قسط نمبر: 1

840 39 8
                                    


آج ایک عرصے کے بعد "احمد ہاوس" میں خوشیوں کا سماں تھا. کیونکہ ملک کے نامور بزنس مین بلال احمد کے اکلوتے بیٹے شہروز کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں. اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاریوں کا زمہ بلال احمد کی اکلوتی بیٹی پریشے نے اٹھایا تھا. وہ اپنے زیر نگرانی گھر کا کونہ کونہ سجوا رہی تھی. ہر قسم کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی. وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے اکلوتے بھائی کی شادی میں کوئی بھی کمی رہے. پر یہ تو انسانی زندگی کا المیہ ہے کہ اسے کچھ بھی مکمل نہیں ملتا. ہمیشہ کوئی نہ کوئی کمی ضرور رہ جاتی ہےاور وہ کوئی کمی نہیں بلکہ ایک خلاء تھا جو کہ پریشے اور شہروز کی زندگی کا تا عمر حصہ رہنے والا تھا. اور وہ خلا تھا والدین کا جنہیں دونوں بہن بھائی نے ایک کار حادثے میں ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا.

پریشے اس وقت لاؤنج میں اپنے والدین کی ان لارج پورٹریٹ کے پاس موجود تھی.ہر طرف عجیب گہماگہمی تھی. منتظمین ادھر سے ادھر بھاگ کر اپنی مصروفیات کا ثبوت دے رہے تھے. پر اس ایک یاد نے جیسے سب کچھ منجمد کر دیا ہو. اپنے والدین کی تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پریشے کی آنکھیں بے ساختہ نم ہوئی تھی. اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین کی وفات سے لے کر اب تک کےتمام مناظر پوری جزیات کے ساتھ ایک فلم کی مانند متواتر چل رہے تھے. کیسے والدین کی وفات کے بعد شہروز نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے باپ کے وسیع و عریض کاروبار کو اپنی ذہانت، بردباری اور مستقل مزاج طبعیت کی بناء پر سنبھالا.پریشے کے ساتھ ساتھ گھر پر بھی توجہ دی اور ایک حساس، محبت کرنے والا اور ذمہ دار بھائی ثابت ہوا تھا. تو ٹھیک اسی طرح پریشے نے بھی اپنے بھائی کا ہر موڑ پر بخوبی ساتھ نبھایا تھا.غرض یہ کہ دونوں نے ایک دوسرے میں اپنےہر رشتے کو پایا تھا. اور اب اسی خوبرو اور شاندار سے بھائی کی شادی اس کی اپنی عزیز از جان سہیلی سارہ سے ہونے جا رہی تھی. اپنے گالوں پر آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے وہ پورے دل سے مسکرائی تھی. وہ آہستگی سےچلتے ہوءے کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی تھی. جہاں سے لان کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا. ملازموں کی دوڑ لگی ہوئی تھی ہر طرف رنگینیاں تھیں پر وہ تو ایک نوسٹیلجک فیز سے گزر رہی تھی. یادوں کا ریلا ایک بار پھر اسے اپنے ساتھ بہا لے گیا.
          
                      *******************

پریشے کو اردو ادب سے خاصہ شغف تھا پر چونکہ وہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی اس لیے وہ اپنے اس شوق کے لیےکافی عرصے سے وقت نہیں نکال پا رہی تھی پر اب  جبکہ وہ میڈیکل کے امتحانات سے فارغ ہوگی تھی لہذا پہلی فرصت میں اس نے  لائبریری کا رخ کیا تھا اور اب اپنی مطلوبہ کتاب نہ پا کر وہ لائبریرین  سے اچھا خاصہ الجھ چکی تھی.

" عجیب لائبریری ہے !! ".

مسلسل پندرہ منٹ کی بحث اور لائبریرین کا معافی نامہ  سننے کے بعد پریشے نے تقریباً جھنجھلاتے ہوئے کہا.

" تیری چاہتوں کے حصار میں ♥️ "  ازقلم طیبہ حیدر✨Where stories live. Discover now