Episode 17

894 68 12
                                    


Assalam o alikum last episode ki numbering ghalt ho gai thi wo episode 16 thi, ab parain episode 17

قسط نمبر 17

قصّہِ غم ابھی مت چھیڑو کہ درد بہت ہے
دل کی حسرتوں کا ابھی مت پوچھو کہ درد بہت ہے
از منیزہ اختر


یہ قصہ ہے کہ حادثہ... کہانی ہے کہ داستان... سننے والے کچھ اور بتاتے ہیں اور دیکھنے والے کچھ اور... سمجھ نہیں آتی کہ بات وہی سے شروع ہوئی تھی، جہاں حادثہ ہوا تھا یا وہاں سے جب حسد نے جنم لیا تھا... ماضی کی بھول بھلیاں انسان کو رُلا جاتی ہیں.... دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ حادثہ تھا... اور سننے والے... جاننے والے... وہ کہتے ہیں، سازش تھی... بس یہیں سے ڈور الجھتی ہے... آیا ایک چار سالہ بچہ سازش کر سکتا ہے... ؟ یا پھر کیا ساڑھے چار سالہ بچی حادثے کا شکار ہو سکتی ہے.... ہاں حادثہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے... بوڑھا ہو یا بچہ... لیکن سازش... سازش بچے نہیں کر سکتے... تو جو بات سمجھ آتی ہے... وہ یہ کہ، حسد کا شکار لوگوں نے قصے کو, داستان کو حادثے کی بجائے سازش بنا دیا...

یہ انا پرست لوگوں کی دنیا ہے
یہاں حسد کا راج ہے
یہ اپنی جیت کے منصوبے میں ہیں
یہاں آخرت کا احساس کہاں ہے

تو اگر ہم ایک نظر پیچھے جائیں... ماضی کی گلیوں سے ہوتے ہوئے... ٹھیک نبے کی دہائی میں... جب موبائل فون عام نہیں تھے، مگر بہت سی برائیاں جنم لے چکی تھیں...  جہاں انسانیت ختم نہیں ہوئی تھی، مگر حسد زندگیوں میں شامل ہونے لگا تھا...

وہ آتی گرمیوں کے دن تھے.... سائے لمبے ہونے لگے تھے... علی موسی خان اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ لاہور اپنے بیٹے کے گھر آئے ہوئے تھے...
دوپہر کے کھانے کے بعد سب آرام کرنے لگے اور پھر شام میں زوہیب علی خان بچوں کو لے کر قریبی پارک میں آگئے.....

مہنا چوٹ لگنے کی وجہ سے سہمی ہوئی تھی... دادا جان کے آ جانے سے وہ تھوڑی نارمل ہوئی تھی، مگر ابھی بھی وہ کھل کر ماحول کا حصہ نہیں بن پا رہی تھی... زوہیب علی خان کی گود میں بیٹھی, وہ اپنے سامنے کھیلتے تینوں لڑکوں کو دیکھ رہی تھی. خاندان والوں سے وہ بہت کم ملی تھی... وجہ شرجیل علی خان کا شہر میں جاب کرنا... وہ دو تین مہینے بعد  "خان محل"  کا چکر لگاتے تھے... لیکن صرف ایک آدھ دن کے لیے... ایسے میں خان محل سے ہی کوئی نا کوئی جاتا رہتا اور زیادہ تر علی موسیٰ خان جاتے تھے... مگر پھر ایک سال پہلے انکا ٹرانسفر لاہور ہو گیا اور وہ بما فیملی لاہور آ گئے... یہ ایک سال کا عرصہ انہوں نے فیملی کو منایا تھا، جو انکے اس طرح دوسرے شہر جانے سے خفا تھے. اور اس ایک سال میں مہنا خاندان والوں کو بھول گئی تھی، بس دادا جان یاد تھے اور وہ بھی بس نام سے... سکول جانے کی وجہ سے وہ بھی بھولنے لگے... مگر پھر چوٹ نے یاد دلا دی اور اب مہنا کی ضد پے وہ سب یہاں تھے.

وہ ماں باپ کی لاڈلی اور نازک سی بیٹی تھی... جس کی ہلکی سی چھینک بھی انہیں پریشان کر دیتی... اور کچھ مہنا بھی باقی بچوں سے مختلف تھی, وہ کسی بھی چیز کا اثر، جلد ہی لے لیتی تھی اور خوفزدگی میں اس کو سب بھول جاتا اور وہ مزید سہم کے رہ جاتی...

زنجیرہِ تمایز مکملWhere stories live. Discover now