قسط ١٠

745 53 18
                                    

عیدِ زندگی
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 10#####

"ارے میں کہہ رہا ہوں بے جلدی کر لے نہیں تو بگ بی نے ہمیں نہیں چھوڑنا۔" علی نے حمدان کو آواز لگائی جو آرام سے چئیر پر بیٹھا انھیں کام کرتا دیکھ رہا تھا۔
"ماموں پھپھو کہاں ہیں؟" امتنان تیار ہوئی بھاگتی ہوئی آئی جسے علی نے فوراً اٹھا لیا۔
"ماموں کی جان! چھوڑو پھپھو کو آپکے ہینڈسم ماموں ہیں نا!" علی نے امتنان کے گال چومتے ہوئے مسکرایا۔
"لاحول ولا قوۃ!" افراز جو لائٹنگ سیٹ کروا چکا تھا، ہینڈسم کا لفظ سن کر اچھلا تھا۔
"ماموں آپ گندے ہیں۔ میری پھپھو اچھی ہیں۔" صدا کی نخریلی عون کی صاحبزادی، حائمہ کی کاپی اور مہوش کو تنگ کرنے والی امتنان ناراض ہو چکی تھی۔
"بلکل ٹھیک کہا میری گڑیا نے۔" راحم نے اسے علی سے لیتے ہوئے اپنے کندھے پر بٹھایا۔
"علی ماموں ماما کب آئیں گی؟" آریز بھی پاس سے نمودار ہوا تھا۔
"یہ صحیح ہو گیا علی ماموں۔ شادی سے پہلے ہی بچے سنبھالنے کی پریکٹس ہو رہی تمہیں تو۔" حمدان نے موبائل سے سر اٹھا کر کہا۔
علی نے اسے گھورا اور پھر دونوں بچوں کو، جو کہ آج کی رات کی مناسبت سے فل تیار تھے، بہلا پھسلا کر اندر بھیجا۔
"اففف برتھ ڈے بگ بی کی بیگم کی اور بے غم بھی وہی۔" عون نے راحم کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
"نہ کریں عون بھائی ساری تیاری تو پارٹی کی ہم نے کی ہے۔ یہ سارا گھر جو سجا ہے صرف مابدولت کی وجہ سے ہے۔" حمدان نے لمبی چھوڑی حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ افراز، علی اور حمدان سے صرف باتیں کروائی جا سکتی ہیں۔ کام کرنے والا تو شہزادہ تو صرف راحم تھا۔
"عون بھائی مت کہا کرو۔ تم سے ایک سال ہی چھوٹا ہوں میں حمدان!" عون نے آنکھ دبائی جبکہ ان چاروں کا منہ کھل چکا تھا۔
"اس کا مطلب ہے حمدان تو فیل ہو ہو کر ہمارے ساتھ پڑھ رہا ہے۔" افراز نے ڈرامائی انداز میں پوچھا۔
"مذاق کر رہا ہوں۔ خوش رہو، ایسے ہی ساتھ رہو۔ بہت خوبصورت دوستی ہے تم لوگوں کی۔" عون نے ہنستے ہوئے ان چاروں کی دوستی کو دعا دی۔
"عون بھائی کیا آپکے ہماری طرح دوست نہیں تھے؟" راحم نے ایک سنجیدہ سوال کیا۔
"یہ عجیب سوال لگتا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ میں، حائمہ اور مہوش ایک سکول، ایک کالج میں پڑھتے رہے اور کسی کی ضرورت نہیں تھی ہم تینوں کو۔ پھر یونیورسٹی میں بنے دوست مگر حائمہ نامی بلا بھلا لڑائی کئے بغیر کہاں رہ سکتی ہے۔ یہ ہر دوسرے روز ان لڑکوں سے لڑائی کر لیتی تھی۔ دوستی ختم تو نہیں ہوئی لیکن ایک یادگار دوستی میں نہیں بنا پایا۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ میں وہاں حائمہ کا پرسنل باڈی گارڈ بن کر جاتا ہوں۔" عون کے سنجیدہ جواب میں بھی اس نے مزاح شامل کر دیا تھا۔ علی جانتا تھا کہ عون کو یہ افسوس رہا کہ وہ دوست نہیں بنا پایا زیادہ کیونکہ حائمہ جو لڑائیاں ڈال دیتی تھی۔
"افسوس نہیں ہوتا کہ دوست نہیں ہیں؟" حمدان بھی اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
"محسوس نہیں ہوتا کیونکہ سکول، کالج، یونی میں نہیں تھے مگر یہ کالونی ساری دوست تھی۔ آفندی سٹریٹ کے ہر گھر میں موجود بچے میرے اور حائمہ کے دوست تھے۔ اور یہ واحد تھے جن سے حائمہ لڑتی نہیں تھی۔ مگر ہاں وہ دوستی میری نہیں رہی جسے سکول فرینڈز کہتے ہیں۔ اچھا اب بس اس مسز ہٹلر نے یہ سن لیا تو سر پھاڑ دیگی۔ بقول اسکے اسکی مرضی کے بنا میں دوست بنا ہی نہیں سکتا۔" عون ہنسا تھا۔
"آپ لوگ بہترین دیور بھابھی ہیں۔ مجھے نہ ملی ایسی بھابھی! " افراز نے افسوس سے کہا تو اسکی شکل دیکھ کر سب کی ہنسی نکل گئی تھی۔ افراز کی بھابھی انتہائی سخت گیر تھیں اور ایسا نہیں تھا کہ وہ اسکا خیال نہیں کرتی تھیں مگر افراز کو انکی لگائی پابندیاں زہر لگتی تھیں۔
"گدھوں کہاں لگا دیا۔ حائمہ کی برتھ ڈے پارٹی ہے۔ مہمان آنا شروع ہو گئے ہیں اور تم لوگ مجھے باتوں میں لگا کر بیٹھے ہو۔" عون فوراً اٹھ کر انٹرنس پر گیا جہاں سے اب بزنس کی شخصیات اور انکے جاننے والے اندر آ رہے تھے۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"چلو گھر چلیں!"ارحان نے حائمہ کو مخاطب کیا۔
"مطلب ہم یہاں فضول میں سمندر دیکھنے آئے تھے۔ بات کچھ نہیں تھی۔" حائمہ تپ چکی تھی اور ہمیشہ کی طرح صبح سے اپنی برتھ ڈے بھی یاد نہیں تھی۔
ارحان نے اس کے لیے ایک بہت بڑی سرپرائز برتھ ڈے پارٹی  رکھی تھی۔ اسے بہانے سے یہاں لایا تا کہ پیچھے انتظامات ہو سکیں۔
"نہیں تمہارے ساتھ آنا فضول تھوڑی ہو سکتا ہے۔" ارحان نے گاڑی کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
"ارحان!" حائمہ نے ایک مکا ارحان کے بازو پر رکھ کر مارا تھا۔
"لوگ کہتے ہیں شوہر ظلم کرتا ہے مگر یہاں تو میری بیوی سرِعام ساحل سمندر پر مجھ پر تشدد کر رہی ہے۔" ارحان کی مسکراہٹ اسے تپانے والی تھی۔
"میں بات ہی نہیں کرونگی۔" حائمہ نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے گویا حکم صادر کیا۔
"سچ میں؟ ذرا میری آنکھوں میں دیکھ کر بولو!" ارحان اسے چڑا رہا تھا۔
حائمہ نے اسکی طرف دیکھا جس پر ارحان کا قہقہہ نکل گیا تھا اور وہ غصے سے سرخ ہوتی زور سے دروازہ بند کرتی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ ارحان بھی مسکراہٹ چھپاتا گاڑی میں بیٹھا تھا۔
"مسز اپنا بی پی مت ہائی کیا کرو۔" ارحان نے آرام سے اسکے سر پر چپت لگائی۔، جسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔
"اچھا ادھر تو دیکھو۔ سوری! معاف نہیں کرو گی کیا؟" ارحان نے اپنے کان پکڑے تو حائمہ نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ پکڑ کر نیچے کر دیئے تھے۔ دونوں مسکرائے تھے۔
"مائے لارڈ اس نوازش کا شکریہ!"ارحان نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا جبکہ حائمہ کے ہونٹوں پر ایک آسودہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔
ہمسفر سمجھنے والا ہو تو ہر سفر انسان کو خوبصورت لگتا ہے۔
-

عیدِ زندگی سیزن ٹو Where stories live. Discover now