Episode 18

1.2K 83 66
                                    

قسط نمبر 18

قصّہِ غم ابھی مت چھیڑو کہ درد بہت ہے
دل کی حسرتوں کا ابھی مت پوچھو کہ درد بہت ہے

جب کچھ وقت گزر جاتا ہے اور اشک خشک ہو جاتے ہیں
تب آنا میں تمہیں بتاؤں گی، ابھی درد بہت ہے

جب وقت گزر جاتا ہے اور یادیں خاک اڑاتی ہیں
اشک خشک ہو کے اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں

پھر ہر آہٹ پے ہر چاپ پے دل نہیں دھڑکتا ہے
سکون کی ایسی ندی میں کوئی پتھر نہیں گرتا ہے

جب حالی حالی، خشک ویران آنکھیں ہوتی ہیں
اور دل کا ختم ہو چکا درد ہوتا ہے

جب کھوکھلی کھلکلاہٹیں عروج پے ہوتی ہیں
اور لوگوں کی قیاس آرائیاں مشہور ہوتی ہیں

پھر سنائیں گے تمہیں ایک ایسے درد کی کہانی
جو نا لمبی ہے نا چھوٹی ہے، 'د' سے شروع 'د' پے ختم ہوتی ہے

یہ بس 'د' سے شروع 'د' پے ختم ہونے والی کہانی ہے
جس کے درمیاں میں 'ر' آتا ہے اور یہ 'ر' رلا جاتا ہے

بس ابھی مت پوچھو کہ یہ 'درد' کیسا 'درد' ہے
یہ سب تو بس 'درد' کی دوا ہے کہ ابھی 'درد' بہت ہے   از منیزہ اختر

حدید علی خان ایک ایسا کردار ہے، جو اپنے اندر تمام اوصاف رکھتا ہے... وہ ہر لحاظ سے ایک شاندار شخصیت تھی... لیکن اس شاندار شخصیت کے پیچھے کیسی کھنڈر عمارات تھی یہ بس وہی جانتا تھا۔

وہ ساڑھے سات سال کا تھا، جب بورڈنگ چلا گیا تھا... ماں, دادا اور بی بی جان... اکثر مل آتے... ان کے ساتھ کبھی کبھار پلوشہ چچی اور زوہیب چچا بھی ہوتے، مگر زیادہ تر ملنے آنے کے لیے یہ ہی تین ہستیاں ہوتیں... حدید چھٹیوں میں بھی واپس " خان محل " نہیں جاتا تھا، بلکہ وہ مانسہرہ خالہ کے پاس جانا زیادہ مناسب سمجھتا تھا....

وقت نے اس چھوٹے سے بچے کو ایسے زخم دیے تھے کہ وہ عمر سے پہلے سنجیدہ ہو گیا... کوئی بات کرتا تو جواب دے دیتا, ورنہ خود سے بھی بلانا گوارا نا کرتا.... ہوسٹل میں بھی اس نے کوئی دوست نہیں بنایا تھا، مگر ایک نینسی تھیں، جن کی وہ ہر بات مانتا تھا وہ ہوسٹل کے ورکرز میں سے تھی۔

اولیولز ختم ہوا تھا تو دادا جان اس کو لینے آگئے...  دادا جان اپنے پوتے کو دیکھ کر نہال ہوئے جاتے... وہ لمبا سا سرخ و سپید رنگت والا دلکش نو عمر لڑکا تھا... دادا جان کو یقین تھا کہ اب کی بار کوئی بد مزگی نہیں ہو گی... آخر کونسا باپ اتنی خوبصورت اور توانا اولاد کو ٹھکراتا ہے... مگر یہ یقین باطل ہو گیا اور خوش فہمی ختم ہو گئی.

حدید سب کچھ بھلا کر گھر آیا تھا... وہ بچہ تھا، ابھی اس کے رویوں میں لچک تھی... دل میں ایک خلش ضرور تھی کہ اسکو نارمل فیملی نہیں ملی، مگر اسکو ایک اُمید تھی کہ کیا پتا سب ٹھیک ہو جائے... یہ امید کیسے کیسے انسانوں کو کھا جاتی ہے اور کیسے کیسے انسانوں کو زندہ رکھتی ہے...

زنجیرہِ تمایز مکملWhere stories live. Discover now