قسط ١٣ (حصہ اول)

484 46 50
                                    

عیدِ زندگی
سیزن ٹو
بقلم
سحر قادر

Episode 13:-
آفس سے ہسپتال تک کا سفر ارحان کے لیے بہت مشکل تھا۔ کہنے کو عون اس سے تین سال چھوٹا تھا مگر اسکی طبیعت کی سنجیدگی کی وجہ سے ہمیشہ سب کو لگتا تھا کہ عون کو جیسے پالا ہی ارحان نے ہے۔ آفندی خاندان کے تمام رشتے محبت سے گندھے تھے۔ کسی ایک کی تکلیف خاندان کے ہر شخص کو تکلیف میں مبتلا کر دیتی تھی۔
اس افراتفری اور نفسا نفسی کے دور میں ایسے گھرانے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آفندی خاندان کو دیکھ کر ہر کوئی ان محبتوں پہ رشک کرتا تھا جو انھیں اک دھاگے میں پروئے ہوئے تھیں۔
لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ اچھی اور بہترین چیزوں کو نظر سب سے پہلے لگتی ہے۔ تبھی تو آج اس گھر کی رونق عون آفندی بدنظری کا شکار ہوتے ہسپتال میں موجود تھا۔ مشہور ہونے کے ساتھ انسان کے بہت سے دشمن بن جاتے ہیں۔ عون آفندی بھی بزنس کی دنیا میں سب کو پیچھے چھوڑ رہا تھا اور وہ سب اس کے دشمن بن رہے تھے۔ دلاور خان کے بندے اپنی کمپنی کو کانٹریکٹ نہ ملنے کا بدلہ لے چکے تھے۔ عون آفندی کی وجہ سے خان گروپ آف انڈسٹریز کئی اہم پراجیکٹس حاصل نہیں کر پائی تھی۔
ارحان کی کار ایک جھٹکے کے ساتھ ہسپتال کی پارکنگ میں رکی تھی۔ وہ تیزی سے گاڑی سے نکل کر ہسپتال کے اندر بھاگا تھا جبکہ اس کے تاثرات ایسے تھے کہ اس پاس موجود لوگوں کو ارحان جیسے خوبرو نوجوان کے لیے دکھ محسوس ہوا کہ جسکا جان سے عزیز اپنا اندر زندگی موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔
شاید عون نے جنگ ہی لڑنا دیکھا تھا۔ بچپن میں شرارتیں کرتے ہوئے ہم عمر بچوں سے جنگ، حائمہ اور عون کی جنگِ پلاسی اور پھر ترقی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ سے جنگ اور آج وہ موت سے جنگ لڑ رہا تھا جس سے جنگ لڑنا اس کے کیا، کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
"مس میرے بھائی عون آفندی کو یہاں لایا گیا ہے۔" ارحان نے ریسیپشنسٹ سے کہا جبکہ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی۔
"سر یہاں سے لیفٹ جائیں گے تو وہاں آپریشن تھیٹر میں آپ کے بھائی موجود ہیں۔" ریسیپشنسٹ کے بتانے پر ارحان بھاگتا ہوا وہاں گیا تھا۔
آپریشن جاری ہونے کی وجہ سے اسے اندر جانے سے روک دیا گیا تھا۔
ارحان جانتا تھا کہ اسے ہمت سے کام لینا ہے کیونکہ صرف وہی ہے جس نے سب کو سنبھالنا ہے لیکن اس وقت وہ خود کو بہت مشکل سے سنبھال پا رہا تھا۔
اس سے جب کھڑا ہونا مشکل ہونے لگا تو وہ ہسپت کی راہداری میں موجود کرسی پر ڈھے سا گیا تھا۔
آنکھیں موند لی تھیں اور دعاؤں کا ورد جاری تھا۔ مگر ساتھ ہی عون کا ہنستا، مسکراتا، شرارتی اور معصوم چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔
ہم انسان بعض اوقات درد کی انتہا جاننے کے تجسس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ارحان کو آج سمجھ آئی تھی کہ درد کی انتہا خود کو بد ترین حالت میں دیکھنا نہیں ہوتی بلکہ کسی اپنے کو زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا دیکھنا درد کی انتہا کی کلی طور پر وضاحت کرنے کے برابر ہوتا ہے۔
_______________________
_______________________
"یہ عاحر پلاٹون مشکوک ہو رہی ہے۔" ربیشہ نے پارکنگ کی طرف تیزی سے بھاگتے چاروں دوستوں کو دیکھ کر کہا۔
"ہاں! حمدان کا موڈ خراب تھا۔ راحم تو رہتا ہی سنجیدہ ہے جبکہ افراز اور علی آج نارمل تھے مگر اب لگ رہا ہے کہ چاروں ہی نارمل نہیں ہیں۔" ہادیہ نے بھی گراؤنڈ میں بیٹھنے کے لیے جگہ منتخب کرتے ہوئے تجزیہ پیش کیا۔
"مگر یہ لوگ دوسروں کو ابنارمل بناتے ہیں۔ آج خود کیسے؟" ربیشہ کو ان سب کا بغیر الٹے کام کیے یونی سے چلے جانا ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
"ارے تم کیوں ہانپ رہی ہو؟" ہادیہ نے ساتھ بیٹھتی فادیہ کو کہا جو بیٹھتے ہی پانی کی بوتل منہ سے لگا چکی تھی۔
"دانیال خان!" فادیہ نے بس نام لیا تھا۔ ہادیہ اور ربیشہ کو پوری بات سمجھ آ گئی تھی۔
ہادیہ نے رات کو ہی ربیشہ کو سب بتا دیا تھا۔
"مل ہی گیا تھا تمہیں تو دو لگاتی اسے۔" ربیشہ نے اسے مشورے سے نوازا تھا۔
"وہ کیسے؟" فادیہ نے بھولپن سے کہا جس پر ہادیہ اور ربیشہ نے سر پیٹ لیا تھا۔
"اف بابا آج مجھے لینے نہیں آ رہے۔تم لوگ ڈراپ کرنا مجھے۔" ربیشہ نے اپنے بابا یعنی ڈی آئی جی آفاق جہانزیب کا میسج پڑھ کر انھیں بتایا۔
"خیریت؟ انکل نے تو آج تمہیں واپسی پر شاپنگ پہ لے کر جانا تھا۔ کہیں انکل نے بچت سکیم تو شروع نہیں کر لی۔" ہادیہ نے ہمیشہ کی طرح بات کو مذاق کا رنگ دیا تھا۔
"نہیں یار کوئی ہائی فائی کیس ہے۔ کسی بڑے بزنس مین کو گولیاں مار دی گئیں ہیں۔ بس بابا میڈیا کو سنبھال رہے ہیں۔" ربیشہ نے ایسے بتایا جیسے معمول کی بات ہو اور یہ سچ بھی تھا کہ اس کے لیے ڈی آئی جی کی بیٹی ہونے کے ناطے آئے روز کیسز کو سننا عام سی بات تھی۔
"گاڈ پتہ نہیں کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ؟" فادیہ نے افسوس کا اظہار کیا۔
"ویٹ!" فادیہ نے فون کھولا تھا۔
"ربیشہ تم نے سوشل میڈیا دیکھا؟" فادیہ نے اپنی فیسبک سکرول کرتے اس سے پوچھا۔
"نہیں! کیا ہوا؟" ربیشہ متجسس ہوئی۔
"قلیل مدت میں بزنس کی دنیا کی بلندیاں چھو لینے والے جانے مانے بزنس مین عون آفندی کو دم دیہاڑے گولیاں مار دی گئیں ہیں۔ اس وقت ان کی حالت کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ میڈیا کوشش کر رہا ہے کہ ان کی فیملی کے کسی شخص سے بات ہو جائے۔" فادیہ نے نیوز پڑھ کر انھیں سنائی تھی۔
"اوہ مائی گاڈ عون بھائی کے ساتھ تو میرے کزن زیغم بھائی کے فیملی ٹرمز ہیں۔ پارٹی میں  میں عون بھائی سے ملی تھی۔ وہ تو بہت سویٹ سے زندہ دل انسان ہیں۔ ان کو بھی نہیں چھوڑا ظالموں نے۔ اللہ انھیں جلد صحتیاب کرے۔" ربیشہ کو بھی اس خبر پر افسوس ہوا۔
"اسی لیے عاحر پلاٹون اچانک یونی سے بھاگی ہے۔" فادیہ نے بھی بات ہو سمجھا تھا۔
ان تینوں نے اس خبر پر افسوس کا اظہار کیا اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہو گئیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ برے وقت کی شدت کا اندازہ انہیں کو ہوتا ہے جو اس سے گزرے۔ باقیوں کے لیے یہ حیرت اور افسوس کا باعث تو ہوتا ہے لیکن ان کے لیے اس کی شدت سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
_______________________
_______________________
"

ارحان!" حائمہ رف سے حلیے میں ہسپتال پہنچ چکی تھی، ارحان سے مخاطب تھی۔ارحان نے لمبی سانس لی۔ اب اسے ہی سب کو سنبھالنا تھا۔
"میں نے منع کیا تھا حائمہ!" ارحان نے اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
"مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ کیسا ہے وہ؟ ڈاکٹرز کہا کہتے ہیں؟ میں مہوش کو کہا جواب دونگی؟ اور تایا ابو، تائی امی اور آغا جانی کو کون بتائے گا؟" حائمہ جو خود پر قابو رکھتے تھک چکی تھی ارحان کے سامنے کھل کر رو دی تھی۔
"حائمہ پلیز! وہ ٹھیک ہو جائے گا۔" ارحان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا تھا۔
حائمہ کے آنسو ہنوز تواتر سے بہہ رہے تھے۔ ارحان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ خود کو اور سب کو کیسے سنبھالے۔
"تم ایسے کروگی تو میں ہمت کھو دونگا حائمہ! میرا تو وہ چھوٹا بھائی ہے میرے لیے میرے بچے کی طرح ہے وہ حالانکہ وہ صرف تین سال چھوٹا ہے۔" ارحان نے اسے سمجھایا جو اسکے سینے سے لگی رو رہی تھی اور ارحان نے اسکا سر تھپکا اور اسے بینچ پر بٹھایا۔
"آپی، بگ بی!" علی بھاگتا ہوا آیا جس کے پیچھے حمدان، افراز اور راحم بھی موجود تھے۔
"علی دیکھو اس سے ناراض میں تھی اور ہمیشہ کی طرح آگے سے نخرے وہ کر رہا ہے۔" حائمہ نے روتے ہوئے علی سے کہا جو اسکے سامنے نیچے بیٹھ چکا تھا جبکہ ارحان منہ پھیر کر خود پر ضبط کر رہا تھا۔
"علی ہمت رکھو۔ تمھیں اور بگ بی کو سب کو حوصلہ دینا ہے ورنہ بگ بی اکیلے کمزور پڑ جائیں گے۔" راحم نے حائمہ کے سامنے نیچے بیٹھے علی کا کندھا تھپتھپایا۔ علی بس سر ہلا کر رہ گیا۔
"بگ بی...!" علی نے ارحان کا کندھا ہلایا جس ہر ارحان مڑا تھا۔
علی فوراً ارحان کے گلے لگا تھا اور نجانے کتنی دیر وہ ایسے ہی کھڑے رہتے مگر افراز نے ان کو الگ کیا تھا۔
"مہوش آپی کو پتہ ہے کیا؟" علی نے خود پر قابو پاتے ہوئے سوال کیا۔ حائمہ نے سر نفی میں ہلایا۔
"آریز اور امتنان کو لینے کون گیا ہے؟" علی نے اب آہستگی سے پوچھا جس پر ارحان اور حائمہ دونوں خاموش تھے۔
"میں لے آتا ہوں۔ تم حوصلہ رکھو عون بھائی ٹھیک ہو جائیں گے۔" افراز نے اسے کہا اور باہر نکلنے لگا کہ آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر باہر نکلا تھا۔
"کیسا ہے وہ؟" سب بے صبری سے اٹھے تھے۔
ڈاکٹر نے ان سب کے امید سے دمکتے چہرے دیکھے تھے۔
"دیکھیں ہم نے پوری کوشش کی مگر..." ڈاکٹر خاموش ہوا تھا۔
"مگر کیا؟" ارحان نے پوچھا تھا۔
"خدا کی مرضی کے آگے ہم ڈاکٹر کچھ نہیں کر سکتے...."
ڈاکٹر کا جملہ پورا نہیں ہوا تھا کہ حائمہ بینچ پر گری تھی۔ سچ کہتے ہیں عورت اعصابی طور پر. کمزور ہوتی ہے۔حائمہ بھی یہ جھٹکا سہہ نہیں پائی تھی۔
علی کا چہرہ بھی شدتِ ضبط سے سرخ پڑ چکا تھا جبکہ ارحان ساکت کھڑا تھا۔
___________________&_
___________________&_
جاری ہے!

حصہ دوم آج رات یا کل صبح تک آ جائے گا پکا!

عیدِ زندگی سیزن ٹو Where stories live. Discover now