قسط ۷

1.2K 90 12
                                        

"بس اور نہیں ویر! اب تو میں تھک گئی ہوں۔ کب تک پہنچیں گے؟"۔ وہ اکتا کر پہلو بدل کر بولی۔
حیدر نے گاڑی ایک بڑے ریسٹورینٹ کے سامنے روکی۔
"ہم پہنچ گئے ہیں صالحہ"۔ وہ مسکراتا ہوا بولا۔
صالحہ اور وہ دونوں ساتھ ہی اپنی اپنی سائیڈ سے اترے۔
"کہاں جانا ہے اب؟"۔ وہ فکرمندی سے بولی۔ حیدر گھومتا ہوا اس کی سمت آیا اور اس کا ہاتھ تھام کر سڑک پار کرنے لگا۔
"مضبوطی سے تھام لو مجھے ویر۔ ورنہ میں کسی کی گاڑی کے نیچے آجاؤں گی"۔ اس کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
حیدر نے اسے اور مضبوطی سے تھام لیا۔
"میرے ساتھ چلو"۔ اس کو آگے کرتے ہوئے وہ دونوں اب ساتھ سڑک پار کررہے تھے۔ رش اس سڑک بہت ذیادہ تھا۔ حیدر نے اس کا ہاتھ ریسٹورینٹ کے باہر چھوڑا تھا۔
"میں اپنی چادر ٹھیک کرلوں پھر اندر چلیں گے"۔ اس نے جلدی سے اپنی چادر ٹھیک کی اور ایک ہاتھ سے چادر سے چہرے کو چھپایا۔ اب اس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ حیدر اس دیکھتا ہوا اثبات میں سرہلاتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے آنے لگی۔ لوگوں کا ایک ہجوم ریسٹورینٹ میں موجود تھا۔ وہ اپنے پردے کی فکر کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے چہرہ ڈھانپے جلدی جلدی اس کے پیچھے آرہی تھی۔ حیدر رک کر کسی کو ڈھونڈنے لگا۔ وہ اسے دیکھ نہ پائی اور تیزی سے اس سے ٹکرا گئی۔ حیدر گلاسز اترتا پیچھے مڑا۔
"ویر مجھے ساتھ لے کر چلو ورنہ میں کھوجاؤں گی"۔ وہ روہانسی ہوگئی۔ حیدر کے دل میں کچھ ہوا اور اس نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"میرے ساتھ چلو! آجاؤ"۔ اسے تھامتے ہوئے وہ ہجوم سے نکلتا ہوا اسے ایک میز پر لے آیا جہاں پہلے ہی دو لوگ بیٹھے تھے۔ اس نے صالحہ کا ہاتھ چھوڑا اور سامنے بیٹھے شخص سے ہاتھ ملانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ سامنے بیٹھے شخص نے بھی بنھویں اچکا کر ہاتھ آگے بڑھایا۔ حیدر چھوٹتے پسینے کے ساتھ کرسی پر بیٹھا۔ صالحہ اس کے پیچھے ہی کھڑی رہی۔
"بیٹھ جاؤ صالحہ"۔ اس نے صالحہ کو کھڑا دیکھا تو اس کے لیے بیٹھے بیٹھے ہی کرسی کھینچی۔ وہ سامنے بیٹھے دو نفوس کو دیکھ کر تھوڑی خوفزدہ اور حیران ہورہی تھی۔ وجدان نے اسے دیکھنے سے گریز کیا۔ وہ بس حیدر کو سپاٹ لہجے میں تک رہا تھا۔ صالحہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے کرسی پکڑی اور اس پر بیٹھتی چلی گئی۔ حیدر کے مقابل بیٹھی وجیہہ نے صالحہ کی طرف خوش اسلوبی سے ہاتھ آگے بڑھایا جسے اس نے کچھ گھبرا کر پکڑا۔
"یہ کون ہیں"۔ اس نے حیرانی اور الجھے لہجے سے برابر بیٹھے حیدر سے پوچھا۔
"یہ وجدان ہیں اور یہ جیا۔۔۔ مطلب۔۔ وجیہہ ہیں۔ انہیں سے ملاقات کرنی تھی مجھے"۔ وہ زبردستی مسکراتا ہوا سپاٹ بیٹھا وجدان کو دیکھ کر بولا۔

"تو کیسے ہیں حیدر بٹ"۔ اس نے سر تا پیر اسے دیکھا۔ جیا نے بھائی کو ایک نظر دیکھ کر سامنے حیدر کو دیکھا۔
"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟"۔ اس نے اپنے آپ کو کمزور نہ کرنے کے لیے گلاسز اتار کر سامنے رکھے اور پھیل کر بیٹھ گیا۔
"دو تین دن پہلے تک بہت حد ٹھیک تھا"۔ وہ بہت کچھ کہہ گیا تھا۔ "خیر ہم باتوں کی طرف آتے ہیں"۔ وجدان نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اتنے میں ویٹر قریب آیا جسے حیدر نے روک دیا اور بعد میں آنے کو کہا۔
"جی بلکل! ہماری ملاقات اس لیے ہی طے پائی تھی"۔ اس نے خود کو ریلکس کرتے ہوئے جواب دیا۔

زنجیر (مکمل) Où les histoires vivent. Découvrez maintenant