قسط ٣

722 80 74
                                    

عیدِ زندگی
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 3####

"مطلب ارحان آفندی آپ نے ہر صورت جانا ہے؟" حائمہ نے منہ بنایا تھا۔
"پلیز ایک کپ چائے بنا دو پھر مجھے نکلنا ہے اور اب بحث مت کرنا۔" ارحان نے بات سمیٹی۔
"ہنہہ چائے بنا کر دوں میں اسے!" حائمہ پیچ و تاب کھاتی اب نیچے آ کر مہوش کو چائے بنانے کا بول چکی تھی۔
بھلا حائمہ کیوں چائے بنا کر دیتی ارحان کو جبکہ وہ اپنی کزن یشفہ کو لینے ائیر پورٹ جا رہا تھا۔ اب حائمہ کا غصہ بھی تو کوئی چیز ہے نا۔
_____________________
_____________________
"آپی یہ کیا کر رہی ہیں۔" علی نے نیچے بیٹھی حائمہ سے پوچھا جو پوری تندہی سے گاڑی کے ٹائر کا تیاپانچہ کرنے میں مصروف عمل تھی۔
"علی مت پوچھو آج تمہارے بگ بی مجھے جا کے تو دکھائیں۔ میں نے انکی گاڑی کا ٹائر پنکچر کر دیا ہے اب دیکھتی ہوں کیا کرتے ہیں وہ۔" حائمہ نے جوش سے علی کو بتایا جو اسکی حرکت پر حیران تھا۔
"حائمہ!! یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے!" پیچھے سے آتے عون نے اسکے عجیب حلیے کو دیکھ کر سوال کیا جوا گاڑی کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی بازو ایک سائڈ سے پھاڑ چکی تھی اور پورے منہ پہ مٹی لگی ہوئی تھی جو ٹائر کا کام کرنے کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے لگی تھی۔
"عون یار آج تمہارے بگ بی کو مزہ چکھا دینا میں نے۔" حائمہ نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"مطلب تم بگ بی کی گاڑی کا ٹائر پنکچر کر رہی تھی۔ مانا کہ ایک ہی گاڑی ہے گھر میں ابھی لیکن یہ طریقہ بہت پرانا ہے اس لیے بگ بی نے ڈرائیور کو کال کر کے دوسری گاڑی بھی گھر لانے کو کہا ہے جو ابھی آنے والی ہے۔" عون نے اسکی عقل پر ماتم کرنا چاہا جو نجانے پچھلے سالوں میں کتنی بار یہ کام کر چکی تھی۔
"عون تم جاؤ تمہاری بھابھی ماں سے میں خود بات کر لونگا۔" ارحان نے عون سے کہا جبکہ علی بھی وہاں سے کھسک چکا تھا۔
"لو آ گیا یہ ہٹلر میری جان عذاب بنانے۔" حائمہ نے صرف سوچا تھا کیونکہ کہہ تو وہ سکتی نہیں تھی۔
"کب تک چلیں گی یہ بچکانہ حرکتیں؟ میں بتا رہا ہوں یشفہ کے آنے پر کوئی تماشہ مت کرنا۔" ارحان نے اسے خبردار کیا۔
"ٹھیک ہے لیکن آپ اسے لینے مت جائیں، عون چلا جائے گا نا....!" حائمہ نے منہ بسور کر کہا تھا۔
"مگر کیوں؟" ارحان کی تیوری پر بل پڑے تھے۔
"کیونکہ حائمہ کو ارحان کے ساتھ شاپنگ پہ جانا ہے۔" حائمہ نے جھٹ سے اسے وجہ بتائی جس پر وہ سر جھٹکتا سوری کہتا دوسری گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔
"تم مجھ پہ یشفہ کو ترجیح دے رہے ہو؟" حائمہ کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔
"جو سمجھنا ہے سمجھ لو کیونکہ میں تمہیں نہیں سمجھا سکتا۔" ارحان نے تنگ آ کر جواب دیا اور چلا گیا۔
"آ جاؤ ذرا ایک بار یشفہ پھر دیکھنا تمہاری میں مسز قدوسی سے کرواؤں کی اچھے والی تا کہ مجھے سکون ہو تھوڑا۔" حائمہ دانت پیستی اب خود سے کہہ رہی تھی جب علی فوراً نکل کر باہر آیا۔
"جانے دیں آپی آئیں آریز کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔" علی نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔
"چلو لیکن وہ کر ہی نہ لے باپ کے علاوہ کسی سے بات۔" حائمہ کا موڈ سخت خراب تھا اور یقیناً ہٹلر کی وجہ سے ہی ہوا تھا ورنہ کسی اور کی کیا مجال کہ اسے تنگ کر سکے۔
__________________
__________________
"السلام علیکم!" کیسا ہے میرا بچہ؟" آغا جانی نے اسے پچکارتے ہوئے پوچھا جسکے بارے میں مہوش بتا چکی تھی کہ محترمہ منہ بنائے بیٹھی ہے۔
"وعلیکم السلام آغا جانی! آغا جانی میں نے آپ کے پاس آنا ہے بس!" حائمہ نے مصمم انداز میں اپنا مطالبہ پیش کیا۔
"ارے ارے پھر آریز اور ارحان کو کون دیکھے گا؟" آغا جانی نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
"آ رہی ہے نا وہ یشفہ! وہ رکھ لے گی۔" حائمہ نے ناگواریت سے کہا۔
"بچے آپ کو کیا مسئلہ ہے یشفہ سے؟" اب کہ بار آغا جانی کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
"بس ارحان اسے مجھ پر ترجیح دے رہا ہے اور مجھے شاپنگ پہ لے کے جانے کی بجائے اس کو لینے چلا گیا۔ یہ کوئی بات ہوتی ہے بھلا!" حائمہ کا موڈ یقیناً سخت خراب تھا۔
"دیکھو حائمہ ہم لوگ یہاں امریکہ میں یشفہ کے گھر رہ رہے ہیں۔ تقریباً ایک مہینا ہو چکا ہے لیکن کیا کبھی یشفہ یا اسکے گھر والوں نے میرے، اکرم اور شازیہ کے رہنے پہ اعتراض کیا؟ نہیں نا؟ تو پھر جو لوگ آپ کے آغا جانی اور والدین کا اتنا خیال کر رہے ہیں تو کیا آپ انکی بیٹی کو اپنے گھر نہیں رکھ سکتی؟" آغا جانی اسے جذباتی کر رہے تھے۔
"لیکن آغا جانی..... " حائمہ کچھ کہنے لگی تھی کہ آغا جانی اسکی بات کاٹ کر بولے:
" آغا جانی کی ہمت ختم ہو گئی ہے نا دوائیوں کے محتاج ہیں تو اب آپ ان کی بات بھی نہیں مانیں گی؟" آغا جانی نے دلگرفتہ لہجے میں کہا تو وہ سب کچھ بھول بھال کر انکی دلجوئی کرنے لگی اور آغا جانی مسکرا دیے۔ بقول ان کے وہ اپنی پوتی کو منٹوں میں راضی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یقیناً ایسا تھا تبھی تو اس نے ارحان سے شادی کر لی تھی اور آج انکی بات بھی مانتی تھی۔
"آغا جانی جلدی سے واپس آ جائیں اب۔" وہ ضدی لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"اچھا بابا پیلے بھیجنے کی جلدی تھی اور اب واپس بلانے کی۔بس چھوٹا سا آپریشن ہے اسکے بعد آ جاؤنگا۔" آغا جانی نے اسے بتایا اور پھر رسمی جملوں کے بعد انھوں نے فون بند کر دیا۔
پچھلے کچھ عرصے میں آغا جانی کی دل کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی جسکی وجہ سے اکرم آفندی اور شازیہ اکرم انکو علاج کے لیے امریکہ لے گئے تھے جہاں اب انکا دل کا آپریشن ہونا تھا۔ لیکن یہ سچ بات ہے کہ نہ ان کا دل عون اور حائمہ کے بغیر لگ رہا تھا اور نا ہی عون اور حائمہ کا کیونکہ وہ دونوں ہر وقت آغا جانی سے ڈانٹ سنتے اور انہیں کے پاس باقیوں کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے جایا کرتے تھے۔
__________________
__________________
"مسز قدوسی تو ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہیں میرے۔" حائمہ یشفہ کو بھول بھال کر اب کچھ اور سوچ رہی تھی۔
"مہوش میں یہ بریانی قدوسی صاحب کے گھر دے کر آتی ہوں۔" حائمہ نے کچن سے بریانی اٹھائی۔
"تم اور قدوسی صاحب کے گھر؟" مہوش سے بات کچھ ہضم نہیں ہوئی تھی۔
"ہاں تو پڑوسی ہیں ہمارے۔ پڑوسیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔" حائمہ مہوش کو ہکا بکا چھوڑ کر اب باہر نکل چکی تھی۔
__________________
__________________
"

عیدِ زندگی سیزن ٹو Where stories live. Discover now