قسط ۹

1.2K 97 11
                                    

وہ کل پورا دن گھومتے پھرتے رہے تھے اس لیے گھر پہنچ جلدی تھک کر سوگئے تھے۔ صبح ایک بار پھر حیدر نے اسے اٹھادیا۔ تقریباً کوئی آٹھ بجے تھے جب وہ اس کو تیار ہونے کا اور سامان نیچے لانے کا کہہ کر نیچے چلا گیا تھا۔ وہ ہاتھ منہ دھوتی نماز پڑھ کر اپنا سامان تھامے نیچے آگئی۔ گزرا ہوا دن اس کے لیے زندگی کا یادگار دن بن چکا تھا۔ وہ سڑکوں پر ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بھاگے تھے!۔ وہ بھائی تھا اس کا! محافظ۔۔۔ وہ یہ سوچتی ہوئی گاڑی میں آبیٹھی۔
"ہم کہاں جائیں گے پہلے؟"۔ وہ اشتیاق بھرا لہجہ پھر سے لوٹ آیا۔
"مجھے یونیورسٹی میں صرف اسائمنٹ جمع کروانے جانا ہے۔ تم گاڑی میں بیٹھے رہنا جب تک میں پانچ منٹ میں اپنا اسائمنٹ جمع کروا آؤں گا"۔ وہ گاڑی تیز رفتار میں چلا رہا تھا۔
ایک اسکول سامنے سے گزرنے لگے تو حیدر نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی۔
"یہ دیکھو! یہ اسکول ہے"۔ اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا تو صالحہ نے جلدی سے باہر کا نظارا کیا۔ وہ لال بڑی سی عمارت تھی جہاں بچے یونیفارم پہنے داخل ہورہے تھے۔ اس کے دل نے بےاختیار خواہش کی کہ وہ یہاں پڑھانا چاہتی ہے۔ علم بانٹنا چاہتی ہے۔ اس کے دماغ میں لال عمارت رہ گئی اور سوچتی رہی کہ جب وہ شہر آئے گی تو یہاں کی استانی بنے گی۔ اسے وہ سب بےحد اچھا لگا۔
وہ عمارت اب بہت پیچھے رہ چکی تھی، مگر دل سے اور قریب۔۔۔ تقریباً دس منٹ کے بعد اس نے گاڑی یونیورسٹی کے آگے کھڑی کی۔
"یہ ہے میری یونیورسٹی"۔ وہ اپنی فائلز اٹھاتا گاڑی سے اتر گیا۔ صالحہ نے دونوں ہاتھ گاڑی کی کھڑکی پر رکھے اور باہر جھانکنے لگی۔ ایک اور خواہش نے دل میں جنم لیا۔ وہ اپنے ویر کی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتی تھی۔۔۔
اس کا رزلٹ کبھی بھی آسکتا تھا اور وہ خواب بن رہی تھی!۔ اس نے تب تک وہ عمارت دیکھی جب تک دل نہ بھر گیا۔ حیدر آیا اور گاڑی گاؤں کی طرف موڑ لی۔۔۔
حیدر گاڑی کو تیز رفتار سے چلا رہا تھا۔ آج جمعہ تھا اور اسے ہر حال میں آج ہی داجی سے بات کرنی تھی۔ وہ اب دیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
وہ شہر واپس آنا چاہتی تھی، مگر اسے معلوم تھا کہ یہ سال میں ایک بار ہی ہوا کرتا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی قسمت اسے واپس یہاں ہمیشہ کے لیے لانے والی ہے!
۔۔۔**۔۔۔
وہ حویلی میں داخل ہوتے ہی اوپر منزل کی طرف بھاگی۔ لاؤنج میں داخل ہوئی تو وہاں سب کو سلام کرتے ہوئے زینے چڑھنے لگی۔
"ارے بات تو سنو صالحہ! ہم سے بھی بات کرلو"۔ اسے عورتوں نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ "آتی ہوں" کا کہہ کر بھاگ گئی۔ حیدر پیچھے سے داخل ہوا تو اماں نے اس کا ماتھا چوما۔
"کیسا رہا سفر؟"۔ وہ عورتیں اب اشتیاق سے حیدر سے پوچھ رہی تھیں۔
"اتنا اچھا کہ صالحہ کل کا دن کبھی نہیں بھول پائی گی"۔ وہ زیر لب مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ اسے اپنے آپ کو داجی سے بات کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔ وہ داجی کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا داجی بستر پر بیٹھے ہوئے تھے۔
"السلام علیکم داجی! ہم آگئے"۔ وہ سلام کرتا ہوا وہیں کھڑا رہا۔
"وعلیکم سلام۔ چلو اچھا ہوگیا۔ صالحہ کہاں ہے؟۔ کیا وہ ٹھیک ہے اب؟"۔ انہوں نے ٹہھر کر پوچھا۔
"مجھے لگتا ہے وہ اسے بھول گئی ہے۔ بہت خوش تھی وہ کل۔۔۔ کیا ہم بات کرسکتے ہیں؟ مجھے آپ سے کوئی فرمائش کرنی تھی داجی"۔ وہ اٹک اٹک کر بولا۔ داجی نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔
"کہو!"۔
"ابھی نہیں۔ وہ بات آرام سے کرنے کی ہے داجی۔ آپ مجھے وقت بتائیں تاکہ ہم اس وقت بات کرسکیں"۔ وہ جھک کر بہت ادب سے گفتگو کررہا تھا۔
"ایسی کون سی بات ہے؟ ٹھیک یے پھر شام کی چائے پر آنا ہمارے پاس"۔ وہ خونخوار نظریں اس پر جمائے بولے۔
"جی داجی بلکل"۔ وہ کمرے سے باہر نکلتا سکھ کا سانس لیتا اپنے کمرے میں چلاگیا۔ ابھی اسے اور بہت کچھ سوچنا تھا۔ اسے لفظوں کو ترتیب دینا تھا۔ اسے شام کے لیے خود کو تیار کرنا تھا۔
۔۔۔**۔۔۔
"ویر نے میری پیشانی چومی۔ میں بےیقین ہوگئی تھی سچ میں۔ مجھے یقین ہی نہ آیا کہ میرا ویر میری امیدوں سے بھی زیادہ اچھا ہے۔ اس نے مجھے کیا کیا نہیں دکھایا پھپھو!۔ اپنی یونیورسٹی اور شہر کا ایک اسکول بھی دکھایا۔ آپ کو پتا ہے افشاں پھپھو! جب میں نے ویر کی یونیورسٹی دیکھی تو میرا دل مچل اٹھا۔ یہ وہی یونیورسٹی ہے جہاں حویلی کے مرد بھی پڑھتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی جاؤں! میں بھی پڑھوں اور۔۔۔ ساتھ ساتھ اسکول میں بھی پڑھاؤں"۔ وہ گفتگو کے آغاز میں خوش تھی مگر اختتام اس نے دکھ سے کیا۔ افشاں کا چہرہ اس کے ساتھ مرجھایا۔ صالحہ نے جب افشاں کو اداس دیکھا تو بات بدلنے لگی۔
"خیر یہ بتائیں آج آپ کے لیے کونسا جوڑا نکالوں؟"۔ اس کی اس بات پر افشاں حیران ہوئی۔
"پھپھو آج تو جمعہ یے! آج تو آپ اچھے کپڑے پہنیں گی نا؟"۔ اس نے ان کی پریشانی ختم کی اور بےرنگ کپڑوں میں سے کوئی رنگ تلاش کرنے لگی۔
ابھی وہ دیکھ ہی رہی تھی کہ گھنٹی کی آواز پر مڑی۔ پیچھے دیکھا تو وہ ایک جوڑے کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ صالحہ نے ان کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا۔ وہ ایک سفید رنگ کے کپڑے کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔
"اتنا بےرنگ کپڑے کیوں پہنتی ہیں پھپھو۔۔۔ چلیں آپ جیسا چاہیں گی ویسا ہی ہوگا۔ میں یہ کپڑے استری کردیتی ہوں"۔ وہ سادہ سا سفید جوڑا اٹھائے باہر نکل گئی۔ افشاں نے اٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔
اب وہ بےزبان اس کو کیا بتائے کہ بےرنگ دنیا میں بےرنگ کپڑے ہی پہنے جاتے ہیں۔
۔۔۔**۔۔۔
شام کے پانچ بجے تھے۔ حیدر وقت دیکھتا لاؤنج میں آگیا۔ داجی وہیں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ وہ تمام مرد جو زمین سے لوٹے تھے وہاں محفل لگائے بیٹھے تھے۔
"او تو آگیا حیدر؟۔ بتا کیا فرمائش ہے تیری"۔ وہ مسکرا رہے تھے۔ اس وقت ان کا موڈ اچھا تھا۔
"کیا ہم تنہائی میں بات نہیں کرسکتے داجی؟"۔ وہ باقی مردوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔
"ایسی کونسی فرمائش ہے جو سب کے سامنے نہیں بتاسکتے؟"۔ انہوں نے بھنویں اچکائیں۔ حیدر نے یہ سوچ کر گہری سانس لی کہ کہیں داجی کا موڈ نہ تبدیل ہوجائے۔
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں داجی"۔ وہ بالآخر کہتا ہوا نظریں جھکا گیا۔ داجی کو تعجب نہیں ہوا۔
"ہاں تو کردیتے ہیں تیری شادی ثریا سے۔ کونسی بڑی بات ہے؟ ویسے بھی ارحم کی موت نے حویلی والوں کے دل افسردہ کردیے ہیں۔ اچھا ہے تیری شادی ہوگی تو رونقیں واپس آئیں گی"۔
حیدر نے لب بھینچے۔
"مگر داجی۔۔۔۔" وہ رک گیا۔۔ ایک خوف نے اندر جنم لیا۔
"کیا؟"۔
"میں ثریا سے شادی نہیں کرنا چاہتا"۔ اس نے آنکھیں میچ کر جلدی سے یہ بات کہہ دی۔
سب خاموش ہوگئے۔ شبیر صاحب کے ہونٹ سل گئے۔ وہ ان کے بیٹی کا منگیتر تھا۔
"کیوں؟"۔ داجی نے بنھویں اچکائیں۔
"کوئی وجہ تو نہیں ہوتی نا داجی۔ مجھے کسی اور سے کرنی ہے شادی"۔ وہ اس وقت جس حالت میں تھا اگر اس کا بدن بھی کاٹا جاتا تو شاید لہو بھی نہ نکلتا۔
"اس میں بھی کوئی مسلہ نہیں۔ تم حویلی کی کسی اور لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے نام بتاؤ ابھی تاکہ ہم دیکھیں اور وٹہ سٹہ کردیں۔ ویسے بھی ارحم مر چکا ہے اور صالحہ اس کی منگیتر تھی۔۔۔"۔ انہوں نے بات ابھی مکمل نہیں کی تھی کہ حیدر نے بات کاٹی۔
"میں حویلی کی کسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ مجھے شہر میں کوئی پسند ہے"۔ وہ آخر کہہ گیا تھا اپنی دل کی بات۔۔۔
کچھ دیر کی خاموشی چھاگئی۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"۔ داجی غرائے۔
"بات سیدھی ہے داجی۔ میں اس کو پسند کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں"۔ داجی نے غصے میں میز پر زور سے ہاتھ مارا مگر حیدر نے اپنی بات نہ روکی۔
"وہ میری یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ اور۔۔۔۔ اور سب آپ کی خواہش کے مطابق ہوگا داجی۔ اس کا ایک بھائی بھی ہے جو صالحہ سے شادی کرنے کے لیے راضی ہے۔ دیکھیں اب ارحم نہیں رہا تو صالحہ کی شادی کیسے ہوگی؟۔ اور وٹہ سٹہ کے مطابق اس کی شادی اس کے بھائی سے ہوجائے گی داجی"۔ حیدر جذباتی ہوتے ہوئے سب کہہ گیا۔
"اس کا بھائی راضی ہے؟"۔
"جی د۔داجی"۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔
"تم جانتے تھے تمہاری منگنی ثریا سے ہوچکی تھی"۔ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ دوارے کمرے میں بیٹھی عورتیں حیران ہوگئیں۔ صالحہ افشاں کے کمرے میں تھی اس لیے جان نہ پائی۔
"آپ صحیح کہہ رہے ہیں مگر داجی مجھے اس سے شادی نہیں کرنی تھی۔ آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہوگا مگر میری شادی اسی سے کروادیں جو میری خواہش ہے"۔ وہ گڑگڑایا۔
"تم جانتے ہو وٹہ سٹہ ہوگا"۔ داجی نے خونخوار نظروں سے دیکھا۔
"ہاں ویسا ہی ہوگا۔۔۔ وٹہ سٹہ ہی ہوگا داجی۔۔۔ میں اس کے بھائی سے آپ کو ملوانا چاہتا ہوں"۔ جب حیدر کو لگا معاملہ ٹھنڈا ہورہا یے تو وہ جلدی سے بول پڑا۔
"ٹھیک ہے اتنا بڑا مسلہ نہیں یہ پھر۔۔۔ ہم اس سے کل ملنا چاہیں گے۔ اس لڑکے کو کل بلوالو۔۔۔ بات چیت کرکے تاریخ پکی کردیں گے"۔ داجی کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ وہ اب مصلحت سے کام لیتے ہوئے اسے اپنا فیصلہ سنانے لگے۔
"کل اتنی جلدی؟"۔ حیدر کو حیرانی ہوئی۔
"ہاں کل!"۔ وہ اپنی بات پر جمے رہے۔
حیدر گہری سانس لیتا زینے چڑھتا چکا گیا۔ اس کے لیے اتنا ہی بہت تھا کہ داجی مان گئے۔ داجی کے ساتھ بیٹھے شبیر بٹ میں تو اتنا حوصلہ بھی نہیں تھا کہ اپنی بیٹی کے لیے آواز اٹھاتے۔۔۔ وہ داجی سے یہ بھی نہیں کہہ پائے کہ ان کے سامنے انہی کے مرے ہوئے بیٹے کا نام مت لیں۔ انہیں تکلیف ہوتی ہے۔۔۔
۔۔۔**۔۔۔
"یہ داجی کیوں چیخ رہے تھے ثریا؟ پھپھو کے کمرے تک آواز آرہی تھی اس لیے میں جلدی سے نیچے آگئی"۔ وہ پھولی سانسوں اور اڑے ہوئے حواسوں کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔ ثریا نے نظر بھر کر اسے دیکھا اور کندھے اچکا لیے۔
"حیدر اور داجی کے درمیان شاید کوئی بحث ہوئی ہے۔ اسی لیے داجی چیخے تھے۔ اب اس بات کا علم مجھے بھی نہیں کہ بات کیا ہوئی تھی ان کے درمیاں"۔
صالحہ بستر بیٹھ گئی۔
"داجی حیدر ویراں کی اکثر باتیں نہیں مانتے۔ انہیں چاہیئے کہ ان کی خواہش پوری کریں"۔ وہ اداس آنکھیں زمین پر جمائے بیٹھی تھی۔
"ہم نہیں جانتے کہ اس بار حیدر نے کیا بات کی ہے۔ اس لیے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے صالحہ"۔ اس نے نماز کی طرح ڈوپٹہ باندھا۔
"مجھے یقین ہے کہ کوئی غلط چیز کی خواہش نہیں کی ہوگی ثریا"۔
ثریا نے کوئی جواب نہ دیا اور نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔ وہ تھوڑی دیر اسے یوں ہی یک ٹک دیکھتی رہی پھر کچھ سوچ کر باہر آگئی۔ آج کل ویسے ہی ثریا خاموش رہا کرتی تھی۔ بھائی کی موت نے اسے خاموش کردیا تھا۔ وہ زیادہ تر وقت عبادت کرتے ہوئے گزارتی یا پھر صالحہ سے گفتگو کرتے ہوئے۔ شمیلہ چچی کی آواز آئی تو صالحہ ان کے کمرے میں آگئی۔
وہ جائے نماز پر دعا مانگ کر بیٹھی تھیں۔
"کیسی ہو صالحہ؟ مجھ سے ملی بھی نہیں؟"۔ انہوں محبت بھرا شکوہ کیا تو وہ کان پکڑتی بچوں کی طرح ان کے قریب آبیٹھی۔
"مجھے افشاں پھپھو کے پاس بیٹھ کر وقت کا اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ آج تو نماز بھی وہیں پڑھی میں نے "۔ وہ مسکرا کر کہتی ان کے ہاتھوں کی چوڑیوں کو آگے پیچھے کرنے لگی۔
"مبارک ہو تمہیں صالحہ! الله نے کامیابی دی ہے تمہیں"۔ وہ محبت سے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر بولیں۔
"کیوں کیا داجی مجھے آگے پڑھنے پر مان گئے؟"۔ وہ تلخی سے مسکرائی۔
"دعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی تمھاری! ان شاءاللہ۔۔ مگر ابھی میرے منہ سے خوشخبری تو سن لو۔۔۔ تم پاس ہوگئی ہو صالحہ! مبارک ہو"۔ یہ سننا تھا کہ صالحہ ساکت ہوگئی۔ آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور وہ ان کے گلے لگ گئی۔
"کیا سچ میں چچی؟"۔
"اللہ نے تمھاری محنت کا صلہ دیا ہے صالحہ۔ جاؤ شکرانہ پڑھو اور سب کو خبر سناؤ"۔ وہ اس کی پیشانی چوم کر بولیں۔
"کس کو سناؤں یہ خوشخبری؟ اماں کو؟ جنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابا کو؟ جن سے بات ہی ایک ہفتے پہلے ہوئی تھی۔ یا داجی کو؟ جو یہ سن کر الٹا مجھ پر ہی بھڑک جائیں گے"۔ اس نے کچھ سوچ کر سر جھٹکا۔
"صرف ان کو جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ تمھاری خوشی میں خوش ہوں گے۔ افشاں کو سناؤ، ثریا کو، رفاہ کو۔۔۔"وہ کہتی جائے نماز سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ صالحہ نے انہیں انہماک سے دیکھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ وہ وہاں سے بھاگتی ہوئی افشاں کے پاس آئی اور اسے خوشخبری سنائی۔ اس نے اپنے پسندیدہ لوگوں کی آنکھوں میں اس کے لیے خوشی دیکھی۔ اس نے ثریا کو بتایا اور پھر وہ رفاہ کو ڈھونڈتے کچن تک چلی آئی۔ وہ شام کے برتن دھورہی تھی۔
اس کے پاؤں پر بینڈج بندھی تھی اور پیشانی پر پٹی۔ صالحہ نے اسے دیکھا تو ششدر رہ گئی۔
"یہ کیا ہوا ہے تمہیں"۔ وہ اس کے قریب آئی اور دونوں ہاتھوں سے اسے اپنی جانب موڑا۔
"میں کچھ پوچھ رہی ہوں رفاہ!"۔ جواب نہ آنے پر صالحہ نے سختی سے پوچھا۔
"کک۔کچھ نہیں وہ بس۔۔" وہ ہکلائی۔
""وہ کیا رفاہ؟ تم کیسے اتنی زخمی ہوئی؟"۔
"سس۔سمیعہ تائی نے۔۔۔" ۔ رفاہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
"تمہارا شوہر کہاں تھا؟"۔ صالحہ کی تیوریاں چڑھیں۔
"وہ وہیں بیٹھے تھے"۔ اس نے سر جھکا کر جواب دیا۔
"مجھے پورا واقعہ بتاؤ"۔ اس نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
رفاہ کے ہونٹ پل بھر کو کانپے اور اس نے روتے ہوئے پورا واقعہ گوش گزار کردیا۔
خون آلود آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے صالحہ نے پورا واقعہ سنا تھا۔
"اور تم چپ رہی؟"۔
"آپ کیا چاہتی ہیں صالحہ باجی کہ میں کچھ بولوں؟؟ نن۔نہیں مم۔میں کچھ نہیں بول سکتی۔۔ وو۔وہ مجھے مار دیں گے"۔ وہ اور ذیادہ رونے لگی۔

زنجیر (مکمل) Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang