"مزہ آگیا کل تو"۔حسن نے حمزہ کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا تو اسنے مسکراکر کہا
"وہ توآنا ہی تھا۔آخر منگنی کی تقریب کسکی تھی۔"اسکے یہ کہنے پر حسن نے اسے گھورا اور پھر کہا
"او بھائی تیری منگنی کی تقریب کو پروقار بنانے کے لئے ہم لوگوں نے بڑی محنت کی تھی۔"تو وہ بولا
"بھائی ہی بھائی کے کام آتا ہے۔"اسکی بات پر وہ ہنسا اور ابھی کچھ کہنے والا ہی تھا کہ ہنزہ اور عنایہ وہاں چلی آئیں۔انکو دیکھ کر حسن نے کہا
"مہارانی جی آپکی صبح ہو گئی ؟" تو اسنے کہا
"ہاں ہو گئی ہے۔تمہیں کوئی مسلئہ؟"تو وہ بولا
"نہیں ہمیں کیا مسلئہ ہوناہے۔ہم تو ایسے ہی پوچھ رہے ہیں۔"اسکے یہ بولنے پر ہنزہ نے کچھ بولنے کے بجائے خاموشی سے صرف اسے دیکھنے پر اکتفا کیا۔جبکہ عنایہ نے کہا
"تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا ہے یا کرنا ہے ؟"تو حسن بولا
"ہم لوگوں نے کر لیا ہے۔"اسکا جواب سن کر وہ سر ہلاتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
جبکہ حمزہ خاموش بیٹھا دل ہی دل میں عنایہ کو شکریہ کہنے کا سوچ رہا تھا۔لیکن وہ اسکو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی۔اس دن کے بعد سے عنایہ اسے کم ہی کم سب میں بیٹھی دکھائی دی تھی۔اور وہ چاہنے کے باوجود اسے شکریہ نہیں کہہ پایا تھا۔اب بھی وہ دل میں کر رہا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اسے شکریہ کہنا ہے۔وہ ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ جب حسن نے اسکے کندھے پر ہاتھ مارا تو وہ گڑبڑاکر بولا
"کیا ہوا؟"تو حسن نے اسے گھورتے ہوئے کہا
اتنی دیر سے میں پاگلوں کی طرح تم سے باتیں کئے جارہا ہوں۔اور تم نا ناں کر رہے ہو ناں ہاں"۔اسکے یہ کہنے پر وہ بولا
"بکواس ناں کر"تو حسن نے ہنستے ہوئے اسکا ہاتھ کھینچا
"اچھا چل اٹھ۔باہر چلتے ہیں۔"تو وہ بھی اسکے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کرنے کے دوران ہنزہ کی نظریں برابر عنایہ کے چہرے کے تاثرات کا جاہزہ لے رہی تھیں۔جہاں اسے کوئی غم کوئی پریشانی نہیں نظر آرہی تھی۔جبکہ دوسری طرف عنایہ اپنے چہرے پراسکی نظروں کا ارتکاز محسوس کر رہی تھی۔اور اسکی کوشش یہی تھی کہ نارمل رہے ۔تب ہی ہنزہ نے اسے پکارا
"عنایہ "تو وہ بولی
"ہاں"اسکے کہنے پر ہنزہ نے اسکی طرف دیکھتے اس سے پوچھا
"سب ٹھیک ہے ؟"تو وہ بولی
"ہاں۔کیوں ؟ کیا ہوا؟" اسکے نارمل رویے پر ہنزہ کو ایک لمحے کے لئے تعجب ہوا اور پھر اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی
"ناشتہ کے بعد میں تم سے کچھ بات کرونگی۔"اسکے یہ بولنے پر عنایہ نے سر ہلادیا اور ہنزہ خاموشی سے اسکو دیکھتے ہوئے چائے پینے لگی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"ارے بھائی!میں کیا بتاو ۔کل کتنا مزہ آیا حمزہ بھائی کی منگنی کی تقریب میں۔"ولی نے کوئی تیسری دفعہ یہ جملہ دہرایا تھا۔
جبکہ برابر میں بیٹھے وصی نے لیپ ٹاپ پر کام کرتے کرتے سر اٹھاکر اسے دیکھا تو وہ بولا
"میں تو کہتا ہونکہ بھائی لگے ہاتھوں آپ بھی ایک عدد منگنی کر ہی دیں۔"اسکی بات سن کر وہ ہنستے ہوئے بولا
"اور کوئی حکم"۔تو ولی نے کہا
"نہیں فلحال تو کیلئے اتنا ہی ۔"تب ہی اچانک کچھ یاد آنے پر وہ بولا
"ویسے بھائی آپکی نظر میں ہے کوئی؟یا مما کو ہی یہ کام کرناپڑے گا۔"اسکی بات سن کر وصی ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑگیا۔"جبکہ ولی نے کہا
"بھائی پلیز شزا کا نام مت لیجئے گا۔ہمیں گھر میں جنگیں کرانے والی خاتون نہیں چاہیے"۔اسکی بات پر وہ بے ساختہ ہنسا اور پھر کہا
"کیوں تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ ایسی ہے ؟تو ولی نے کہا
"آپ کو آج تک انکی سوچ کے بسرے میں علم نہیں ہوا؟"اسکے حیرت سے یہ کہنے پر وہ بولا
"یار!سمجھداری نہیں ہے اس میں بس۔لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ لڑائیاں کرانے والی ہے ۔" تب ہی ولی نے اس سے پوچھا
"آپ کو وہ ایز آ لائف پارٹنر پسند ہیں ؟"تو وہ بولا
"میں نے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں سوچا۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک اچھی لڑکی ہے۔"اسکی بات سن کر ولی نے کہا
"پتہ نہیں بھائی۔لیکن جہاں تک مجھے لگتا ہے وہ ہر چیز کو پیسوں میں تولتی ہیں۔انکی نظروں میں انسانیت کوئی چیز نہیں ہے۔"اسکے یہ کہنے پر وصی نے کچھ سوچتے ہوئے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا
"چلو جیسی بھی ہے۔ہمیں کیا کرنا ہے۔"تو ولی خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"وہ دونوں ناشتہ کے بعد اب ٹی وی لاونج میں بیٹھی تھیں جہاں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ہنزہ نے اپنے برابر بیٹھی عنایہ کو دیکھا اور پھر اچانک کہا
"تم اپمے اندر کا غبار میرے سامنے نکال سکتی ہو۔"تو وہ بولی
"یار میرے اندر کوئی غبار نہیں ہے۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔"تو ہنزہ نے کہا
"ہونا بھی نہیں چاہیے۔لیکن پھر بھی اگر کوئی بات شئیر کرنی ہے یا رونا ہے تو میرا کندھا حاضر ہے۔"اسکے یہ بولنے پر عنایہ نے مسکراتی نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا۔
جبکہ خود وہ دل ہی دل میں سوچے جارہی تھی کہ کیا واقعی میں ٹھیک ہوں ؟اسے خود کی حالت نہیں سمجھ آرہی تھی ۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ الجھی ہے۔لیکن الجھن کس بات کی تھی۔جبکہ اسنے خود ناں کی تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ اسکا دل اب بھی ان سب باتوں کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔لیکن وہ چاہتی تھی کہ جلد سے جلد سب کچھ نارمل ہو جائے ۔اسے علم تھا کہ ہر چیز کو حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے لیکن سے یہ علم نہیں تھا کہ بلکل ایسے ہی صبر آنے میں اور زحم بھڑنے میں بھی وقت لگتا ہے۔یہ وقت سمجھنےکے لئے اسے وقت درکار تھا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"کیسے ہو وصی ؟" وہ اپنے آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا جب شزا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔اسنے اسکی آواز پر سر اٹھاکر اسے دیکھا اور پھر مسکرا کر کہا
"ہاں میں ٹھیک۔آو بیٹھو۔"تو وہ بولی
"بیٹھنے نہیں آئی میں۔بلکہ تمہیں ساتھ لے جانے آئی ہوں۔اسکے یہ کہنے پر وصی نے اسکی طرف دیکھا تو وہ بولی
"چلو باہر لنچ کرنے چلتے ہیں۔میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔"تو وہ بولا
"یار میرا دل نہیں کر رہا باہر جانے کا۔یہی کچھ منگوالیتے ہیں۔"تب ہی وہ بولی
"وصی!میں بتا رہی ہونکہ میں نے کوئی بہانہ نہیں سننا۔چلو اٹھو۔ورنہ میں ناراض ہو جاونگی۔"ےو وہ فائل رکھتا اٹھ کھڑا ہوا
"چلو آو"۔اسکے یہ کہنے پر شزا نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر کہا
"یہ ہوئی ناں بات"تو وہ مسکرادیا۔
یونہی چلتے چلتے وہ لوگ لفٹ کی طرف جا رہے تھے جب سلمان صاحب نے ان دونوں کو لفٹ کی طرف جاتے دیکھا ۔تب ہیوصی کی نظر ان پر پڑی تو وہ انکے پاس چلا گیا۔
"پاپا۔۔۔۔۔وہ شزا باہر کھانا کھانے کا کہہ رہی تھی تو میں اسے باہر لیکر جا رہا تھا۔اسکے یہ کہنے پر انہوں نے سر ہلادیا تو وہ مزید بولا
"جاوید بلڈرز سے میری بات ہو گئی ہے"۔۔۔۔۔۔۔ابھی وہ انکو اس بارے میں بتا ہی رہا تھا کہ شزا چلتی ہوئی انکے پاس آکھڑی ہوئی۔اور آتے ہی کہا
"چلو ناں وصی۔دیر ہو رہی ہے۔تم انکل کو یہ سب آکر بتا دینا"اسکے انداز پر قاسم صاحب نے صرف ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کہا
"ہاں جاو وصی۔"تو وہ شرمندہ سا چلتا اسکے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
انکے وہاں سے جاتے ہی قاسم صاحب شزا کا حاوی رویہ سوچتے رہے۔انہیں رحمانہ بیگم کی بات یاد آرہی تھی کہ شزا اور وصی ایک کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے۔اور اب انہیں بھی لگ رہا تھا کہ وہ واقعی میں صحیح کہہ رہی تھیں۔وہ اپنے ہی خیالوں میں گھرے اپنے آفس کی طرف بڑھے ۔تب ہی انکی سیکیٹری نے آکر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آدھے گھنٹے میں قیصر بلڈرز کے ساتھ انکی میٹنگ ہےتو وہ سر ہلاکر اندر کی طرف بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
وہ اس وقت بھی خاموش ٹیرس پر کھڑی چاند کو دیکھ رہی تھی۔اسکے دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا۔لیکن زبان خاموش تھی۔
"کبھی ایسا بھی یوتا ہے ناں کہ ہمارے اندر اتنی آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں جن سے گھبراکر ہم یا تو بہت زیادہ بولنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر تنہا رہنا شروع کر دیتے ہیں۔"
عنایہ دوسری قسم کی کیٹیگری کے لوگوں میں سےتھی جو اپنے اندر کی آوازوں کو تنہائی میں سننا چاہتی تھی۔اور جب بھی اسکی یہ کیفیت ہوتی تھی تو وہ تنہائی میں رہنا شروع کر دیتی تھی۔ابھی بھی وہ ایسے ہی کھڑی اپنے اندر کی آوازوں کو سن رہی تھی کہ جب ہنزہ کافی کے دو کپ لئے وہاں آئی۔اور آکر کہا
"مجھے پتہ تھا کہ تم یہی ہوگی۔"یہ کہتے ہوئے اسنے کافی کا کپ اسے پکڑایا تو وہ دھیرے سے مسکرائی اور کپ اٹھاکر سپ لیا۔
تب تک ہنزہ بھی اسکے برابر میں آکھڑی ہوئی تھی۔کافی دیر دونوں ہی اپنے خیالوں میں گھری رہیں۔پھر ہنزہ نے ہی بات شروع کرتے ہوئے کہا
"کبھی کبھی وہ ہو جاتا ہے جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا ۔"تو عنایہ بولی
"زندگی بہت ان پریڈکٹیبل چیز ہے۔کب کیا ہو جائے ۔کچھ علم نہیں۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے تائیدی انداز میں سر ہلایا ۔
خاموشی ایک دفعہ پھر دونوں میں آموجود ہوئی تھی۔کافی دیر یونہی خاموش رہنے کے بعد آخر عنایہ نے اسے پکارا
"ہنزہ ؟"تو وہ بولی
"ہاں ؟"اسکے ہاں کہنے پر عنایہ نے اس سے پوچھا
"تم کیوں خاموش ہو ؟"تو وہ بولی
"بولنے کو کچھ ہے ہی نہیں تو کیا بولو؟"اسکی اس بات پر عنایہ نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر کہا
"کیا ہوا ہے ؟"تو وہ بولی
"ہوا تو کچھ بھی نہیں ہے۔"تو عنایہ نے کہا
"تو پھر چپ کیوں ہو؟"تو وہ بولی
"ایسے ہی۔"اسکے اس طرح سے بات کرنے پر عنایہ نے اسے کہا
"تم مجھ سے بدلہ لے رہی ہو ؟"تو ہنزہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"بدلہ کس بات کا؟اور خاموش اسلئے ہوں کیونکہ۔۔۔۔"وہ بولتے بولتے ٹہری۔
جبکہ عنایہ نے بے چینی سے اسکا چہرہ دیکھا تو وہ بولی
YOU ARE READING
محبتوں کا موسم(complete)
Fantasyیہ کہانی ہے ٹوٹ کر پھر سے جڑنے کی،یہ کہانی ہے اعتماد کے بحالی کی،یہ کہانی ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی اور یہ کہانی ہے محبت کی۔۔۔