قسط ۱۴

1.7K 119 30
                                    

وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ یوں ہی گزرنے لگا۔ ایک دن گزرا، دو دن اور پھر پلک جھپکتے ایک ہفتہ گزر گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یونیورسٹی میں داخلہ اس کی زندگی کی بڑی خواہش ہوگی۔ کوئی ذرا سی خواہش کی تکمیل ہونے پر اس قدر خوش رہ سکتا ہے۔ جب تک اس کا داخلہ وجیہہ کی یونیورسٹی میں نہ ہوا اس کے لبوں سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام ہی نہ لی اور جب اسے خبر ملی کہ اس کی یونیورسٹی کا پہلا دن بہت جلد آنے والا ہے وہ خوشی سے چیخ ہی پڑی۔ وجدان نے یہ کام انجام دے کر اسے اسکول میں جاب لگوادی تھی۔ وہ اس وقت لائیبریری میں کتاب پڑھنے بیٹھا تھا مگر کتاب ہاتھ میں پکڑے گزرے وقت کو سوچ رہا تھا۔ اسے یاد آیا جب وہ اسکول میں انٹرویو دے کر آئی تھی تو کتنی نروس تھی۔ اس کی نازک مخروطی انگلیاں کانپ رہی تھی اور پھر وہ کتنی ہی دیر میں سجدے میں رہی تھی۔ دعائیں مانگتے مانگتے زبان تھکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس سے اگلے ہی دن اسے اسکول سے کال آگئی تھی۔ رکتی سانسوں اور کانپتے ہاتھوں سے فون کان سے لگایا۔ اتفاق سے وجدان اس وقت گھر پر ہی تھا۔ جب صالحہ کی رنگت فق ہوتے دیکھا تو اسے لگا وہ بےہوش ہوجائے گی۔۔۔ شاید اسکول کی مینجمنٹ اس سے مطمئن نہیں ہوئی اور یہ سن کر ہوسکتا ہے صالحہ برداشت نہ کرپائے۔ وہ لڑکھڑا کر گر نہ پڑے وہ یہ سوچ کر بھاگتا ہوا اس کی جانب آیا مگر وہ یکدم ہی خوشی سے چلا اٹھی۔ پل دو پل کے لیے اسے محسوس ہوا کہ صدمے سے پاگل ہوگئی ہے مگر ایسا نہ تھا۔ وہ خوشی سے چیخ رہی تھی اور چلتے پھرتے دنیا کو بتارہی تھی کہ اس لال عمارت والے اسکول نے اسے قبول کرلیا ہے۔ اب اسے استانی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ گزرتے وقت میں وجدان کو اس سے انسیت ہونے لگی۔ اس نے دفتر پھر سے جوائن کرلیا تھا۔ شام ہوتے ہی لوٹ آتا اور سب سے پہلے اسے ڈھونڈتا۔ ہمیشہ کی طرح وہ جھجکتی اور نروس ہوتی اور وہ اس کی آنکھوں کو اپنے دل میں اتارتا واپس چلا جاتا۔ یہ انداز عادت میں تبدیل ہورہا تھا۔ وہ جب بھی کہیں باہر سے آتا اس کی آنکھوں کو دل میں ضرور اتارتا اور پھر پلٹ جاتا۔ گویا یہ جینے کہ وجہ بن رہی ہوں۔ کام کے سوا ان دونوں کی اور کوئی نہ بات ہوتی۔ صالحہ نے آہستہ آہستہ کچن سنبھال لیا تھا مگر وجدان کی کوشش ہوتی کہ اس کی موجودگی میں صالحہ کو زیادہ تر کچن میں نہ جانا پڑے۔ اس عرصے میں وہ درشہوار کو گویا بھول ہی گیا تھا۔ دفتر میں بیٹھا ہوتا تو صالحہ کے لیے یہ سوچ کر پریشان ہوتا کہ وہ گھر میں اکیلی ہے۔ کوشش کرتا وقت سے پہلے گھر پہنچ جائے۔ اس کی یونیورسٹی شروع ہوچکی تھی جبکہ اسکول جانے کا دن بھی قریب تھا۔ پچھلی رات خوشی کے مارے اسے نیند ہی نہ آئی تھی۔ رہ رہ کر آنکھ لگتی تو خود کو اسکول میں دیکھتی۔ صوفے پر لیٹا وجدان روز کی طرح کروٹیں بدلتا۔۔۔ اسے اب تک صوفوں کی عادت نہ ہوئی تھی۔ اسے یوں دیکھ کر صالحہ کو ترس آتا اور وہ سوچتی کہ وہ کب تک یوں صوفے پر سوئے گا۔ وہ اب بھی اس کے قریب آنے پر شرماتی اور نروس ہوجاتی تھی۔ وہ اس دوری کو ختم کرنا چاہتی تھی مگر اظہار اس کی جانب سے چاہنے لگی۔ اسے لگنے لگا کہ شاید اس نے مجبوری میں شادی کی ہے۔۔۔ مگر جب وہ اس کی آنکھوں میں عجیب احساس سے جھانکتا تو صالحہ کو لگتا ایسا کچھ نہیں ہے جیسا وہ سوچتی ہے۔ وہ شاید اس کا اسیر ہورہا ہے۔ بہت بار صالحہ کو محسوس ہوا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔۔۔ مگر کہہ نہیں پارہا۔ الفاظ گویا حلق میں اٹک رہے ہوں۔ وہ خوش فہمی نہیں پالنا چاہتی تھی اس لیے چاہتی تھی کہ اظہار اس کی جانب سے ہو۔ دن بھر چپکے چپکے اس کے آنے کا انتظار کرتی، گاڑی کے ہارن بجتے ہی وہ جیسے جی اٹھتی اور جلدی سے خود کو جان بوجھ کر کسی ایسی جگہ پر مصروف کرلیتی جہاں وجدان اسے ڈھونڈتا پھرتا آتا۔ اس دورانیے میں وہ اس کی عادت جان گئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ جب بھی آئے گا اسے ڈھونڈے گا پھر پاس کھڑے ہوکر اس کی آنکھوں کو تسلی سے دیکھے گا۔ وہ نظریں جھکانے کی کوشش کرے گی تو ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ ہلکا سا اٹھائے گا اور پھر اس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھے گا۔ وہ دل ہی دل میں یہ جذبہ چھپائے گی کہ اس کا یوں کرنا اسے آہستہ آہستہ بھا رہا ہے۔ اور وجدان؟ وجدان کوئی بھی بات سہہ سکتا ہے سوائے اس کے کہ صالحہ اس کے گھر آنے پر اسے نہ ملے۔۔۔ اس کی پہلی خواہش باہر سے آکر اسے دیکھنا بن گئی۔ گھر کے کسی بھی حصے میں وہ چھپی ہو مگر وہ اسے پندرہ سیکنڈ میں ڈھونڈ نکالتا۔ ایک ہفتہ اور گزر گیا تھا اور کل صالحہ کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ ایک دن پہلے وجدان شہر کے اچھے بڑے مال سے اس کو ضرورت کا سامان دلا کر لایا تھا۔ پرفیومز، دو تین چادریں، کوٹ اور موبائل سمیت بہت سی ایسی چیزیں جسے دیکھ کر وہ پھولے نہ سمارہی تھی۔ اس نے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا تھا جس پر اس نے ہلکی سی گھوری دیکھ کر اسے اپنی ذمہ داری کہا تھا اور بس اس کا یہ انداز بھی صالحہ کو بھاگیا تھا۔ وہ نگاہیں جھکا گئی تھی۔ اگلے دن اس کا اسکول تھا اور اس کا شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ حویلی کی عورتوں کو اور افشاں کو چیخ چیخ کر بتائے کہ اس کی دلی مراد پوری ہوگئی ہے۔ افشاں کی یاد آنے لگی تو چہرے پر اداسی پھیل گیا۔ وجدان کا دل حلق میں آگیا۔ وہ کھوجتا رہا کہ وہ کیوں پریشان ہے۔ آخر جب رہا نہ گیا تو رات کے کھانے کی میز پر ہچکچاتا بول اٹھا۔ صالحہ خاموش رہنا چاہتی تھی مگر کب تک؟۔ وجدان کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔۔۔ صالحہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے اور یہاں وجدان کے منہ سے حلق میں جاتا نوالہ اٹک گیا۔ اس نے کھانے سے ہاتھ کھینچے اور اس کا ہاتھ اس کی آنکھوں سے دور کیا جو آنکھوں کو بےدردی سے رگڑ رہی تھی۔ یہاں وجدان نے وجہ پوچھی اور یہاں اس نے روتے روتے سب حال سنادیا۔ اس کی داستان پر محض وہ مسکرادیا تھا۔ جیب سے موبائل نکالا اور اس کے آگے کردیا۔ وہ نہیں جانتا کہ کب تک وہ وجیہہ کے موبائل پر کال کرکے افشاں کو اپنا حال سناتی رہی۔ شمیلہ چچی سے بات ہوئی تو وہ بہت خوش تھیں۔ طلعت نے شمیلہ کے اسرار پر قرآن کا ترجمہ پڑھنے اور سمجھنے کی ہامی بھری تھی۔ وہ کوشش جو شمیلہ چچی اپنی جوانی سے کررہی تھیں وہ اب رنگ لارہی تھی۔ کبیر بٹ اپنی دھی کے لیے تڑپتے تھے۔ ایسے میں داجی کے خلاف کبیر کے دل میں بغاوت جنم لے رہی تھی۔ وہ اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔ یہ لاوا بہت جلد پھٹ جائے گا طلعت کو یقین تھا۔ سمیعہ تائی اب حویلی والوں سے اکتائی اکتائی گھومتی تھیں۔ رفاہ کو دیکھ کر کبھی کبھی غصہ جنم لیتا تو نماز کے لیے کھڑی ہوجاتیں۔ شرجیل کے دل میں رفاہ کے لیے بڑھتی الفت حویلی میں سب کو نظر آنے لگی۔ داجی کو محسوس ہوا کہ شرجیل جلد از جلد بغاوت کر جائے گا۔ سمیعہ تائی نے پچھلے دنوں رفاہ پر چیخنے کی کوشش کی تھی مگر شرجیل آڑے آگیا تھا اور صاف کہہ گیا تھا کہ اس کی بیوی کو سنانے اور مارنے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ وہ تائی کا دکھ سمجھتا تھا اس لیے یہ بھی سمجھا گیا کہ اس میں رفاہ کا نہیں بلکہ قاتل کا قصور ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ تائی اتنی جلدی اس کی بات سمجھنے کی کوشش کریں گی۔ وہ سمجھ تو رہی تھیں مگر وقت ان کے لبوں کو خاموش اور خواہشوں کو معدوم کرتا جارہا تھا۔ اب زیادہ تر وہ خاموش رہتیں۔ صالحہ کی شادی پر جو ارمان انہوں نے بیٹے کو سوچ کر نکالنے تھے وہ بیٹا نہیں رہا تھا اور وہ کسی اور کی ہوگئی تھی۔ شمیلہ چچی جب افشاں کے پاس گئیں تو افشاں انہیں یک ٹک تکنے لگی۔ وہ سمجھ نہ سکیں اور کھانا پیش کیا، دوسرے کپڑے نکالے اور محبت سے اسے دیکھا۔ مگر وہ اب بھی انہیں تک رہی تھی۔۔۔ پوچھنے پر اس نے بمشکل ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر آگے بڑھایا تو اس کو پڑھ کر شمیلہ کہ سٹی گم ہوگئی۔ بڑے بڑے الفاظوں میں بشارت حسین لکھا تھا۔ انہوں تھوک نگلا تو افشاں نے اشارے سے پوچھا کہ آپ جانتی تھیں وہ دشمنِ جاں اسی گھر میں ہے پھر بھی مجھے خبر نہ دی؟۔ اس کی بات سمجھ آنے پر وہ آنسوؤں سے رودی اور اسے بتایا کہ وہ ہی شاہ جی ہے جس کا ذکر صالحہ اپنی باتوں میں کیا کرتی تھی۔ یہاں شاہ جی کو اسے محرم بنانے کی تڑپ بڑھ گئی۔ دل میں اتنے سالوں کا غبار تھا جو نکلنے کو تیار تھا مگر وہ خود کو دبارہے تھے۔ اپنے لیے نہیں بلکہ اس لڑکی کے لیے جس کی آنکھیں کانچ کی مانند محسوس ہوتی تھیں۔ داجی کے لیے دل میں بڑھتی نفرت وقت کے ساتھ پورے دل پر قبضہ کررہی تھیں، مگر وہ بہت جلد ہی بات حویلی میں کھولنے والے تھے۔ حیدر اور وجیہہ دو دن بعد ہی حویلی آگئے تھے۔ شمیلہ نے اسے افشاں سے بھی ملوایا تھا اور وجیہہ کو افشاں سے مل کر ان پر صالحہ کا گمان ہوا۔ بھائی کی یاد نے اس کے دل کو ہولا رکھا تھا۔ دن میں ایک دفعہ سہی مگر وہ وجدان سے بات ضرور کیا کرتی تھی۔ رفاہ کو اپنی تنہائی کا دوست تو نہ مل سکا مگر وجیہہ سے ہلکی پھلکی دوستی ہوگئی۔ وہ اب بھی کوارٹر میں رہتی تھی اور شرجیل جلد اسے اپنے کمرے میں شفٹ کرنے ارادہ رکھتا تھا۔ حیدر کو صالحہ کی بےرخی اندر سے کھائی جارہی تھی۔ اسے افسوس تھا اور یہ ساری عمر رہنے والا تھا۔ وہ شہر جاکر اس سے ملنا چاہتا تھا اور عنقریب ہی یونیورسٹی کے سلسلے میں وہ جلد اس سے ملنے والا تھا۔ وجیہہ کی روٹین پہلے سے یکدم بدل چکی تھی۔ وہ لڑکی جو بارہ بجے تک سونے کی عادی تھی اب اسے صبح سات بجے اٹھادیا جاتا تھا۔ جس نے گھر کے برتنوں کو ہاتھ نہ لگایا ہو وہ اب بڑی بڑی پتیلیوں میں رات کے کھانے پر کھیر بناتی تھی۔ اس سب نے اسے وجدان اور اس کی محبت یاد دلادی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ کام کرنے سے اکتاتی تھی یا پھر تھک کر چور ہوجاتی تھی، مگر بھائی کی یاد فطری تھی۔ اتوار کی رات شرجیل اپنے ٹیرس پر کھڑا تھا جب اس نے درخت کے نیچے کھڑے شاہ جی کو افشاں کے کمرے کی طرف تکتے دیکھا تو ان پر بےجا ترس آیا۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اب خاموش نہیں رہے گا۔ وہ شاہ جی کو ان کی محبت دلائے گا۔۔۔ مگر وہ یہ سب فوراً نہیں کرے گا۔ وہ پلان کررہا تھا کہ کب کیسے حالات پیدا ہونے چاہئے۔ جس دن وہ رفاہ کو اپنے کمرے میں لانے کا اعلان کرے گا تب شاہ جی اور افشاں کی داستان کھول دے گا۔ تمام راز سے پردہ اٹھادے گا اور شاہ جی کی طرف سے ان کا رشتہ داجی کی بیٹی کے لیے مانگے گا۔ کیوں وادی عشق کے مسافر اپنے محبوب کو اپنا بنا نہیں پاتے؟۔ وہ ایک ساتھ سب کی رنجشیں ختم کردے گا اسے یقین تھا۔ عنقریب وہ دن آنے والا تھا۔۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
پانچ بجنے لگے تھے جب اس کی آنکھ کھلی۔ بڑھ کر موبائل پر وقت دیکھا تو اٹھ بیٹھی۔ آسمان گہرا نیلا ہورہا تھا۔ یونیورسٹی اس کی شروع ہوئے دو دن ہوچکے تھے مگر اسکول میں آج پہلا دن تھا۔ یونیورسٹی کی ایوننگ شفٹ تھی تاکہ وہ صبح اسکول آرام سے جاسکے۔ اس نے نماز پڑھ کر بالوں کو جوڑا باندھا۔ حسبِ معمول صوفے پر آڑے ترچھے لیٹے وجدان کا لحاف ترتیب دیا اور نیچے چلی آئی۔ اس نے گزرے ہوئے دنوں میں لاؤنج میں بہت تبدیلی کردی تھی۔ جب وہ گھر میں تنہا ہوتی تھی تو گھر کو سنوارنے کے بارے میں سوچا کرتی تھی۔ اپنے ڈوپٹے کو کمر سے باندھ کر فریج میں سے گوندھا آٹا نکالنے لگی۔ اکثر ایسے کام جو اسے کرنے میں پریشانی ہوتی تھی وہ ایک دن پہلے رات میں کرلیا کرتی۔ اس ایک ہفتے نے اسے اتنا مصروف کردیا تھا اور اسی ایک ہفتے میں اسے اس گھر سے انسیت ہونے لگی تھی۔ اس نے سوچا تھا وہ حویلی جانے کی بات وجدان سے ضرور کرے گی۔ گزرتے وقت کے ساتھ افشاں کی یاد دماغ پر حاوی ہورہی تھی۔ کبھی اس کے بغیر ایک پل گزارنے کا سوچا نہ تھا اور آج اتنا وقت گزار چکی تھی۔ اس نے روٹی بیل کر توے پر ڈالی اور چائے کا پانی چڑھانے لگی۔ وہ آج اتنی خوش تھی اس بات کا اندازہ اس کا کھلتا چہرہ بتارہا تھا۔ پانی چڑھا کر اس نے توے پر روٹی پلٹی اور دوسری روٹی بیلنے لگی۔ اس نے وقت دیکھا تو ساڑھے پانچ ہورہے تھے۔ ہاتھوں میں تیزی آئی اور جلدی جلدی روٹیاں بنا کر ہاٹ پاٹ پر رکھیں اور انڈہ تل کر باہر آگئی۔ اسے آٹھ بجے تک اسکول کے لیے نکلنا تھا۔ تھوڑی دیر لاؤنج میں بیٹھ کر وہ وجدان کو اٹھانے کمرے میں چلی آئی۔ گہری نیند میں سوتا وجدان دنیا سے بیگانہ تھا۔ آنکھیں گھنے بالوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ ایک نظر اسے دیکھ کر وہ کپڑے نکالتی واش روم میں چلی گئی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ شاور لے کر آئی تو وجدان اسے اب بھی سوتا ہی ملا۔ گزری ہوئی رات کو وہ بہت دیر تک باہر ہی رہے تھے۔ شاپنگ کرتے ہوئے گویا وقت کا اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ اس نے بالوں کو تولیہ سے جھٹکا اور خود کو شال میں ڈھانپ کر کھڑکی کی جانب آئی۔ وہ اسے کیسے نیند سے اٹھائے؟ حیا آڑے آرہی تھی اور اس کی دل کی دھڑکنیں بہت تیزی سے چل رہی تھیں۔ اس سب کا حل صرف ایک ہی تھا۔۔۔ اس نے کھڑکی کے دونوں پردے کھینچ کر کنارے کیے۔ تیز آواز کے ساتھ وہ پردے سامنے سے ہٹے اور ہلکی ہلکی روشنی وجدان کے منہ پر پڑی۔ صالحہ نے ساتھ کمرے کے بلب جلادیے۔ جب دیکھا اس سوتے شخص کو اب بھی فرق نہیں پڑا تو کمرے میں لگے دو چھوٹے فانوس بھی جلادیے. بالآخر وجدان کی آنکھیں چندھیائیں اور وہ وہ آنکھیں مسلتا اپنی نیند میں خلل پیدا کرنے والے کو دیکھنے لگا۔ وہ نکھری نکھری گیلے بالوں میں شال تھامی وہیں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ وجدان نے بڑھ کر اپنا موبائل اٹھایا اور اس میں وقت دیکھا۔ چھ کا ہندسہ دیکھ کر اسے صالحہ کی دماغی حالت پر شک ہوا۔ اتنی صبح اٹھانے کی کیا تک تھی بھلا؟۔ اب وہ بھلا اسے کیسے پوچھے کہ اسے اتنی جلدی کیوں اٹھانے کی کوشش کی؟۔
"ابھی تو چھ بھی نہیں بجے اس لیے سوجاتا ہوں"۔ خود سے زور سے کہتا تاکہ صالحہ سن سکے پھر سے لیٹ گیا۔ صالحہ کے ماتھے پر بل آئے۔ وہ صوفے کے برابر کھڑے سنگھار میز کی جانب آئی اور برش بالوں میں پھیرنے لگی۔ گیلی بالوں میں برش تیزی سے چل رہا تھا اور اس میں سے گرتیں پانی کی بوندیں صوفے پر لیٹے وجدان کو تنگ کرنے لگیں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا اور پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ ارد گرد سے بےنیاز صالحہ بال سلجھانے میں مصروف تھی۔ اس نے گہری سانس لی اور تکیہ اٹھا کر صوفے کے دوسری سائیڈ پر رکھا اور لیٹ گیا۔ اوپر جلتے بلب نے اس کا سونا محال کردیا۔ وجدان کا دل چاہا پھوٹ پھوٹ کر رودے۔ باخدا وہ اتنا بے بس زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔
"کیا کمرے کی لائٹ بند نہیں ہوسکتی؟"۔ گھٹی گھٹی آواز میں اس نے بمشکل صالحہ سے پوچھا۔ صالحہ نے اسے دیکھا اور نگاہیں جھکالیں۔
"اب تو جاگنے کا وقت ہے۔۔۔" مدھم آواز میں اس نے وجدان کو دیکھے بغیر کہا۔ وجدان یہ سوچ کر تڑپ اٹھا کہ صبح چھ بجے کونسا جاگنے کا وقت ہوتا ہے؟۔
"یعنی؟"۔
"یعنی آپ اٹھ جائیں۔ میں نے ناشتہ بھی بنادیا ہے۔۔۔"
وجدان نے گویا آنکھیں پھاڑیں۔ یہ اسے چھ بجے اٹھنے کا کہہ رہی تھی؟۔ اور ناشتہ کون بناتا اتنی صبح؟۔ وہ حیرانی سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ افف کیا لڑکی تھی۔بلآخر آنکھیں مسلتا اٹھ کھڑا ہوا۔ نیند سے آنکھیں بار بار بند ہورہی تھیں۔ اپنے آپ کو گھسیٹتا ادھ کھلی آنکھوں سے واش روم کی جانب وہ قدم بڑھا رہا تھا۔ اسے سامنے بال بناتی صالحہ نظر نہ آئی اور وہ نیند میں ہی اس کے پیر پر چڑھ گیا۔ صالحہ کی تکلیف سے ہلکی چیخ نکلی اور آنکھیں گیلی ہوگئیں۔
"سس۔سوری۔۔ وہ نن۔نیند میں تھا میں"۔ ہڑبڑا کر اس سے دور ہوا تھا اور معذرت کی تھی۔ صالحہ نے اثبات میں سرہلا کر تکلیف سے پاؤں سیدھا کیا۔ وجدان کو اس کے لیے برا لگا۔ اس نے وارڈروب سے کپڑے نکالے اور فریش ہو آیا۔ منہ پر پانی مارا تھا تو ہی اسے اپنی کی گئی حرکت سمجھ آئی تھی اس لیے بھاگا بھاگا باہر آیا اور بستر پر بیٹھی اپنا پاؤں تکلیف سے دیکھتی صالحہ کو دیکھنے لگا۔
"بہت زور سے تو نہیں لگی؟"۔ وجدان نے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اس کا پاؤں پکڑتے ہوئے پوچھا۔ صالحہ نے اسے دیکھا جو اس کے پاؤں کو دیکھ رہا تھا اور ایک گھوری سے نوازا۔ اس کا دل چاہا اسے کچا چبا جائے جو اپنا پورا وزن لے کر اس کے پاؤں پر چڑھ گیا تھا اور اب پوچھ رہا تھا کہ بہت زور سے تو نہیں لگی؟۔ وجدان نے اس کا جواب نہ پاکر نظریں اٹھائیں تو صالحہ نے نظریں جھکالیں۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ وہ اپنی آنکھوں کو اس کے دیکھنے پر جھکا کیوں لیتی ہے۔
"جواب نہیں مل پایا مجھے"۔ لہجہ قدرے ٹہھرا ہوا تھا۔ وجدان نے اس کا پیر ہلکا سا موڑا جس سے صالحہ کو تکلیف ہوئی اور اس نے اپنے ناخن اس کی گردن پر چیخ کر گڑادیے۔ وہ اس ظلم پر درد کے باعث پوری قوت سے چیخ اٹھا۔ صالحہ سہم کر پیچھے ہوئی اور بستر کی پشت سے لگ گئی۔ اپنی گردن کو تکلیف کے باعث وہ تیزی سے مسل رہا تھا۔ اس کا وہ حصہ لال ہوچکا جہاں صالحہ نے ناخن گڑائے تھے۔ لگتا تھا آج کا دن ہی برا تھا۔
"معافی چاہتی ہوں۔ آپ نے میرا پاؤں موڑا تو تکلیف سے مجھے کچھ سمجھ ہی نہ آیا اور۔۔۔" اس نے خوف سے بات ہی ادھوری چھوڑ دی۔ وجدان نے ڈری سہمی صالحہ کو دیکھا تو موم ہوگیا۔
"نہیں کوئی بات نہیں۔ میں بھی تو آپ کے پاؤں پر چڑھ گیا تھا"۔ وہ بےچارگی سے کہتا اس کا پاؤں دیکھنے لگا۔
"میرا پاؤں مت موڑیے گا"۔ صالحہ نے جلدی سے کہا۔ وجدان نے سر جھٹکا۔
"ہاں اب تو غلطی سے بھی نہیں موڑوں گا۔۔۔ میرے باپ کی توبہ جو اب ایسی کوئی حرکت کی"۔  لاحولا کا ورد کرتا وہ اس کا پاؤں چیک کرنے لگا۔
"تکلیف کم ہوگئی ہے"۔ صالحہ نے مدھم آواز میں بتایا اور پاؤں پیچھے کرنے لگی۔
"ہاں اب تو کم ہی ہونی ہے"۔ وہ خود سے کہتا اپنی گردن پر ہاتھ رکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ "چلیں یہ تو اچھا ہوا"۔
صالحہ نے نگاہیں جھکالیں۔
"ناشتہ بن گیا کیا؟"۔ سنگھار میز کے آئینے میں خود کو بےبسی دیکھتے ہوئے وہ بہت آہستگی سے پوچھ رہا تھا۔
"جی"۔ وہ بستر سے اٹھ کر چپل پہنتی نیچے چلی گئی۔ اب نہ تو وہ کسی فیری ٹیل کی شہزادی تھی جو اتنی سی تکلیف پر رو رو کر اپنے شہزادے کو ہلکان کردیتی اور شہزادے اس کے پاؤں میں مرہم لگا کر ایک ہفتہ اسے بستر سے نہ اتارتا اور نہ وجدان کسی اپنی ریاست کا شہزادہ تھا جس کی گردن پر خروچ آنے پر شہزادی روتے ہوئے اسے مرہم لگاتی۔
دونوں ہی اپنی تکلیف اور زخم کو یکدم بھول گئے تھے۔
۔۔۔★★۔۔۔
حسبِ معمول سب ہی عورتیں چھ بجے کے درمیان لاؤنج میں بیٹھی تھیں۔ کچھ تسبیح پڑھ رہی تھیں کچھ چائے پی رہی تھیں۔
"یہ لیں تائی"۔ رفاہ نے آگے بڑھا کر سمیعہ کو پیالی دی جسے انہوں نے پھیکا سا مسکرا کر تھام لی۔ انہیں افسوس تھا اپنے ہر اٹھائے گئے قدم پر۔۔۔
"میں نے کل قرآن پڑھا"۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد طلعت نے شمیلہ کو دیکھ کر بتایا۔ چہرے پر مبہم سی مسکراہٹ تھی۔ شمیلہ کی آنکھوں سے خوشی چھلکنے لگی۔
"اور جب میں نے اللہ کا کلام کھولا اور پڑھنا چاہا تو مجھے یاد آیا کہ آخری بار قرآن میں نے انیس سال کی عمر میں پڑھا تھا۔ لفظوں کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگی مگر۔۔۔ مگر ادا نہ ہوپائے۔ ایسی صورت میں سوائے اس کے کہ میں کلام پاک بھول چکی ہوں اور کچھ نہ یاد آیا۔ میں نے ترجمہ پڑھا شمیلہ اور۔۔۔ بس۔۔۔ پڑھتی ہی چلی گئی۔ ہم دین سے کتنا دور ہوئے بیٹھے ہیں اندازہ ہوگیا ہے آج!"۔ انہوں نے اپنا سر پکڑا تھا۔ شمیلہ نے انہیں دکھ سے دیکھا۔
"تم تو اللہ سے بہت قریب ہونا شمیلہ؟۔ تم مجھے سکھاؤ گی عربی؟"۔ انہوں نے بہت امید سے شمیلہ کی جانب دیکھا جنہوں نے اثبات میں مسکرا کر سرہلایا تھا۔
"آپ لوگ جاگ گئے؟"۔ وجیہہ مسکرا کر رفاہ کے برابر میں بیٹھی تو سمیعہ نے اثبات میں سرہلایا۔
"تم کب اٹھی؟"۔
"ابھی کچھ وقت ہی ہوا ہے تائی"۔ وہ ہر وقت لبوں پر مسکراہٹ سجائے رکھتی تھی۔
"اور حیدر؟"۔ طلعت نے تسبیح گھماتے ہوئے پوچھا۔
"آتے ہی ہوں گے"۔
رفاہ نے وجیہہ کو چائے پکڑائی۔
"آج میں بہت خوش ہوں"۔ طلعت کو کچھ یاد آیا تو وہ بول پڑیں۔
"کیوں بھئی؟"۔ شمیلہ نے الجھ کر پوچھا۔
"یاد نہیں؟ صالحہ کو آج استانی کا شرف حاصل ہونے والا ہے"۔ ان کی یاد دہانی پر سب نے ہاں میں ہاں ملائی۔
"ارے میں کیسے بھول سکتی ہوں؟"۔ شمیلہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ وجیہہ مسکرائی۔ اسے اپنے بھائی پر ناز تھا۔۔۔ مگر کہیں نہ کہیں دل میں احساس شرمندگی بھی تھی کہ کیا پتا وہ یہ سب اپنا دل مار کر کررہا ہو۔
"وجیہہ؟ تمہارے پاس موبائل ہے نا؟۔ تم بات کروادینا ہماری صالحہ سے۔۔۔ مگر شام میں! کیونکہ وہ تو ابھی اسکول کے لیے نکلنے والی ہوگی۔۔۔"۔ سمیعہ تائی کی آنکھوں کی چمک واضح تھی۔
"جی تائی کیوں نہیں"۔ وجیہہ عاجزی سے بولی۔
"وہ کہہ رہی تھی کہ وہ کسی لال عمارت والے اسکول کی استانی بننے جارہی یے۔ کہنے لگی اماں وہ عمارت شہر کے سب سے بڑی اسکول کی عمارت ہے اور بہت خوبصورت ہے"۔ طلعت بہت ذوق سے بتارہی تھیں۔ "اس نے بتایا تھا کہ حیدر کے ساتھ جب وہ شہر گئی تھی تب وہ عمارت دیکھی تھی۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ وجدان ہماری امیدوں سے بھی اچھا نکلا ہے"۔ طلعت اپنی دھی کے لیے خوش تھیں۔ وجیہہ اپنی بھائی کی تعریف پر کھل کر مسکرائی۔ اسے یکدم وجدان کی یاد آئی تھی مگر یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ اس ہفتے وہ اپنی یونیورسٹی کے سلسلے میں شہر جانے والی تھی۔ پیچھے سے لاؤنج میں آتے حیدر کی رنگت لال عمارت کا سن کر فق ہوگئی تھی۔ اسے صالحہ کا لال عمارت کو تکنا یاد آیا۔ وہ اپنے خوابوں کو آہستہ آہستہ پورا کررہی تھی جیسے اس نے حیدر کی یونیورسٹی میں داخلے کے خواب کو پورا کیا تھا۔
"کیا وہ لال عمارت والے اسکول میں استانی بن رہی ہے؟"۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی۔
"ہاں تم نے تو دیکھا ہوگا"۔ سمیعہ نے ٹرے میں سے بسکٹ اٹھا کر منہ میں ڈالا۔
"ہاں وہ اسکول وجیہہ کے گھر کے پیچھے ہی تو ہے۔ بہت بڑا اسکول ہے اور سامنے سے دیکھنے میں تو گویا ایسا ہے کہ کسی اسکول ختم کیے بچے کو بھی واپس اسکول میں داخلہ لینے کا دل چاہے گا"۔ وہ پوری آنکھیں کھولے گویا جیسے راز کی بات بتا رہا تھا۔ "مجھے واقعی بہت زیادہ خوشی ہے"۔ حیدر نے وجیہہ کے پیچھے صوفے کی پشت پر ہاتھ پھیلائے۔
"ہائے اللہ میری دھی جیسی زندگی گزارنا چاہتی تھی ویسے ہی گزار رہی ہے۔ وجیہہ تیرا بھائی بہت اچھا ہے۔۔۔ بھلا ایسا کون کرتا ہے؟۔ شکر ہے وہ حویلی سے نکل گئی۔۔۔ اگر مجھے پتا ہوتا نا تو اسے مسکراتے ہوئے رخصت کرتی کیونکہ مجھے علم ہوتا کہ اس کی بعد کی زندگی پہلی والی زندگی سے لاکھ درجے بہتر ہے"۔ طلعت کا ہاتھ بار بار دعا کو اٹھ رہا تھا۔ "اللہ اسے سدا سہاگن رکھے۔۔۔"۔ انہوں دعا مانگ کر دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے تو سب نے گاہے بگاہے دلوں میں آمین کہا تھا۔
۔۔۔★★۔۔۔
"یہ انڈہ تو ٹھنڈا ہوگیا ہے؟"۔ اس بات سے انجان کہ وہ سن چکی ہے وہ خود پر بڑبڑایا تھا۔
"آپ کا انڈہ تل دیتی ہوں"۔ صالحہ نے دھیمی آواز میں کہا اور کچن میں پلٹنے لگی۔ وجدان کو بےجا شرمندگی محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس نے اتنی صبح کچن میں کھڑے ہوکر محنت سے ناشتہ بنایا ہے اور وہ یوں ہی بڑبڑا اٹھا۔
"ننن۔نہیں میں یہ ہی کھالیتا ہوں"۔ وہ جھینپ کر کہتا ہوا پراٹھے کا ٹکڑا توڑنے لگا۔
"مگر یہ انڈہ آپ کا تو نہیں"۔ صالحہ نے آج اسے شرمندہ کرنے کی گویا قسم کھائی ہوئی تھی۔ وجدان نے حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا تو صالحہ نے نگاہیں جھکالیں۔
"تو یہ کس کا ہے؟"۔ وہ ہر ممکنا کوشش کررہا تھا کہ اس بار اسے شرمندگی نہ اٹھانے پڑے۔
"یہ تو میرا ہے۔۔ میں انڈہ ٹھنڈا کرکے کھاتی ہوں اس لیے پہلے ہی اپنا تل لیا"۔ صالحہ نے اطلاع دی۔ وجدان ایک بار پھر بےجا شرمندہ ہوا۔ اب کی بار اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔
"میں آپ کے اٹھنے کا انتظار کررہی تھی تاکہ انڈہ تل سکوں"۔ وہ کہتی کچن میں چلی گئی جہاں اس نے پہلے ہی فرائی پین گرم کرنے رکھا ہوا تھا۔ وہاں انڈہ تلا جارہا تھا اور یہاں وجدان کا دل۔۔۔
"ایک تو اتنی صبح چھ بجے اٹھادیا اس پر سے اتنا شرمندہ کروادیا"۔ وہ دونوں ہاتھوں کو چہرے پر رکھ کر رہ رہ کے خود کو بھی کوس رہا تھا۔
"یہ لیں"۔ صالحہ نے پلیٹ اس کے آگے رکھی اور سامنے والی کرسی کو پیچھے کرکے بیٹھ گئی۔ وجدان کی نگاہ اس پر پڑی تو اس کے گیلے بال دیکھ کر رک گیا۔
"آپ نے شاور لیا ہے؟"۔ اس نے اب نوٹس کیا تھا۔
"جی"۔ صالحہ جھکی نگاہیں اٹھا کر بولی۔
"پانی تو ٹھنڈا تھا؟"۔ وہ اسے ماتھے ہر بل ڈالے غور سے دیکھ رہا تھا۔
"جی میں نے ٹھنڈے پانی سے ہی شاور لے لیا تھا"۔ اس نے کہتے ہوئے لقمہ منہ میں ڈالا۔
"اتنی سخت سردی میں آپ ٹھنڈے پانی سے نہائیں؟"۔ اس کا لہجے سخت نہ تھا مگر وہ پریشان ہوگیا تھا۔ صالحہ کا دل زور سے دھڑکا۔
"جج۔جی"۔
"کیوں؟ اتنی صبح سخت سردی میں بال واش کیے ہیں آپ نے اور پھر پورے گھر میں بنا بال سکھائے آرام سے گھوم رہی ہیں۔ کیا بیماری کو دعوت دینے کا ارادہ یے؟"۔ اس کے تیور ناچاہتے ہوئے بھی چڑھ گئے تھے۔ صالحہ کی جیسے سانسیں رک گئی ہوں۔ اس کی پلکیں تک کانپ رہی تھیں۔
"بال سکھائیے جا کر"۔ آواز میں اب سختی نہ تھی۔ ہاں مگر یہ حکم تھا جسے صالحہ سن کر گڑبڑا گئی تھی۔
"میں نے تولیہ سے بال جھٹکے ہیں"۔ اس نے صفائی پیش کی۔
"ہیئر ڈرائیر کا استعمال کریں"۔ وہ چھوٹے چھوٹے لقمے لیتا ہوا بولا۔ صالحہ نے ناسمجھنے والے تاثرات سے اسے دیکھا۔ وہ پانی حلق میں اتارتا رک گیا۔
"ہم نے کل ایک مشین خریدی تھی بالوں کے لیے"۔ اس نے صالحہ کو یاد دلانا چاہا مگر وہ ویسے ہی الجھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اب بھی نہ سمجھی تھی۔ وجدان اٹھ کر اس کے قریب آیا۔
"آئیں میرے ساتھ اوپر"۔ ہاتھ کے اشارے سے پیچھے آنے کا کہتا زینوں کی جانب بڑھ گیا۔ وہ ناشتے کو پلیٹ سے ڈھانپتی اس کے پیچھے پیچھے بڑھنے لگی۔ وجدان نے وارڈروب میں سے ہئیر ڈرائیر نکالا اور سوئچ بورڈ پر لگا کر بٹن دبایا۔ ایک آواز کے ساتھ گرم ہوا اس میں سے نکلی جو صالحہ کو یکدم ڈرا گئی۔ اس کے تاثرات بہت عجیب سے تھے۔ اسے وجدان کی ذہنی حالت پر شک ہوا۔۔۔ بھلا ایسی مشین اس کے بالوں کو جلد کیسے سکھا سکتی ہے؟۔
"ادھر آئیے صالحہ"۔ اس نے مشین سیٹ کرتے ہوئے صالحہ کو پکارا تو سہمتے ڈرتے وہ اس کے قریب آئی۔ وجدان نے اس کے سر سے ڈوپٹہ گرایا۔ اس کی اس حرکت پر صالحہ نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں وجدان اس کے لمبے گھنے بال نہ کاٹ دے۔ وجدان نے ڈرائیر اس کے بالوں کی سمت کیا اور ساتھ ساتھ اس کے بالوں کو بھی ہاتھ سے ہلانے لگا۔ بال اس قدر گھنے تھے کہ وجدان کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ وہ بمشکل انہیں قابو کرتا بال ڈرائے کرنے لگا۔ صالحہ دل میں ورد کرتی دعا کررہی تھی کہ وہ اس کے بال نہ کاٹ دے۔
"یہ بال۔۔۔" وہ گویا اس کے بالوں کو دیکھ کر حیران تھا۔ بال اتنے گھنے اور خوبصورت تھے کہ ان پر سے نگاہ ہٹانا اس کے لیے محال ہورہا تھا۔
"بہت خوبصورت ہیں آپ کے بال"۔ وہ انہیں دیکھنے میں محو سے محو تر ہونے لگا۔
"کیا ڈرائی ہوگئے ہیں بال؟"۔ وہ ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگی۔ وجدان کے دیکھنے کا تسلسل ٹوٹا اور تیزی سے اثبات سر ہلانے لگا۔
"ہاں بال گھنے ہیں تو وقت لگا تھوڑا"۔ وہ دور ہٹ کر تار لپیٹنے لگا۔ صالحہ نے سر پر ڈوپٹہ پہن لیا۔ گھڑی پر نظر پڑی تو سات بج رہے تھے۔
"میں تیار ہونے جارہی ہوں۔ آپ اپنا ناشتہ مکمل کرلیں جب تک"۔ وہ وارڈروب کی جانب بھاگی۔
وجدان نے وقت دیکھا تو گہری سانس لے کر رہ گیا۔
"ابھی وقت ہے صالحہ۔۔۔ ناشتہ کرلیں آپ"۔ وہ اس کے پیچھے سے ہی وارڈروب میں مشین رکھتا دور ہوا۔
"میں اسکول میں کرلوں گی"۔ وہ ہڑبڑی میں کہتی جلدی سے اپنے وہ کپڑے نکالنے لگی جو وجدان نے اسے کل دلائے تھے۔
"مجھے لگا تھا آپ اچھی لڑکی ہوں گی"۔ وہ بےچارگی سے سرہلاتا مڑنے لگا۔ اس کے جملے پر وہ تڑپ کر رہ گئی۔
"میں اچھی لڑکی ہوں"۔ وہ جیسے اسے یقین دلارہی تھی۔ وجدان پلٹا اور اس کی پریشان کنچی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
"دسترخوان بھرا ہوا تھا اس لیے آپ لاپرواہی میں ناشتہ چھوڑ رہی ہیں۔ اگر میز ہر لوازمات سے خالی ہوتی تو آپ رزق کا ایک ذرہ بھی ضائع نہ کرتیں"۔ وہ بات بہت گہری کرگیا تھا۔
"مطلب؟"۔ وہ سمجھ نہ سکی۔
"مطلب یہ کہ اللہ کا دیا رزق چھوڑ کر جارہی ہیں۔ رزق کو انتظار کروانا بھی منع ہے۔ ہم مجبوری میں اوپر آئے تھے"۔ وہ جیسے بچوں کی طرح اسے سمجھا رہا تھا۔
"ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اسی رزق کے لیے تو آپ اتنی محنت کرتے ہیں"۔ وہ جلد ہی بات کو سمجھ گئی تھی اور اب اپنے آپ کو کوس رہی تھی۔ "پھر مجھے جلدی کھانا کھالینا چاہئیے کیونکہ وقت کم رہ گیا ہے"۔ وہ کہتی دروازے کی جانب بڑھ گئی اور وجدان پیچھے مسکراہٹ چھپاتا رہ گیا۔ وہ بھولی اور معصوم ضرور تھی مگر کم عقل اور بےوقوف نہیں۔۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
سورج آہستہ آہستہ طلوع ہورہا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی اور مزاجوں میں بہار۔۔۔!
بارش کی برستی بوندوں نے
جب دستک دی دروازے پر
محسوس ہوا تم آئے ہو
انداز تمہارے جیسا تھا
ہوا کی ہلکی جھونکے کی
جب آہٹ پائی کھڑکی پر
محسوس ہوا تم گزرے ہو
احساس تمہارے جیسا تھا
گنگناہٹ کی آواز پر وہ سجدے میں موندی آنکھیں بےاختیار کھلیں۔ جائے نماز پر گھنٹے سے سجدہ کیا وجود ایک دم اٹھ بیٹھا۔ جیسے وہ روز کی طرح اسی گنگناہٹ کا انتظار کررہا ہو۔ پودوں کو پانی ڈالتے شاہ جی جانتے تھے کہ وہ ان کی آواز سننے کھڑکی کی جانب ضرور آئے گی۔ افشاں نے کھڑکی کھولی اور چہرہ پلو میں چھپالیا۔
میں نے گرتی بوندوں کو
روکنا چاہا ہاتھوں پر
ایک سرد سا پھر احساس ہوا
وہ احساس تمہارے جیسا تھا
وہ گنگنانے میں اتنا محو تھے جتنا افشاں انہیں سننے میں تھی۔ ان کی پشت کو اپنی کنچی آنکھوں سے تکتی ان کے لفظوں پر غور کرتی رہی۔
تنہا میں چلا پھر بارش میں
تب ایک جھونکے نے ساتھ دیا
میں سمجھا تم ہو ساتھ میرے
وہ ساتھ تمہارے جیسا تھا
پھر رک گئی وہ بارش بھی
رہی نہ باقی آہٹ بھی
میں سمجھا مجھے تم چھوڑ گئے
انداز تمہارے جیسا تھا
گنگناہٹ ختم ہونے پر جیسے شاہ جی نے پلٹ کر کھڑکی کی جانب دیکھا تو کالی چادر سے مکمل چہرے کو ڈھانپے اس وجود کی کنچی آنکھیں ہی تو قیامت تھیں۔ وہ دونوں اب کی بار بھی ساکت رہ گئے تھے۔ بلاشبہ وہ دونوں ایک خوبصورت مرد اور عورت تھے مگر وقت نے چہرہ جھریاں زدہ کردیا تھا۔ دل میں وہ ہی ایک دوسرے کو پالینے کی تڑپ۔۔۔ مگر اب شاہ جی کے دل میں یہ تڑپ بڑھ گئی تھی۔ ان سے اب مزید برداشت نہیں ہورہا تھا۔ محبوب کو اپنے سامنے دیکھنے کے بعد نظریں پھیر کر اندر چلے جانا یہ کہاں محبت اصول تھا؟ ہاں مگر یہ انداز انہیں نبھانا تھا۔ کم از کم جب تک وہ ان کی نامحرم تھیں۔ ناچاہتے ہوئے انہوں نے نگاہیں نیچی کیں اور کنستر اٹھاتے اندر کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔★★۔۔۔
"بس یہیں روک دیں آپ! میں چلی جاؤں گی اندر تک"۔ وجدان نے گاڑی اسکول کے سامنے روکی تھی۔
"بہتر"۔ مختصر سا جواب دینے کے بعد وہ اسے دیکھنے لگا۔ صالحہ نے اپنا بیگ پکڑا اور چادر سنبھالتی باہر نکلنے لگی۔ وہ انتظار کرتا رہا وہ کب اس کی آنکھوں میں دیکھے گی اور وہ کب اس کی کنچی آنکھیں دل میں اتارے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ فائلز پکڑتی گاڑی سے اترنے ہی لگی تھی کہ وجدان سے رہا نہ گیا اور وہ اسے پکار بیٹھا۔
"سنیں صالحہ"۔ اس کی آواز پر اترتی صالحہ نے مڑ کر اسے دیکھا۔ وجدان نے تیزی سے اس کی کنچی آنکھیں دیکھیں۔
"جی؟"۔ صالحہ نے اس سے جواب نہ پایا تو حیا نے آلیا۔ وہ اس کی آنکھیں گویا اپنے دل اتار رہا تھا۔ جب لگا کہ اسے ابھی جی بھر کر دیکھ لیا تو چہرے پر مسکراہٹ پھیلا کر سامنے دیکھنے لگا۔
"نہیں کچھ نہیں"۔ مبہم سی مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ صالحہ کو لگا وہ ہار گئی اور وہ پھر سے جیت گیا۔ وہ اس سے نظریں نہ ملاتی تو وہ اسے نہ دیکھ پاتا۔۔ وہ کامیاب ہوگیا اس کی کنچی آنکھوں کو دیکھنے میں!۔ اس کے گال دہکنے لگے۔ مگر اب وہ اسے جیتنے کی کوشش نہیں کرنے دے گی۔ وہ گاڑی سے چہرے پر مسکان لیے اتری اور چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتے اندر بڑھ گئی۔ وجدان نے اسے گیٹ سے اندر جاتے دیکھا اور آنکھوں پر چشمہ لگالیا۔ وہ جتنی نگاہیں چرائے گی وہ اتنی بار ایسے موقع پیدا کرے گا کہ اسے دیکھنا ہی پڑے گا۔ مسکراہٹ کے باعث اس کے دونوں گالوں کے ڈمپل گہرے ہوگئے تھے۔ اگر وہ اس کی آنکھوں پر جان دیتا تھا تو وہ اس کے ڈمپل کو تکتی رہتی تھی۔ وہ یہ بات جانتا تھا وہ اسے بہت غور سے دیکھتی ہے۔ خاص طور پر وہ جب سورہا ہوتا۔ اپنی آنکھوں کا اسیر صالحہ نے اسے خود بنایا تھا۔ اب تو ہر بازی ہی وجدان کے نام کرنی تھی، مگر دل ایک دعا کثرت سے کررہا تھا۔۔۔۔ کہ خدا بس کبھی برا وقت نہ لائے۔
۔۔۔★★۔۔۔
شمیلہ دروازہ بجا کر اندر داخل ہوئیں اور افشاں کے سامنے ناشتہ رکھا۔ افشاں جو کھڑکی کی جانب کھڑی تھی پلٹ کر انہیں دیکھنے لگی۔
"کیا دیکھ رہی ہو گڑیا؟"۔ آج شمیلہ نے اسے اس کے پرانے لقب سے پکارا تھا۔ افشاں نے سرعت سے اپنا چہرہ سنگھار میز کے آئینے پر دیکھا تھا۔ اب بھلا وہ کہاں گڑیا رہی تھی؟۔ گوری رنگت اور کنچی آنکھیں بھلا اب بھی خوبصورت ہوتی ہیں؟۔ جھریاں زدہ چہرہ اس کی عمر سے باخبر ضرور کررہا تھا مگر اس کی خوبصورتی نہ چھین سکا۔ ہاں مگر وہ گڑیا نہیں رہی۔ شوخ چنچل، قہقہے، ہنسی، وہ پوری حویلی میں بھاگنا۔۔۔ ہر کام میں سب کا افشاں پکارنا۔۔۔ سب ختم ہوگیا۔ اب تو ان گنت لوگوں کے سوا سب بھول گئے ہوں گے کہ افشاں اس حویلی میں ہی ہے۔ اس کے بھائیوں کو وہ یاد نہیں تھی جن بھائیوں سے خواہشوں کا اظہار کرتے کرتے نہ تھکتی تھی اور وہ پوری کرتے کرتے نہ تھکتے تھے۔۔۔
۔۔۔★★۔۔۔
زندگی میں وقت ایک سا نہیں رہتا۔ جہاں کل ذہن میں یہ خواب پورے نہ ہونے کی امید بڑھ گئی تھی وہاں نصیب نے کام دکھایا۔ اس لال عمارت کے اسٹاف روم میں بیٹھی صالحہ کبھی لال عمارت کو صرف اندر سے دیکھنے کی خواہش رکھتی تھی۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی وہ تمنائیں جنہیں لاحاصل سمجھ کر وہ سوچا کرتی تھی آج اپنی خواہشوں کی پوری ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتے کرتے نہ تھکتی تھی۔ ہاتھ میں اٹینڈینس رجسٹر تھا جس پر وہ اپنی جماعت کے بچوں کے نام درج کررہی تھی۔ الله نے اس کی قربانی رائیگاں نہیں جانے دی تھی۔ اسے ایسا شوہر ملا تھا جو اپنی عورت کو زندگی میں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے گاؤں میں ہمیشہ مردوں کو عورتوں پر وہ پابندیاں لگاتے دیکھا جو قرآن کے خلاف تھیں۔ حویلی کے مردوں کا موازنہ وہ وجدان سے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ بیوی تھی اس کی۔۔۔ اس کی ناموجودگی میں خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی۔ باہر کے دروازے کا لاک بار بار دیکھتی تھی اور جب وہ گھر میں موجود ہوتا تو وہ بھٹک کر بھی دروازے کی جانب نہ جاتی۔ لب اپنے خواب کے مکمل ہونے پر مسکرائے جارہے تھے۔ آج وہ کلاس ٹیچر تھی اور گود میں رکھا رجسٹر اس بات کا گواہ تھا۔ ہرا رنگ کا گاؤن تھا جو وہ پہنی ہوئی تھی۔ یہ فی میل ٹیچرز کا اسٹاف روم تھا۔ سر پر سفید رنگ کا ڈوپٹہ پہنا ہوا تھا اور نیچے ہرا گاؤن بلکل اس کی چادر کی کثر پوری کررہا تھا۔
"اسلام علیکم"۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ کسی نے اسے سلام کیا۔ اس نے نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھا تو کسی کی آنکھیں اس کی کنچی آنکھوں سے ٹکرائیں۔
"وعلیکم سلام"۔ اس کی عمر کی ہی کوئی لڑکی ٹیچر تھی۔ صالحہ مسکرائی۔
"آپ نئی استانی ہیں نا؟"۔ وہ لڑکی بھی سر پر ڈوپٹہ لپیٹے ہوئی تھی۔
"جی"۔ اس نے نرمی اور مدھم لہجے میں مسکرا کر بتایا۔ وہ لڑکی اس کے برابر چئیر بیٹھ گئی۔ اسٹاف روم میں بیٹھیں تمام ٹیچرز اب اسے جاننے کی خواہش کرنے لگیں۔
"آپ کا نام کیا ہے؟"۔ اس لڑکی نے اشتیاق سے پوچھا تو صالحہ نے چاروں طرف نگاہ ڈالی جہاں سب اسے دیکھ رہے تھے۔ یہاں بیٹھیں تمام ٹیچرز ہرا گاؤن پہنی ہوئی تھیں۔
"میرا نام صالحہ ہے۔ آپ کا نام؟"۔ صالحہ نے مسکرا کر جواب دیا اور رجسٹر ایک ہاتھ سے بند کردیا۔
"لیٹ می انٹروڈیوس مائی سیلف۔۔۔"۔ دور سے ایک لڑکی کھڑی ہوئی اور چلتے ہوئے درمیان میں آگئی۔
"میرا نام الماس ہے۔ میں آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر ہوں۔ ایک بہت اچھی لڑکی ہوں جس کی ایک بیٹی ہے اور ایک عدد شوہر بھی"۔ وہ کوئی چوبیس بچیس سال کی لڑکی تھی جو اپنا انٹرو بہت خوشی سے دے رہی تھی۔ وہاں سب کے قہقے ساتھ گونج رہے تھے۔
"میری ایک عدد بیٹی اسی اسکول میں پڑھتی ہے۔ تم اسے مونٹیسری میں دیکھ سکتی ہو اور میرے شوہر کے قصے تو پورے اسکول میں مشہور ہیں"۔ اس کی بات پر صالحہ ہنس پڑی۔ اب باری باری سب اپنا اپنا انٹروڈکشن دینے لگے۔
اس کے برابر میں بیٹھی لڑکی نے اپنا نام عروج بتایا تھا۔
"ہم یہاں پر بلکل ایک فیملی کی طرح ہیں۔ روز گھر سے کوئی ایسی ڈش بنا کر لاتے ہیں جو سب کو پورا پڑ سکے اور پھر سب مل کر بھی کھاتے ہیں جیسے ابھی کھارہے ہیں"۔ الماس نے ایک میز پر سجے سب کے ٹفن باکس کی جانب اشارہ کیا۔
"کیا تم لائی ہو لنچ؟ اگر نہیں لائی تو ہمیں جوائن کرسکتی ہو کیونکہ لنچ ٹائم کبھی بھی ختم ہونے والا ہے"۔ وہ بےتکلفی سے بولی۔
"نہیں نہیں میں لائی ہوں لنچ"۔ اس نے اپنے بیگ کو تھپتھپا کر بتایا۔
"اوہو پھر جلدی سے نکالو لنچ باکس"۔ اس کے یوں کہنے پر دوسری ٹیچرز نے اس کی ہمت کو داد دی۔
"نہیں نہیں صالحہ۔۔۔ تم مت نکالو۔۔ اور آؤ ہمارے ساتھ لنچ کرو"۔ عروج نے الماس کو آنکھیں دکھائیں۔
"ارے ارے مجھے اچھا لگے گا اگر کوئی میرا ہاتھ کا بنایا لنچ چکھے گا۔ ویسے بھی یہ میں نے بنایا ہے"۔ وہ خوش تھی اور جلدی جلدی لنچ نکال کر آگے بڑھانے لگی۔
"چھکیں گے نہیں بھئی۔۔۔ ہم تو کھائیں گے۔۔ آجاؤ تم بھی ہمیں جوائن کرو۔ ویسے بھی کارڈینیٹر نے تمہیں صبح سے کام میں پھنسایا ہوا ہے۔ لنچ ٹائم کے بعد تمہاری پہلی کلاس ہے نا؟ آجاؤ فریش ہوجاؤ"۔ الماس اس کے لنچ باکس پر نظر کیے بڑی والی میں میز تک لے آئی۔ صالحہ کو وہ اچھی لگی۔ ہر دکھ درد سے عاری چہرہ اور مہکتا مزاج تھا اس کا۔ سب نے ساتھ میں لنچ کیا۔ کوئی مٹھائی لایا تھا، تو کوئی آلو کے پراٹھے۔ بہت سے لوازمات کے ساتھ رکھا صالحہ کا لنچ باکس اب خالی ہوچکا تھا۔ وہ تمام ٹیچرز ہی بہت اچھی تھیں۔ کسی نہ کسی بات پر کوئی ہنسی مذاق شروع ہوجاتا۔ اچانک بیل بجی اور ان میں سے آدھے لوگ کلاس میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ صالحہ کو نویں جماعت کا راستہ نہیں معلوم تھا۔ وہ بوکھلائی ادھر سے ادھر پھرنے لگی تھی کہ اتنے میں پیچھے سے الماس نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
"ارے صالحہ تمہیں چاہیئے تھا کہ مجھ سے پوچھ لو راستہ۔ میں بھی اپنی جماعت میں جارہی ہوں۔ جس جماعت کی تم کلاس ٹیچر ہو اس کے برابر والی جماعت کی میں کلاس ٹیچر ہوں۔ لیکن اپنی کلاس میں صبح ہی پیریڈ لے چکی ہوں اور اب مجھے دسویں جانا ہے"۔ وہ اس کا ہاتھ تھامتی جلدی جلدی چلنے لگی اور صالحہ بوکھلائی اس کے پیچھے پیچھے۔ الماس نے اسے اس کی جماعت کے باہر چھوڑا اور ہاتھ ہلاتی بازو والی جماعت میں گھس گئی۔ صالحہ نے تھوک نگلا اور قدم اندر بڑھائے۔
۔۔۔★★۔۔۔
تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا جب زید نے اس کے آفس روم میں داخل ہو کر کارڈ وجدان کی جانب اچھالا تھا جسے وجدان نے جھٹکے سے پکڑا تھا۔
"کیا یے یہ؟"۔ وجدان نے الجھی نگاہیں اس کارڈ پر ماریں۔
"تیرے بھائی کے ویاہ کا کارڈ ہے"۔ وہ کالر جھاڑتا ہوا چیئر پر بیٹھا۔
"تو کارڈ کیوں دیا؟۔ مجھے معلوم ہے تیری شادی پرسوں ہے۔ وقت بھی اتنی جلدی گزر گیا نا؟"۔ وہ پرانے دن یاد کرکے مسکرایا۔
"پہلی بات شادی کا کارڈ اپنی بھابھی کے لیے لایا ہوں"۔ اس نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔
"چلو ٹھیک ہے میں دیدوں گا اسے"۔ وجدان نے کچھ سوچ کر جلدی سے اس کارڈ کو اپنی دراز میں رکھنے لگا کہ زید نے جھپٹ کر پکڑا۔
"ایسے کیسے؟۔ خود آؤں گا میں گھر بھابھی کو کارڈ دینے"۔ وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔
"ارے ارے اس تکلف کی ضرورت نہیں میں کہہ دوں گا انہیں تم پریشان نہ ہو۔ شادی میں دو دن رہتے ہیں تم گھر میں رہ کر آرام کرو"۔ وہ تھوک نگل کر اس سے کارڈ لینے کی کوشش کررہا تھا۔ زید نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔
"بھابھی کی کاسٹ بٹ ہیں نا؟"۔ اسے اب کوئی شرارت سوجی تھی۔ وجدان اسے اچھی طرح سے جانتا تھا۔
"وہ اب صالحہ وجدان ہے بس تو اتنا ہی یاد رکھ سمجھا؟"۔ اسے گھورتے ہوئے کہا تھا۔
"وہ بٹ ہیں نا تو میں گھر میں داخل ہوتے ہیں بھابھی تہواڈے ویر دا ویاہ اے والا نعرہ لگادوں گا"۔
وجدان اس کی بات پر زور سے قہقہہ لگانے پر مجبور ہوا۔
"سدھر جا کل کو تیری بھی شادی ہے"۔ وجدان نے ہنستے ہوئے کہا۔
"ایکچوئلی پرسوں!"۔ وہ تصحیح کرتے ہوئے بولا۔
"ہاں ہاں۔۔ خیر تو دیدے کارڈ مجھے میں دیدوں گا"۔
"کیوں بھائی؟ گھر آؤں گا میں۔۔۔ لیکن تو ٹینشن نہ لے۔۔۔ تیرے کرتوت نہیں کھولوں گا"۔
"اچھا ایک بات تو بتاؤ۔۔۔ کوئی اور تو نہیں آرہا نا"۔ یہ بات پوچھتے ہوئے اس کا چہرہ عجیب ہوا تھا۔ زید چونکا۔
"کون؟"۔ اس کے ذومعنی لہجے کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ وجدان نے گہری سانس لی۔
"شہوار"۔ نگاہیں بمشکل اس کی جانب اٹھی تھیں۔ زید نے گہری سانس لی۔
"اگر وہ آئی تو؟"۔ زید نے بنھویں اچکائیں۔
"اگر میں کسی کا شوہر نہ ہوتا تو ضرور آتا۔۔۔ مگر اب میں کسی کا ہوچکا ہوں۔ اور جس کا ہوں اس نے بھی خود کو نکاح کے تین بولوں سے میرے نام کردیا ہے۔۔۔ میں زیادتی نہیں کرسکتا"۔ چہرہ مرجھایا ہوا نہیں تھا! زید کو حیرت ہوئی۔۔۔ وہ اب کی بار شہوار کا ذکر کرتے ہوئے مرجھایا نہیں تھا بس چپ ہوگیا تھا۔ صالحہ کا اثر واضح دکھ رہا تھا۔
"تجھے کیا لگتا ہے میں نے بلایا ہوگا؟"۔ ایک ہاتھ سے گاڑی کی چابی اچھال کر پکڑتے ہوئے وہ اس کا چہرہ بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ وجدان نے نفی میں سرہلایا.
"نہیں بلایا ہوگا"۔
"تو پھر؟۔ اور شہوار نہیں درشہوار بولو۔۔۔ بہت شوق ہورہا ہے ہر ایرے غیرے کو اپنے انداز سے بلانے کا"۔ زید نے سر جھٹکا۔ وجدان ہنس پڑا۔
"ٹھیک ہے تو کارڈ دینے آجانا لیکن اگر میری زوجہ نے یہ کہا کہ "میرے ویاہ دا تحفہ کتھے اے" تو مجھے کچھ نہ کہنا بھائی"۔ وہ گویا ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہوا تھا۔ زید کی رنگت فق ہوئی۔
"بھابھی کو میرا تحفہ نہ دینا یاد ہے؟"۔ وہ چونکا تھا۔
"یہ خبر تو نہیں مگر تمہاری منہوس شکل دیکھ کر انہیں تحفہ ہی یاد آنا ہے"۔ وہ اس کی گفتگو کو انجوائے کررہا تھا۔
"کوئی بات نہیں یار۔۔۔ لے آؤں گا کچھ"۔ وہ لاحولا کا ورد کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"چل پھر رات میں آتا ہوں"۔ وہ ہاتھ آگے بڑھاتا اس کے ہاتھ میں دیتا ہلانے لگا۔ "ابھی ویسے ہی بہت کام ہیں گھر پر"۔
وجدان نے ہنستے ہوئے سر ہاں میں ہلایا تو زید اس کی کمر پر تھپ سے مارتا باہر نکل گیا۔ وجدان ضبط کرتا رہ گیا۔ اس نے گھڑی دیکھی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ صالحہ کو لینے وقت ہونے والا تھا۔ 
۔۔۔★★۔۔۔

زنجیر (مکمل) Où les histoires vivent. Découvrez maintenant