سے ہنزہ کا نام سن کر وہ کچھ لمحے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھتے رہے۔انکی خواہش تھی کہ ہنزہ انکی بہو بنے لیکن انہیں یقین تھا کہ وہ شزا کا نام لے گا۔لیکن اسکے منہ سے ہنزہ کانام سن کر وہ کچھ لمحے حیرت زدہ رہ گئے ۔انہیں یہ گورکھ دھندا سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسنے شزا کو چھوڑ کر ہنزہ کا نام کیوں لیا؟وہ اپنی سوچوں میں کھوئے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے جب اسنے انہیں مخاطب کیا
"پاپا"تو انہوں نے خود کو سوچوں سے آزاد کراتے ہوئے کچھ لمحے اسکا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد بولے
"تم سنجیدہ ہو اپنے اس فیصلے پر ؟"تو وہ بولا
"پاپا ایسی باتوں کا مزاق کون کرتا ہے ؟اسکا جواب سن کر وہ مطمئن ہوتے ہوئے بولے
"تمہاری مما اور میری یہی خواہش تھی لیکن ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ تم کسی اور کو پسند کرتے ہو۔"انہوں نے اپنی سوچ کو زبان دی تو وہ نظریں دروازے پر جماتے ہوئے بولا
"شزا میری دوست ہے اور میں اسے ایک دوست کے طور پر پسند کرتا ہوں۔"اسکی اس چھوٹی سی وضاحت نے انکو بہت سے واہموں سے نکال دیا تھا۔
تب ہی رحمانہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو وصی نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھ کر باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"پاپا میں جاو ؟"تو انہوں نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔
اجازت ملتے ہی وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔اسکے جاتے ہی رحمانہ بیگم نے بے تابی سےسلمان صاحب سے پوچھا
"پھر کیا کہا اسنے ؟"تو وہ مسکرا کر بولے
"وصی میرا مان ہے اور تمہیں پتہ ہے بغیر کچھ کہے اسنے ہماری خواہش پوری کر دی۔"انکی بات سن کر وہ بے تابی سے بولیں
"پوری بات بتائیں۔"انکا مطالبہ سن خر وہ مسکرائے اور پھر انہیں پوری بات بتانے لگے۔بات سن کر وہ بھی مسکرا اٹھیں تھیں۔آخر کو سنکی دلی خواہش جو پوری ہو گئی تھی۔
تب ہی وہ جزباتی ہوکر بولیں
"میں کل ہی جاونگیں"انکی بات کر سلمان صاحب نے مسکراکر تائیدی انداز میں سر ہلاکر کہا
"ضرور"تو وہ بھی انکا جواب سن کر مسکرا دیں۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"عنایہ ۔۔۔"وہ اسکے پیچھے بھاگتا جارہا تھا۔
"رکو میری بات سنو"اسنے تیزی سے بھاگتے ہوئے عنایہ کو زور سے آواز دی ۔اسکی پکار پر عنایہ نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر مسکرا کر دوبارہ سے بھاگنے لگی۔
وہ اسکی سنی ان سنی کر کے بھاگنے لر دوبارہ سے اسکے پیچھے بھاگا تب ہی اسنے عنایہ کو ایک گاڑی سے ٹکر کھاتے دیکھا تو زور سے چیخا اور اسکے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گئی۔
آنکھ کھلنے کے بعد وہ کچھ دیر تک لیٹا گہرے گہرےسانس لیتا رہا اور پھر تھوڑا سا اوپر کھسک کر پہلے تو ٹیبل لیمپ جلایا اور پھر کچھ لمحوں کے بعد اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی پانی کی بوتل کو پانی پینے کے لئے اٹھا یا لیکن اس میں پانی ناں دیکھ کر وہ پانی لانے کے کئے اٹھ کھڑا ہوا۔
سیڑھیوں سے اتر کر وہ گراونڈ فلور پر آیا اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔
پانی پیکر وہ دوبارہ اوپر جانے کے بجائے لان میں چلا گیا۔
کچھ دیر یونہی ٹراوزر کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ گھاس پر ننگے پاوں چلتا رہا اور پھر جیسے تھک کر لان چئیر پر بیٹھ کر آنکھیں موند لیں۔
لیکن آنکھیں بند کرتے ہی عنایہ کا کفن میں لپٹا چہرہ اسکے سامنےتھا۔
حمزہ نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور پھر نم آنکھوں سے اس ٹیرس کی طرف دیکھنے لگ گیا جہاں کبھی عنایہ اور ہنزہ گھنٹوں کھڑی ہو کر باتیں کیا کرتیں تھیں یا پھر وہاں کھڑی ہو کر کافی پیتی نظر آتی تھیں۔لیکن سب وہ ٹیرس خالی تھا بلکل اسکے دل کی طرح۔
ٹیرس کی طرف دیکھتے دیکھتے اسے کچھ پرانی باتیں یاد آنے لگی تھیں۔
"نہیں اب میری باری"عنایہ نے چیختے ہوئے کہا
"جی نہیں۔کوئی فضول چیز سنانی ہو گی۔"حسن نے حمزہ کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر عنایہ کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ بولی
"سنو تو کل ہی میں نے ایک اتنی اچھی نظم پڑھی ہے۔اور مجھے اتنی اچھی لگی کہ بس۔۔۔۔"ہنزہ تم بولو ناں ان لوگوں کو۔"عنایہ نے مونگ پھلی کھاتی ہنزہ سے کہا تو وہ بولی
"تم سنانا شروع کرو۔کوئی سنے یا ناں سنے میں سن رہی ہوں۔اسکی تجویز پر عنایہ نے تالی بجاکر کہا
"واہ زبردست۔۔"کہہ کر اپنی نظم سنانے لگی۔
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
چاندنی تو آنگن میں
آج بھی اترتی ہے
میں یوں تو زندہ ہوں
سانس ببی چلتی ہے
روز و شب گزرتے ہیں
عمر ڈھلتی رہتی ہے
ایک تیرے ناں ہونےسے
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
کچھ کمی سی رہتی ہے
آنکھوں کے کناروں پر
کچھ نمی سی رہتی ہے
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
ایک تیرے ناں ہونے سے
اور تو کچھ نہیں ہوتا
تشنگی سی رہتی ہے
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
وہ جیسے ماضی کی یادوں کو یاد کرتے کرتےحل کو بھول چکا تھا۔
"واہ واہ زبردست"اچانک اسے اپنی ہی آواز اپنے کانوں میں سنائی دی تو وہ چونک کر خیالات سے باہر آیا۔
اچانک ایک آنسو اسکی آنکھ سے ٹپکا تو وہ بے ساختہ سسک اٹھا
"کیوں چلی گئی عنایہ۔اتنی یادیں ہیں۔میں کس کس یاد سے نظریں چراوں۔کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پھر لان سے ہو کر چھت کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر جاکر نیم دراز انداز میں لیٹ کر دونوں ہاتھوں کی ہتہیلیوں کو باہم ملاکر سر کے پیچھے ٹکایا اور پھر آنکھیں موند لیں ۔لیکن اب کی دفعہ پھر عنایہ کا مسکراتا چہرہ اسکی نظروں کے سامنے تھا۔
بے ساختہ وہ چھ فٹ کا بندہ ہاتھوں میں منہ چھپاکر ر و پڑا تھا۔
یونہی روتے روتے اسنے تڑپتے ہوئے جیسے خدا کو پکارا تھا۔
"یا اللہ جی یہ دکھ بہت بڑا ہے۔میں نہیں سہہ پا رہا۔مجھے صبر عطا کر ۔"روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں۔تھوڑی دیر کے بعد خود ہی وہ چپ ہو کر آنکھیں بند کر گیا۔اب کی دفعہ پھر قبر میں عنایہ کو ڈالے جانے کا منظر اسکی نگاہوں کے سامنے تھا۔اسنے بے ساختہ آنکھیں میچیں
"یا اللہ پلیز ۔۔۔رحم۔۔۔۔"وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑایا تب ہی آہستہ آہستہ اسکا دماغ غافل ہونے لگا۔سکی نظروں کے سامنے سے عنایہ کا چہرہ ہٹا اور پھر تاریکی سامنے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"کیا کر رہی ہو ہنزہ "؟ خادلدہ بیگم نے ہنزہ سے پوچھا تو وہ جرنل بناتے ہوئے بولی
"مما یہ ڈائیگرام بنا رہی ہوں۔آپ کو کوئی کام تھا ؟"اسنے پنسل رکھ کر انسے پوچھا تو وہ کچھ پل کے لئے اسکا چہرہ دیکھتی رہیں ۔انہیں یاد آرہا تھا کہ وہ پڑھائی کے معاملے میں کتنی لاپرواہ تھی۔لیکن عنایہ کی موت کے بعد جیسے وہ بدل کر رہ گئی تھی۔اپنی طرف یک ٹک انکو تکتے پاکر اسنے انکا ہاتھ پکڑ کر دبایا تو وہ اپنے خیالات سے باہر آئیں اور کہا
"ہاں تم سے کچھ بات کرنی تھی۔"تو وہ بولی
"ہاں تو کریں ناں"اسکی بات پر وہ بے ساختہ مسکرائیں اور پھر اسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے بولیں
"تمھاری پھوپھو آئی تھیں۔"انہوں نے بات شروع کرنے سے پہلے تمہید باندھی تو ہنزہ نے انہیں دیکھتے ہوئے ناسمجھی سے کہا
"وہ تو اکثر آتی ہیں مما"نرمی سے کہہ کر وہ دوبارہ پینسل اٹھاکر ڈائیگرام کی لیبلنگ کرنے لگی تو وہ بولیں
"لیکن اس دفعہ وہ ایک خاص مقصد کے لئے آئی تھیں۔انکی بات سن کر ہنزہ نے پر تجسس ہو کر اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا تو وہ مزید بولیں
"تمہارا رشتہ وصی کے لئے مانگا ہے۔ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔گھر کا بچہ ہے۔آنکھوں کے سامنے پلا بڑھا ہے۔ہم سب راضی ہیں۔تمھارے با با کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ تم سے تمھاری رائے لے لوں۔"
انہوں نے اپنی بات مکمل کر کے اسکا چہرہ دیکھا جو یک ٹک انہیں دیکھتی جا رہی تھی۔
انکی بات ختم ہوتے ہی وہ تیزی سے بولی
"مم مجھے نہیں کرنی وہاں شادی ۔آپ ناں کر دیں۔"اسکی باتسن کر پہلے تو انکے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے اور پھر کچھ لمحے غصے میں دیکھتے رہنے کے بعد ایک ایک لفظ چباچباکر بولیں
"تم دونوں بہن بھائی نے مجھے زلیل کرانے کا سوچ رکھا ہے۔پہلے عنایہ کا تمھارے بھائی نے منع کر دیا اور اب تم وصی کے لئے منع کر رہی ہو۔چلو حمزہ کو تو شازمہ پسند تھی۔تمہیں کون پسند ہے ؟ اگر کوئی پسند ہے تو بتا دو ہم اسی سے دو بول پڑھوا کر رخصت کر دیں۔ہمارا کیا ہے ۔ہم تو زلیل ہونے کے لئے ہیں۔نفیسہ کے سامنے میں آج تک نظریں جھکائی رہتی ہوں۔کتنی امید تھی اسے کہ عنایہ میری بہو بنے لیکن حمزہ نے شازمہ کو پسند کر لیا۔اور اب تم وصی کے لئے ناں کر رہی ہو۔غصے سے بولتےبولتے آخر میں آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے اورپھر اسکے برابر سے کھڑی ہو کر بولیں
"تمھارے باپ تک تمھارا جواب پہنچا دونگی۔وہ بھی اس غلط فہمی سے باہر آجائے گا کہ بہن نے بھائی کے نقش قدم پر پاوں نہیں دھرا ہے۔آخر کو ہمیں سزا تو ملنی چاہیے تم لوگوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی۔اور اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم ایک خاندان اور ایک گھر میں رہتے ہوئے کسی سے نظریں ناں ملا سکیں۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے جانےلگیں۔

باقی آئندہ

محبتوں کا موسم(complete)Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz