قسط ۳

1.4K 90 12
                                        

"کون قتل ہوا ہے ثریا؟"۔ اس نے دھڑکتے دل اور کپکپاتے لبوں سے ساکت ہو کر پوچھا۔
"کوئی نہیں بتا رہا ہے ہمیں صالحہ۔ ابھی مرد نہیں آئے حویلی۔ ابھی صرف مشیروں سے خبر پہنچی ہے"۔ وہ ہاتھوں میں سر دیتے ہوئے بولی۔
صالحہ نے تھوک نگلا۔ کہیں حیدر ویر تو۔۔۔۔۔؟ سب سے پہلے زمینوں پر کون گیا تھا؟۔ اس کا دل سکڑنے لگا۔ وہ ماں کے پاس بھاگی۔
کچن سے اماں کی آتی آوازیں سن کر وہ کچن کی طرف بڑھی۔
وہ باورچیوں سے کھانا پکوارہی تھیں۔ باورچیوں کے ہاتھ پتیلیوں میں چمچہ گھماتے ہوئے تیزی سے چل رہے تھے۔ وہ حیران ہوئی کہ ابھی مرنے کی خبر آئی ہے اور اماں اتنا اطمینان سے کھانا پکوارہی ہیں۔
"اماں وہ۔۔۔" باقی الفاظ منہ میں رہ گئے۔ کہے تو کیا کہے کہ اماں مرا کون ہے یا میت کب گھر آئے گی؟ یا یہ کہے کہ ونی کا استقبال کیسے ہوگا؟۔
"ہاں دھی جلدی بول وقت کم ہے"۔ وہ ہاتھ میں پہنے سونے کی کڑے اتارنے لگیں۔
"کڑے کیوں اتار رہی ہو اماں؟"۔ وہ عجیب سی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی۔ اماں نے اس کی باتوں پر دھیان نہ دیا اور دھیرے دھیرے چل کر باہر آگئیں۔ ان کڑوں کو اتار کر ایک چھوٹے کپڑے میں رکھا اور جھمکے سمیت تمام زیور اتارنے لگیں۔ صالحہ انہیں دیکھتی رہی۔ اس کپڑے میں تمام زیور ڈال کر اسے پوٹلا بنا کر گڑھا لگائی اور اسے پکڑادیا۔

"جا میری دھی اسے میرے کمرے میں رکھ آ"۔ انہوں نے چھوٹی سی پوٹلی اس کی ہتھیلی میں دبا کر اس کی ہتھیلی بند کی۔
"اماں مگر ایک دم سب ساتھ میں کیوں اتار دیا؟۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا اماں"۔
وہ اپنی ماں کا چہرہ بہت غور دے دیکھ رہی تھی جہاں کوئی غم کے آثار نہ تھے۔
"کیا تجھے علم نہیں کہ حویلی میں کسی مرد کا قتل ہوگیا ہے؟"۔ وہ الٹا اسے حیرانی سے دیکھنے لگیں۔
"اماں مجھے علم ہے، مگر آپ یوں اچانک سے سارا زیور اتار کر دے رہی ہیں؟"۔
اماں نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
"سوگ ہے صالحہ۔ موت پر اس حویلی کی عورتیں اپنا تمام زیور اتار دیتی ہیں اور صرف غم منایا کرتی ہیں"۔
صالحہ کا دماغ چکرانے کے قریب تھا۔ اس نے سر جھٹکا۔
"اماں قتل کس کا ہوا ہے؟"۔
"مرد آئیں گے تو ہی پتا چلے گا یا کسی ملازم کو بجھوانا پڑے گا"۔ ان کا لہجہ بے حد عام تھا۔

"اماں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ حیدر ویراں کہاں ہے؟ کہیں انہیں ت۔۔۔" وہ گبھراتے ہوئے ابھی اپنا خدشہ ظاہر کر ہی رہی تھی کہ اماں نے ڈپٹ کر خاموش کروایا۔
"اے ہے رب اسے لمبی زندگی دے۔ وہ یہاں نہیں ہے!۔ شہر جاچکا ہے۔ اسی لیے میں اتنی مطمئن بیٹھی ہوں"۔ وہ کہتے ہوئے کچن میں چلی گئیں۔
صالحہ کو اطمینان ہوا، مگر دکھ بہت ہوا اپنی ماں کی سوچ پر کہ اگر اپنا بیٹا ہوتا تو ایک واویلا مچا دیتیں۔ خیر یہ اس حویلی کی ہر عورت کا معاملہ تھا۔ وہ کپڑے کا پوٹلہ اماں کے کمرے میں رکھ آئی۔ لگتا تھا میت کے ساتھ ونی بھی آنے والی تھی۔ دو مردے اس گھر میں آنے والے تھے۔ اسے دو باتیں جاننے کا بہت تجسس پیدا ہوا۔ ایک یہ کہ موت کس کی ہوئی ہے؟ اور دوسرا یہ کہ ونی کو کس کے نکاح میں دیا گیا ہے۔ گھر میں سوگ کی کیفیت تھی۔ جن عورتوں کے بیٹے زمینوں پر تھے ان ماؤں کا دل حلق میں آچکا تھا!۔ وہ سہمی ہوئی تھیں کہ کہیں ان کا بیٹا تو نہیں مارا گیا؟۔ ثریا بولائے بولائے حویلی میں پھررہی تھی۔
صالحہ ارحم کے کمرے کے سامنے سے گزری تو اسے یاد آیا کہ وہ بھی تو صبح سے زمینوں پر تھا۔ یہ خیال آنا تھا کہ وہ سہمتے ہوئے نیچے بھاگی۔ اس کی سانسیں بری طرح پھولنے لگیں۔ نیچے اتری تو ایک ملازم کھڑا تھا جو شاید باہر سے ہی آیا تھا۔ سامنے سے ثریا بھی اسے دیکھ کر اپنی جگہ پر ہی رک گئی تھی۔
"ارحم صاحب ٹھیک ہیں رشید بابا؟"۔ اس نے پھولی سانسوں سے جلدی سے پوچھا۔ پیچھے کھڑی ثریا کا بھی دل زور سے دھڑکنے لگا۔ اسے بھی یہی خدشہ لاحق تھا کہ کہیں اس کا بھائی تو قربان نہیں ہوا۔

زنجیر (مکمل) Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora