تم مت کھولنا میری ماضی کی کتابوں کو
جو تھا وہ رہا نہیں، جو ہوں کسی کو پتا نہیںانہی لمحوں میں دوسری جانب اگر "خان محل" کے لان میں دیکھا جاۓ تو حدید علی خان میسیج بھیج کے اب لان چیرز پے بیٹھا گہری سنجیدہ نظروں سے آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اسکو حنہ کا "تم" کہنا برا لگا تھا۔ لیکن فیلحال اس نے اس بات کو ہاٸی لاٸٹ نہیں کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کے وہ خفا ہو گٸ۔ تبھی اسکو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن وہ تو حد سے زیادہ خفا ہو رہی تھی۔
تبھی لہروں کی مدد سے اسکو حنہ کا میسیج موصول ہوا۔
"بلکل میں نے آپ کو دیکھا تھا۔ جب آپ اپنی گاڑی کے پاس کھڑے موبائل میں مصروف تھے"
میسیج پڑھ کے وہ سر جھٹکتا ہوا ہنس دیا۔ حدید کا ذہن پیچھے جانے لگا۔ شاید وہ کچھ گھنٹے پیچھے نا جاتا اگر اسطرح کا خفگی سے بھرپور میسیج نا ملتا۔"ابراہیم تم ریسٹورنٹ پہنچو میں بس رستے میں ہوں یار.... اچھا معافی دے اب مجھے آ رہا ہوں ناں..." حدید نے خفگی سے کہتے ہوۓ گاڑی کا ٹرن لیا۔
آج اسکا ابراہیم کے ساتھ ڈنر کا پروگرام تھا۔ ابراہیم ظفر اسکا انتہاٸی قریبی اور بہترین دوست تھا۔ ابراہیم کے علاوہ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کے حدید علی خان کے ساتھ فری ہوتا۔ اور اس قصے میں ابراہیم ظفر وہ انسان ہے، جو سب سے جدا ہے۔ بلا کا منہ پھٹ اور بے وقوف.... جو لوگ ابراہیم اور حدید دونوں کو جانتے تھے وہ حیران دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کے ہوتے، حدید سنجیدہ اور دوٹوک مزاج کا انسان تھا، انتہاٸی سمجھدار اور ذہین اور ابراہیم بات کر کے سوچنے والا کے، سمجھ اس میں تھی لیکن استعمال وہ موقع گزرنے کے بعد کرتا تھا۔
گاڑی پارک کر کے وہ ریسٹورنٹ کی طرف بڑھا تھا۔ آج کل وہ بلکل چپ تھا اور یہ چپ ابراہیم کی کال سے ٹوٹی تھی۔ اور ساتھ ساتھ اسکا مطالبہ کے ڈنر اکٹھے کرنا ہے۔ اور شاید دنیا میں صرف ابراہیم ہی واحد شخص تھا جس کے لیے حدید علی خان کے پاس "ناں" نہیں تھی۔ وہ تو اپنے ماں باپ کا کام بھی اپنی مرضی کے بغیر نہیں کرتا تھا۔
کرسی گھسیٹ کے وہ اب بیٹھ چکا تھا اور ابراہیم کو گھور رہا تھا جو کہ موبائل میں مصروف ایسے پوز کر رہا تھا جیسے بلکل اکیلا ہو۔
"ابراہیم ظفر...." ٹیبل بجا کے اور لفظ چبا چبا کے متوجہ کیا گیا۔ ابراہیم نے چونکنے کی اداکاری کی۔
اوووہ تو آپ جناب آ گۓ.... ابھی بھی نہیں تھا نکلنا اپنے حجرے سے...." ابراہیم نے تیکھے لہجے میں کہا تو حدید نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں ہاتھ جھلایا۔
"آرڈر کر دیا...؟"حدید نے پوچھا۔
"میرا دماغ خراب ہے....میں آرڈر کر دوں اور جناب کی کال آۓ کے سوری ابراہیم میں نہیں آ سکتا....مطلب میں تو رل گیا ناں...." حدید نے اسکو گھورا تو وہ پھر بولا۔
YOU ARE READING
زنجیرہِ تمایز مکمل
Mystery / Thrillerیہ کہانی کچھ کھو چکے رشتوں کی، کچھ انجان لوگوں کی محبت کی، کچھ کڑوۓ اپنوں کی، یہ کہانی ہے ہمارے اس معاشرے کی جہاں ہم اپنی اناٶں کو اونچا رکھتے ہیں اور اپنے ہی رشتوں کو بھول کھو دیتے ہیں۔ آٸیں پڑھتے ہیں اور ملاتے ہیں ان رشتوں کو جو کھو چکے ہیں۔