قسط ۲

1.7K 88 14
                                        

صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی کچن میں ناشتہ کی خوشبو پھیل گئی تھی۔
"داجی ناشتہ لگادیا ہے"۔ روبی نے جھکی نظروں اور آہستہ آواز میں اطلاع دی۔
"آرہا ہوں دھی! تو جا"۔ جواب دے کر پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔ روبی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔
"کیا کوئی آج زمینوں پر گیا ہے؟"۔ ناشتہ کی میز پر بیٹھتے ہوئے داجی نے پوچھا۔ ایک رعب تھا جو ان کے لہجے کو اور خوفناک بناتا تھا۔
"ہم ناشتہ کے بعد جائیں گے بعد داجی"۔ شاہ زل نے کہتے ہوئے لسّی سے بھرا گلاس منہ کو لگایا۔ داجی نے اثبات میں سرہلایا۔
ہر طرح کے لوازمات میز پر سجے تھے۔
"افشاں کو کھانا پہنچھادیا؟"۔ انہوں سمیعہ تائی کی طرف دیکھا تو سمیعہ تائی نے گڑبڑا کر شجر اور صالحہ دیکھا۔ کچن سے آتی صالحہ نے ہاتھ میں تھامی ٹرے کی جانب اشارہ کیا۔
"داجی ہم وہیں جارہے ہیں"۔ صالحہ نے شجر کو اشارہ کیا تو شجر بھی ساتھ آگئی۔ افشاں کے کمرے کا دروازہ دھیرے سے کھول کر دونوں اندر آگئے۔ اس کمرے میں کوئی بتی بھی نہیں تھی البتہ پنکھا تھا جس کی رفتار آہستہ تھی۔ کھڑکی سے باہر جھانکتی عورت پلٹی۔
"پھپھو۔ یہ ناشتہ لائے ہیں ہم"۔ شجر نے اطلاع دی۔ اس عورت نے ان دونوں کو دیکھا اور بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ پرہیزی کھانا ان کے سامنے بیڈ پر رکھ کر صالحہ ان کے تاثرات کا جائزہ لینے لگی۔
"کھالیں گی نا کھانا؟ میں کھلا دوں آپ کو؟"۔ صالحہ نے اس عورت کے قریب آکر اس کا ہاتھ پیار سے پکڑا۔ افشاں نے مسکرا کر اثبات میں سرہلایا اور اشارہ دیا کہ وہ کھالے گی کھانا۔
وہ عورت کوئی ذیادہ بڑی نہیں تھی۔ لگ بھگ پینتس سال کی بےحد خوبصورت تھی۔
"کسی چیز کی ضرورت پیش آئے گی تو کیا کریں گی؟"۔
اس عورت نے برابر میں پڑی گھنٹی اٹھا کر اسے ادھر ادھر ہلایا جس سے وہ بج اٹھی۔
"بلکل۔۔ فوراً بجا دے گا۔ میں آجاؤں گی افشاں پھپھو"۔
اس کی بات پر وہ عورت پھیکا سا مسکرا اور اس کے گال کر چھو کر پیار کرنے لگی۔ شجر نے قریب آکر ان کا کھانا ان کے اور پاس کیا۔
"میں آؤں گی تو آپ میری مہندی لگائے گا"۔ صالحہ نے ان کا ہاتھ پکڑا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سرہلانے لگیں۔
"شجر، صالحہ!"۔ نیچے سے آتی داجی کی دھاڑ پر وہ دونوں سہم کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اس عورت نے پہلےان دونوں کو دیکھا اور آتی دھاڑ کی سمت کو!

"لگتا ہے سیڑھیوں سے چڑھ کر کوئی آرہا ہے"۔ شجر نے ڈر کر صالحہ کا ہاتھ سختی سے پکڑا۔
"تم لوگ کیا کررہے ہو اتنی دیر سے؟ داجی چلا رہے ہیں نیچے آؤ! کیا تمہیں علم نہیں افشاں کے پاس ذیادہ وقت ٹہھرنا منع ہے! فوراً نیچے آؤ"۔ سمیعہ تائی نے انہیں گھورا اور پیچھے بیٹھی عورت کو دیکھ کر مڑ گئی۔
"ہمیں ابھی جانا ہے! مگر ہم آئیں گے"۔ صالحہ نے انہیں یقین دلایا۔
"رات کے اندھیرے میں ہمارا انتظار کیجئے گا۔ دروازہ لاک نہیں کیجئے گا"۔ صالحہ نے انہیں تاکید کی اور شجر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے نیچے بڑھ گئی۔ اس عورت نے پھیکی مسکراہٹ سے انہیں جاتا ہوا دیکھا اور پھر اپنے سامنے رکھے کھانے کو۔ ایک دم دل اچاٹ ہوگیا اور وہ اٹھ کر کھڑکی کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا انہیں کانپنے پر محبور کررہی تھی مگر وہ ان سب سے بےنیاز ہو کر باہر جھانکنے لگی۔
یہ رسمِ دنیا ہے۔
مل کر بچھڑنا ہے
کبھی بچھڑ کر ملنا۔
مگر مجھے حق چاہئے۔
حق چاہئے اپنے جینے کا!
کھڑکی باغ کی طرف میں کھلتی تھی۔ وہ عورت گھانس کو تک رہی تھی۔ کتنے سال ہوگئے اس نے گھانس پر قدم نہیں رکھا۔ اسے محسوس نہیں کیا۔ قدم رکھتے ہی ٹھنڈ کی جو لہر بدن میں دوڑتی ہے وہ اب سے بھول چکی تھی۔ اس گھانس کا لمس بھی بھول چکی تھی۔ سفید جوڑا پہن رکھا تھا اور یہی پہن کر رکھنا تھا۔ اس کے پاس تھے بہت جوڑے مگر سارے ہی سفید۔۔۔۔
رسموں سے بغاوت نے اسے زمین پر لاپٹخا تھا۔
           *-------------------*------------------*
"ایک بات پوچھوں وجدان؟"۔
"تمہیں اجازت کی ضرورت کب سے پڑنے لگی؟"۔ فائلوں سے سر اٹھا کر اس نے سامنے بیٹھے زید کو دیکھا۔
"میں بہت دنوں سے دیکھ رہا ہوں تمہیں! تم اتنے بجھے بجھے کیوں پھررہے ہو؟"۔ وہ اسے غور سے دیکھا رہا تھا، جیسے گہرائی تک جاننے کی کوشش کررہا ہو۔
"ہم آفس ٹائم کے بعد بات کریں گے"۔ وہ اس کا سوال نظرانداز کرکے پھر سے فائلوں میں جھک گیا۔
"مگر میں ابھی جاننا چاہتا ہوں!"۔
وجدان نے ہارے ہوئے انداز میں اسے دیکھا اور گہری سانس لے کر رہ گیا۔
"تم کسی چیز سے بے خبر تو نہیں!"۔ وجدان نے تھکے تھکے لہجے میں کہتے ہوئے کہنیاں آفس ٹیبل پر ٹکائیں اور سر ہاتھوں میں گرالیا۔

زنجیر (مکمل) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora