خان ولا میں زیب خان اور اُن کے تین بیٹوں کی فیملی مقیم ہے سب سے بڑے بیٹے کاظم خان جن کی شادی اُن کی پھپھوزاد فریحہ سے ہوئی تھی اُن کے دو بیٹے ہیں بڑا شمس جو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اب اپنا آبائی کاروبار سمبال رہے ہیں اُن کے بعد آتا ہے ارحم جو یونی کے لاسٹ ایئر میں ہے دوسرے نمبر پر حازم خان ہیں جن کی شادی اُنکی پسند سے اپنی یونی فیلو سوریہ سے ہوئی تھی اُنکی دو بیٹیاں ہیں پریاب اور دنین وہ دونوں بھی ارحم کے ساتھ یونی کے لاسٹ ایئر میں ہیں لیکن تینوں کے سبجیکٹ مختلف تھے آخر میں سب سے چھوٹے ناظم خان جن کی شادی اُن کی تایا زاد ہاجرہ سے ہوئی اُن کے دو جڑواں بیٹے ہیں اذلان اور جزلان۔۔۔پریاب اور ارحم کا رشتہِ بچپن میں ہی مسز زیب خان نے طے کردیا تھا اور ایک سال پہلے انکا نکاح بھی کر دیا گیا تھا۔۔۔
**********
دو پل جو تم ساتھ چلنا۔۔
عمر بھر یونہی ساتھ نبھانا۔۔۔بن کے میرے ہمقدم
مُجھے سہی رہا دیکھانا۔۔۔بیچ منجھدار میں مجھ کو چھوڑ
کے کبھی نہیں جانا۔۔۔۔تیرے بنا مُشکِل ہے
میرا یوں منزل کو پانا۔۔۔بیڈ پر بیٹھی وہ اپنے من پسند شاعر کی کتاب کو پڑھنے میں مصروف تھی جب علیزے اُسکے کمرے میں داخل ہوئی۔۔
کیا سارا دن اس کتاب میں گم رہتی ہو کبھی اس پاس کا بھی ہوش کرلو۔۔اُسنے اُسکے ہاتھ سے کتاب چینتے ہوئے کہا۔۔۔
خود جب اُس ریڈیو اسٹیشن والے کی آواز سنتے تم دنیا سے بے گانہ ہو جاتی ہو میں تو نہیں کہتی تمہیں کچھ۔۔۔علینا نے اُسّے ایسی نظروں سے گھورا کر کہا جیسے ابھی کچا چبا جائے گی۔۔۔
میں تو تمہیں یہ بتانے ائی تھی کے تمہارے اس فضول شاعر کی ایک نئی کتاب ائی ہے لیکن بھاڑ میں جاؤ اب تم۔۔۔علیزے نے آنکھیں گھما کر کہا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے جب علینا نے اُسّے کلائی سے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا۔۔۔
کب ائی ہے۔۔تمہیں کس نے بتایا۔۔۔اف اف مجھے کیسے پتہ نہیں چلا۔۔۔بتاؤ نہ تمہیں کس نے بتایا۔۔اُسنے ایک ہی سانس میں کہیں سوال پوچھ لیے۔۔۔
ماہی نے بتایا ہے ابھی کل ہی مارکیٹ میں ائی ہے۔۔
***************
یار علیزے نہیں ہے کتاب تو چھوڑو نہ اب گھر چلتے ہیں ۔۔یہ تیسرا دوکان تھا جس پر وہ اُسّے لیکر ائی تھی مگر اُسکی مطلوبہ کتاب مل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
باجی وہ کتاب تو ختم ہوگئی آخری کاپی تھی جو اُن صاحب نے لیلی۔۔۔دکاندار نے اُسکے پوچھنے کے بعد کہا اور علیزے نے مڑ کر اُس طرف دیکھا جہاں دکاندار نے اشارہ کیا تھا۔۔۔
وہ ہاتھ میں کتاب لیئے اپنے ساتھ کھڑے لڑکے سے بات کر رہا تھا دونوں میں کافی مماثلت تھی۔۔۔
ایکیوز می۔۔وہ ہاتھ میں کتاب لیے اذلان سے کسی موضوع پر بات کر رہا تھا جب کسی نے اُسّے پُکارا۔۔
جی۔۔وہ اُسکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا کالی آنکھیں لمبے سلکی کالے بال جو اس وقت پونی میں قید تھے چہرے پر معصومیت جزلان تو دو پل کے لیے ٹھہر سا گیا تھا۔۔۔
کیا آپ مجھے یہ کتاب دے سکتے ہیں۔۔اُسنے اُس کے ہاتھ میں موجود کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اُسکی آواز پر جزلاں ہوش میں ایا۔۔
یہ کتاب تو میں لے چکا ہوں۔۔۔وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے بولا۔۔
دیکھیں میں آپکو اسکے ڈبل پیسے دینے کیلئے تیار ہوں اپ پلیز مجھے وہ کتاب دیدیں۔۔۔
آپکو یہی کتاب کیوں چائیے۔۔۔۔
یہ میرے پسندیدہ شاعر کی کتاب ہے۔۔
لیکن میں یہ آپکو نہیں دینا چاہتا۔۔اُسنے مسکراہٹ دبا کر کہا ۔۔۔
جب دینی نہیں تھی تو فضول کی پوچھ تاچھ کیوں لگا رکھی تھی سیدہ سیدہ بول دیتے نہیں دینی لیکن نہیں جہاں لڑکی۔۔۔وہ ابھی اسے مزید سنانے کا ارادہ رکھتی تھی مگر علیزے نے اُسّے ٹوک دیا۔۔۔
چھوڑو نہ علینا ہم کسی دوسرے دوکان سے لے لینگے۔۔۔اُسکی آواز سن کر پاس کھڑا اذلان چونکا تھا اُسنے غور سے اُس لڑکی کو دیکھا ہلکی شہد رنگ آنکھیں براؤن بال جو پُشت پر بکھرے ہوۓ تھے میک اپ سے پاک چہرہ وہ بہت خوبصورت تھی یا پھر شاید اُسے لگ رہی تھی۔۔۔
**************
وہ دوکان سے باہر گاڑی کی طرف جا رہیں تھی جب دکاندار اُنہیں پکارتا ہوا انکے پیچھے ایا۔۔۔
باجی جی یہ کتاب۔۔اُسنے اُسکی طرف وہ کتاب برائ۔۔ یہ تو ختم ہو گئی تھی نہ۔۔
جی اُن صاحب نے آپکو دینے کا کہا ہے۔۔۔علینا کی خوشی کی تو انتہا ہی نہیں تھی آخر کو اُسے اپنی پسندیدہ کتاب جو میل گئی تھی۔۔۔
یہ لیں۔۔اُسنے اُس دکاندار کی طرف پیسے بڑھائے
پیسے تو وہ صاحب دے کر گئے ہیں۔۔
کیا چلے گئے۔۔وہ اُسے شکریہ کہنا چاہتی تھی
جی چلے گئے۔۔دکاندار کہتا اپنی دکان کی طرف چلا گیا۔
**********
کیا ہوا بیگم کیا سوچ رہی ہیں۔۔۔ اکرم شاہ نے عظمیٰ بیگم کو کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا۔۔۔
میں سوچ رہی ہوں ہمیں حداد کی شادی کر دینی چائیے یوں تنہا رہے گا تو ماضی کبھی اُسکا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔وہ ماں تھی اپنی اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر انکو بھی تکلیف ہوتی تھی مگر ہم لوگوں کا یہ تجزیہ بہت غلط ہوتا ہے کے شادی ہوگئی تو سب ٹھیک ہو جائیگا ہم یہ نہیں سوچتے کے ایسی شادیوں میں ہمیشہ دوسرا فریق تکلیف برداشت کرتا ہے ۔۔۔۔۔
بات تو آپ بلکل ٹھیک کر رہی ہیں مگر کیا وہ مانے گا۔۔۔۔
اُسّے منانا میرا کام ہے۔۔۔اکرم شاہ کو راضی ہوتا دیکھ کر وُہ خوشی سے بولیں۔۔۔
پھر تو آپ نے لڑکی بھی پسند کرلی ہوگئی ورنہ آپ کبھی ایسے ہی کوئی بات نہیں کرتی۔۔۔وہ اپنی شریک حیات کو بہت اچھے سے جانتے تھے۔۔
ہاں لڑکی تو میں نے پسند کرلی ہے اور میں جانتی ہوں وہ لوگ کبھی انکار نہیں کرینگے۔۔۔۔انہوں نے یقین سے کہا۔
اچھا تو ہمیں بھی تو بتائیں کوں ہے وُہ لڑکی ۔۔۔اُنہیں تجسس ہوا۔۔
آپکے دوست حازم خان کی چوٹھی بیٹی مجھے تو وہ اس دن ہی پسند آگئی تھی جس دن ہم وہ ہمارے گھر ڈنر پر ائے تھے ماشاللہ کافی پیاری بچی ہے ہنسمُک اور خوش مزاج بھی ہے۔۔۔
حازم خان اور اکرم شاہ دونوں اسکول کے زمانے کے دوست تھے مگر اکرم شاہ اپنی پڑھائی کے غرض سے بیرونی ملک چلے گئے تھے اور ابھی حال ہی میں واپس پاکستان شفٹ ہوئے تھے انکا ایک بیٹا حداد اور دو بیٹیاں علیزے اور علینا تھی۔۔وہ اکلوتے ہونے کی وجہ سے بھائی کی کمی محسوس کرتے تھے جو حازم نے پوری کردی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ اُنکی دوستی آج بھی اتنی ہی گہری تھی اور اب اپنی بیگم کی بات سننے کے بعد وہ سوچ میں پڑگئے تھے۔۔۔
*************
آج اُسکا جوب پر پہلا دن تھا اسلئے وہ بہت nervous تھی۔۔۔
فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ ناشتہ بنانے چلی گئی۔۔۔
ارے امی آپ باورچی خانے میں کیا کو رہی ہیں میں بنا دیتی ہوں ناشتہ آپ بیٹھے ۔۔۔اُسنے شازیہ بیگم کو باورچی خانے میں دیکھ کر کہا اُسکی فکر پر وہ مسکرادی
اللہ تمہیں کامیاب کرے میری جان۔۔انہوں نے اُسکا ماتا چوم کر کہا ایک وہی تو تھی اُنکا سب کچھ شوہر کے انتقال کے بعد انہوں نے کتنی مشکلات کا سامنا کیا تھا صحیح کہتے ہیں لوگ جس عورت کے سر پر مرد کا سائبان نہ ہو اُس کے لیے زندگی بہت تنگ کردی جاتی ہے مگر اللہ کسی کو بے آسرا نہیں چھوڑتا کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا ہی دیتا ہے۔۔۔
وہ انہی سوچو میں گھوم تھی جب اُنہیں دانیہ کی آواز سنائی دی۔۔۔
اچھا اماں میں چلتی ہوں اپنا خیال رکھیے گا اور دوائی وقت پر لیجئے گا ۔۔۔۔۔
اُسکے تنبیہہ کرنے پر وہ مسکردیں۔۔۔
*************
اسلام علیکم سر۔۔۔اُسنے آفس میں داخل ہوتے ہی سلام کیا آفس روم بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا دیواروں پر نفیس تصویریں لگی ہوئی تھی پورا روم بلیک اور وائٹ کلر کے فرنیچر سے اراستا تھا۔۔۔
وسلام مس دانیہ پلیز بی سیٹئڈ۔۔۔شمس نے فائل سے نظر اٹھا کر اُسّے دیکھا جو کالی چادر میں خود کو چھپائے اُنگلیاں مروڑ رہی تھی میکپ سے پاک چہرہ جس پر اس وقت گبھراہٹ وضع تھی۔۔۔
اُسکے کہنے پر دانیہ ایک کُرسی پر ٹک گئی۔۔
پیر کیسا ہے اب آپکا۔۔۔اُسکے سوال پر دانیہ نے حیرت سے اُسے دیکھا جیسے اُسّے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی۔۔۔
جی اب ب۔بہتر ہے نظرے جُھکا کر جواب دیا گیا
مس ماریہ آپ میرے آفس میں ائے پلیز۔۔۔انہوں نے انٹرکام پر اپنی سیکرٹری کو بلوایا اور پھر دانیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔
آپکا تعلیمی ریکارڈ بہت شاندار ہے مس دانیہ میں اُمید کرتا ہوں آپ کی طرف سے مجھے کوئی کوتاہی یہ شکایت نہیں ہوگی مجھے ھر کام پرفیکٹ اور وقت پر چائے ہوتا ہے از اٹ کلیئر مس دانیہ۔۔۔۔وہ اس وقت بلکل پروفیشنل بسینز مین لگ رہے تھے۔۔۔اُنکی بات پر اُسنے سر ہلا دیا
مس ماریہ آپ انہیں انکی ٹیبل دیکھا دیں اور انکا کام بھی سمجھا دیں۔۔۔اسے سمجھانے کے بعد وہ اپنی پی اے کی طرف متوجہ ہوئے جو ابھی دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔
جی سر۔۔۔وہ سر ہلا کر دانیہ کو اپنے ساتھ لے گئی۔۔۔
****************

YOU ARE READING
راہِ عشق
Romanceیہ میرا پہلا ناول ہے اس سے پہلے میں ایک کہانی لکھ چکی ہوں لیکن یہ ناول کافی مختلف ہے اُمید کرتی ہوں آپکو پسند ایگا ۔ محبت کرنا آسان ہوتا ہے نبھانا نہیں اس کہانی میں آپکو انسان کی محبت کے ساتھ اُسکے عشق کی داستان بھی دیکھنے کو ملے گی۔۔۔