#عیدِ_زندگی_سیزن_٢
#بقلم_سحرقادر
#قسط_١٧"ربیشہ تو مجھے پہلی نظر میں پسند آ گئی تھی اور پھر زیغم بھائی نے اس کی اتنی تعریفیں کیں کہ بس رہا نہیں گیا۔" حائمہ نے بڑے شیریں انداز میں ربیشہ کے والدین کے سامنے اپنا مدعا پیش کیا۔
"حائمہ بالکل سچ کہہ رہی ہے۔ ربیشہ تو اتنی پیاری بچی ہے کہ سب کے دلوں میں اتر گئی ہے۔ ہم بس چاہتے ہیں کہ آپ اسے ہماری بیٹی بنا دیں۔"شمائلہ آفندی نے سوالی انداز اپنایا تھا۔
"دیکھیں بات آپ کی ٹھیک ہے۔ زیغم نے بھی آپ کے خاندان کی تعریف کی ہے۔ بظاہر اس رشتے میں کوئی برائی نہیں مگر ہم سوچ سمجھ کر ربیشہ کی مرضی معلوم کر کے جواب دینا چاہیں گے۔" ڈی آئی جی آفاق جہانزیب نے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا تھا۔
"آپ لوگ کچھ لیجے نا!" ربیشہ کی والدہ نے سب کی توجہ چائے کے لوازمات کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔
"رشی تجھے تو آج میں نہیں چھوڑونگی۔ آج ہی آفاق کو کہہ کر تجھے دو دن کے ریمانڈ پر کمرے میں بند کراتی ہوں۔" داخلی دروازے سے دادی ربیشہ کا کان پکڑے اندر آ رہی تھی۔ ربیشہ حسبِ معمول جینز کرتے میں ملبوس تھی اور بھورے رنگ کے بالوں کی ٹیل پونی بنائی تھی تھی۔
"یار دادی چھوڑ دیں کان۔ درد ہو رہا ہے۔ آپ کا تشدد پتا نہیں میرے دادا جی کیسے برداشت کرتے ہونگے۔ مجھ معصوم پر رحم کریں۔" ربیشہ کی دہائیاں عروج پر تھیں۔
نہیں آج تمہارے باپ کو میں نے کہنا ہے کہ تمہیں تیر کی طرح سیدھا کرے۔" دادی اسے کان سے پکڑتی لاؤنج میں لے آئیں۔ سامنے موجود مہمانوں کو دیکھ کر انہوں نے ربیشہ کا کان چھوڑا۔
"اللہ دادی خرگوش کے جیسا کان کر دیا ہے میرا۔" ربیشہ نے منہ بسورا جس پر دادی نے اسے چشمے کے پیچھے موجود آنکھوں سے گھورا مگر بقول ربیشہ کے چار چار آنکھوں سے گھور کر ڈراتی ہیں۔
"جی آپ لوگ کون ہیں؟" دادی مہمانوں کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ربیشہ بھی حائمہ لوگوں کو دیکھ کر ٹھٹھکی۔
"اماں جان یہ اپنی ربیشہ کے رشتے کے لیے آئے ہیں۔" آفاق صاحب نے وجہ انھیں بتائی۔ ربیشہ کہ سماعتوں پر تو گویا بم پھٹا تھا۔
"ہیں؟ اپنی نکمی رشی کے رشتے کے لیے؟" دادی نے عینک ٹکاتے غور سے حائمہ، شمائلہ بیگم اور خاموش بیٹھی مہوش کا جائزہ لیا۔
"دادی!" ہوش میں آتے اپنے لیے نکمی کا لفظ سنتے ربیشہ نے احتجاج کیا تھا۔
"زبان بند کر! آفاق ہاں کر فوراً جان چھڑا اس آفت کی پرکالا سے۔" دادی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اپنا مفید مشورہ سب کے گوش گزار کیا۔
"ایسے نہ کہیں دادی ورنہ دادا خواب میں آ کر آپ کو ڈرائیں گے۔" حائمہ نے دوبدو دادی کو کھڑے کھڑے جواب دیا تھا۔
"دیکھا ناہنجار کی زبان کیسے قینچی کی طرح چلتی ہے۔" دادی نے اسے لاٹھی دکھائی تھی جسے دیکھتے ہی وہ بچاؤ کے لیے پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
آفندی خاندان تو تکلف، مصنوعی پن سے پاک دونوں دادی پوتی کو دیکھ کر ہی حیران تھا۔
"ہمیں تو آپ کی پوتی دل و جان سے قبول ہے۔" حائمہ نے ہنستے ہوئے دادی کو جواب دیا۔
"ارے جیتی رہ بچی! لگتی تو تو شہزادی ہے پر پتہ نہیں دماغ کو کیا ہوا جو میری نکمی پوتی کے لیے رشتہ لے آئی۔" دادی نے حائمہ کو بھی گھرک دیا۔
"اماں جان مہمان ہیں۔" ربیشہ کی والدہ نے دادی جان کو باور کرایا۔
"ارے ہاں! فوراً ہاں کرو۔" دادی نے ماتھے پر ہاتھ مارتے حکم دیا۔
"مگر مجھے یہاں شادی نہیں کرنی۔ بہت معذرت!" ربیشہ سنجیدگی سے کہتی لاؤنج سے باہر نکلی تھی۔
"ارے بچی ہے پریشان ہو گئی ہے۔ لاڈلی ہے نا گھر بھر کی، تھوڑی نادان ہے مگر مان جائے گی۔" دادی نے اس کے جاتے ہی اس کی طرفداری کی۔ باقی دادی کو آفندی خاندان کے حوالے سے مطمئن کرنے کا کریڈٹ تو ایس پی زیغم کو جاتا ہے ورنہ ایسے اپنی شوخ و چنچل پوتی وہ کسی کو تھوڑی دے دیتی۔
"کوئی بات نہیں! ہم سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے میں تھوڑی سی پریشانی عام سی بات ہے۔" مہوش نے خوبصورتی سے بات ہو سمیٹا اور پھر کچھ دیر تک مزید محفل چلی، جس کے بعد آفندی خاندان نے رخصت مانگی۔
***********************
"چل تیری ڈینٹنگ پینٹنگ ہو گئی ہے۔ اب جلدی بتا کہ ہوا کیا تھا۔ یہ اس دانیال نے کیا ہے؟" افراز تو پولیس آفیسرز کو مات دینے کی موڈ میں موجود تھا۔
"تم اپنے تکے سنبھال کر رکھو بیوقوف!" علی نے اس کہ ٹانگ کھینچی۔
"یار بس وہ ایسے ہی موڈ خراب تھا کہ کچھ لڑکوں سے ایک بات پر الجھ پڑا تو کھٹ پٹ ہو گئی۔" حمدان نے وضاحت کی۔
"لے اس پر تو تجھے ڈبل پھینٹی لگنی چاہیے تھی آخر کو مملکت کے ذمہ دار شہریوں کے ساتھ جو الجھا۔" افراز اور حمدان کو غلط ثابت نہ کرے، یہ ناممکن سی بات ہے۔
"بند کر لے منہ نہیں تو بتیسی باہر کر دونگا۔" حمدان مکمل طور پر تپ چکا تھا۔
"ہیلو ہسپتال کے بیڈ پہ بیٹھ کے بھی آرام نہیں تجھے؟" افراز نے اسے شرم دلانا چاہی۔
"یہ توعورتوں کی طرح طعنے کیوں مارتا ہے؟" جوابی گولہ باری بھی کسی سے کم تھوڑی تھی۔
"میرا خون کھول رہا ہے تو ضائع ہو جائے گا میرے ہاتھوں، قابو رکھ اپنی لمبی قینچی جیسی زبان" لب بھینچے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بناتے افراز نے حمدان کو خبردار کیا تھا۔
"تم لوگوں کا ہو گیا تو کیا میں چلوں۔" راحم نے ابرو اٹھائے سوال کیا۔
"ہاں جا تیرے تو ویسے بڑے نخرے تھے، اور اب تو منسٹر لگنا ہے نا تو نے۔" افراز کی ٹرین کی رفتار سے چلتی زبان راحم کو بھی بخشنے پر تیار نہ تھی۔
"تیری زبان بڑی فراٹے بھر رہی ہے۔ خیر ہے؟" راحم نے اچنبھے سے پوچھا۔ افراز نے بس سر جھٹکا تھا۔
"ابھی 22 کا ہوں۔ الیکشن لڑنے کے لیے 25 سال کم ازکم عمر ہے اور تب تک میں سیاست کو خیرباد کہہ دونگا۔" پلان واضح تھا۔
"تو پھر ابھی کیا کام کرانا انکل نے تجھ سے۔" علی نے پوچھا۔
"گڈ لکس، زبان کے تیروں کا فائدہ حاصل کرنا ہے اور نوجوان نسل سے جڑنے کا ذریعہ بنانا ہے تا کہ ان کی پوزیشن مستحکم ہو سکے۔" راحم نے گھڑی دیکھتے ہوئے جواب دیا اور کھڑا ہو گیا۔
"سیاست نہ ہو گئی ریمپ واک ہو گئی۔" بڑی دیر بعد علی نے اپنا نادر فرمان جاری کیا تھا۔
"راحم خبر تو سن!" دروازہ کھولتے راحم کو علی نے روکا اس نے اشارے سے پوچھا کیا؟
"آج گھر والے میرا رشتہ دیکھنے گئے ہیں۔" علی نے سنسنی خیز لہجے میں نیوز بریک کی۔
"کہاں؟" تینوں نے مشترکہ سوال کیا۔
"تم لوگوں کی براک لیزنر باجی کے گھر!" علی نے کندھے اچکاتے ایتم بم بڑے آرام سے پھوڑا۔
"ربیشہ آفاق!" افراز نے فوراً صحیح نام لیا تھا۔
راحم دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔
"لے دیکھ مبارک دیے بغیر چلا گیا۔" علی نے رونا ڈالا۔
"چھوڑ ایسے ہی ہے نخریلا۔ بعد میں دے دیگا۔ تو یہ بتا کہ یہ حالات کیسے بدلے؟ پل میں توشہ پل میں ماشہ کیسے ہو گیا؟" حمدان نے دلچسپی سے پوچھا۔
"نہ پوچھو لڑکے کے ساتھ سنگین زیادتی ہوئی ہے۔ حائمہ آپی زبردستی کر رہی ہیں میرے ساتھ اور میرے گھر والوں کو لے کر چلی گئیں۔" علی نے دکھی داستان دونوں کو سنائی۔
"پیارے تیرا مستقبل دیکھتے مجھے تجھ سے ہمدردی ہو رہی ہے۔" افراز نے اپنے نا نظر آنے والے آنسو پونچھے تھے اور پھر افراز اور حمدان ہنسے تھے جبکہ علی منہ بسور کر رہ گیا تھا۔
***********************
جاری ہےNext bhi jaldi Dene ki koshish kru gi. Me suba 5 bje jati or sham 7 bje gher wapis ati classes le ker then khana khaa k daily ka kaam kerte 11 12 buj jate or bmushkil 4 ghunte sone k bad mjhe dobara suba jane k lye uthna perta he. Itni tough routine he ap log andaza ker lein k kitna waqt hota hoga merely pas me whatsapp pe hafto reply nhi de pati ab to. Phir bhi I am trying k isko complete ker luu
YOU ARE READING
عیدِ زندگی سیزن ٹو
Humorکہانی حائمہ اور ارحان کی حائمہ کی بے پروائی کیا ارحان کو کر دیگی پاگل کوئی نیا کردار کیا ڈالے کسی کی زندگی پہ اثر عون آفندی کیا ہمیشہ کی طرح اس بار دے گا حائمہ کا ساتھ یا پھر.... ارحان آفندی کی برداشت کا امتحان بہت سے مزیدار واقعات کے ساتھ ایک خوبصو...