" ملک ولاز " کے روف ٹاپ گارڈن کو جا بجا ننھی ننھی شمعوں سے روشن کیا گیا تھا. نیچے فرش پر راہداری کی صورت میں گلاب کی پتیاں ایک ترتیب سے بکھیری گئی تھیں. روف ٹاپ گارڈن کے وسط میں بنے شیڈ کے نیچے, دو کرسیوں کے درمیان گول میز پر کینڈل سٹینڈ کے ساتھ ایک خوب صورت سا گلدستہ پڑا ہوا تھا. جلتی بجھتی شمعوں اور گلاب کی پتیوں کی مہک نے ماحول پہ ایک سحر سا طاری کر دیا تھا. ماحول اتنا فسوں خیز اور رومان پرور تھا کہ وہ سب بھلائے یک ٹک اس منظر کو دیکھتی چلی گئی. اپنی حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے وہ متجسس سی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی جیسے ہی آگے کی جانب بڑھی تو ارمان کو بڑی فرصت سے ٹیرس سے نیچے دیکھتا پایا. ارمان کو صحیح سلامت اپنے سامنے دیکھ کر اس نے بے اختیار سکھ کا سانس لیا تھا اور اب اسے ریحان کی کارستانی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوچکی تھی.
وہ اپنا واسکٹ اتار کر کرسی کی پشت پر لٹکائے, کالی شلوار قمیض میں ملبوس , دونوں ہاتھ پیچھے کی جانب باندھے, پورے شان کے ساتھ دلکشی سے مسکراتا ہوا پیچھے کی جانب مڑا تو پریشے کو اپنے سامنے ایستادہ پایا. ارمان نے آگے بڑھ کے اس کے آگے اپنا بھاری مردانہ ہاتھ پھیلایا تو پریشے نے بغیر کچھ کہے, چپ چاپ اپنا نازک سا ہاتھ اس کی چوڑی ہتھیلی پر رکھ دیا. وہ اسے لئے میز کی جانب بڑھا تو پریشے ایک خواب کی سی کیفیت میں گھری ارمان کے ہمراہ شیڈز تک چلی آئی. ارمان نے پریشے کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے میز پر سے گلدستہ اٹھا کر بہت ادب سے اس کے آگے پیش کیا تو ایک خوبصورت سی مسکان پریشے کے چہرے کا حصہ بن گئی." آئی ایم سوری !! " پریشے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ پورے دل سے بولا
" سوری ..... پر کس لیے ؟ " پریشے کے چہرے پر تعجب تھا.
" پچھلے دنوں میں نے تمہیں بہت تنگ کیا ہے .... بہت روڈ رہا ہوں تم سے ...... مگر میں بھی کیا کرتا ؟ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ میں کیوں تمہیں لے کے اتنا ٹچی ہو رہا ہوں ؟ جبکہ تم مجھ سمیت مجھ سے جڑے تمام لوگوں کا اتنا خیال رکھ رہی تھی. مجھے سوچنا چاہیے تھا. خود خیال کرنا چاہیے تھا ...... اوپر سے ایکسیڈنٹ کے بعد تم میری وجہ سے اتنی پریشان رہی. میرے لیے تمہیں راتوں کو اٹھنا پڑتا تھا، میری ڈائیٹ، میری ایکسرسائز سب کچھ اتنے اچھے سے مینج کیا تم نے ....... سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ معافی مانگوں کہ اتنی چاہتوں اور محبتوں کے لیے شکریہ ادا کروں. پر سچ تو یہ ہے کہ میں جتنا بھی کہوں جتنا بھی کروں وہ کم ہو گا. "
ارمان اس کی آنکھوں میں دیکھتا، ایک جذب کے عالم میں پوری ایمانداری کے ساتھ اعتراف کرتا اسے سب سے پیارا لگا تھا. ارمان کو نہ صرف اپنی غلطی کا احساس تھا بلکہ وہ پریشے کی چاہت اور دن رات کی گئی خدمت کو پورے دل سے تسلیم بھی کر رہا تھا اور ایک لڑکی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کا جیون ساتھی احساس کرنے والا ہو. جو نہ صرف اس کی ہر کاوش کو سراہے بلکہ اسے لے کر اپنی چاہت و فکر کا اظہار بھی کرے. جو نہ صرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے بلکہ انہیں سدھارنا بھی جانتا ہو. اگر یوں قدر کرنے والے شوہر مل جائیں تو ہر لڑکی کی گئی خدمتوں اور چاہتوں کا صلہ شوہر کے بہترین رویئے اور اخلاق سے ہی وصول ہو جاتا ہے. پریشے ارمان کے جواب میں کیا کہتی الٹا ارمان کی اتنی چاہت پراس کی آنکھیں بھر آئیں تھیں جنھیں ارمان نے بڑی عزت و چاہت سے اپنی انگلیوں کی پوروں سے سمیٹ لیا تھا.
YOU ARE READING
" تیری چاہتوں کے حصار میں ♥️ " ازقلم طیبہ حیدر✨
General Fictionایک ایسی کہانی جو آپ کو دنیا کے مسائل سے نکال کر ایک ایسے جہاں لے کر جائے گا جہاں قہقہے، محبت، اور اپنے ہیں . You can Follow me on ⬇️ Facebook : Tayyaba Haider Novels Instagram: Tayyaba_Haider.official