قسط ۶

1.3K 89 7
                                        

فجر کی آذانیں اس کے کانوں میں داخل ہوئیں اور اس کی آنکھیں جھٹ سے کھلیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھی اور سر پر چادر لے لی۔
"حی علی الصلوہ" کی آواز پر وہ آنکھیں پوری کھولتے ہوئے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وضو کرکے نماز پڑھی اور دعائیں مانگیں۔ اس سب میں اسے ایک گھنٹہ لگا۔ دعائیں مانگنے بیٹھتی تو بھول جاتی کہ کتنا وقت گزرا ہے۔ اکثر اتنا وقت گزرتا کہ کمرہ صبح کی روشنی سے خود بھی روشن ہوجاتا۔ سوئیٹر اور شال سے خود کو لپیٹ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے گھڑی کی طرف نگاہ ڈالی اور خود چادر میں خود کو ڈھانپتی باہر نکل آئی۔ سخت سردی کے باعث باہر دھند چھائی ہوئی تھی۔ وہ زینے اتر کر نیچے آنے لگی۔ حویلی کے مرد سورہے تھے اور عورتیں جاگ گئی تھیں۔
"صالحہ تو جا کر تھوڑی دیر بعد چائے بنادینا ہم عورتوں کے لیے"۔
کچھ عورتیں کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ کچھ ادھر ادھر پھر رہی تھیں۔
"اماں کیا باورچی نہیں آئے کیا ابھی؟"۔
"نہیں کوارٹر میں ہی ہیں ابھی۔ ان کا وقت سات بجے ہے"۔
"اچھا"۔ وہ کچن کی طرف مڑنے لگی کہ سمیعہ تائی نے اسے روکا۔ اس نے پیچھے مڑ کر انہیں دیکھا جو ہاتھوں میں تسبیح لیے، اتری صورت اور نڈھال نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
"تجھے کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں صالحہ۔ جو قاتل کی بہن اندر کھڑی ہے اس سے ہی بنوالے چائے"۔ انہوں نے کچن کی جانب اشارہ کیا۔ وہ ماں تھیں ۔ انہوں نے اپنا بیٹا کھویا تھا۔ اس نے ایک نظر انہیں دیکھا اور کچن میں بڑھ گئی۔
وہ لڑکی کچن میں سخت سردی میں دھلے ہوئے برتن پھر دھورہی تھی۔ صالحہ کو عجیب سی حیرت ہوئی۔ وہ کوئی سوئیٹر بھی نہیں پہنی ہوئی تھی اور کپکپارہی تھی۔
"یہ برتن پہلے سے ہی دھلے ہوئے ہیں۔ تم اسے اور کیوں دھو رہی ہو؟"۔ ا صالحہ کی آواز پر وہ لڑکی جھٹکے سے سہم کر مڑی۔
"مم۔میری نہیں غلطی۔ وہ۔۔وہ مجھے کہا گیا کہ میں۔۔۔رات کے دھلے برتن فجر میں دھویا کروں"۔ اسے لگ رہا تھا کہ صالحہ بھی اب برا برتاؤ کرے گی۔

"چھوڑدو برتن کو"۔ وہ نرمی سے کہتے ہوئے اسے پیچھے کرنے لگی۔
"ممم۔میں کرلوں گی پکا!۔ بس دس منٹ دے دیں اور خدارا"۔ وہ رونے لگی۔ صالحہ بے اسے دیکھا اور گہری سانس ہوا میں چھوڑی۔
"تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے لڑکی۔ تم یہیں میرے برابر کھڑی ہوجاؤ"۔ یہ کہتے ہوئے صالحہ برتن دھونے لگی۔
"آپ کیا کررہی ہیں"۔ وہ ڈررے ڈرتے پوچھنے لگی۔
اس کی آواز نہایت باریک تھی اور آواز سے ہی ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی چھوٹی بچی بات کررہی ہے۔
"میں تمہارے حصے کے برتن دھورہی ہوں۔ باہر جاکر کہہ دینا کہ سارے برتن تم نے دھوئے ہیں۔ ٹھیک ہے؟"۔ اس کی طرف صالحہ نے مسکرا کر دیکھا تو وہ لڑکی اسے منہ کھولے حیرت سے دیکھنے لگی۔ نلکے سے ٹھنڈا پانی صالحہ کے ہاتھ پر پڑا تو صالحہ کو لگا اس کا خون جم جائے گا۔ اسے برابر میں کھڑی لڑکی پر ترس آیا کہ وہ لڑکی پتا نہیں کتنے دنوں سے یہ کام کررہی ہے۔

"کیا نام ہے تمہارا؟"۔ صالحہ نے نہایت نرمی سے پوچھا۔
وہ اس کے لہجے پر حیران رہ گئی۔
"رفاہ فاطمہ"۔ اس نے سردی سے کپکپاتے ہوئے بتایا۔
صالحہ نے اسے کپکپاتے دیکھا تو اپنی موٹی شال اتار کر اسے دے دی۔
"مجھے ضرورت نہیں ہے"۔ وہ جھجھکنے سے ذیادہ ڈری ہوئی تھی۔
"پہن لو رفاہ۔ میں جانتی ہوں تمہارے پاس کچھ نہیں"۔ باورچی خانے میں ذیادہ روشنی نہیں تھی جس کے باعث وہ اس کا چہرہ غور سے نہیں دیکھ پارہی تھی۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"آپ مجھے ماریں گی نہیں؟"۔ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا۔
"ہائے میں کیوں اتنی پیاری سی لڑکی کو ماروں گی؟"۔ اسے حیرانی ہوئی اور افسوس بھی!

زنجیر (مکمل) Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora