قسط ٩

826 60 75
                                    

عیدِ زندگی
بقلم
سحر قادر

###EPISODE 9###
###SURPRISE###

"یہ تم نے کارٹون کس کو بولا ہے؟" حمدان نے اس سے پوچھا۔
"ارے بھئی ظاہر ہے حمدان یہ گڑیا بہنا کو کہا ہوگا۔ ویسے شک تو ہے نہیں اس بات میں کہ یہ کارٹون جیسی ہے۔" افراز نے حمدان کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے اسے تسلی دی۔
"نالائقوں وہ تم لوگوں کو کارٹون کہہ رہی ہیں اور تم لوگ دل کو فالتو تسلیاں دئے جا رہے ہو۔" راحم کا دل انھیں صلواتیں سنانے کو چاہ رہا تھا۔
"بھئی راحم جان دل تو بچہ ہےنا۔" علی نے اسکے کندھے پر اپنے بازو پھیلائے تو راحم بدک کر پیچھے ہٹا۔
"میں نے کتنی بار کہا ہے میں تمہاری محبوبہ نہیں ہوں اس لیے مجھے جان مت کہا کر اور دور رہ کر بات کیا کر مجھ سے۔" راحم ان سب دوستوں میں انوکھا خشک مزاج پیس تھا جو کبھی کبھی مسخری کرتا تھا۔ وہ بھی اس لیے کہ جب اس کے اندر موجود اداکاری کے جرثومہ اس کو تنگ کرتے تو اسے کسی کو تنگ کرنا پڑتا۔
"بھئی تیرے جیسی محبوبہ ہم تینوں میں سے کسی کو  چاہیے بھی نہیں ہے۔" افراز نے جل کر کہا۔
"ارے یہ تینوں کہاں گئیں؟" حمدان نے اپنی لڑائی سے باہر نکل کر دیکھا تو ربیشہ، فادیہ اور ہادیہ غائب تھیں۔
"یہ سب اس نکمے کی وجہ سے ہوا ورنہ آج علی نے اپنے دل کی بات کہہ دینی تھی۔" افراز نے راحم پر ملبہ گرایا۔
"اوئے کونسی دل کی بات؟" علی اس بات پر اچھلا تھا کیونکہ اسے خود دل کی بات معلوم نہیں تھی۔
"ابے یہی کہ تم ربیشہ کو پسند کرتے ہو۔" حمدان نے سکون سے بتایا۔
"کیا؟" علی اور راحم مشترکہ چیخے تھے۔
"سالوں کان پھاڑو گے کیا؟" افراز نے تپ کر کہا۔
"تم نہ کان کھول کر سن لو میں اس کنگ کونگ کے فی میل ورژن کو کبھی مر کر بھی پسند نہ کروں۔" علی نے حمدان اور افراز کی گردن دبوچی۔
"اس سے پہلے تم سن لو کہ آئندہ مجھے تمہاری بات ان منحوسوں سے پتہ چلی تو تمہیں سیدھا اوپر پہنچاؤں گا۔" راحم نے علی کی گردن دبوچی۔
"راحم اور علی انسان کے بچے بنو یہ کیا گردن پکڑاً پکڑائی کھیل رہے ہو۔" پتلی گردن رکھنے والے افراز نے لال ہوتے چہرے کے ساتھ کہا۔
"اچھا اچھا بس بس زیادہ نازک پریاں مت بنو۔" راحم اور علی نے ہاتھ جھاڑے جبکہ حمدان اور افراز نے آزاد ہوتے ہی ایک بار لمبی سانس لی۔
"بزنس مین علی اور وزیر داخلہ سندھ کے بیٹے بچ کر دکھاؤ اب تم لوگ۔"حمدان نے بازو اوپر کرتے ہوئے خبردار کیا۔
"ابے راحم بھاگ!" علی نے راحم کو سگنل دیا۔
اور پھر تھوڑی دیر میں وہ چاروں یونیورسٹی میں پکڑاً پکڑائی کھیلتے نظر آ رہے تھے جس میں حمدان اور افراز باری دیتے ہوئے راحم اور علی کو پھینٹی لگانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔
"حمدان اور افراز تم لوگوں کی زکوٹا چڑیلیں!" راحم نے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے اشارہ کیا۔
حمدان اور افراز نے پیچھے دیکھا جبکہ علی اور راحم اس بات کا فائدہ اٹھا کر پارکنگ میں اپنی گاڑیوں کی طرف بھاگے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں غائب ہو چکے تھے۔
"چل کچھ کھائیں ان گدھوں نے بہت بھگایا ہے۔" حمدان نے افراز کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دونوں کینٹین کی طرف مڑ گئے جہاں کسی کی شامت آنے والی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
علی اور راحم اس وقت گھر میں داخل ہو رہے تھے۔
"چلو آج ان دو نالائقوں کی وجہ سے پہلی بار میں تمہارے گھر آ ہی گیا۔" راحم نے علی سے کہا۔
"کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے میں نے کبھی بلایا نہیں۔"علی نے منہ پھلایا۔
"نہیں یار پہلے تمہارے گھر میں آتے تھے۔پھر انکل کی ڈیتھ کے بعد تم لوگ ننھیال میں آ گئے تو عجیب سی جھجک تھی کہ جائیں نا نہ جائیں۔" راحم نے صفائی پیش کی۔
"ارے میرے ننھیال والے دنیا کے سب سے بہترین ننھیال والے ہیں حتیٰ کہ یہ تمہارے جیسے نمونوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔" علی نے بات کو مذاق کا رخ دیا۔
راحم، حمدان اور افراز اسکے بچپن کے دوست تھے اور چاروں ہمیشہ ساتھ ہوتے ہیں۔ مگر انکل کی وفات کے بعد سے انھوں نے علی کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا کہ ننھیال والے پتہ نہیں ان کی آمد کو اچھا سمجھیں یا نا۔
"اوپس لو برڈز!" راحم کے منہ سے حیرت کے عالم میں الفاظ پھسلے تھے۔
"میرے گھر میں کہا‌ں نظر آ گئے تجھے لو برڈز!" علی نے لان میں آگے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا۔
"اوہو وہاں دیکھو مین گیٹ کے پاس جو کار ہے اسکے سامنے۔" راحم نے علی کی توجہ مین گیٹ کہ طرف مبذول کروائی۔
آپی اور بگ بی!" علی نے دونوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا۔
"یہ ترکش ڈرامہ شوٹ ہو رہا ہے کیا؟" راحم نے ہنستے ہوئے سوال کیا۔
"نہیں بھئی یہ ذرا نیچے کے لیول پہ ہے تم اسے عبداللہ قدوانی یا فہد مصطفیٰ پروڈکشن کہہ لے۔" علی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
"دراصل ارحان آج چھٹی کر چکا تھا۔ ایک بار پھر اور بھی یشفہ کی وجہ سے۔ حائمہ اس بات پر غصے میں تھی۔ بقول اس کے ایسے تو بزنس ڈوب جانا اگر ہر وقت گھر پر ہی رہنا ہے تو جبکہ یہ الگ بات ہے کہ ارحان بیچارا آفس اور گھر دونوں میں گھن چکر بنا رہتا ہے۔ فی الحال ارحان نے ملازمہ کی مدد سے اسے باہر بلایا تھا تا کہ وہ اسے کہیں باہر گھمانے لے جائے اور اسکی ناراضگی دور کر سکے۔ مگر حائمہ ماننے کو تیار نہیں تھی۔
"اہممم!" علی نے گلا صاف کیا جبکے پیچھے سے راحم نے اسے ایک جھانپڑ رسید کیا۔
"شرم کر تم خوبصورت لوگوں کو ڈسٹرب کر رہے ہو۔" راحم کی بات پر حائمہ کے چہرے پر سرخی بکھری تھی۔ حائمہ نے اپنے ہاتھ ارحان کی گرفت سے چھڑانا چاہے مگر ارحان نے انھیں مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
"چپ کر راحم! بگ بی بچوں کے سامنے تو ہاتھ چھوڑ دیں۔" اب بھلا علی کی زبان کوئی پکڑ سکتا تھا۔ حائمہ فی الحال وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی اور بعد میں علی کو مارنا چاہتی تھی۔
"کیوں چھوڑوں؟ بیوی ہے میری!" ارحان نے مزے دے حائمہ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"بگ بی ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں!" علی نے ہنس کر کہا تو ارحان بھی ہنس دیا۔
"کوئی نہیں جلدی کر دیں گے تمہاری شادی بھی پر بیٹا پہلے پڑھ لو۔" ارحان کا موڈ آج اچھا تھا۔
"سویٹ کپل!" راحم نے بے دھیانی میں کہہ دیا جس پر حائمہ اسے گھور رہی تھی۔
"سہی کہہ رہا ہے نا حائمہ! بچے کی سمجھداری کو نظر مت لگاؤ۔ ویسے اس سویٹ کپل میں میں زیادہ پیارا ہوں۔" ارحان نے حائمہ پر چوٹ کی جبکہ وہ فوراً بولی۔
"جی نہیں میں زیادہ پیاری ہوں۔" ارحان کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
"ایک منٹ بگ بی آپ کی طبیعت ٹھیک ہے کیا؟" علی نے ارحان کے ماتھے کو چھوا۔
"میں بلکل ٹھیک ہو‌ں اور اب تم تنگ مت کرو۔ کوئی پوچھے تو کہنا میں اپنی بیگم کو لے کر گیا ہوں۔" ارحان نے حائمہ کے کندھے پر بازو پھیلائے جسے یہ سب ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
"ارحان!" وہ زچ ہوئی۔
"اچھا چلو چلتے ہیں۔" ارحان نے مزید حائمہ کو ریکارڈ لگانا چھوڑ کر گاڑی کا دروازہ کھولا جس میں حائمہ ناچاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی کیونکہ اب علی کے سامنے اس کے بے عزتی تھوڑی کروانی تھی۔
"بگ بی بڑی ترقی ہو رہی ہے۔" علی کی زبان قینچی کی طرح ابھی بھی چلنے سے باز نہیں آئی تھی۔ مگر ارحان آج خلاف معمول ایک مسکراہٹ دیتا چلا گیا تھا۔
"بھئی یہاں تو سب تبدیل ہو رہا ہے، بس میرا میریٹل سٹیٹس تبدیل نہیں ہو رہا۔نجانے کب تک سنگل رہونگا۔" علی نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"اچھا بس کر رونا۔ شادی کے بعد تو نے تو پکا جورو کا غلام بننا ہے مجھے یقین ہے۔" راحم نے اسکی عقل پر ماتم کیا۔
"تو؟" علی نے ابرو اچکائے۔
"تو یہ میرے بھائی کہ کیا تمہارے گھر مہمان کو کچھ پوچھتے نہیں ہیں۔ کچھ کھلا مجھے۔" راحم نے ڈھیٹوں کی طرح اپنی طلب بیان کی۔
"تم انتہائی بے مروت انسان ہو۔" علی نے دانت پیسے۔
" تمہارے پر گیا ہوں۔" راحم ہنوز پر سکون تھا۔
"اچھا چلو اندر بھوکے انسان تمہیں سب سے ملواؤں اور کھانا کھلاؤں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"اوہوہوہوہوہو!" حمدان نے ایک دم کینٹین میں بریک ڈانس کیا تو فادیہ کے ہاتھ میں پکڑا جوس کا. کین نیچے گرا تھا۔
"نالائق انسان یہ کیا ہے؟" ہادیہ اپنی چچازاد کزن کے نقصان پر چلائی۔
"آہستہ بولو ہم بہرے نہیں ہیں۔" افراز نے سب کو متوجہ ہوتے دیکھ کر خفت سے کہا۔
"ناٹ اگین! مجھے ان کارٹونوں سے بات نہیں کرنی۔" ربیشہ نے اپنا سر پکڑا جس میں ابھی پچھلی گفتگو کی وجہ سے درد ہو رہا تھا۔
" باجی آپ کو تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں تھا۔" حمدان نے اسے باجی کہا تو اس نے کینہ توز نظروں سے حمدان کو گھورا تھا۔
"ہادیہ بی بی جان کا دیا ڈریس اس نے خراب کر دیا۔" فادیہ نے ہادیہ کو مخاطب کیا جوکہ اپنی کزن کے نین کٹوروں میں پانی جمع ہوتے دیکھ رہی تھی۔
"رونا نہیں پلیز!" افراز نے بھی فادیہ کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر گزارش کی۔
"کیا فادیہ تم اتنی سی بات پر رونے لگی ہو۔" حمدان نے چونک کی فادیہ کو دیکھا جو صرف کپڑوں پر جوس گرنے پر پریشان ہورہی تھی۔ اب بھلا کسی کو کیا معلوم کہ فادیہ کتنی صفائی پسند تھی اور کپڑوں پر چھوٹا سا داغ بھی برداشت نہیں کرتی تھی۔
"فادیہ چھوڑو ان نالائقوں کو۔ گھر جا کر دھو لینا۔" ربیشہ نے اسے تسلی دی۔
"رشی مگر ابھی اتنی دیر میں اس خراب ڈریس کے ساتھ رہوں۔" فادیہ کے لہجے میں پریشانی تھی جیسے اسے کسی کتے کے ساتھ بند کر دیا گیا ہو۔
"مگر اس میں رونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ اب افراز کو دیکھ لو جوس گری شرٹ کے ساتھ دو دن گزار سکتا ہے۔" حمدان کی بات پر افراز کو چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا تھا۔
"ذاتیات پر مت اترو حمدان۔" افراز نے مصنوعی خفگی سے کہا اور دونوں کرسیاں کھینچ کر انھیں کی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
"فادیہ گھر چلیں؟" ہادیہ فادیہ کی پریشانی محسوس کر کے بولی۔
"ارے رہنے دیں۔"جواب افراز نے دیا تھا۔
"ویسے فادیہ آپ اتنی جلدی آنکھوں میں پانی کیسے جمع کر لیتی ہیں؟" حمدان کے تیکھے لہجے میں کئے گئے سوال پر فادیہ کی آنکھوں پر موجود بند ٹوت کر انسوؤں کے ریلے میں بہہ گیا۔
فادیہ کو کوئی یہ کہے کہ رونا مت یا تم رونے والی ہو تو وہ تب ہی رو پڑتی تھی۔ بقول ہادیہ کے میری یہ کزن آنسوؤں کے سٹاک کے ساتھ بھیجی گئی ہے۔
"ارے مس پلیز میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ دیکھیں میں معذرت چاہتا ہوں۔ اف گدھا ہوں میں ایک لڑکی کو رلا دیا۔ سنیں پلیز مت روئیں۔" حمدان بیچارہ جو پہلی دفعہ اس سچویشن سے گزرا تھا۔ اس کے ٹپ ٹپ بہتے آنسو دیکھ کر پریشان ہو چکا تھا۔
"فادیہ وہاں سے آٹھ کر چلی گئی تھی۔ ہادیہ اور ربیشہ بھی انھیں گھورتی اس کے پیچھے نکلی تھیں۔
"اف انتہائی نامعقول حرکت کی میں نے؟" حمدان اپنا سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔
"تجھے نہیں پتہ؟ پوری یونی جانتی ہے کہ فادیہ بی بی سے چھوٹا سا مذاق کرو یا تلخ یا اونچا بولو تو وہ رو پڑتی ہے۔" افراز نے اسکی عقل پر ماتم کیا جو اپنی پٹاری کھول کر بیٹھا بھی تو فادیہ کے سامنے۔
"اچھا میں آتا ہوں۔" حمدان اٹھ کر فادیہ کے پیچھے جانے لگا تو افراز اسے روک کر بولا۔
"بیٹھ جاؤ تمہاری لیلیٰ نہیں ہے وہ کہ اسکے آنسو صاف کرنے جاؤ۔"
"وہ میری وجہ سے روئی ہے۔" حمدان نے صفائی پیش کی۔
"اتنے لوگوں کو سخت ترین تنگ کیا تم نے؟ تب فرق نہیں پڑھا۔ آج کیا ہے؟ چل کیا رہا ہے؟" افراز نے تفتیش کرنا شروع کی۔
"فضول مت سوچ جانے دے۔" حمدان ہاتھ چھڑاتا بھاگا تھا۔
افراز پیچھے سوچ رہا تھا کہ  "عاحر" پلاٹون کا سب سے شرارتی، اپنے دوستوں کو بھی تپا دینے والا حمدان کیسے بدل گیا۔
"بڈیز حمدان بک ہو گیا یعنی مجنوں کی لیلیٰ مل چکی ہے۔" حمدان کے انداز میں فرینڈز گروپ میں خبر نشر کی گئی۔
حمدان نے میسج دیکھ کر دانت پیسے۔
"تجھے تو بعد میں سیٹ کرتا ہوں۔" حمدان فون پاکٹ میں ڈال کر بھا گا تھا مگر اس کی ناکامی کہ فادیہ کی گاڑی نکل چکی تھی۔ وہ بھی گھر کے لیے نکلا جبکہ پیچھے باقی تینوں گروپ میں اسے صلواتیں سنا رہے تھے۔
افراز بھی اسکے پندرہ منٹ بعد واپس نہ آنے پر گھر نکل گیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
شام ہو رہی تھی۔ مہوش نے آریز اور امتنان کو ہوم ورک کروایا اور پھر کمرے میں آ گئی۔ حائمہ اور ارحان ابھی تک گھر نہیں آئے تھے۔
"ہیلو مادام!" عون نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اسے مخاطب کیا جو منہ پھلا کر بیٹھی تھی۔
"شوہر آفس سے آیا ہے اور تم منہ بنا کر بیٹھی ہو۔" عون نے امکوٹ اتارتے ہوئے اسکا جائزہ لیا۔
"بہت شکایتیں ہیں تمھیں مجھ سے؟" سوال بے تکا تھا۔
"ہائے کیا بتاؤں کتنی شکایتیں ہیں؟" عون اور اسکے فضول جواب۔
"میں اچھی بیوی نہیں ہوں؟" مہوش نے پوچھا۔
"بس اب تو گزارا کرنا ہے۔" عون نے ٹھنڈی آہ بھری۔
مہوش حائمہ کیطرح شوہر کے ناراض ہونے پر رونے والوں میں سے تو تھی نہیں۔
"تو میرے کمرے سے نکل جاؤ۔" مہوش نے حکم دیا۔
"بخار وخار تو نہیں ہے۔" عون نے اسکے ماتھے کو چھوا۔
"دور رہو۔" مہوش نے انگلی سے خبردار کیا۔
"تمہارے بغیر کہاں جاؤں؟" عون کے ڈرامے!
"ریشم آرا کے پاس!" مہوش نے دوبدو جواب دیا۔
"اچھا تمہاری سوتن ویسے میری دوسری بیوی پراٹھے بہت مزے کے بناتی ہے۔" عون نے مزے سے ہمیشہ کی طرح اسے تپانا چاہا مگر آج اس کا دن نہیں تھا۔
"مہوش نے اسکے بال زور سے پکڑ کر بگاڑ ہر رکھ دئے تھے۔
"ڈھانے سے دوسری شادی کی ہوئی ہے؟" مہوش نے حقیقت پوچھی تو عون اور اسکا خود کا قہقہہ نکل گیا تھا۔
"ایم سوری!" عون نے کان پکڑ کر منہ بنایا تو مہوش ہنس دی۔ وہ دونوں اچھا کپل تھے کبھی بھی ناراض نہ ہونے والے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
" ہم کب سے یہاں بیٹھے ہیں کوئی بات نہیں کریں گے کیا؟" حائمہ نے خاموشی سے گھبرا کر کہا۔
"کیا بات کریں؟" ارحان نے پوچھا۔
"اللہ گھر تو بہت زبان چلا کر آئے ہیں۔" حائمہ نے شکل بگاڑی۔
"اچھا تو یہاں کروں وہ باتیں پھر منع مت کرنا۔" ارحان ہنسا تھا۔ حائمہ اس سے ہمیشہ فضول سوال کر جاتی تھی۔
"نہیں.... وہ.... میرا مطلب تھا..." حائمہ صفائی دینے لگی تو ارحان نے اسے ٹوکا۔
"رہنے دو مجھے معلوم ہے تمہارا مطلب۔ مسز  حائمہ ارحان آفندی کو صرف ارحان آفندی ہی جانتا ہے۔"
"میں تو حائمہ اکرم آفندی ہوں۔" حائمہ نے ایک ادا سے کہا تو ارحان نے ایک ابرو اٹھایا جیسے پوچھ رہا ہو واقعی!
"اچھا چلیں کیا یاد کریں گے حائمہ ارحان آفندی کر لیتے ہیں۔" ارحان کے تاثرات دیکھ کر حائمہ نے بیان بدلا تو وہ مسکرا دیا۔
"کیوں آئے ہیں یہاں؟" تجسس وہیں موجود تھا۔
"دس منٹ انتظار کر لو پھر یہاں سے چلتے ہیں۔" ارحان کی بات پر وہ بگڑی تھی۔
"مطلب اتنی دیر سے ہم یہاں بغیر کسی وجہ کے بیٹھے ہیں۔" اسے ارحان ہر غصہ آیا۔
"ابھی وجہ پتہ چل جائے گی مسز صبر کر لیں۔" ارحان کا لہجہ ایسا تھا کہ وہ چپ کر کے ساحل پر چہ چاپ اس کا بازو پکڑے چلنے لگی۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!

STAY TUNED!

عیدِ زندگی سیزن ٹو Where stories live. Discover now