اس کی آنکھ کھلی تو وہ ایک بند کمرے میں تھی۔ اس کے سر پر کوئی پٹیاں رکھ رہا تھا۔ اس نے سر اوپر کرکے دیکھنا چاہا، مگر کمزوری اتنی کہ ایک انچ نہ ہل پائی۔ کیا ہوا تھا؟ وہ یہاں کیوں ہے اور کب سے ہے؟ وہ ماضی کو یاد کرنے لگی۔ سانسیں گہری ہورہی تھیں۔ سر پر ایک اور پٹی رکھی گئی۔ اس نے بولنے کی کوشش کی، مگر بول نہ پائی۔ ایک لالٹین اس کے سامنے میز پر رکھی تھی جس کی مدھم روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر کوشش کی بولنے کی، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ہمت ہارے بغیر وہ پھر سے کوشش کرنے لگی۔ لب کپکپائے اور لرزتے ہوئے ایک الفاظ لبوں سے آذاد ہوا۔
"ک۔ککون؟"۔ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔"تمہاری چچی"۔ اس کے پیچھے بیٹھی عورت دھیرے سے بولی اور ایک پٹی پھر اس کے ماتھے پر رکھی۔
"شمیلہ؟"۔ ادھ کھلی آنکھوں سے سامنے دیکھتے ہوئے پھر سے پوچھا۔
"ہاں میری دھی"۔ وہ پیار سے ہاتھ اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر بولیں۔ صالھہ نے پوری آنکھیں کھولیں۔ ایک دم ذہن میں جھماکا ہوا۔ وہ سفید کپڑے میں لپٹا وجود، خون اور چیخنے چلانے کی آوازیں اور اس کا بےہوش ہونا۔ ہاں اسے سب یاد تھا۔ اسے وہ لمحات یاد آئے تو سانسیں پھولنے لگیں۔دل زور زور سے دھرکنے لگا۔ وہ ساری طاقت جمع کرتی ہوئی اٹھ بیٹھی ۔ "چچی ارحم صاحب؟؟ " شمیلہ چچی نے اسے دیکھا، مگر کچھ کہا نہیں۔اب بھلا وہ اس تلخ حقیقت کو ایک بار پھر دہراتیں کہ وہ اب نہیں رہا؟۔
انہوں نے نظریں پھیرلیں۔ وہ ان کے جواب کا انتظار کرتی رہی۔
"ٹھیک ہے میں خود ہی پتا کرلیتی ہوں"۔ وہ ڈوپٹہ اٹھاتی ہوئی خود ہی دروازے کی جانب بڑھی۔ کمزوری کے باعث چال میں لڑکھراہٹ جاری تھی۔
"اس کو مرے ہوئے دو دن ہوچکے ہیں صالحہ!"۔ انہوں نے بھاگتی ہوئی صالحہ کو اطلاع دی۔ وہ بول نہیں رہی تھی بلکہ زنجیر سے اس کے پاؤں لپیٹ رہی تھیں۔ وہ الفاظ نہیں تھے، وہ خنجر تھے اور اس درد کی تکلیف ایسی تھی جیسے ایک زخم پر بار بار وار کیا جائے۔ اس نے تیزی سے پلٹ کر انہیں دیکھا۔
"آپ جھوٹ کیوں بول رہی ہیں؟ آپ اس لیے یہ سب کہہ رہی ہیں تاکہ میں باہر نہ جاؤں؟"۔ وہ اب بھی یقین کرنے کو تیار نہ تھی۔ وہ کہہ کر پھر سے پلٹنے لگی۔
"اگر ایسا ہے تو اپنے کمرے کو ہی دیکھ لو صالحہ جو دو دن میں اتنا تبدیل ہوچکا ہے۔ وہ تصویریں جو شاید تم نے پھاڑی تھیں، وہ میں نے تمہاری دراز میں ڈال دی ہیں تاکہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں۔ ہوش میں آؤ صالحہ"۔
وہ ٹھٹھکی۔ اس نے نگاہیں پورے کمرے میں دوڑائیں۔ کمرہ دھول اور مٹی میں اٹا ہوا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ صفائی نہیں ہوئی ہے۔ چونکہ اس کے کمرے کی کھڑکی سے جنگل نظر آتا تھا اور ہواؤں کا رخ بھی اس جانب کو ہوتا تو کمرہ بہت جلدی ہی گندہ ہوجایا کرتا تھا۔ وہ اکثر کھڑکی بند رکھتی تھی۔ اس کمرے کو واقعی دو دن سے صاف نہیں کیا گیا تھا۔ وہ سہمی۔ نگاہیں کھڑکی کی جانب اٹھیں اور وہ مرے مرے قدموں سے کھڑکی کی طرف بڑھی۔ کھڑکی پر بھاری پردے لگے تھے۔ اس نے کونے سے ذرا سا ہٹا کر نیچے جھانکنے کی کوشش کی۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ سامنے جنگل تھا اور نیچے ان کا باغ۔ رات بہت تھی جس کی وجہ سے حویلی کی لائٹیں بھی بند تھیں۔ لگتا تھا سب سوگئے تھے۔ اسے باغ میں چھوٹا سا آگ کا شعلہ سا محسوس ہوا تو وہ رک اسے بغور دیکھنے لگی۔ وہ داجی تھے جو اپنے مخصوص سگار پی رہے تھے۔ اس نے جلدی سے کھڑکی کھولی۔ کھڑکی کھلتے ہی سرد ہوا کی لہر اندر داخل ہوئی جس نے اسے کانپنے پر مجبور کردیا تھا۔ پیچھے مسہری سے کمر ٹکائے بیٹھیں شمیلہ چچی نے شال اوڑھ لی۔ وہ اسے روکنا نہیں چاہتی تھیں۔
صالحہ نے ہواؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے نیچے دیکھا۔ داجی شال اوڑھے آرام دہ کرسی پر بیٹھے تھے۔ لالٹین ان کے سامنے پلاسٹک کی میز پر رکھی تھی۔ وہ اتنے مطمئن بیٹھے تھے، اسے یقین نہ آیا۔ وہ پلٹی اور اپنے کمرے کی دیوار پر لگے کیلنڈر دیکھنے لگی۔ بلآخر اسے یقین ہو ہی گیا۔ ہاں وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ کیلنڈر میں آج کے دن پر مارک لگا ہوا تھا۔ اس کا دل پھٹنے کے قریب تھا۔ ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔
"آج اس کا سوئم تھا صالحہ"۔ ایک اور انکشاف۔ صالحہ ساکت رہ گئی۔ اس کا دل بےتحاشہ دھڑکنے لگا۔ اس نے دیوار کی طرف پیٹھ کی اور اس کے سہارے بیٹھتی چلی گئی۔ اس کے ہونٹ لرزنے لگے۔
"چچی۔۔۔" وہ اس نے لرزتے ہوئے گردن موڑ کر برابر بستر پر بیٹھی چچی کو دیکھا۔ چچی تڑپ اٹھیں۔
"ہاں میری دھی"۔
"میرے دل کی تکلیف بڑھ رہی ہے چچی"۔ وہ رو نہیں رہی تھی۔ وہ صرف بےجان ہوئے وجود کے ساتھ انہیں اپنے دل کا حال بتا رہی تھی۔ وہ چپ رہیں۔ کہتیں بھی تو کیا کہتیں؟۔ وہ یہ باتیں محدود لوگوں سے ہی کرسکتی تھی۔ شمیلہ چچی ان محدود لوگوں میں سے ایک تھیں۔
"میں کیا کروں اب چچی؟"۔ وہ پوچھ رہی تھی۔ کوئی تو حل ہوگا اس درد کا؟ جیسے ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے، جیسے ہر سوال کا جواب ہوتا ہے۔ یقیناً اس کا بھی کوئی حل ہوگا۔
ایک آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ کر گالوں تک آیا تھا۔
ہاں اس کا بھی ایک جواب تھا!۔
"صبر! صبر کر میری دھی"۔
صالحہ نے سر اٹھایا۔
"مگر اس کا زخم بہت گہرا ہے اور تکلیف بے پناہ ہے چچی۔ کیسے صبر کروں؟"۔ وہ تڑپتے ہوئے بولی۔

KAMU SEDANG MEMBACA
زنجیر (مکمل)
Acakیہ کہانی ہے حویلی کے رسم و رواج کی اور ان رسموں کی زد میں آئی لڑکیوں کی۔ قید و بند کی۔ ظلم و ستم کی۔ رسم و رواج کی پابندیوں سے ہونے والے نقصانات زندگیاں برباد کرنے کا تجربہ رکھتے ہے۔ جو حق اسلام نے عورت کو دیئے ہیں وہ حق اس سے چھیننا قطعی بہادری نہی...