#عیدِ_زندگی_سیزن_2
بقلم
#سحرقادرEpisode 14:-
وہ اب اس کے سرہانے بیٹھی تھی۔
"تم بات نہیں کرو گے کیا؟" حائمہ ایسے سوال کر رہی تھی کہ جیسے وہ اسے جواب دے سکتا ہو۔
"عون تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ سب مجھے الزام دیتے ہیں کہ مجھے احساس نہیں ہے۔ میں کسے صفائی دوں؟ تم بھی نہیں ہو بتانے کے لیے۔" حائمہ مسلسل بول رہی تھی۔
"سب کو سنبھالتے سنبھالتے میں تھک گئی ہوں۔ ہم لوگ کہتے تھے کہ تمہارے مرنے پر بریانی کھائیں گے مگر کچھ بھی کھانا اب آسان نہیں لگتا۔" آنسو اس کے گالوں ہر بہہ رہے تھے۔
"میں جو ہر بات پر اپنی مرضی کا ردعمل دیتی تھی۔ آج سب کو سنبھالنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہی ہوں۔ آغا جانی کا فون آتا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کہوں؟" اس کی تمام باتوں کو عون پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
"عون ہمارا نہیں تو امتنان کا سوچ لو۔ تمہاری بیٹی کے سوال کون سنے؟ ہم نے تو اسے یہی کہا ہے کہ اس کے بابا بزنس ٹور پر گئے ہیں مگر وہ روز تمھیں یاد کرتی ہے۔" حائمہ کے کہنے پر عون کی انگلی ہلی تھی۔
"وہ باپ کی کمی محسوس کرتی ہے۔ کوئی کتنے بھی لاڈ کیوں نہ اٹھائے اسے صرف اپنے بابا چاہیے۔ اس بچی کے لیے تو زندگی کی طرف لوٹ آؤ۔"حائمہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
عون کی پلکوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی تھی۔ حائمہ یہ دیکھ کر ایک لمحے کو خوشی سے پتھر ہو گئی تھی۔
"ارحان...!" وہ چلائی تھی۔
اس کی آواز سن کر ارحان اور ڈاکٹر دونوں بھاگے بھاگے اندر آئے تھے۔
"ارحان عون کو ہوش آ رہا ہے۔" خوشی کے مارے اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
"آپ باہر جائیں پلیز!" ڈاکٹر نے انھیں باہر جانے کا عندیہ دیا۔
حائمہ باہر آئی تھی۔
تین ماہ بعد عون کوما سے باہر نکل آیا تھا۔ وہ عون جس کے کوما میں جانے پر سب زندگی سے روٹھے لگتے تھے آج کوما سے باہر تھا۔
"اللہ نے ہم سب کی سن لی۔" ارحان نے حائمہ کے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہا تو وہ بھی خوشی سے مسکرا دی اور پھر سب کو یہ خبر سنانے کے لیے ارحان کال کر رہا تھا۔
"آنسو تو صاف کرو۔" ارحان نے اسے ہنستے ہوئے کہا تو اس کے میکانکی انداز میں چہرہ صاف کر ڈالا تھا۔
خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔
____________________
____________________
"میرا عون ہوش میں آیا
میں تو ناچوں گا
بھئی ناچوں گا!"
علی ہسپتال میں عون کے کمرے میں کرتب دکھا رہا تھا، جبکہ باقی سب مسکرا رہے تھے۔
"منڈیا نہ سا سکا میرا
اینج چپ نئی او رہینڑا چائی دا
نی اینج نی ستاؤنڑا چائی دا"
افراز نے بھی تان لگائی۔
"ہوش وچ آندے آندے میرا مکھڑا ویکھی وے
میرا محبوب گواچا"
حمدان بھلا کیوں پیچھے رہتا۔ ان تینوں نے مل کر مشہور گانوں کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔
عون نے سر گھما کر راحم کو یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ تم نے کچھ نہیں سنایا۔
"نہیں نہیں عون بھائی میں شریف بندہ ہوں۔ یہ ہی شیطان ہیں۔" راحم نے مسکراتے ہوئے عون کو تسلی کرائی۔
"عون بھائی کچھ بولیں نا!" علی نے اس کا بازو ہلایا۔
"تم سے کہا خاک بات کروں۔ میری بیٹی اور بیگم کو لے آؤ۔ تم لوگوں کی شکلیں دیکھ کر اب تو میرا دل خراب ہو گیا ہے۔" عون نے مسکراتے ہوئے دہائی دی جس پر چاروں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔
"سہی ہے بھئ! چل علی ہم یونی چلتے ہیں لیٹ ہورہے ہیں۔ ان کو مہوش باجی پی سنبھالیں گی۔" افراز نے کہا اور پھر وہ مسکراتے ہوئے اسے خدا حافظ کہتے کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان چاروں نے کمرے کو کشت زعفران بنایا ہوا تھا اور عون بھی اب بہتر محسوس کر رہا تھا۔
___________________
___________________
"آؤچ!" فادیہ ہمیشہ کی طرح خیالوں میں کھوئی کسی سے ٹکرا چکی تھی۔ مقابل بھی کوئی اور نہیں حمدان خان تھا۔ وائٹ جینز پر بلیک شرٹ پہنے، کلائی میں بلیک گھڑی، بالوں کو جیل سے سیٹ کیے اور پاؤں میں سینڈل پہنے وہ کافی وجیہ لگ رہا تھا۔
"کیا آپ ٹھیک ہیں؟" حمدان نے تشویش سے پوچھا لیکن وہ تو اس کے طرزِ تخاطب پر ہی حیرت میں ڈوب چکی تھی۔
"فادیہ! آپ ٹھیک ہیں؟" حمدان اس کو خاموش دیکھ کر دوبارہ سوال کر رہا تھا۔ دوسری طرف فادیہ صرف یہ سوچ رہی تھی کہ حمدان اسے آپ کب سے کہنے لگا۔ وہ تو ہمیشہ اس کے لاکھ تپنے پر بھی تم ہی کہتا تھا۔
"جی میں ٹھیک ہوں۔" فادیہ نے کہا اور سائیڈ سے ہو کر گزرنے لگی کہ سامنے سے ہادیہ آ گئی۔
"ارے حمدان تم فادیہ کی منگنی میں کیوں نہیں آئے؟" ہادیہ حمدان کو دیکھتے ہی پٹری سے اترنے لگی تھی۔ ان تین مہینوں میں عون بھائی کے بارے میں سوچتے اسے اس مسئلے کا خیال ہی نہیں رہا تھا۔ فادیہ لب دبائے اس کا جواب سننا چاہ رہی تھی۔
"وہ... م.. میں کچھ... مصروف تھا۔" سوچ سوچ کر اس نے جواب دیا تھا کیونکہ اسے خود اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
"اچھا ہادیہ تم یہیں رکو۔ میں نا بس دو منٹ میں آتی ہوں۔ ہلنا مت ورنہ پھر تمہیں ڈھونڈنے کے چکر میں تھکنا پڑے گا۔" ہادیہ تیزی سے کہتی وہاں سے رفو چکر ہو چکی تھی۔
فادیہ زچ ہوتی اب وہیں کھڑے ہونے پر مجبور تھی۔
حمدان نے اس کے چہرے کو دیکھا۔ روایتی پٹھانوں جیسا گورا رنگ، بھوری آنکھیں، عنابی ہونٹ اور تھوڑی پر تل جو اسے سب سے منفرد بناتا تھا۔
حمدان نظریں جھکاتا وہاں سے گزرنے لگا کہ جب فادیہ نے اس سے سوال کیا۔
"عون بھائی کیسے ہیں؟"
"وہ ہوش میں آ چکے ہیں اور اب ٹھیک ہیں۔" حمدان نے اسے جواب دیا۔
دونوں کو ہی سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا بات کریں۔
"آپ اپنی منگنی میں کب بلائیں گے؟" فادیہ جو ہمیشہ سے ڈرپوک تھی آج نجانے اتنی ہمت سے اپنی ہی محبت سے یہ سوال کیسے کر بیٹھی تھی۔ محبت نے شاید اسے فی الوقت بہادر بنا دیا تھا۔
"آپ چاہتی ہیں کہ میں منگنی کر لوں؟" حمدان نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے سوال کیا۔ وہ پچھلے کچھ عرصے میں اپنی فطرت کے برخلاف سنجیدہ طبیعت اختیار کر چکا تھا۔
"نہیں میرا چاہنا ضروری تو نہیں ہے۔ آپ منگنی کریں یا شادی مجھے اس سے کیا؟" اس نے خود پر ضبط کرتے بے نیازی کا اظہار کیا۔
یونیورسٹی کے کوریڈور میں کھڑے حمدان کو اس کا انداز شش و پنچ میں ڈال گیا تھا۔ وہ اس کے لیے لڑنا چاہتا تھا لیکن اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر فادیہ اسے پسند نہ کرتی ہو تو کیا ہوگا؟ اسے یہ معلوم کب تھا کہ فادیہ کو اس سے بے لوث محبت ہے۔
"میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ محبت ہوئی تھی مگر لاحاصل ٹھہری اب میں کیا کر سکتا ہوں۔" حمدان نے لمبی سانس بھرتے بے بسی کا اظہار کیا۔
فادیہ محبت کا نام سن کر ساکت ہو گئی۔ دل واہموں کو شکار تھا کہ پتہ نہیں حمدان خان کی محبت کا اعزاز کس خوش نصیب کو حاصل ہوا ہے۔کیونکہ وہ بھی حمدان کی محبت سے بے خبر تھی۔
"کا سے محبت ہوئی تھی آپ کو؟" سوال ہمت سے کیا گیا لیکن دل کسی خزاں رسیدہ درخت کے پتے کی طرح لرز رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت سے انجان خود سے جنگ لڑ رہے تھے۔
"آپ سے!" حمدان نے بغیر جھجھکے آغاز کر ڈالا تھا۔ وہ جو کسی خوبصورت موڑ پر یہ کہنا چاہتا تھا آج بے بس ہو کر حقیقت فادیہ پر آشکار کر چکا تھا جو اس کی بات سن کر مرنے کے قریب ہو چکی تھی۔
"آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟" اس کی آنکھوں میں نمی کی ایک پتلی سی تہہ دیکھی جا سکتی تھی۔ حمدان کا سانس اس کے تاثرات دیکھ کر تھم سا گیا تھا۔
"کیا آپ بھی.....؟" جملہ دانستہ ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔
فادیہ اثبات میں سر ہلاتی، آنسو چھپاتی وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔ ان دونوں کو یہ آج پتہ چلا کہ وہ یکطرفہ محبت کا شکار نہیں ہیں مگر افسوس روایات کی زنجیریں انہیں جکڑیں ہوئے تھیں۔ فادیہ کو کسی اور کے نصیب کا چاند بنا دیا گیا تھا اور حمدان بت بنا یہ سوچ رہا تھا کہ وہ خوش قسمت ہے کہ فادیہ کی محبت ہے یا پھر وہ بدقسمت ہے کہ اس کے بچپن کے دوست سے اس کی محبت منسوب ہو چکی ہے۔ وائے وے قسمت! تو نے نجانے کتنی محبتیں برباد کرنی ہیں۔
___________________
___________________
"اوئے تجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کام جلدی کرنے کا ہے۔" جگو نے اونچی آواز میں چارپائی پر لیٹے منگو کو کوسا۔
"پیارے یہ کام اطمینان سے باس کے حکم پر کرنا ہے۔ اور سن، یہ جو شریف بھائی ہمارے ساتھ ہے نا اس کو بھی آگے پیچھے کریں گے تو پھر مزے ہونگے نا!" بات کے آخر پر معنی خیزی سے قہقہہ لگاتے منگو نے جگو کو آنکھ ماری تو جگو بھی ہنس دیا۔
بوسیدہ سے کمرے میں دو چارپائیوں موجود تھیں جن میں سے ایک پر منگو دراز تھا جبکہ دوسری جگو کمرے کے کونے پر اینٹوں سے بنائی بیٹھنے کی اونچی جگہ پر آلتی پالتی مار کا بیٹھا تھا۔
"یار یہ اتنا کیٹ کیوں ہو رہا ہے کام؟" جگو کی سوئی پھر بھی وہیں اٹکی تھی۔
"ابے او گھامڑ! یہ کوئی پیشہ ور بکنے والی عورت نہیں جو آسانی سے ہاتھ لگ جائے۔ شہر کے جانے مانے طاقت ور خاندان سے تعلق رکھنے والی باردار شہزادی ہے جس پر ہمیں....." منگو نے فوراً اٹھ کر بات کی اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
"جس پر ہمیں داغ سجانے کا شوق ہو رہا۔" جگو نے جملہ پورا کیا۔
"اوئے شیطان کے چیلو! آگے کم گناہ ہیں جو تم لوگ اب یہ عیاشیاں بھی کرنا چاہتے ہو۔ کہیں تو خدا کا خوف کھاؤ تاکہ آخرت میں رب کو منہ دکھا سکا۔" حسب معمول اندر داخل ہوتے وہ ان کی آدھی ادھوری بات سے سب سمجھ چکا تھا۔
"پیارے تو ایک بات بتا!" منگو کھڑا ہوتا اب اس کے سامنے کھڑا ہوا۔ اس نے بھنوؤں کو اٹھایا جیسے جلدی سے سوال جاننا چاہ رہا ہو۔ منگو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا جبکہ جگو دلچسپی سے یہ مکالمہ سن رہا تھا۔
"تو اتنا ہی شریف اور پارسا ہے تو ہمارے دھندے میں کیوں آیا؟" منگو کو ہمیشہ وہ مشکوک لگتا تھا۔
"دھندے میں پیسہ ہے اور پیسے کے لیے میں آ گیا بس اور جہاں تک بات ہے عیش و عشرت کی تو پیسے سے عیش کرتا ہوں لیکن بدکردار نہیں بننا چاہتا۔" زہرخند لہجے میں کہتا وہ اپنا کندھا چھڑاتا باہر نکل گیا تھا۔
" جگو یہ پیارا بڑی نرالی چیز ہے۔ یہ کسی دن کوئی گل کھلائے گا مگر باس نہیں سمجھتا۔" منگو نے پریشانی سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر کھلے دروازے سے اس کی کاروائیان دیکھتے سوچ میں گم ہو گیا۔
"چھوڑ نہ اسے نہیں ہوگا عورتوں کا شوق۔" جگو نے ہمیشہ کی طرح بات سمیٹی۔
"تو مان نہ مان مگر دھندے میں دس سال کا تجربہ ہے۔ یہ کاکا کوئی گہری چیز ہے گہری!" منگو کا ذہن ایک ہی نقطے پر مرکوز تھا۔
"اچھا بس کر کہہ تو ایسے رہا ہے جیسے وہ کوئی فرشتہ صفت حاجی ہو جو ہمیں اچھائی کا سبق پڑھا رہا ہو۔ یر کام میں طاق ہے بس چھوکری کے معاملے میں اڑی کرتا ہے تو رہنے دے اس کے سامنے بات نہیں کرتے۔" جگو نے بات ختم کی اور اٹھ کر پیارے کا غصہ کم کرنے باہر نکل پڑا۔
_____________________
_____________________
"مام میں اب بابا سے ناراض ہوں۔" معمول کے مطابق فرنچ چوٹی بنائے وہ یونیورسٹی سے واپسی پر دھپ سے آ کر صوفے پر بیٹھی۔ منہ پھلایا ہوا تھا۔
"بڑی بات ہے کہ تم مجھے چھوڑ کر کبھی بابا سے بھی ناراض ہوئی۔" اس کی والدہ نے مسکرا کر اسے چھیڑا۔
"ہاں تو انھوں نے کبھی موقع ہی نہیں دیا ناراض ہونے کا۔" ربیشہ نے آنکھیں چھوٹی کیں اور پھر ٹانگیں سامنے میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
"تو پھر جب موقع نہیں دیتے تو آج اس ناراضگی کی وجہ؟" والدہ نے ٹی وی کو بند کیا اور اس سے پوچھا۔
"بھئی وہ اتنے دنوں سے مجھے وقت نہیں دے رہے۔ ڈی آئی جی آفاق جہانزیب کے پاس ساری دنیا کے لیے وقت ہے مگر اپنی بیٹی ربیشہ آفاق کے لیے نہیں ہے۔" ربیشہ نے غصے سے وجہ بیان کی اور پاس پڑے بیگ سےچیونگم نکال کر کھانے لگی۔ اس کی والدہ اس کی حرکتیں دیکھتیں، نفی میں سر ہلاتیں کچن کی طرف جا چکی تھیں۔
"ہائے اللہ! دشمن فوج کا حملہ!" ربیشہ کی چیخ نکلی تھی۔ کچن میں موجود اس کی والدہ مسکرائی تھیں کیونکہ یہ تو روز کا معمول تھا۔
"دادی یہ کیا ہے؟ اتنی زور سے کوئی اپنی اکلوتی پوتی کو لاٹھی مارتا ہے۔" ربیشہ نے ٹانگ ملتے ہوئے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔ اب وہ اپنی ٹانگیں میز پر سے ہٹا کر صوفے پر اوپر کر کے بیٹھ چکی تھی۔
"یہ طریقہ سلیقہ مند بیٹیوں کے بیٹھنے کا نہیں ہے۔ میرا آخری بار بتا رہی ہوں رشی آئندہ تو نے میز پر ٹانگیں رکھی تو ٹانگیں توڑ دونگی۔" دادی جلالی انداز میں ہنوز اسے گھورے جا رہی تھیں جو منہ بناتی موبائل پر نجانے کیا دیکھنے لگی تھی۔
"ارے سن رہی ہو؟" دادی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے ایک تھپڑ اس کے کندھے پر رسید کیا۔
"دادی کیوں تشدد کر رہی ہیں؟ قسم سے آپ کو دیکھ کر ہی یقین ہو جاتا ہے کہ آپ کی اولاد پولیس میں ہے۔" ربیشہ کندھا سہلاتی اب ان کی طرف رخ کیے شکوہ کر رہی تھی۔
"یہ تشدد نہیں ہے۔ اور میں تیری اچھی تربیت کے لیے ہی تو کر رہی ہوں۔ کل کو اگلے گھر جانا ہے جا کر ناک کٹوائے گی کیا؟" دادی نے اب کی بار پیار سے ناصحانہ انداز میں سمجھایا۔
"دادی ایک بات تو بتائیں۔" ربیشہ نے فون بیگ میں ڈالا اور پوری طرح دادی کی طرف متوجہ ہوئی۔
"ایک کیا سو بتائے دیتی ہوں۔" دادی ایک دم اس توجہ پر جوش میں آئیں تھیں۔
"وہ بات یہ ہے کہ... " ربیشہ نے اپنی ٹانگیں صوفے سے نیچے کیں اور دادی سے تھوڑا فاصلہ اختیار کیا جبکہ دادی بات سننے کے لیے بے قرار تھیں۔
"کہ دادا آپ کو کیسے برداشت کرتے ہونگے؟" ربیشہ نے کہا اور فوراً سے اٹھ کر دوسرے صوفے پر جا بیٹھی۔ دادی نے لاٹھی اٹھائی مگر وہ دور پہنچ چکی تھی۔
دادی کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
"اللہ دادی کیا مزے کے تاثرات ہوتے ہیں آپ کے... مزہ آ جاتا ہے۔" دادی کے غضبناک تاثرات دیکھ کر ربیشہ پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنسی جا رہی تھی۔
"نانی کو تنگ کر رہی ہو رشی!" زیغم نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے ہنس کر کہا۔
"ارے کہاں زیغم بھائی؟ آپ کی نانی تو مجھے تنگ کر دیتی ہیں۔" وہ فوراً سے اپنی صفائی دینے لگی۔
"شاباش رشی بیٹا! اب بوڑھی دادی تجھے تنگ کر دیتی ہے۔" دادی نے فوراً بات کو پکڑا تھا۔
زیغم جو اکلوتے ماموں کے گھر آیا تھا، دادی ہوتی کہ نوک جھوک دیکھ کر ہمیشہ کی طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔
"ارے نہیں تو دادی آپ تو میری جان ہیں۔" وہ فوراً سے اٹھ کر دادی کے گلے لگی۔
"چل پرے ہٹ! میرا نواسہ آیا ہے اس سے دو گھڑی بات کر لینے دے۔" دادی نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک اور دھپ رسید کی۔
"جا رہی ہوں۔ بعد میں نہیں بلائیے گا کہ آؤ رشی باتیں کریں۔ نواسے سے ہی کام چلائیں۔" ربیشہ بھی بیگ اٹھاتی اب فریش ہونے کے لیے اوپر بھاگی تھی۔ زیغم اور دادی پیچھے سے بس مسکرا کر رہ گئے تھے۔ ربیشہ عرف رشی کی جان دادی میں اور دادی کی جان ربیشہ میں تھی لیکن دونوں کو نوک جھوک بھی ایک معمول کی بات ہے۔
___________________
___________________
"گولی مجھے لگی ہے، منہ تمہارا بنا ہے۔ یہ کچھ عجیب نہیں ہے؟" عون نے مہوش کے پھولے منہ کو دیکھ کر اعتراض کیا۔
"بزنس کا اتنا بھی کیا جنون کہ ہر پراجیکٹ تم اپنے نام کرنا چاہو۔ ہماری کوئی پروا نہیں ہے تمہیں؟" مہوش غصے سے پھٹ پڑی تھی۔
"ہائے اللہ!" عون نے ایسے ظاہر کیا جیسے اسے کچھ معلوم نہیں اور وہ مہوش کی باتیں سن کر بہت حیران ہو رہا ہے۔
"ڈرامے بند کرو عون!" مہوش کسی صورت اس پر غصہ کیے بغیر رہنے نہیں والی تھی۔
"تو کیا کروں؟" عون نے دلچسپی سے پوچھا۔ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے بھی اس کو چین نہیں تھا۔
"سکون سے بزنس کرو زیادہ آگے پیچھے ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بگ بی دے کچھ سیکھو۔ ایک بار اللہ نے جان بچا لی ہے تو اب حرکتیں درست کرو۔" مہوش نے ماتھے پر ہاتھ مار کر اسے سمجھایا۔
"یار سیدھا سیدھا کام کروں گا تو مزہ کیسے آئے گا۔ قسم سے جڑا مزہ آتا ہے جب تجربہ کار کاروباری لوگوں کی بجائے مجھے پراجیکٹ ملتا ہے اور ان کے لٹکے چہرے تو مزہ دوبالا کر دیتے ہیں۔" عون نے اسے جوش سے بتایا۔
"دوبالا کر دیتے ہیں۔" مہوش نے طنزیہ اس کی نقل اتاری۔
"آئندہ مزے کو دوبالا کرنے کی کوشش کی نا تم نے تو اس بار تمہیں میں گولی مار کر غصے کو دوبالا کرونگی۔" مہوش نے سامنے جھکتے ہوئے انگلی اٹھا کر اسے خبردار کیا۔ عون نے مہوش کو ایک نظر دیکھا جس کا چہرہ غصے کی وجہ سے ہلکا سا سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔
"بند کرو یہ مسکرانا!" حسب معمول فوراً سے مہوش نے اسے ٹوکا تھا۔
"جو حکم ملکہ عالیہ!" عون نے اٹھ کر مزید آداب بجالانے کی کوشش کی جب مہوش نے اسے روکا۔
"اچھا بس! اب اس حالت میں تکلیف برداشت کرنے کا ڈرامہ کرکے خود کو مظلوم شوہر مت ظاہر کرو۔ آرام کرو جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ کیونکہ تمہاری بیٹی نے مجھے تنگ کیا ہوا ہے۔" مہوش نے ساری بات امتنان کو وجہ بنا کر کہہ دی تھی جبکہ عون اس کی باتوں پر مسکراتا آنکھیں موند گیا تھا۔
"سنو!" تھوڑی دیر بعد اچانک عون نے اسے دوبارہ مخاطب کیا۔
"اب کیا ہے؟" مہوش جھنجھلائی۔ عون کو ڈاکٹرز نے آرام کا کہا تھا اور وہ کب سے مہوش کے دماغ کی گوڈی کر رہا تھا۔
"پیاری لگ رہی ہو۔" عون نے نچلا لب دبایا۔
"تمہیں یہ کہنا تھا؟" مہوش نے بھنویں اٹھا کر پوچھا۔
"نہیں وہ دراصل حائمہ کا پوچھنا تھا۔ جب میں ہوش میں آیا تب وہ پاس کھڑی تھی لیکن پھر غائب ہو گئی اور دوبارہ آئی بھی نہیں۔ باقی ماما، بابا، پھپھو، علی اور ارحان سب آئے تھے۔" عون نے تشویش کا مظاہرہ کیا۔
"چھوڑو تم! آرام کرو۔" مہوش نے اسے حکمیہ انداز میں کہا اور پھر عون کو نیند کی دوا کھلائی جس کے بعد وہ غنودگی میں چلا گیا۔
____________________
____________________
"یہ بیوقوفِ اعظم ہے۔" ہادیہ نے غصے سے فادیہ کو گھورا۔
"تمہیں آج پتہ چلا مجھے یہ کب سے پتہ ہے۔" ربیشہ نے دانت نکالے۔ اس وقت وہ فادیہ اور ہادیہ کے مشترکہ کمرے میں موجود تھیں۔ یونیورسٹی کے بعد بھی ایک دوسرے کی یاد ستائے تو ربیشہ یونہی ان کے گھر چلی آتی تھی۔
"پتہ چل گیا ہے نا اس لیے اب سر نہ کھاؤ۔" فادیہ نے جل کر خفگی کا اعلان کیا۔
"اچھا ہادیہ اب یہ بتاؤ کہ تم نے اس کی کونسی بیوقوفی دیکھی؟" ربیشہ اب ساری بات جاننے کے لیے متجسس تھی۔
"محترمہ کو جس سے محبت تھی پورا سال اس سے چھپتی رہی اور آج پتہ چلا کہ وہ محترم بھی فادیہ کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبے ہیں۔ یہ اگر پہلے بتا دیتی تو اس کی منگنی دانیال کی بجائے حمدان سے ہوتی۔" ہادیہ نے دانت پیستے ساری بات بتائی۔
"حمدان خان؟؟" ربیشہ کو تو نام پر جھٹکا لگا تھا۔
"ہاں مطلب لڑکا پاس اور محترمہ اس ڈر میں کہ کہیں وہ اسے انکار نہ کر دے۔" ہادیہ کو بہت زیادہ تپ چڑھی ہوئی تھی۔
"ہاں مگر اب پتہ چل گیا تو منگنی توڑو اور حمدان رشتہ لے آئے اور چٹ بیاہ پٹ منگنی والا کام کرو۔" ربیشہ نے یوں کہا جیسے منگنی توڑنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔ فادیہ بس سر پکڑے اسے گھور رہی تھی۔
"ہاں وہ جو بس فادیہ کو دیکھ کر بغیر رشتہ لائے اسے اپنی ملکیت جتا کر چلے گئے اور بی جان نے بھی رعب میں آ کر منگنی کر دی، وہ توڑنے دینگے نا اسے؟" ہادیہ نے ربیشہ کی کم عقلی پر طنز کیا۔
"مگر کوشش تو کرو نا!" ربیشہ اپنی بات پر مصر تھی کہ منگنی توڑنے کی کوشش کی جائے۔
"پٹھانوں میں رشتہ طے ہو جائے تو پھر لڑکی ساری عمر اسی کے نام پر بیٹھی رہتی ہے۔ہم شہر تو شفٹ ہو گئے ہیں لیکن روایات پر عمل آج بھی ویسا ہی ہے۔" فادیہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے نقطہ واضح کیا۔
"اف یہ روایات! شکر ہے میں پٹھان نہیں ہوں۔" ربیشہ نے ماتھا پیٹا اور شکر بھی کیا۔
"نہیں کچھ اچھی روایات بھی ہیں، جن کے بارے میں بعد میں بتاؤنگی لیکن ابھی اس فادیہ کا مسئلہ حل کرو۔" ہادیہ نے فادیہ کی طرف یوں اشارہ کیا کہ جیسے ہادیہ بذات خود مسئلہ ہو جو کہ اس اشارے پر منہ پھلا کر بیٹھ گئی تھی۔
_______________________
_______________________
جاری ہے!Show your response! My mood is off just your good response can lift me up.
YOU ARE READING
عیدِ زندگی سیزن ٹو
Humorکہانی حائمہ اور ارحان کی حائمہ کی بے پروائی کیا ارحان کو کر دیگی پاگل کوئی نیا کردار کیا ڈالے کسی کی زندگی پہ اثر عون آفندی کیا ہمیشہ کی طرح اس بار دے گا حائمہ کا ساتھ یا پھر.... ارحان آفندی کی برداشت کا امتحان بہت سے مزیدار واقعات کے ساتھ ایک خوبصو...