قسط نمبر 19

274 22 12
                                    

اتنی اعصاب شکن رات کے بعد پریشے ایک نئے عزم کے ساتھ بیدار ہوئی تھی. وہ آج ہر حال میں ارمان کی واپسی سے پہلے " ملک ہاؤس " پہنچنا چاہتی تھی اور اسے منا لینا چاہتی تھی کیونکہ اب وہ مزید ارمان کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی تھی. چونکہ سارہ اب آسانی سے چل پھر سکتی تھی اور مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی تھی اس لیے پریشے نے سارہ اور شہروز کو اپنی واپسی کے بارے میں مطلع کر دیا تھا جس پر شہروز نے خود اسے شام میں آفس سے واپسی پر ڈراپ کرنے کی آفر کی تھی اور وہ بخوشی اس پر راضی بھی ہو گئی تھی.

ناشتے کے بعد شہروز تو آفس کے لیے نکل چکا تھا جبکہ سارہ اور پریشے لاؤنج میں بیٹھی بڑی فرصت سے آنے والے ننھے مہمان کے لیے مختلف پلانگز کر رہی تھیں. ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ انہیں شہروز کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور پھر بعجلت انداز میں وہ اندر آتا دیکھائی دیا. شہروز کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئیں تھیں. اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ بات کا آغاز کس انداز میں کرے جبکہ پریشے اور سارہ بوکھلائے ہوئے شہروز کو نا سمجھی سے دیکھ رہی تھیں. اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے شہروز نے پریشے کو دونوں بازؤں سے تھام کر پیچھے پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھایا اور بڑی تحمل سے بات کا آغاز کیا.

" پریشے میرا بہادر بچہ ہے .....  ہے ناں ؟؟ .....دیکھو میں جو کچھ بھی کہوں اس کو بالکل ٹھنڈے دماغ سے، تسلی سے سننا. Panic نہیں کرنا !!! "

پریشے نا سمجھی سے کبھی شہروز کو تو کبھی پاس کھڑی سارہ کو دیکھ رہی تھی جو شہروز کے یوں بات کرنے پر پریشان نظر آ رہی تھی. پریشے کو اندر کہیں سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا جب شہروز نے ہمت مجتمع کرتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑا.

" مجھے ابھی کچھ ہی دیر پہلے ارمان کے نمبر سے موٹروے پولیس کی کال موصول ہوئی ہے. اطلاع کے مطابق دو گاڑیوں کا ایک ٹرک سے تصادم ہوا ہے. جائے حادثہ پر انہیں ارمان کا موبائل ملا ہے جس سے انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے کیونکہ اس کی کال ہسٹری پر جس نمبر پر آخری بار کال کی گئی وہ میرا ہی نمبر تھا."

پریشے کے تو ہوش خطا ہوئے جا رہے تھے. جسم ایک دم بے جان اور چہرے کی رنگت فق ہوچکی تھی. وہ یک ٹک گم صم سی اپنے بھائی کے بولے گئے الفاظ پر غور کر رہی تھی. آیا وہ صحیح سن رہی ہے ؟ کیا یہ کوئی ڈراؤنا خواب تو نہیں ؟

" ارمان ٹھیک ہے ناں ؟؟ .. ..... کس ہسپتال میں لے کر گئے ہیں اسے ؟ "
سارہ کے تو کلیجے پر ہاتھ پڑا تھا وہ روہانسی ہوتی ہوئی پوچھنے لگی .

" مجھے نکلنا ہو گا فورا !! " شہروز سارہ کی بات کو یکسر نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا تو سارہ نے اسے بازو سے کھینچ کر دوبارہ اپنی طرف موڑا اور تقریباً ہذیانی انداز میں چلاتے ہوئے بولی

" میں نے پوچھا ارمان ٹھیک ہے ناں ؟؟ "  سارہ اپنے بھائی کی سلامتی کی تصدیق چاہتی تھی. شہروز جس سوال سے بچ رہا تھا بالآخر وہ سارہ نے پوچھ لیا تھا جس پر بڑے ضبط سے آنکھیں میچتے ہوئے شہروز نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے آہستگی سے کہا.

" تیری چاہتوں کے حصار میں ♥️ "  ازقلم طیبہ حیدر✨Donde viven las historias. Descúbrelo ahora