زندگی اتنا کیوں تھکا دیتی ہے
کیوں یہ ایک پل ہنسا کے
صدیاں رولا دیتی ہے
کبھی فیصلہ کرنا دشوار ہے
کبھی ہمتیں جو اب دے جاتی
زندگی کیوں پل میں ویران ہو جاتی ہے
کبھی سہاروں کے لئے بے شمار لوگ
کبھی پاؤں رکھنے کو زمین بھی نہیں
زندگی کیوں ہے آنکھ مچولی جیسی
کبھی دل کی دھڑکن کی طرح ہے کہ
ہر رنگ میں لپٹی ہوئی
کبھی ایسی وحشت بھری ہوئی کہ
کلی، مدھم سی آواز بھی نہیں از منیزہ اختروہ صبح بہت اجلی چمکیلی سے تھی، ماحول میں خوبصورت سی مہک رچی تھی اور فضاؤں کو ایک انجانی سرور دیتی موسیقی نے معطر کر رکھا تھا، ایسی حسین صبح کے دیکھنے والے دنگ رہ جائیں، قدرت نے کیسا نکھار بخشا تھا...... کیا سورج کی کرنیں بھی ایسی ترو تازگی بخشتی ہیں...؟ جیسی آج بخش رہی تھی...... ہر چیز سے خوشبوئیں پھوٹ رہی تھیں..... کہ اگر کوئی کھلی فضا میں سانس لیتا، تو جان لیتا کہ حسین، خوبصورت، مہکتی، سرور دیتی...... فضا میں سانس لینے سے.....جسم و جان کیسے معطر ہو جاتے ہیں.... ہلکے پھلکے...... ہر اضطراب سے پاک.....
لیکن وہ دو وجود، جو صبح اٹھنے کے عادی تھے، صبح کی کھلی فضا میں سانس لینے کے عادی وجود، آج سوتے رہ گئے....... یہاں تک کے آج کے حاص دن کی فجر بھی قضا ہوگی..... سورج اپنا سفر طے کرتے کرتے کتنا نکل آیا..... روشنی چاروں اور بکھر چکی تھی۔
ایسے ماحول سے نکل کر ابراہیم، خان محل میں داخل ہوا اور حدید کے کمرے کی طرف جاتی سیڑھیوں کی اور بڑھا، سامنے کچن سے چائے کا مگ پکڑ کے نکلتی فاطمہ کی نظر ابراہیم پے پڑی.....بے اختیار سائیڈ پہ جھولتے ڈوپٹے کو سیٹ کر کے وہ سامنے آئی۔
"السلام علیکم لالہ..... کیسے ہیں...؟" فاطمہ بولی، تو ابراہیم چونکا۔
"وعلیکم سلام..... میرا حال چھوڑو.... یہ بتاؤ کیا یہ شادی والا گھر ہے...؟ یار کوئی اتا پتا ہی نہیں..... کہیں غلط پتے پے تو نہیں آگیا...؟" ابراہیم کو جس چیز نے انٹرینس سے لے کر، یہاں تک الجھائی رکھا، فاطمہ کو سامنے دیکھ کر فٹ پوچھ لیا۔
"ہاہاہاہا آپ بالکل ٹھیک پتے پر آئے ہیں اور یہ شادی والا ہی گھر ہے.... ایکچولی رات لیٹ نائٹ تک دھوم دھڑکا کرتے رہے.....بڑے سب تو اپنی ڈیوٹیز نبھا رہے ہیں......بس ہم بچے ہی سوئے ہوئے تھے۔" فاطمہ نے وضاحت دی۔واقعی وہ سب لیٹ تک جاگے تھے، ہشام اور حسان کو بھی بلا لیا تھا، زونی تو نہ آئی، لیکن اس کا چھوٹا بھائی ضرور آ گیا تھا، تو پھر خوب ہلاگلا ہوا، بڑے تو گیارہ بجے ہی سونے کے لیے اٹھ گے تھے..... تو باقی رہ گیا حدید تو وہ کمرے سے ہی نہیں نکلا تھا۔
"واہ مجھے بھی بلا لیتے..... آفٹر آل اکلوتے بیسٹ فرینڈ کی شادی ہے...." ابراہیم نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
"ضرور بلاتے..... اگر آپ کا بیسٹ فرینڈ بھی شامل ہوتا..." فاطمہ نے ناک چڑھاٸی۔
"واٹ.... کیا وہ شامل نہیں تھا اور ابھی کہاں ہے...؟" ابراہیم حیرت سے پوچھنے لگا۔
YOU ARE READING
زنجیرہِ تمایز مکمل
Mystery / Thrillerیہ کہانی کچھ کھو چکے رشتوں کی، کچھ انجان لوگوں کی محبت کی، کچھ کڑوۓ اپنوں کی، یہ کہانی ہے ہمارے اس معاشرے کی جہاں ہم اپنی اناٶں کو اونچا رکھتے ہیں اور اپنے ہی رشتوں کو بھول کھو دیتے ہیں۔ آٸیں پڑھتے ہیں اور ملاتے ہیں ان رشتوں کو جو کھو چکے ہیں۔