قسط نمبر 12

254 19 2
                                    


جیسے جیسے " ملک ولاز " قریب آتا جا رہا تھا ارمان کچھ کچھ نروس دکھائی دے رہا تھا.اس کے چہرے سے صاف شرمندگی محسوس کی جا سکتی تھی.
پسینے کی ننھی ننھی بوندیں اس کے ماتھے پر نمودار ہوچکیں تھیں. پریشے نے بغیر کچھ کہے ٹشو بکس سے ٹشو نکال کے ارمان کی جانب بڑھایا تو ارمان نے نا سمجھی سے پریشے کی جانب دیکھا جس پر پریشے نے خود ہی ہاتھ بڑھا کےارمان کے ماتھے سے پسینہ صاف کیا.

" اوہ... تھینکس !! "  ارمان نے پریشے کے ہاتھ سے ٹشو لے کر دوسری طرف سے بھی پسینہ صاف کیا. پہلی بار ارمان کی زندگی میں ایسا موڑ  آیا تھا کہ نروسنیس اور شرمندگی کے مارے اس کے ٹھنڈے پسینے چھوٹ گئے تھے.

"ایوری تھنگ از گونا بی آل رائٹ !(سب ٹھیک ہو جائے گا) " پریشے نے سٹئیرنگ پر دھرے ارمان کےہاتھوں پراپنے ہاتھ کا ہلکاسا دباؤ دے کر کہا.

" ہوں... " پریشے کی تسلی پر ارمان نے ہوا میں گہری سانس خارج کی.

گاڑی اب " ملک ولاز " میں داخل ہو چکی تھی.پورچ کے پاس ہی ریحان کھڑا تھا.ارمان کو دیکھتے ہی اس نے اندر کی جانب ہانک لگائی.

" بھائی اور بھابھی آ گئے."

اور دیکھتے ہی دیکھتے سب پورچ میں جمع ہوگئے تھے
جیسے ریحان کی ایک آواز کے منتظر ہوں.سب کو اپنے لیے یوں والہانہ انداز میں استقبال کے لیے کھڑا دیکھ کر پریشے اور ارمان نے بے ساختہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ پاس کی تھی. دونوں اپنے اپنے شیڈز اتار چکے تھے.گاڑی سے اتر کر ارمان نے اپنا کلہ پہنا تھا جبکہ سارہ نے آگے بڑھ کر پریشے کو گاڑی سے اترنے میں مدد کی اور پھر اس کی چادر اتاری تھی.

حیرانگی کی بات تو یہ تھی کہ " ملک ولاز "کی پھولوں سے سجاوٹ کروائی گئی تھی اور تو اور وہاں کیمرہ مین بھی موجود تھا. یہاں تک کہ سب لوگ ٹھیک اسی طرح تیار تھے جس طرح شادی والے دن ہوئے تھے.
سب نے بہت والہانہ انداز میں دونوں کا استقبال کیا تھا.
فوٹو گرافر سب کی مہارت سے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچ رہا تھا.استقبالیہ کہ رسم ادا ہو رہی تھی ساتھ ہی ساتھ دادی جان نے کالے بکروں کے صدقے نکالے تھے.

دادی جان ارمان کو خود سے لپٹا کر خوب روئیں جبکہ سارہ کی آنکھیں بار بار تشکر سے بھیگ رہی تھیں. دادا صاحب کے سوا سبھی لوگ وہاں موجود تھے اور وہاں موجود ہر شخص بہت گرم جوشی سے دونوں سے ملا تھا.دادی جان تو ارمان اور پریشے کی بلائیں لیتی نہیں تھک رہیں تھیں.استقبال کے بعد دونوں کو اندر لایا گیا اور دیگر چھوٹی چھوٹی رسمیں ادا کی گئیں ساتھ ہی ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی جاری تھی.

پچھلی کسی بات کا شائبہ تک نہ تھا.ارمان کو اتنے شاندار استقبال اور اتنی اعلیٰ ظرفی کی ذرا بھی امید نہیں تھی. سب کے محبت بھرے رویوں نے ارمان کو ایک  نئی تقویت بخشی تھی.وہ سب میں گھرا خود کو فریش اور محفوظ محسوس کر رہا تھا اور اتنی دیر اپنی نااہلی اور کو تاہی پر خود کو نئے سرے سے کوس رہا تھا کہ اتنے میں دادا صاحب اپنے کمرے سے چلتے ہوئے آئے تو پریشے اور ارمان احتراما کھڑے ہوگئے .

" تیری چاہتوں کے حصار میں ♥️ "  ازقلم طیبہ حیدر✨Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz