قسط ١٣ (حصہ دوم)

472 44 30
                                    

#عیدِ_زندگی_سیزن_2
بقلم
#سحرقادر

Episode 13 part 2:-
"ہم شرمندہ ہیں۔" ڈاکٹر نے سر جھکا کر جملہ پورا کیا۔
"آپ لوگوں میں سے کوئی ایک میرے آفس میں آئے تاکہ کاغذی کاروائی مکمل کر لی جائے۔" ڈاکٹر نے ان سے کہا۔
"علی حائمہ کو لے کر گھر چلے جاؤ۔" ارحان آنکھوں میں موجود نمی کو چھپاتا وہاں سے نکلا تھا۔
حائمہ کی آنکھیں تو ویسے ہی ساکت تھیں۔
"آپی....!" ایک پھنسی ہوئی آواز علی کے منہ سے نکلی جس کے ردعمل میں حائمہ کھنچتی ہوئی کسی روبوٹ کہ مانند اس کے ساتھ چل دی۔ افراز، حمدان اور راحم بھی انھیں کے ساتھ نکلے کیونکہ حائمہ اور علی دونوں ہی ڈرائیو کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ راحم امتنان اور آریز کو لینے چلا گیا تھا۔
____________________
____________________
"آنے دو اس عون کو۔ اس سے میں نے بات ہی نہیں کرنی۔ میں اتنی محنت سے تیار ہوئی اور یہ غائب ہو گیا۔ عون تم آج مجھ سے بچ کر دکھاؤ۔" خود سے باتیں کرتی مہوش پیچھے مڑی تو علی حائمہ کو سہارا دئے اندر آ رہا تھا اور خود بھی وہ مرجھایا ہوا تھا۔ پیچھے اداس چہروں کے ساتھ اس کے دوست تھے۔
"حائمہ کیا ہوا ہے؟ تم کہاں گئی تھی اور یہ کیا حالت ہے؟ علی کیا ہوا ہے؟" مہوش پریشانی سے ان کی طرف بڑھی تھی۔
حائمہ ابھی تک ساکت تھی اور علی کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا۔ اسے یہ خبر سنانے کے لیے الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے۔
"افراز تم بتاؤ!" مہوش جھنجھلا کر افراز سے مخاطب تھی۔
"عون بھائی کو کسی نے گولیاں مار دی ہیں اور ڈاکٹرز نے جواب....." مہوش نے منہ پہ ہاتھ رکھا تھا۔ وہ پیچھے ہٹ رہی تھی کہ پیچھے پڑا گلدان اس کے ہاتھ سے زمین بوس ہوا۔
"مہوش باجی!" علی فوراً اس کی طرف لپکا تھا۔
"یہ جھوٹ ہے علی؟" وہ آنکھوں میں نمی لیے علی سے پوچھ رہی تھی۔
"باجی آپ بیٹھیں۔" علی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اسے ہینڈل کرے۔
"علی میری بات کا جواب دو۔" مہوش پوری طاقت سے چلائی تھی۔
"باجی آپ خود کو سنبھالیں۔" علی نے اسے بازؤوں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھانا چاہا لیکن وہ ایک دم قابو سے باہر ہوئی تھی۔
"کیا سنبھالوں؟ ہاں؟ یہ بہت برا مذاق ہے اور یہ عون نے ہی سوچا ہوگا؟ اسے ہی شوق ہے میرے جذبات کا مذاق اڑانے کا! کہاں ہے وہ؟ تم لوگوں نے کیا بکواس لگا رکھی ہے؟ شرم نہیں آتی بہن سے ایسا مذاق کرتے ہوئے تمہیں؟ " مہوش علی کا گریبان پکڑ کر چیخ رہی تھی۔
"باجی یہ مذاق نہیں ہے۔ یہی تلخ حقیقت ہے۔"علی نے چیخ کر اسے بتایا تھا جو ایک لمحے کو ساکت ہوئی تھی لیکن پھر وہ ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ افراز اور حمدان کہ آنکھیں نم ہونے کو آ گئیں تھیں۔
"علی مجھے نہیں پتہ مجھے میرا عون لا کر دو۔" وہ کسی معصوم بچے کی طرح ضد کر رہی تھی۔ علی نے اسے سینے سے لگایا اور اپنی آنکھوں سے آنسو نکلنے سے پہلے ہی انھیں صاف کر دیا۔
علی کے گلے لگی مہوش زاروقطار روئے جا رہی تھی اور اس کا بس یہی کہنا تھا کہ عون کو لا کر دو۔
اوپر والے پورشن میں تایا ابو اور تائی امی جو اس وقت سو رہے تھے۔ مہوش کی اونچی آواز سے جاگ کر نیچے آئے تھے۔
"کیا ہوا مہوش کیوں رو رہی ہو؟" صوفیہ بیگم نے پوچھا۔
"آنٹی عون بھائی کو کسی نے گولیاں مار دی ہیں۔" افراز نے لمبی سانس کھینچتے ہوئے انھیں بتایا۔
"ہائے عباس میرا شہزادہ!" صوفیہ بیگم نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ عباس آفندی بھی حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
"کون سے ہسپتال میں ہے؟" عباس آفندی کو زندگی میں بولنا کبھی اتنا مشکل نہیں لگا تھا جتنا آج یہ لفظ ادا کرنا مشکل تھے۔
"ابھہ ہسپتال جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ارحان بھائی آتے ہی ہونگے۔" حمدان نے آگے بڑھ کر جواب دیا تو عباس آفندی صوفے پر ڈھے سے گئے۔ وہ عورتوں کی طرح چیخ چیخ کر رو نہیں سکتے تھے اور نہ کمزور پڑھ سکتے تھے کیونکہ مرد کو ہی سب سنبھالنا ہوتا ہے لیکن ان کا لاڈلا، چہیتا، شرارتی، نٹ کھٹ، ان کے گھر کہ رونق، ان کا شہزادہ اتنے بڑے درد سے ان کو نواز رہا تھا کہ انھیں زمین اپنے پاؤں کے نیچے سے کھنچتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
دوسری طرف صوفیہ بیگم کو کوئی پرسان حال نہ تھا۔ علی بیچارہ بہن کو سینے سے لگائے اسے سنبھال رہا تھا۔ حمدان عباس صاحب کی جانب بڑھا اور انھیں دلاسہ دینے لگا جبکہ افراز خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا۔ حائمہ بھی پتھر بنی ایک جگہ کھڑی تھی۔
"کیسے ہوا یہ سب؟" عباس صاحب نے بالآخر سوال کیا تھا۔
"افراز جس نے ڈی آئی جی صاحب کہ پریس کانفرس سنی تھی اس نے عباس صاحب کو دلاور خان کی اس اوچھی حرکت کے بارے میں مطلع کیا۔
"میں دلاور خان کو زندہ نہیں چھوڑونگا۔" عباس صاحب نے غصے سے کہا لیکن اٹھنے کہ ہمت اس وقت ان میں نہیں تھی۔
حائمہ کو یاد آیا کہ ارحان نے اسے کہا کہ اسے سب کو سنبھالنا ہے تو وہ صوفیہ بیگم کو حوصلہ دینے کے لیے آگے بڑھی حالانکہ اس وقت خود اسے کسی سہارے کہ ضرورت تھی۔ افراز نے شمائلہ آفندی کو بھی سب بتا دیا تھا۔
آغا جانی کو امریکہ اطلاع کی گئی تو وہ پہلی فلائٹ سے  اکرم آفندی اور شازیہ اکرم کے ساتھ کراچی واپس آنا چاہتے تھے۔ لیکن ارحان نے منع کر دیا کیونکہ ان کا ابھی ابھی تو بائی پاس ہوا تھا۔
فادیہ کہ منگنی ہو گئی تھی۔ حمدان علی کے خاندان کو حوصلہ دینے میں محبت یکسر فراموش کر چکا تھا کیونکہ اس کے خیال میں پہلا حق دوستی کو ہوتا ہے۔
_____________________
_____________________
تین ماہ بعد:-
"میری شیرنی!" عباس آفندی امتنان کو  ساتھ بٹھائے پیار کر رہے تھے۔
"تایا ابو یہ کیا بات ہوئی پوتی کے بعد مجھے بھول گئے۔" حائمہ نے بچی بنتے ہوئے ناراضگی سے منہ پھلایا۔ کبھی کبھار تو موقع آتا تھا کہ جب گھر کے مکین سنجیدگی کو ترک کرتے تھے اور اس میں حائمہ کا ہاتھ تھا جس نے سب کو سنبھال لیا تھا۔
"نہیں تو میں تو نہیں بھولا۔" عباس آفندی نے فوراً جواب دیا۔
"نہیں آپ امتنان سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔" حائمہ جان بوجھ کر بات کو طول دے رہی تھی تا کہ سب کچھ دیر کے لیے اس حادثے کو بھول جائیں۔
"اس سے اس لیے اتنا پیار کر رہے ہیں کیونکہ اب اس کا باپ اسے پیار کرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔" مہوش سے طنزیہ انداز میں کہا اور وہاں سے نکلنے لگی تھی کہ جب ارحان آریز کو کندھے پر اٹھائے اندر داخل ہوا۔
"مہوش میں مذاق کر رہی تھی۔" حائمہ نے اسے صفائی دینا چاہی۔ پچھلے تین ماہ سے مہوش ایسے ہی ہر بات پر تلخ ہو رہی تھی۔
"دادا جان مجھے بھی اپنے بابا کے کندھے پر بیٹھنا ہے آریز کی طرح۔" امتنان نے ضد کی۔ آریز کوئی کام کرے اور پھر امتنان ضد نہ کرے یہ کیسے ممکن تھا۔
"ارے چھوڑو بابا کو! ماموں ہیں نا! آپ ماموں کے کندھے پر بیٹھ جاؤ۔" علی نے اسے ابھی اٹھانا چاہا ہی تھا کہ مہوش نے آ کر اسے پکڑ لیا۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے اس کی خواہشیں ہمیشہ پوری نہیں کر سکتے آپ لوگ۔ اس لیے اسے ان سب کا عادی مت بنائیں۔" مہوش امتنان کو ساتھ لیتی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔
"مہوش پلیز تم اس بچی پر کیوں غصہ نکال رہی ہو؟ جانے دو اسے!" حائمہ نے مہوش کا راستہ روکا۔
"حائمہ یہ میری بیٹی ہے اور مجھے بہتر پتہ ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ تمہاری زندگی میں حادثہ نہیں ہوا اس لیے تم سمجھ بھی نہیں سکتی۔ ہٹو میرے راستے سے۔" مہوش اسے ہٹاتی کمرے میں بند ہو چکی تھی۔
"حائمہ آپی آپ بیٹھ جائیں۔ آپ کو پتہ تو ہے کہ باجی اس سب کے بعد...." علی نے جملہ ادھورا چھوڑا جس پر سب سر جھکا کر رہ گئے تھے۔ ارحان بس بت بنا سب دیکھ رہا تھا۔ نجانے کس کی نظر ان کے گھر کو لگ گئی تھی۔
"ارے سب ایسے کیوں بیٹھے ہو؟" مسز قدوسی نے اندر آتے خاموشی کو توڑا۔ اس مشکل وقت میں وہ ان سب کی ہمت بنی تھیں۔
"ارے مسز قدوسی آئیں نا!" علی نے خندہ پیشانی سے انھیں خوش آمدید کہا۔
"ارے ہٹ مسز قدوسی کے بچے! خالہ کہتے ہوئے موت پڑتی ہے تجھے۔" ان کے انداز پر سب کے چہروں پر ایک دم سے مسکراہٹ آئی تھی۔
"ارے اب لگا کہ زندہ لوگوں میں آئی ہوں ورنہ مجھے لگا مردے ہیں یہاں۔" مسز قدوسی نے ہنستے ہوئے مذاق کیا اور پھر باتوں میں مشغول ہو گئیں۔ ان سب نے وقت کے ساتھ جینا سیکھ لیا تھا۔
______________________
______________________
"دیکھ لو اس نے کچھ نہیں کیا تمہارے لیے۔" ہادیہ نے حمدان کے حوالے سے طنز کیا کیونکہ وہ اب کچھ جان چکی تھی۔
"وہ اپنے دوست کی وجہ سے پریشان تھا۔" فادیہ نے منمناتے ہوئے اس کی حمایت کی۔
"دوستی اور محبت میں فرق ہوتا ہے۔ اور تین مہینے ہو گئے۔ اس کا سگا نہیں تھا وہ لیکن وہ پھر بھی علی کے ساتھ مل کر سوگ منا رہا ہے۔" ہادیہ نے طنز کیا۔
"کیا مطلب کل کو میری امی کو کچھ ہو جائے تو تم میرے ساتھ سوگ نہیں مناؤ گی بلکہ خوشیاں مناؤ گی۔" فادیہ حمدان کے حوالے سے ایک بات برداشت نہیں کرتی تھی تبھی وہ بات کا رخ موڑ گئی تھی۔
"تم الٹا مطلب لے رہی ہو۔" ہادیہ نے بالآخر ہار مان لی کیونکہ بے چاری فادیہ کا زور صرف اسی پر چلتا تھا اور ہادیہ بھی کہتی تھی چلو مجھ پر ہی سہی مگر کسی پر زور چلاتی تو ہے۔
"پٹھانوں میں بات پکی ہو جائے تو ہو جاتی ہے۔ دوسرا کوئی اٹھے گا تو مارا جائے گا۔ کاش وہ منگنی سے پہلے سب کر لیتا، اب تو..." ہادیہ کا افسوس کم نہیں ہو رہا تھا۔
"چھوڑو جو میرے نصیب میں تھا وہی ملا ہے۔" فادیہ نے انگلیاں مروڑتء ہوئے نمی چھپائی تھی۔
"کیا وہ اب تمہارے لیے کھڑا نہیں ہو سکتا؟" ہادیہ نے امید سے پوچھا۔
"مجھے بس ایسا لگا کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے۔ کیا پتہ وہ کرتا بھی ہے کہ نہیں؟" فادیہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"اگر کرتا ہوا تو پھر؟" فادیہ اس سے اگلوانا چاہ رہی تھی۔
"تو بھی میں چاہونگی کہ وہ میرے لیے کھڑا نہ ہو۔" فادیہ نے آنکھیں مسل ڈالی تھیں۔
"مگر کیوں؟" ہادیہ کو اس کی منطق سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
"جب سب رسم و رواج جانتی ہو تو کیا چاہتی ہو کہ مر جائے وہ؟" فادیہ کا چہرہ اب سرخ ہو رہا تھا اور آنسو بہنا شروع ہو گئے تھے۔
"اس لڑائی میں دانیال بھی تو مر سکتا ہے۔" ہادیہ نجانے کیوں بغاوت کروانا چاہتی تھی۔
"مگر میں رسک کیوں لوں؟ اگر حمدان کو کچھ ہو گیا تو؟ بس کرو ہادیہ میں جب سب بھول کر آگے بڑھ رہی ہوں تو تمھیں کیا مسئلہ ہے۔ اتنا ہی شوق ہے حمدان کو اس گھر کا داماد بنانے کا تو خود کر لینا اس سے شادی مگر میں نہیں کرونگی۔ میں اس کی زندگی ان روایات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتی۔ سمجھ کیوں نہیں آتی تمھیں۔" فادیہ اب ہادیہ کو باقاعدہ کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہی تھی۔
"اچھا بس! نہیں کرتی بات۔" ہادیہ نے بات ختم کی.
__________________
__________________
"کہاں جا رہی ہو؟" حائمہ نے مہوش سے پوچھا۔
"عون سے ملنے!"سپاٹ انداز تھا۔
"مگر ارحان روزانہ جاتا تو ہے۔ تم آرام کرو۔" حائمہ نے اسے روکنا چاہا کیونکہ وہ کل سے بخار میں تپ رہی تھی۔
"مجھے نہیں کرنا آرام!" مہوش اسے نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی تھی۔
"رکو مہوش! روز وہاں جانا ضروری نہیں ہوتا۔" حائمہ نے بھاگتے ہوئے اسے پکڑا۔
"تمھیں میری تکلیف کا کیا اندازہ؟ اگر یہی سب بگ بی کے ساتھ ہو تو میں دیکھتی ہوں کہ..."
"مہوش!" حائمہ صدمے کے زیر اثر بولی تھی۔
"اب خود کی بار کتنا برا لگ رہا ہے۔" مہوش نے اپنا بازو چھڑایا۔
"میں تو تمہاری طبیعت کی وجہ سے.... " حائمہ کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔
"رہنے دو میری تو چلو آج طبیعت خراب ہے تو کہہ دیا۔ تمہاری طبیعت کو کیا ہوا ہے؟ ایک دن بھی گئی اس سے ملنے۔ ایک وہی تھا جو تمہارے پیچھے گھومتا تھا۔ سگی بہن سے بڑھ کر اس نے تمہیں مان دیا اور تم اسے بھول بھی گئی۔" مہوش کیا کیا سوچتی رہتی تھی یہ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔
"مہوش میں تو سب کو سنبھالنے کے لیے ضبط کیے بیٹھی ہوں۔ اور میں اسے وہاں نہیں مل سکتی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اسے ایسی جگہ دیکھونگی۔ میں نہیں جا پاتی۔" حائمہ کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
"یعنی ہم نے تصور کیا تھا اسے اس جگہ دیکھنے کا؟" مہوش بات کا الٹ مطلب لے رہی تھی۔
"مہوش.... " حائمہ کی آواز رندھ گئی تھی۔
"مہوش وہ ہم سب کو سنبھال رہی ہے اور تم اس سے ایسے بات کر رہی ہو۔" شمائلہ بیگم نے مہوش کو ڈپٹا جو ابھی ارحان کے ساتھ عون کو مل کر آئی تھیں۔
"مجھے نہیں معلوم!" مہوش سب کو نظر انداز کرتی چادر اوڑھتی باہر نکل گئی۔
"بچے تم برا مت ماننا۔ وہ اس سب کو قبول نہیں کر پا رہی۔" شمائلہ بیگم اس کا کندھا تھپتھپاتی آگے بڑھ گئیں جبکہ وہ صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔ اسکی تکلیف کسی کو نظر ہی نہیں آئی۔ وہ جو ان سب کو سنبھال رہی تھی، اسے پل بھر میں توڑ دیا گیا۔
"حائمہ...!" ارحان نے اسے ہلایا تو آنسو پلکوں کی باڑتوڑ کر باہر نکل آئے۔
وہ لان میں آتی بینچ پر بیٹھ گئی تھی۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔
"آپ نے کہا تھا کہ مجھے ہمت رکھنی ہے سب کو سنبھالنا ہے۔ دیکھیں یہ صلہ ہے میری ریاضت کا۔ میں بھی رونا چاہتی ہوں۔ میرا کوئی بھائی نہیں تھا بچپن سے اسے ہی بھائی مانا۔ وہ میرا سب سے اچھا دوست تھا۔ مگر مجھے کوئی کندھا میسر نہیں رونے کو۔ آپ کے سامنے بھی نہیں رو سکتی کہ آپ کی ہمت نہ ٹوٹ جائے اور گھر والوں کو سنبھالنا ہی مجھے ہے۔ میں کہاں ہوں اس سب میں؟" وہ ارحان کے سامنے پھٹ پڑی تھی۔
"تم میری ہمت ہو۔ تمہارے سامنے میں اپنا غم ہلکا کر لیتا ہوں۔" ارحان بات کر رہا تھا کہ حائمہ نے بات کاٹی۔
"میں کیا کروں؟ روز جلی کٹی سنوں اور الزام بھی سہوں؟ خیر میں بھی اس سے ملنے جاؤں گی۔" حائمہ آنسو صاف کرتی اٹھی تھی۔
"مگر میں نے تمھیں منع کیا ہے تم اسے نہیں دیکھ پاؤ گی۔ وہ جواب نہیں دے سکتا تمھیں۔ وہ تمھیں تنگ بھی نہیں کر سکتا۔" ارحان نے اسے روکنا چاہا۔
"جب اس کی بیوی دیکھ لیتی ہے تو میں تو ہوں ہی دور کی رشتہ دار میں بھی دیکھ لونگی۔" حائمہ اٹل لہجے میں اسے سنا رہی تھی تو وہ اٹھا تاکہ اسے بھی لے جائے۔
____________________
____________________
جاری ہے!

Stay tuned¡

Kisi ne kaha ap aun ko kese maar skti he
Le me:
Jese mashwani ko maara tha 😂

عیدِ زندگی سیزن ٹو Waar verhalen tot leven komen. Ontdek het nu