Episode 19

1.1K 80 44
                                    

قسط نمبر 19

        زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
        قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو پلین کر کے گزاریں گے، یہ بھی کریں گے، وہ بھی کریں گے، مطلب کے جتنے ideas ہم سوچ سکتے ہیں زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے سوچتے ہیں اور کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں، جو خوبصورت بنانے کا بے شک نا سوچیں لیکن کچھ باتیں، کچھ خواہشات رکھتے ہیں، کچھ مقصد، کچھ منصوبے ضرور رکھتے ہیں۔ لیکن یہ تو ہم ہوتے ہیں جو مقصد اور منصوبات بناتے ہیں، جبکے تقدیر تو پہلے سے ہی سب کچھ طے کر کے بیٹھی ہے حدید علی خان کا بھی یہ ہی منصوبہ تھا کہ وہ کبھی پاکستان واپس نہیں جائے گا، نا ہی وہ اپنے خاندان سے ملے گا، مگر قسمت، تقدیر اور وقت ہمیشہ انسان کو وہاں لا کر کھڑا کر دیتی ہے، جہاں ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا اور اگر سوچا بھی ہو تو نفی میں ہی سوچا ہو گا۔

حدید علی خان جب واپس اسٹریلیا آیا تھا تو اپنی طرف سے سارے ناطے ختم کر کے آیا تھا۔ ہر انسان سے اس کا دل اٹھ گیا تھا، اب اسکے دل میں نا کسی رشتے کی چاہ تھی نا ہی مان... اس کو دنیا نے نہیں، اسکے اپنوں نے ٹھوکر پے رکھا تھا اور ہر ٹھوکر کے بعد وہ مزید زہریلا ہو جاتا... لوگوں سے ملنا جلنا بلکل ختم کر دیا تھا، اگر کوئی کزن سوشل میڈیا پے نظر آتا تو وہ سیدھا بلاک لسٹ میں جاتا، اگر اسکو لگتا کہ یہ انسان مشکوک نام سے ہے تو اس کو بھی پہلی فرصت میں بلاک کرتا۔

اسکے پاس صرف ابراہیم ظفر تھا، جو انسان حدید کو سب سے پیارا تھا، جب وہ دادا جان کی موت کے بعد واپس آیا تو بلکل ہی چپ اور ٹوٹا بکھرا تھا اور ابراہیم کے اسرار پے اس نے پہلی بار اپنی زندگی کا ہر واقع اسکے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ ابراہیم اس کے غم پے غمگین تھا، پھر حدید کو ہنسانا اور بے وجہ تنگ کرنا ابراہیم کا فرض بن گیا۔

جو لوگ ابراہیم کو جانتے تھے وہ حدید کے ساتھ ابراہیم کی دوستی پے حیران ہوتے کہاں وہ کھڑوس سا انسان اور کہاں شغلی سا ابراہیم ظفر ہر چیز میں برعکس، وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم تھے۔

گریجویشن کے دو سال مکمل ہوئے تو پاکستان سے اسماریہ آئی وہ وہاں سائیکالوجسٹ بننے آئی تھی اور اُن دونوں سے دو سال چھوٹی تھی، حدید تو ہمیشہ کی طرح نو لفٹ کا بورڈ لگا چکا تھا، مگر ابراہیم کی وہ بہن تھی اس کے لیے اہم تھی، مگر حدید کے لیے اسکو اگنور کر دیتا... اسماریہ اس اگنورینس پے خوب آنسوں بہاتی سب سمجھاتے کہ حدید کی وجہ سے ایسا کرنا پڑتا ہے مگر وہ نا مانتی اس طرح زبردستی دونوں میں گھستی...

اس دن ابراہیم گھر کے کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا جب اسماریہ حدید کے روم میں آئی... حدید اُسکو اپنے کمرے میں دیکھ کر مُنہ بنانے لگا... اور پھر اس کے بیڈ پے بیٹھتے ہی خود باہر کی جانب بڑھ گیا۔

"لالہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے... " اسماریہ اداس انداز میں بولی، حدید اسکے انداز پے نہیں بلکہ لالہ کہنے پے حیران ہوا تھا اور حیران نظروں سے ہی اسکو پلٹ کر دیکھا۔

زنجیرہِ تمایز مکملWhere stories live. Discover now