قسط نمبر 18

290 21 18
                                    

ارمان کا آفس میں اگلا دن مصروف ترین گزرا. آفس سے واپسی پر وہ سیدھا " احمد ہاؤس " چلا آیا . نیت بہن کی تیمار داری کرنے کے ساتھ ساتھ پریشے کو واپس لانے کی تھی پر ادھر پہنچ کر اس کے سارے ارمانوں پر اوس پڑ چکی تھی. " ملک ولاز " سے سب ہی اس خوشخبری کو سن کر دوڑے چلے آئے تھے. جس کا مطلب تھا پریشے کی واپسی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا. سارہ تو موچ کی وجہ سے اٹھ نہیں سکتی تھی البتہ پریشے بھاگ بھاگ کر سب کی خاطر داری کر رہی تھی. سب لوگوں کا ارادہ شام تک واپس جانے کا تھا پر شہروز  کے بے حد اصرار پر دادا صاحب نے رکنے کا عندیہ دے دیا تھا.

اب " احمد ہاؤس " میں ایک محفل سی جمی ہوئی تھی.
دادی جان تو پریشے کے ساتھ کچن میں گھس کر سارہ کیلئے چاروں مغز اور خشک میوہ جات کے کوئی طوفانی قسم کے حلوے تیار کر رہیں تھیں جبکہ دادا صاحب سمیت ساری جوان پارٹی لاؤنج میں ہی پسر کے بیٹھی ہوئی تھی. ارمان کا اب تک پریشے سے آمنا سامنا ہی نہیں ہوا تھا. وہ نظر آتی بھی تو ادھر سے ادھر کام کرتے ہوئے.ارمان کی نظروں کی بے تابیاں ریحان سے کہاں چھپنے والی تھیں ؟ ریحان نے لاؤنج سے ہی بیٹھے بیٹھے کچن کی طرف منہ کر کے ہانک لگائی جہاں ابھی ابھی پریشے گئی تھی.

" بھابھی !!!!  ارمان بھائی کہہ رہے ہیں ہمیں بھی دیکھ لو .... ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں " ریحان کے اس اچانک حملے پر جہاں ارمان ایک دم بوکھلا گیا وہیں سب کی دبی دبی ہنسی نکل گئی. پریشے ریحان کی شرارت سمجھ کر کچن میں ہی کھڑی ہنس دی. اس کی دوبارہ ان سب میں جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی . وہ خود پر ارمان کی گہری نگاہیں محسوس کر سکتی تھی مگر وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی کیونکہ اسے سب کے سامنے بہت شرم محسوس ہورہی تھی. جس طرح ارمان اس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہاں موجود کوئی بھی شخص ارمان کی یہ چوری پکڑ لے.

پریشے ویسے بھی صبح سے سب کی آؤ بھگت میں مصروف تھی اور اب اس کی اتنی مصروفیات دیکھ کر ارمان کا دل کھٹا سا ہو گیا تھا.  اسے ایک دم سے ہر چیز سے اکتاہٹ سی محسوس ہوئی تو کھانا کھائے بغیر وہ کام کا بہانہ کر کے وہاں سے اٹھ آیا.اس کی طبیعت پر عجیب سی قنوطیت چھا رہی تھی. بات بے بات غصہ آ رہا تھا. گھر عجیب ویران اور سنسان لگ رہا تھا. اس پر مستزاد نیند بھی آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی.

بے شک ان کے درمیان وہ بات نہیں تھی پر اب جب سے ارمان کے دل کی کیفیات بدلی تھیں وہ ہر دم پریشے کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتا تھا. وہ وہاں موجود نہیں تھی پر کمرے میں موجود ہر چیز سے اسے پریشے کی خوشبو آرہی تھی. ارمان اپنے دل کی کیفیات سے عاجز آتا جیسے ہی اٹھ کر بیٹھا تو پاس پڑا ہوا موبائل بج اٹھا. سکرین پر پریشےکا نام جگمگا رہا تھا.پہلے تو وہ منہ پھلائے آنے والی کال کو دیکھتا رہا پھر بالآخر کال ریسیو کرتے ہوئے فون کو کان سے لگا لیا. پریشے کے سلام کا سرسری سا جواب دے کر وہ خاموش ہو گیا تو ایک پل کو تو پریشے کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا بات کرے لیکن پھر ہمت کرتے ہوئے وہ پوچھ بیٹھی.

" تیری چاہتوں کے حصار میں ♥️ "  ازقلم طیبہ حیدر✨Donde viven las historias. Descúbrelo ahora