"چائے بنا میرے لیے"۔ سمیعہ تائی نے بےوقت چاہے کا حکم دیا۔ وہ جو تھک کر کچن کی دیوار سے پشت لگائے زمین پر سوئی بیٹھی تھی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پوری رات کی جاگی ہوئی تھی اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔ ٹھنڈ سے اس کی رنگت سفید ہورہی تھی۔ وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔ فجر کی آذان شروع ہوئی تو اس نے اپنا پھٹا ہوا ڈوپٹہ سر پر رکھ لیا۔ ٹھنڈی پانی میں ہاتھ ڈالنے کا سوچ کر ہی اس کا دل کانپ اٹھا مگر چائے بنانے کے لیے تو یہ سب کرنا ہی تھا۔ ماحول میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے پتیلی میں پانی ڈال کر چولہے پر چڑھایا اور پتی نکالنے لگی۔ پتی کے لیے کیبنٹ کھولا تو وہ کیبینٹ کے اوپر والے حصے میں رکھی تھی۔ اس نے نکالنے کی کوشش کرنی چاہی، مگر اس کا ہاتھ نہ پہنچا۔ پیچھے سے کوئی اندر داخل ہوا تھا مگر اب رک کر اسے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑا سا اچھل کر ہاتھ بڑھانا چاہا مگر بےسود۔ وہ ابھی پریشانی میں کھڑی پتی لینے کا کوئی اور طریقہ سوچ ہی رہی تھی کہ کسی نے ہاتھ بڑھا کر وہ پتی سلیب پر رکھی۔ رفاہ سہم کر جھٹکے سے مڑی تو اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ وہ اسے ماتھے پر بل ڈال کر دیکھتا مڑا۔ سلیب سے پانی کا گلاس اٹھایا اور پانی پینے لگا۔ رفاہ کا خون خشک ہوگیا تھا۔ اس نے اسے کھانے کی میز پر دیکھا تھا مگر اس کا نام نہیں جانتی تھی۔ حویلی کے آدھے سے ذیادہ مرد اور عورتوں کے نام بھی اسے پتا نہیں تھے۔
"شرجیل تو آج زمین پر جائے گا؟"۔ سمیعہ تائی کی آواز پر وہ پانی پیتے پیتے رکا۔ رفاہ کا چہرہ سفید لٹھے کی مانند ہوا۔ تو کیا یہ شرجیل تھا؟۔
"جی تائی"۔ کہہ کر پانی منہ انڈیلا اور ایک نظر اسے دیکھتا باہر نکل گیا۔
رفاہ کا رخ چولہے کی طرف تھا۔ اس کا دل کانپ اٹھا تھا یہ جان کر کہ وہ "اس" شخص کے نکاح میں ہے۔ چہرے سے وہ بہت غصے والا اور سخت لگتا تھا۔ لمبا چوڑا وہ شخص چہرے کے تاثرات سے ہی جابر لگ رہا تھا۔ چہرے پر ہلکی مونچھے تھیں بلاشبہ اسے پہلی نظر میں وہ بے حد ہینڈسم لگا مگر اسے شرجیل کی خوبصورتی کا کیا کرنا تھا؟ وہ تو ونی تھی۔ وہ چہرہ اسے یاد آیا تو اس کا دل زور سے دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے پتی ڈال کر تھوڑی دیر بعد دودھ بھی ڈال دیا۔
"چائے بنی؟"۔ تائی کی زوردار آواز پر وہ جلدی جلدی کپ میں چائے نکالنے گی۔
"آگگ۔گئی ہے چائے"۔ ٹرے میں چائے سجاتی وہ لاؤنج میں آگئی۔ سمیعہ تائی کے برابر میں شرجیل بیٹھا ہوا تھا۔ اس کو دیکھ کر ایک دم اس کا ہاتھ کانپا اور چائے کی ٹرے زمین پر گرگئی۔ چائے کا کپ اس کے پاؤں پر گر کر ٹوٹا۔ گرم کھولتی ہوئی چائے اس کے پاؤں پر لگی اور وہ اس کی تکلیف سے چیخنے لگی اور ہاتھ سے منہ کو دبالیا۔ شرجیل آنکھیں پھاڑے اس کی حالت دیکھ رہا تھا۔ وہ ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ سمیعہ تائی اٹھیں اور اسے بالوں سے پکڑ کر دو چانٹے لگائے۔ وہ پہلے ہی تکلیف سے دہری ہورہی تھی اب تڑپ ہی اٹھی۔ پاؤں میں کانچ چھبنے کے باعث خوب بہہ رہا تھا اور سمیعہ تائی سب چیزوں سے بےخبر اسے ماررہی تھیں۔ شرجیل کی پلکیں کانپیں۔
"سلیقہ ہے تجھے؟۔ ایک چائے کا کپ مانگا تھا وہ بھی توڑ دیا۔ تیرا باپ ہمارے در پر تجھ کو چھوڑ کر گیا یے۔۔۔ تیرا کوئی نہیں ہے یہاں! جان سے ماردیں گے اود خبر تک نہ ہونے دیں گے ہم"۔ وہ ہر جملہ پر اسے ایک نہ ایک تپھڑ ضرور ماررہی تھیں ۔ اس کے بال تائی کے ہاتھ میں تھے اور وہ اسے کھنیچ رہی تھیں۔ شرجیل ہاتھ میں پانی کا گلاس تھامے اسے یوں ہی بغیر پلک جھپکے دیکھ رہا تھا۔ وہ یونہی دیکھتا رہا جب تم اسے لگا وہ دیکھ سکتا ہے۔ مگر پھر وہ منہ پھیر کر اٹھ کھڑا ہوا۔ جب تک تائی کا دل نہیں بھرا وہ ان کے قابو میں رہی تھی۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ارحم کے قاتل کی بہن تھی۔ وہ جاچکا تھا اور سمیعہ بھی مار مار کر تھک چکی تھیں۔ ان کی آنکھیں اب گیلی ہوکر لال ہورہی تھی۔ وہ وہیں زمین پر پڑی رہی کہ اب سکت بھی نہ تھی اٹھنے کی۔ کوئی پانچ منٹ بعد کسی کے قدموں کی چاپ محساس ہوئی۔ رفاہ آنکھیں ایک طرف جمائے سن پڑی تھی۔ کوئی اس پر تیزی سے جھکا تھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے کھینچتے ہوئے کوارٹر کی طرف لے جانے لگا۔ اس نے جاننے کی کوشش کرنی چاہی مگر بےسود۔۔ اس کے جسم کا ہر حصہ تکلیف کررہا تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا دونوں ہاتھوں سے اسے کھینچتا چلا جارہا تھا۔ اس کے اپنے ہی رشتوں نے اسے تکلیف دی تھی۔ وہ تکلیف مار کھانے کی تکلیف سے بہت ذیادہ تھی۔ یہاں رواج نہ تھا "ظلم کے خلاف" آواز اٹھانے کا۔۔۔
۔۔۔**۔۔۔
"چلو اٹھو صالحہ! جلدی سے اٹھ جاؤ۔ تمہیں شہر کی سیر کراتا ہوں"۔ وہ اس کا دروازہ مستقل بجا رہا تھا کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ صالحہ سورہی ہے۔ جائے نماز پر بیٹھی صالحہ اٹھ کر دروازہ کھولنے بڑھی۔ دروازہ کھولا تو حیدر نکھرا نکھرا تیار کھڑا تھا۔
"تم اٹھی ہوئی ہو؟"۔ وہ حیران ہوا مگر جلد ہی مسکرادیا۔
"ہاں میں نماز پڑھ رہی تھی"۔ اس نے دروازہ پورا کھول کر زمین پر بچھی جائے نماز دکھائی۔ اسے دیکھ کر وہ سرہلاتا ہوا اندر آگیا۔
"اچھا ہے۔۔۔ تو چلو جاؤ کچھ گرم پہنو اور باہر آجاؤ۔۔۔ میں نیچے جارہا ہوں"۔ حیدر مسکراتا ہوا باہر نکلنے لگا۔
"مگر آپ کو یونیورسٹی نہیں جانا تھا ویر؟"۔ اسے اچانک یاد آیا۔
"نہیں میں کل چلا جاؤں گا۔۔۔ سوچ رہا ہوں آج تمہیں پورا شہر گھماؤں"۔ وہ چابی گھماتا ہوا بولا۔

KAMU SEDANG MEMBACA
زنجیر (مکمل)
Acakیہ کہانی ہے حویلی کے رسم و رواج کی اور ان رسموں کی زد میں آئی لڑکیوں کی۔ قید و بند کی۔ ظلم و ستم کی۔ رسم و رواج کی پابندیوں سے ہونے والے نقصانات زندگیاں برباد کرنے کا تجربہ رکھتے ہے۔ جو حق اسلام نے عورت کو دیئے ہیں وہ حق اس سے چھیننا قطعی بہادری نہی...