اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت تین بج رہے تھے۔ اسے حیرت ہوئی کہ وہ اتنی دیر کیسے سو گئی تھی۔ کل رات کا واقعہ یاد آیا تو دل بوجھل ہوگیا۔ شمیلہ چچی کمرے میں داخل ہوئیں تو اسے بستر پر بیٹھا دیکھ کر اس کے قریب آئیں۔
"اٹھ جاؤ صالحہ۔ کیسی طبیعت ہے اب؟۔ چلو آؤ دیکھو کتنا پیارا موسم ہورہا ہے۔ تھوڑی دھوپ سینک لو باغ میں جا کر۔ جا میری دھی"۔
صالحہ نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا اور واش روم چلی گئی۔ وہ جب تک باہر آئی شمیلہ چچی اس کا کمبل اٹھا چکی تھیں۔ اس نے تولیہ سے منہ رگڑا اور سنگھار میز کے سامنے آ کر کھڑی ہوگئی۔ بال الجھے ہوئے تھے۔ تین دن سے ان بالوں پر کنگھا نہیں پھیرا گیا تھا۔ ایک ہاتھ سے اس کی چادر ٹھیک کرتیں چچی کی نظریں اس کے بالوں پر پڑیں۔
"آ صالحہ تجھے تیل لگادوں۔ پھر بال بھی سلجھا دوں گی۔ یہ دیکھ رہی یے تیری کھڑکی سے بھی کتنی دھوپ اندر آرہی ہے۔ تھوڑی دیر میں یہ بھی نہیں رہے گی اس لیے جلدی آجا"۔ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور وہیں سنگھار میز سے کنگھا اٹھا کر اسے زمین پر بٹھادیا جہاں دھوپ ذیادہ تھی۔ صالحہ نے سوئٹر پہن رکھا تھا جس پر پھولوں والی کڑاہی تھی۔ وہ تیل لے کر آئیں اور کرسی لگا کر اس کے پیچھے بیٹھ گئیں۔ وہ خاموش ہی رہی جیسے پہلے تھی۔ وہ اسے اب تیل لگارہی تھیں۔
"چچی"۔ اس کے لبوں سے الفاظ آذاد ہوئے۔
"ہاں دھی"۔ وہ اب اس کے سر پر کنگھا کررہی تھیں۔
"ثریا؟"۔
"مجھے علم نہیں صالحہ!۔ میں نے اسے صبح سے نہیں دیکھا"۔
"میں اس سے ملنے جاؤں گی"۔
"بال بن جائیں پھر چلی جانا"۔
"کیا کہوں گی میں اسے؟"۔
وہ ان سے پوچھ رہی تھی۔
"اللہ کا کلام سنانا۔ اسے صبر کا مفہوم بتانا۔ اس سے کہنا اس کی مغفرت کی دعا کرے۔ وہ اللہ کی ہی چیز تھی وہ اللہ کے پاس چلی گئی"۔ یہ بات صالحہ کے دل سکون اتار گئی۔
"اور؟"۔ اسے شمیلہ چچی کو سننا اچھا لگنے لگا۔
"وَاصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا""چچی۔ رات والی آیت بھی؟"
"ہاں میری دھی"۔ وہ اب اسکی چٹیاں بنارہی تھی۔
"اور؟"۔
"اس کو بول اللہ کا کلام پڑھ"۔
"اور"۔
وہ اس کے بال بنا چکی تھیں۔
"اور یہ کہ ثریا کو دیکھنے کے بعد اپنی افشاں پھپھی کو بھی دیکھ آ۔ تجھے اسے دیکھے آج تیسرا دن ہے"۔
صالحہ نے تیزی سے گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔ انہیں کیسے معلوم کہ وہ افشاں پھپھی کو دیکھنے جاتی ہے؟۔ مگر وہ اسے راز افشاں ہونے والی مسکراہٹ سے دیکھ رہی تھیں۔
"ارے اب ایسے مت دیکھ!۔ میں جانتی ہوں تو اس سے ملنے جاتی ہے رات کو"۔
صالحہ مسکرادی، مگر جلد ہی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
"انہیں ان دو دنوں سے کھانا کون دینے جاتا رہا ہے چچی؟"۔ وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔
"میں دینے جارہی تھی صالحہ۔ اور تجھے معلوم ہے کیا؟ وہ ہر بار میرے کمرے میں داخل ہونے پر تیرا انتظار کرتی تھی۔ میں جیسے ہی کنڈی کھٹکھٹاتی اسے لگتا صالحہ آئی ہے اور وہ مچلتی ہوئی دروازہ کھولتی، مگر مجھے دیکھ مرجھاتی"۔
صالحہ ان کو بہت غور سے سن رہی تھی۔
"پھر چچی؟"۔
"پھر؟ پھر یوں ہوا کہ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ آج صالحہ کو ضرور بھیجوں گی۔ اس کی پریشانی کی ایک اور وجہ تمہاری بیماری بھی تھی۔ حالانکہ میں نے اسے آگاہ نہیں کیا تھا کہ تم بیمار ہو۔ مگر تمہاری غیرموجودگی اسے بس یہی سمجھاتی رہی کہ کچھ برا ہوا ہے تمہارے ساتھ۔ وہ اشاروں سے پوچھتی کہ ارحم کی موت پر صالحہ کو گہرا صدمہ تو نہیں لگا نا!۔ وہ پورا پورا وقت تمہارے بارے میں پوچھتی رہی۔ پورے دو دن سے وہ گھنٹیاں بجائی جارہی ہے، مگر اس کی گھنٹی کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ بے زبان ہے تو اس لیے گھنٹی بجاتے بجاتے ہاتھ دکھ گئے، مگر اس کی صالحہ نے دو دن سے اس کے کمرے میں جھانکا نہیں۔ اس کی اب یہ حالت ہے کہ اگر اب ایک دن اور اسے تیرا چہرہ نظر نہ آیا تو وہ مرجائے گی صالحہ! اسے یہ دوسرا گہرا صدمہ لگے گا!"۔ وہ کہتے کہتے آبدیدہ ہوگئیں۔
"پہلا؟"۔
"تجھے سب خبر ہے صالحہ۔ تو پھر تو کیوں پوچھ کر جی جلا رہی ہے میرا؟"۔ وہ نڈھال ہوگئی تھیں۔
"مجھے دھندلا سا یاد ہے چچی!۔ علیحدہ سے کسی نے نہیں بتایا"۔
"میں جارہی ہوں"۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"وہ پہلا کون سا صدمہ تھا چچی؟"۔ وہ پھر سے پلٹ کو بولی۔ وہ ٹہھر گئیں۔
"جب افشاں کو بےزبان کردیا تھا اور جب اس کی خوشی کو افشاں سے ہی دور کردیا تھا۔ افشاں کی خوشی! یعنی وہ شخص!"۔ وہ کہتی ساتھ چادر سے خود کو ڈھانپتیں تیزی سے باہر نکلیں۔ صالحہ سناٹے میں آگئی۔ ایک شخص؟ یہ کوئی پہیلی نہیں تھی جسے وہ سمجھنے میں دیر لگاتی۔ حویلی میں ایک غیر شخص کی بات ہورہی تھی اس کا مطلب بہت کچھ تھا۔ افشاں پھپھو کے ذکر میں ایک مرد کا ذکر آیا تھا۔ اسے تجسس پیدا ہوا۔ داجی کے بےرخی اور افشاں پھپھو سے دوری! وہ تو ان کی بیٹی تھیں نا!۔ تو پھر کیوں۔۔۔۔ اس بے یک دم سوچا۔
اوہ۔۔۔۔ بیٹی تھیں تبھی تو یہ سب ہوا۔ وہ لڑکی تھیں۔
وہ تلخی سے مسکراتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
۔۔۔**۔۔۔
YOU ARE READING
زنجیر (مکمل)
Randomیہ کہانی ہے حویلی کے رسم و رواج کی اور ان رسموں کی زد میں آئی لڑکیوں کی۔ قید و بند کی۔ ظلم و ستم کی۔ رسم و رواج کی پابندیوں سے ہونے والے نقصانات زندگیاں برباد کرنے کا تجربہ رکھتے ہے۔ جو حق اسلام نے عورت کو دیئے ہیں وہ حق اس سے چھیننا قطعی بہادری نہی...