قسط ٦

672 62 74
                                    

عیدِ زندگی
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 6####

"حائمہ!" ارحان اب شمائلہ بیگم کے پورشن میں کھڑا اسے آواز لگا رہا تھا۔
"بیٹا وہ تو کچن میں ہے۔" شمائلہ بیگم نے اسے بتایا۔
"ارحان بچی سے آرام سے بات کرنا۔" انھوں نے اسے تاکید کی۔ ارحان کی تیوری پر پڑے بلوں سے وہ یہ تو سمجھ چکی تھیں کہ دونوں میں بھر ان بن ہو گئی ہے۔
"تم کیا چاہتی ہو؟ آج بتا ہی دو!" ارحان اسکے سر پر کھڑا غصے سے اسے دیکھ رہا تھا جو سلیب کے پاس کھڑی ہونٹ کاٹ رہی تھی۔
"میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس بار غلطی آپ کی ہے۔" اس نے ارحان کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
"واقعی میری غلطی ہے۔ اور وہ غلطی یہ ہے کہ میں نے ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔" ارحان کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں۔
حائمہ نے اس کی بات پر سر اٹھا کر بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔
"تمہاری وجہ سے اتنے سالوں میں بھی ہمارے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکی۔" الزام عائد کیا گیا تھا۔
"میری وجہ سے؟" آنکھوں میں حیرت تھی۔
"ارحان اکیلی میں قصوروار تو نہیں ہوں۔ شادی کے بعد تم میں کتنا بدلاؤ آیا ہے؟ بتاؤ! تم بلکل بھی نہیں بدلے۔ بدلی صرف حائمہ ہے۔ تم نے کہا جاب مت کرو، تمہارے لیے میں نے اپنی یہ خواہش ختم کر دی۔ میں اپنے کام خود نہیں کرتی تھی۔ اب سب کے کام میں کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ اچھلتی کودتی رہتی تھی لیکن اب کبھی کبھار کوئی شرارت کر لوں تو تم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہو۔ ہر وہ کام میں نے چھوڑا جو تمہیں نہیں پسند تھا۔" اتنا کہہ کر اس نے ارحان کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ صرف اسے سن رہا تھا۔
"سب کہتے ہیں کہ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اپنے ماں باپ سے دور نہیں جانا پڑا۔ لیکن تمہیں پتہ ہے مہوش جو اپنا گھر چھوڑ کر یہاں آئی وہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہے۔ اس میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا کیونکہ عون نے اسے ویسے ہی قبول کیا تھا جیسی وہ تھی۔ لیکن ارحان عباس آفندی میں اتنی انا ہے کہ انھیں حائمہ کی ذات کہیں نظر نہیں آتی۔ انھیں ایک روبوٹ چاہیے جو ان کے اشاروں پر چلے۔ کوئی لڑکی کسی دوسرے گھر بھی جائے تو وہ اتنا نہیں بدلتی جتنا میں بدلی ہوں۔ آپ میں کیا بدلاؤ آیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ آپ آج بھی حائمہ کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔اس پر اپنا حکم چلانا چاہتے ہیں۔ اسے سب سے آخری ترجیح رکھتے ہیں۔ اسے نظر انداز کرنا آپ کے لیے معمولی بات ہے۔" حائمہ دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
ارحان کے ابرو اوپر اٹھے تھے جیسا کہہ رہا ہو واقعی؟
"اب کچھ میں بھی کہہ لوں؟" لہجہ پہلے سے کچھ نرم تھا۔
"کہہ لیں۔ میرے روکنے سے کونسا آپ رک جاتے ہیں۔" اس کا نرم لہجہ محسوس کر کے حائمہ اب پھیل رہی تھی۔
"تم چاہتی ہو میں تمہیں سب کے سامنے نہ ڈانٹوں۔ تمہیں سب کے سامنے نظر انداز نہ کروں۔ تمہیں سب میں پہلی ترجیح رکھوں لیکن یہ بتاؤ تم نے سب کے سامنے میری ذات کا بھرم قائم کب رکھا ہے؟ کب تم نے میری عزت سب کے سامنے خراب نہیں کی؟" ارحان بھی آج اسے سب کہنے کے موڈ میں تھا۔
"کیا مطلب؟"حائمہ نے اسے ناسمجھی سے دیکھا۔
" مطلب یہ کہ میں تمہیں کمرے میں بھی ڈانٹ دوں تو تم سب کو جا کر بتا دیتی ہو۔ تم مجھ سے گلہ کرنے کی بجائے سب بڑوں سے کرتی ہو۔ ایک میرے علاوہ تم سب سے شکایت کر دیتی ہو۔ کبھی پہلے مجھے کہہ کر دیکھو۔ میں دور نہ کروں تو تم باقیوں کو بتاؤ۔ ہر شخص مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے تم پہ میں نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہوں۔ تمہیں اکیلے میں ڈانٹ سننا برا لگتا ہے اور تم خود مجھے پڑوسیوں تک کی نظروں میں ذلیل کر دیتی ہو۔" حائمہ کو اپنی حرکت پر شرمندگی ہوئی تھی۔
"اب خود تھوڑی ڈانٹ سکتی ہوں، نہ آپ پر غصہ کر سکتی ہوں۔ اس لیے بڑوں سے کہتی ہوں۔" حائمہ نے تاویل پیش کی۔
"ماشاءاللہ آپ مجھ پہ اتنی بار غصہ کر کے کہتی ہیں کہ آپ نہیں کر سکتی!" ارحان نے طنز کیا۔
"تمہیں مجھ سے شکایت ہے مجھ سے کہو۔ جب تم دوسروں سے کہتی ہو تو میں اپنی غلطی ہونے کے باوجود اعتراف نہیں کر پاتا۔ تم مجھے جانتی ہو لیکن ہمیشہ الٹ کام کرتی ہو۔ میا‌ں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔" ارحان نے اس کی عقل پر ماتم کیا جبکہ حائمہ یہ سوچ رہی تھی کہ کتنی موٹی موٹی باتیں ہو رہی ہیں۔
"ہاں تو میں چھوٹی ہوں نا اور آپ بڑے۔ اس لیے میری غلطی کا اتنا نوٹس نہ لیا کریں۔" حائمہ کی بات پر ارحان کا میٹر گھوما تھا۔
"چھوٹی اور تم لاحول ولا قوۃ! ایک بیٹا ہے تمہارا۔ تمہیں کب عقل آئے گی؟" ارحان ماتھے پر ہاتھ مارتا وہاں سے جانے لگا تھا۔
"کہاں جا رہے ہیں؟" حائمہ نے پیچھے سے آواز لگائی۔
"کمرے میں!" اس کے مڑ کر جواب دیا۔
"میں بھی چلتی ہوں۔" حائمہ اسکے ساتھ چلنے لگی جب اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا:
"نہیں میں نے آرام سے تمہاری غلطی بتائی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ناراض نہیں ہوں۔ تمہیں بہت شوق ہے نا دوسرے کمرے میں سونے کا اور چاچو اور مسز قدوسی کو شکایت لگانے کا؟ اب اس شوق کو پورا کرلینا۔ کوئی ضرورت نہیں کمرے میں آنے کی۔"
"ارحان!" حائمہ روہانسی ہوئی۔
"پلیز مجھے بہت غصہ ہے۔ میں بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کر رہا ہوں۔ میرا دماغ خراب مت کرنا۔" ارحان اسے تنبیہ کرتا تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ پیچھے وہ اداس کھڑی تھی۔
اسے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔
سب ہمیشہ ارحان کو غلط سمجھتے تھے کیونکہ وہ اس کی شکایت کرتی رہتی تھی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اس سب کے باوجود وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ وہ صرف غلط بات پر اسے ٹوکتا تھا لیکن شاید آج اس کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی جسے روکتی وہ پھپھو کے پورشن میں موجود گیسٹ روم کی طرف چلی گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"چلو اب ٹریٹ کھلاؤ!" علی گراؤنڈ میں بیٹھی ربیشہ کے سر پر ٹپکا تھا۔
"کس بات کی؟ تمہارے فیل ہونے کی؟" ربیشہ نے تپ کر جواب دیا۔
"فیل ہوں میرے دشمن!" علی نے آرام سے اسکی طرف اشارہ کر کے اسکی بات اس پر پلٹی تھی۔
"دفع ہو جاؤ یہاں سے علی ورنہ میں نے تمہاری ڈین سے پٹائی لگوا دینی ہے۔" ربیشہ نے اسے دھمکی دی جس پر علی اپنے منہ کے زاویے بگاڑ کر اس کی نقل اتارنے لگا:
"ڈین سے پٹائی لگوانی ہے!"
"تم جا رہے ہو یا نہیں؟" ربیشہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
"مانا کہ ہینڈسم ہوں پر ایسے گھور کر کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے؟" علی نے مسکراہٹ دبائی جس پر ربیشہ طیش میں آتے ہوئے وہاں سے اپنا سامان سنبھالی اٹھی تھی۔
"اچھا سیریس آج والٹ گھر بھول آیا ہوں۔ اس لیے رمیز سے بچایا کہ تم مجھے انعام میں ٹریٹ کھلاؤ۔" علی نے فخر سے کارنامہ بیان کیا۔
"میں بھی کہوں، یہ علی اتنا نیک شریف کیسے ہو گیا!" ربیشہ نے طنز کیا۔
"ہاں نیک شریف تو بہت ہوں جبھی تو تمہاری عزت بچائی ہے۔" علی پر اسکے طنز کا رتی برابر اثر نہیں ہوا تھا۔
"چلو کینٹین اور جلدی سے ٹھونسنا تا کہ میں بل پے کر کے جان چھڑاؤں۔" ربیشہ سر جھٹکتی آگے بڑھی۔
"اب میں موت کا فرشتہ تھوڑی ہوں جو تمہاری جان پکڑ کر بیٹھا ہوں۔ میں تو معصوم سا لڑکا ہوں۔" علی نے پیچھے سے اپنی ہانکی۔
"تمہارے جیسے معصوموں کو اچھے سے جانتی ہوں میں!" ربیشہ آرام سے اپنا ترکش استعمال میں لاتی آگے بڑھ رہی تھی۔
"قینچی کی طرح تمہاری زبان چلتی ہے۔ نجانے تمہارے میاں کا گزارہ کیسے ہوگا؟ یہ تو میں معصوم ہوں جو برداشت کر لیتا ہوں۔" علی نے آج عون آفندی بنا ہوا تھا۔
"تم فکر نہیں کرو گزارہ نہ ہوا تو دوسری شادی میں تم سے کر لونگی۔" ربیشہ نے ہاتھ نچا کر کینٹین میں داخل ہوتے ہوئے زہرخند لہجے میں کہا۔
"لو بھلا کسی بیچارے کی زندگی برباد کر کے میرے پاس آنے کی کیا ضرورت ہوئی؟ تم ایسا کرو تم پہلی شادی ہی مجھ سے کر لینا۔" علی نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے مفت کا مشورہ دیا۔
"تمہیں تو کوئی لڑکی چپڑاسی بھی نہ رکھے۔" ربیشہ نے اکڑ سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
"ہاں میں تو شوہر میٹیریل ہوں بھلا مجھے کوئی لڑکی چپڑاسی رکھ بھی کیسے سکتی ہے۔" علی نے بے عزتی کا ذرا اثر نہیں لیا تھا۔
"چپ کر جاؤ! کتنا بولتے ہو تم! تم تو دس عورتوں سے اکیلے لڑ سکتے ہو۔" ربیشہ نے آخر ہار مانی۔
"اسی لیے کہہ رہا ہوں مجھ سے ہی شادی کر لینا سب سے لڑ لونگا۔" علی نے آگے ہو کر ایسے کہا جیسے ربیشہ اس کے پیچھے مری جا رہی ہو۔
"اچھا بابا کر لونگی۔" ربیشہ نے ہاتھ جوڑ کر گلو خلاصی کرانا چاہی۔
"لو میں مذاق کر رہا تھا۔ تم لڑکیاں بھی نا ہینڈسم لڑکوں کے مذاق سیریس لے لیتی ہو۔ تم جیسی منہ پھٹ لڑکی سے سر نہیں پھوڑنا مجھے۔" علی نے گویا ناک سے مکھی اڑائی۔
"مرو تم! چھوٹے اس کا ٹھونسا ہوا میرے کھاتے میں لکھ دو میں بعد میں پے کرتی ہوں۔" ربیشہ اسکی بکواس پر ضبط کھو کر وہاں سے جا چکی تھی۔
علی اسے زچ کر کے رکھ دیتا تھا اور وہ ہمیشہ باتوں میں ہارنے پر چڑ جاتی تھی۔
اب بھلا اسے کون سمجھائے کہ یہ عون اور حائمہ کا جانشین ہے۔ اس سے بحث بیکار ہے۔
"اے لو ڈی آئی جی کی بیٹی ادھار کر کے چلی گئی۔ خیر علی چل اپنا والٹ نکال!" علی نے والٹ کے لیے بیگ میں ہاتھ ڈالا کہ وہ حیران رہ گیا۔ اس کا والٹ کہاں گیا؟ وہ والٹ لایا تھا لیکن ربیشہ سے جھوٹ بول رہا تھا مگر اب والٹ کی غیر موجودگی اسے حیران کر رہی تھی۔ وہ ہمیشہ یونی میں والٹ بیگ میں رکھتا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ربیشہ اپنا کام کر گئی تھی۔
"ربیشہ آفاق تم بچو گی نہیں!"وہ اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگا تھا کیونکہ ربیشہ آفاق ہمیشہ کی طرح فوراً ہی بدلہ لے چکی تھی۔
"بیٹی پولیس والے کی اور کام جیب کتروں والے!" وہ خود کلامی کرتا ربیشہ کو ڈھونڈ رہا تھا جو یقیناً ایک گھنٹے تک اب اسے ملنے نہیں والی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!

Stay tuned!

عیدِ زندگی سیزن ٹو Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang