عیدِ زندگی
بقلم
سحر قادر####EPISODE 4####
(Part 1)"
ہیرو ہیروئین کیا میں اندر آ جاؤں۔" عون نے آنکھیں مٹکائی جبکہ ارحان اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔
"بگ بی حائمہ کو ذرا نیچے بھیج دیں بات کرنی ہے نا مجھے اس سے، آپ کی لڑائی تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔ آخر کو روز کا کام ہے آپ دونوں کا۔" عون نے ارحان سے کہا تو وہ جا کر آرام سے بیڈ پر بیٹھ گیا یعنی حائمہ صاحبہ تشریف لے جا سکتی ہے۔
"آ جاؤ حائمہ!" عون کہہ کر کمرے سے چلا گیا جبکہ حائمہ آرام سے ڈریسنگ کے سامنے بال سیدھے کر کے دروازہ پٹختی کچھ دیر بعد کمرے سے نکل گئی تھی۔
"ارحان پاس آئے
ہم گڑبڑائے
ارے رے ارے رے!" عون حائمہ کو دیکھ کر شروع ہو چکا تھا۔
"بکواس بند کرو۔ کیا بات کرنی ہے وہ بتاؤ۔" حائمہ منہ بناتی دھپ سے صوفے پر بیٹھی۔
"کچھ نہیں میں نے سوچا بگ بی کی ڈانٹ سے بچا لوں تمہیں۔" عون نے فرضی کالر جھاڑے۔
"رہنے دو کتنی بار بچاؤ گے وہ ہٹلر تو روز شروع ہو جاتا۔" حائمہ دلبرداشتہ ہو چکی تھی۔
"خیریت بھابھی ماں آج دیوداس کیوں بم رہی ہو۔" عون نے آبرو اچکا کر اس سے پوچھا۔
"یہ بھابھی ماں تو مت کہا کرو۔" حائمہ چڑھ چکی تھی۔
"کیوں بھئی تم ہو تو کہوں گا نا۔" عون ڈھیٹوں کا سردار تھا۔
"ٹھیک ہے تم الو کے پٹھے ہو تو میں بھی الو کا پٹھا ہی کہونگی تمہیں۔" مقابل بھی حائمہ تھی۔
"اچھا نا سیریس بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟" عون آخر کو سیریس ہو کر پوچھ رہا تھا۔
"کیا بتاؤں تمہارے بھائی سے شادی کے بعد تو زندگی پھوٹ گئی میری۔" حائمہ ہمیشہ والا رونا رو رہی تھی۔
"دیکھ بہن ہم نے تیرا فرض ادا کر دیا اب وہ جیسا بھی ہے تجھے اس کے ساتھ رہنا ہے۔" عون کے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اور مسکین شکل بنا کر کمال اداکاری کرنے کی کوشش کی تھی۔
"ہممم!" حائمہ خاموش ہو گئی تھی۔
"اب تھوڑی دیر بعد کمرے میں چلی جانا۔ غصہ ختم ہو جائے گا تب تک۔" عون نے اسے آرام سے کہا کیونکہ اب حائمہ کے چہرے کے تاثرات کچھ خطرناک لگ رہے تھے۔
"تو کیا ہوگا؟ کسی اور بات پہ غصہ آ جائے گا۔" حائمہ نے کہا اور وہاں سے اٹھتی اکرم آفندی کے کمرے کی طرف چل دی جو ان کے جانے کے بعد بند پڑا تھا۔
__________________
__________________
"کہاں رہ گئے تھے؟" مہوش نے عون سے پوچھا جو ابھی کمرے میں آیا تھا۔
"حائمہ کو بگ بی کے عتاب سے بچا کر لایا ہوں۔" عون نے مزے سے بتایا۔
"حائمہ نے بھی حد ہی کر دی۔ اب ان کو غصہ تو آنا تھا نا۔" مہوش نے اپنی رائے دی۔
"ہاں کبھی کبھار وہ کچھ زیادہ ہی کر جاتی ہے لیکن غلطی تو بگ بی کی ہے اگر وہ اسے اعتماد دیں تو وہ کیوں کرے ایسا لیکن وہ ہمیشہ ہر مقام پر اسے نیچا دکھانے کی کر جاتے ہیں۔" عون نے ارحان کی سب سے بڑی غلطی بتائی۔
"پتہ نہیں کب ختم ہونگے ان کے جھگڑے۔" مہوش نے لمبی سانس بھری۔
"اور ہمارے جھگڑے۔" عون نے لقمہ دیا تھا۔
"ہاں تو تم نہ لڑا کرو نہ مجھ سے۔" مہوش نے سارا الزام عون کے کندھوں پر ڈال دیا جو بقول عون کے ہٹلر اور اسکی بیوی نے آگے ہی کمزور کیے ہوئے ہیں۔
"میں تو نہیں لڑتا۔ بھئی میں نے تو بڑے شوق سے یہ شادی کی تھی میں کیوں لڑونگا۔ یہ تم ہی ہو جو میری قدر نہیں کرتی۔" عون اب اسے تپا رہا تھا۔
"میرے ساتھ زیادہ باتیں نہ کرو۔" مہوش جلالی موڈ میں آ رہی تھی۔
"تو کیا ریشم آرا کے ساتھ کروں۔" عون نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"یہ ریشم آرا کون ہے؟" مہوش نے حیرانگی سے پوچھا۔
"تمہاری سوتن!"عون نے آنکھ مارتے ہوئے جواب دیا جس پر مہوش سر جھٹک کر بولی:
"بیچاری ایک اور لڑکی کی زندگی خراب ہو گئی۔"
"تمہیں واقعی فرق نہیں پڑے گا اگر میں دوسری شادی کر لوں تو؟" اب عون اسکو طیش دلانا چاہتا تھا۔
"نہیں تم دوسری کیوں کرو، تم تیسری اور چوتھی بھی کر لینا اور پھر انکے ساتھ رہنا کیونکہ میں تو اپنے بھائی کے پاس چلی جاؤں گی۔" مہوش نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا۔
"لو یہ ایک برآمدہ چھوڑ کر تمہارے بھائی کا پورشن ہے جو میرے سامنے کھڑا نہ ہو تن کے۔ لیکن چلو تم چلی جانا میں وہیں آ جایا کرونگا کبھی کبھار ملنے۔" عون نے آرام دہ انداز میں بیڈ پر لیٹتے ہوئے اسے اپنی بات کہی۔
"عون کے بچے!" مہوش کی آواز تھوڑی بلند ہوئی جس پر عون بیڈ پر سوئی امتنان کا ماتھا چومتے ہوئے بولا
"آرام سے بولو میری بچی اٹھ جائیگی اور ہاں عون کا بچہ تو ہے نہیں صرف بچی ہے۔"
"عون!" مہوش غصے سے سرخ ہو رہی تھی۔
"اچھا سوری نا اب سو جاؤ کیا ساری رات کھڑے ہو کر مراقبہ کرو گی۔" عون نے آخر کار ہار مانی۔
"نہیں راگ الاپوں گی۔" مہوش اب اس سے ناراض ہو رہی تھی۔
"اچھا خیال ہے لیکن رہو گی پھر بھی بے سری تو اس لیے مجھ پر اور میری بیٹی پر رحم کرو اور آرام سے سو جاؤ۔" عون نے کہا جس پر مہوش آہستہ سے چلتی امتنان کی دوسری سائیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
_________________
_________________
"السلام علیکم ابو!" ان کے کمرے میں انکی کرسی پر بیٹھ کر حائمہ نے انھیں کال ملائی تھی۔
"وعلیکم السلام! میرا بچہ کیسا ہے بھئی؟" اکرم آفندی نے پیار سے پوچھا۔
"میں ٹھیک آپ سب لوگ کیسے ہیں؟" حائمہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان سے سوال کیا۔
"الحمد للہ تمہاری امی بھی ٹھیک ہیں اور آغا جانی بھی!" اکرم آفندی نے اسے بتایا۔
"اور آپ؟" حائمہ نے فوراً کہا تو اکرم آفندی ہنسے۔
" مجھے کیا ہونا ہے! میں فٹ فاٹ ہوں۔"
"ابو!!" پکار کے بعد خاموشی تھی۔
"جی میرا بیٹا!" اکرم آفندی نے فوراً پیار سے کہا آخر کو انکی اکلوتی اولاد تھی، اور اکلوتی نہ بھی ہوتی تو بھی اولاد ماں باپ کو بہت پیاری ہوتی ہے۔
"آپ کب آئیں گے؟" حائمہ نے ان کے جانے کے بعد آج پہلی مرتبہ یہ پوچھا تھا۔
"آ جائیں گے۔ ایک مہینہ شاید اور لگے گا۔" اکرم آفندی نے کہا۔
"کیا آپ کی جگہ تایا جان نہیں جا سکتے؟ آپ واپس آ جائیں بس۔" حائمہ ضدی انداز میں کہہ رہی تھی۔
"میرے بچے کو کیا ہوا ہے؟" اکرم آفندی نے اب کی بار سنجیدگی سے کہا تو اسکی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ پہلی بار ایک مہینہ ان کے بغیر رہ رہی تھی اور اوپر سے ارحان نے اسے پریشان کر دیا تھا۔
"مجھے آپ کی بہت یاد آ رہی ہے۔مجھ سے نہیں رہا جاتا آپ کے بغیر ۔ بس آپ آ جائیں۔" حائمہ نے آنسو صاف کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"بھئی ایک مہینہ ہی تو ہوا ہے۔ اور اگر ہم تمہاری شادی خاندان سے باہر کرتے تو تم کیا کرتی؟" وہ اب اسے باتوں میں الجھا رہے تھے۔
"ہاں تو کی تھوڑی ہے۔ اور اگر کر دیتے نا تو بہتر رہتا اس ہٹلر کے ساتھ رہنے سے۔" لہجہ شکایتی تھا۔
"بری بات وہ شوہر ہے تمہارا۔"
"ابو تو میں بھی کچھ لگتی ہوں اسکی، اسے خیال ہی نہیں میرا۔"
"کیا کر دیا ہے ارحان نے اب؟" اکرم آفندی نے لمبی سانس کھینچی تھی۔
"ابو وہ مجھے جب دل چاہتا ہے جہاں دل چاہتا ہے سنا دیتا ہے۔ اخلاقیات کی کوئی چیز نہیں ہیں اس میں۔" حائمہ نے غصے سے شکایت لگائی۔
"دیکھو بیٹا...... "
"مجھے نہیں دیکھنا۔ اتنا ہی سنجیدہ مزاج تھا تو اسکی شادی کرا دیتے کسی سنجیدہ مزاج لڑکی سے۔ مجھے کیوں قربانی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔
زبردستی اقرار! زبردستی رشتہ قائم رکھنے پہ اسرار!
کیا اتنا بڑا بوجھ تھی میں کہ آپ نے ایک ایسے شخص کے پلے باندھ دیا مجھے جو مجھے دنیا کی نالائق ترین لڑکی سمجھتا ہے۔ میرے بیٹے کو بھی مجھ سے دور کر دیا ہے اس نے۔ سب کی خواہشیں پوری کرتے کرتے حائمہ آفندی کہیں دفن ہو گئی ہے ابو۔ زندہ دل سی حائمہ تو کہیں بھی نہیں اب تو بس ہر لمحہ جلتی کڑھتی حائمہ آپ سب کے سامنے ہوتی ہے۔ ابو آپ کو میری شرارتیں کیا واقعی میں یاد نہیں آتیں؟ کیا آپ کو اپنی بیٹی کی غیر معمولی تبدیلی کوئی الارم نہیں دیتی؟"
حائمہ کی سانس غصے سے بولتے ہوئے پھول رہی تھی۔ وہ بولتے ہوئے بھول رہی تھی کہ اسے اپنے باپ پہ مان تھا تبھی تو اتنے استحقاق سے بات کر رہی تھی اور اپنے دل کا حال ان کو سنا رہی تھی۔
"مجھے میری ہنستی کھیلتی مسکراتی بیٹی سے بہت محبت ہے۔ پتہ ہے جب تم پیدا ہوئی تھی تو ڈاکٹرز نے تبھی بتا دیا تھا کہ اب مجھے اولاد کی خوشی دوبارہ نہیں ملے گی لیکن میں پھر بھی خوش تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔ ایک ننھی پری میرے گھر آئی تھی۔ میں نے ہر خوشی اپنی بیٹی کو دی۔ ہمیشہ اسکی خوشی چاہی تبھی تو میرا بیٹی مجھ سے اپنے دل کا حال تک کہہ دیتی ہے۔لیکن...... "
وہ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے تھے جبکہ حائمہ آنسو صاف کر کے اب ان کی باتیں سن رہی تھی۔
"لیکن جب بیٹیوں کی شادی ہو جائے چاہے وہ اسی گھر میں ہی کیوں نہ ہوں تب والدین مجبور ہو جاتے ہیں۔تمہاری بیٹی نہیں ہے حائمہ ورنہ تم سمجھ جاتی۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میاں داماد پٹری سے اتر جائیں۔ پیاری گڑیا تم بس صبح دیکھنا یہ میرے داماد صاحب تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں گے۔" اکرم آفندی نے جذباتی گفتگو کو ہلکا پھلکا رخ دینے کی کوشش کی جس پر حائمہ ہنس پڑی۔
"لیکن آپ بھی اب بڑی ہو گئی ہو کچھ عادات آپ کو بھی چھوڑنی ہونگی کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی سو صرف ارحان کو نہیں تمہیں بھی بدلنا ہوگا۔ سمجھ گئی؟"
انھوں نے بات سمجھ آنے کی تصدیق چاہی۔
"مجھے تو آ گئی ابو۔ بس آپ کے داماد کو نہیں آتی یہ عقل۔" حائمہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ اس کا. موڈ ٹھیک ہو چکا تھا۔
"ہاں بس صبر کرو بیٹے وہ تھوڑا کم عقل ہے۔" اکرم آفندی نے مصنوعی لہجے میں کہا اور دونوں باپ بیٹی قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔
تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد حائمہ آج اکرم آفندی کے کمرے میں ہی سو گئی تھی۔
____________________
____________________
جاری ہے!!Stay tuned!
BINABASA MO ANG
عیدِ زندگی سیزن ٹو
Humorکہانی حائمہ اور ارحان کی حائمہ کی بے پروائی کیا ارحان کو کر دیگی پاگل کوئی نیا کردار کیا ڈالے کسی کی زندگی پہ اثر عون آفندی کیا ہمیشہ کی طرح اس بار دے گا حائمہ کا ساتھ یا پھر.... ارحان آفندی کی برداشت کا امتحان بہت سے مزیدار واقعات کے ساتھ ایک خوبصو...