قسط نمبر 10

284 20 4
                                    

ان کے درمیان پھیلی خاموشی پریشے کو اب کاٹنے کو دوڑ رہی تھی.جس سے گھبرا کر اس نے بات کرنے میں پہل کی.

"آپ کی میٹنگ کیسی رہی؟"

یہ ان کے درمیان ہونے والی پہلی گفتگو تھی ورنہ پوری واک کے دوران اب تک دونوں خاموش تھے.

"بہت اچھی !! صرف آپ کی وجہ سے." ارمان نے تشکر بھرے انداز میں پریشے سے مسکراتے ہوئے کہا.

"میری وجہ سے؟؟ " پریشے نے ناسمجھی کے انداز کہا.
وہ دونوں چلتے چلتے ایک دم رک گئے تھے.

"ہاں بھئی ! تمہاری وجہ سے.... تم نے جس طرح مجھ سے دادا صاحب اور میرے متعلق کلیر کٹ بات کی,جو خدشات سامنے رکھے,جس طرح سے مجھے مثبت امید دلائی میں سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا. دراصل میں نےشرمندگی کی وجہ سےاس بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا. اپنے رشتے کو وقت اورحالات پر چھوڑ کر میں اپنا بہت بڑا نقصان کرنے چلا تھا. صبح آفس جاتے ہوئے سارے راستےمیں اس بارے میں سوچتا گیا اور پھر ایک فیصلہ کر کے پر سکون ہو گیا. اس کے بعد میٹنگ بھی کامیاب رہی اور اب میں اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہا ہوں صرف اور صرف تمہاری وجہ سے..."

ارمان اچانک آپ سے تم پر آ گیا تھا. اس نے بے تکلف ہو کر پریشے سے کھل کر بات کی تھی اور پوری ایمانداری سے سارا کریڈٹ بھی اسے دیا تو پریشے نے جھینپ کر سر جھکا دیا. چلنے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو چکا تھا.

" تو پھر کیا فیصلہ کیا آپ نے؟ " یاد آنے پر پریشے نے ایک دم سر اٹھا کر سوال کیا. ارمان نے ایک نظر پریشے کو دیکھا پھر سامنے دیکھتے ہوئے بولنے لگا.

"میں اب دادا صاحب کے پاکستان آنے کے بعد" ملک ولاز" جاؤں گا اور مزید وقت ضائع کیے بغیر انہیں منا لوں گا."

"بہت اچھا فیصلہ کیا آپ نے (پھر کچھ توقف کے بعد بولی) بھابھی بتا رہی تھیں کہ دادا صاحب کی طبیعت میں پروگریس کے تحت انہیں چھٹی مل گئی ہے. اب وہ ایک ہفتے کی بجائے پرسوں ہی آ رہے ہیں."

پریشے ارمان کے اندر مثبت بدلاؤ پر خوش تھی. وہ آہستہ آہستہ اپنے خود ساختہ خول سے باہر آ رہا تھا. ارمان نےاس معاملے سنجیدگی انا اور بے حسی کا جو لبادہ اوڑھ رکھا تھا اب وہ اتر رہا تھا.

" تو پھر ہم پرسوں ہی" ملک ولاز "جائیں گے.... تم دادی جان کو فون کر کے بتا دینا.میں اب ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتا. " ارمان نے فیصلہ کن انداز میں پریشےسے کہا.

صحیح کہتے ہیں اللہ تعالیٰ تب تک انسان کی مدد نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود کوشش نہ کرے. ارمان نے یہ کام اپنی ذات کے محاسبے سے شروع کیا تھا اور اب وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے سوچ کے کتنے مراحل طے کر گیا تھا.اس کے لیے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گئی تھی اورجو بے سکونی اس کی طبعیت میں تھی اس کی اب رمق بھی دیکھائی نہیں دے رہی تھی.

" تیری چاہتوں کے حصار میں ♥️ "  ازقلم طیبہ حیدر✨Donde viven las historias. Descúbrelo ahora