مجھے یقین ہے وہ میرا ہے
کیونکہ میں نے اسے رب سے مانگا ہے
وہ جو سمے کی دھول میں زندگی گزری
مجھے کوئی اس کا احساس نہیں کہ اب
وہ میرا حصہ ہے میں اس کے دل کا مکیں
مجھے وہ زندگی سے بھر کر عزیز ہے کہ
میں نے اسکو دونوں جہانوں میں مانگا ہے
تو جب وہ یہاں میرا تو
پھر سارے جہانوں میں میرا
از منیزہ اختراولاد کی نعمت بلاشبہ اللہ کی نعمتوں میں سے بہترین نعمت ہے۔ انسان اولاد کے لیے جتنی دعائیں مانگتا ہے شاید ہی کسی اور چیز کے لیے مانگتا ہو. دنیا کا بہترین اور جزبات سے بھرپور جو احساس ہے وہ یقیناً اولاد کو تھامنے کا پہلی بار چھونے کا ہوگا۔۔۔۔ حنہ علی خان زندگی کے سب سے انوکھے احساس سے گزر رہی تھی۔ننھے منھے وجود کو چھوتے اس کی آنکھیں نم تھیں۔ نرس نے سب سے پہلے بیٹا اس کی گود میں دیا تھا اور حنہ کے لئے خوشی اور تشکر کے لفظ چھوٹے پڑنے لگے تھے۔ جس وقت نرس اس کی بیٹی کو اس کے بازو میں دے رہی تھی اس وقت حدید کمرے میں داخل ہوا تھا۔ ہاتھ میں پکڑے ہینڈ بیگ کو اس نے سائیڈ ٹیبل پے رکھا اور نرس کو جانے کا اشارہ کرتے وہ بیڈ کے قریب آیا۔
یہ دونوں کتنے پیارے ہیں۔۔۔ وہ ممتا کے گہرے احساس سے لبریز انداز میں بولی۔
ماشاءاللّٰه ۔۔۔۔ حدید نے بیٹی کو بازو میں لیتے ہوئے کہا۔
اذان کس نے دی۔۔۔؟؟؟
ڈیڈ نے۔۔۔۔
اور پہلی خوراک....؟؟؟
ڈیڈ اور میں نے مل کر۔۔۔۔ اس کے جواب پے وہ خوشی سے سر ہلانے لگی۔
نام کیا رکھے۔۔۔۔؟ حنہ کے پوچھنے پے حدید نے اس کو آنکھیں چھوٹی کر کے دیکھا۔تمہارے بغیر کیسے رکھتے۔۔۔۔ تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔ اس کے جواب پے حنہ نے اس کو پیار سے دیکھا۔
اچھا اب ان کو ذرا سائیڈ پے کرو۔۔۔۔ مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ وہ یکدم سنجیدہ ہوا تو حنہ کو حیرت نے گھیرا۔ حدید نے خود ہی پکڑ کے بچوں کو حنہ کے بائیں جانب لٹا دیا، خود دوسری جانب سٹول رکھا، کہنی کو بیڈ پے رکھا اور ہاتھ پے چہرے کو ٹکا کر اس کو دیکھنے لگا۔
گلابی ہسپتال کے گاؤں میں اس کا زردی مائل چہرہ مسرت اور شادمانی کی چھاپ لئے ہوئے تھا۔ بالوں کو کیچر میں جکڑ کر ڈھیلے انداز میں سکارف لیا ہوا تھا۔ حدید کا دیکھنے کا انداز ایسا تھا کہ حنہ کنفیوژ ہونے لگی۔
کیا ہوا ہے۔۔۔۔ کیا بات کرنی ہے۔۔۔۔؟وہ بول اٹھی۔
ایکچوئیلی جب جب میں کچھ پلین کرتا ہوں تب تب کچھ اور ہی ہو جاتا ہے اور اس بار میں نے کچھ پلین نہیں کیا بس ایک خیال آیا اور اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ وہ ایک جذب سے بولا حنہ کو کسی انہونی کا احساس ہوا۔سمجھ نہیں آ رہی کہ بات کہاں سے شروع کروں۔۔۔۔ وہاں سے جب ہماری شادی ہوئی تھی یا وہاں سے جب بہت کچھ غلط ہوگیا تھا۔ لیکن میں کوئی بھی غمگین بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے بس اچھی اچھی باتیں۔۔۔۔ لیکن میں پہلے کچھ باتیں کلیر کرنا چاہتا تھا۔ وہ کہہ کر خود ہی سنجیدہ ہوا۔۔۔۔" جبکے وہ بس اسکو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔
YOU ARE READING
زنجیرہِ تمایز مکمل
Mystery / Thrillerیہ کہانی کچھ کھو چکے رشتوں کی، کچھ انجان لوگوں کی محبت کی، کچھ کڑوۓ اپنوں کی، یہ کہانی ہے ہمارے اس معاشرے کی جہاں ہم اپنی اناٶں کو اونچا رکھتے ہیں اور اپنے ہی رشتوں کو بھول کھو دیتے ہیں۔ آٸیں پڑھتے ہیں اور ملاتے ہیں ان رشتوں کو جو کھو چکے ہیں۔