ٹکراؤ

92 15 6
                                    

حال میں بیٹھے سب لوگ دا جی کے فیصلے کے منتظر تھے جب دا جی نے بات شروع کی۔۔۔۔
حداد بہت ہونہار بچا ہے مگر دنین ابھی پڑھ رہی ہے اور آخری فیصلہ بھی اسی کا ہوگا اگر اُسکی طرف سے ہاں ہوگی تو ہماری طرف سے یہ رشتہِ پکا ہے۔۔۔
دا جی کی بات پر سب اطمینان سے مسکرادیے جبکہ اکرم شاہ بولے۔۔۔
پڑھائی تو وُہ شادی کے بعد بھی مکمل کر سکتی ہے ہماری طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی ویسے بھی حازم نے بتایا تھا اُسکا آخری سال ہے باقی اپنے بلکل ٹھیک کہا دا جی آخری فیصلہ دنین کا ہی ہوگا۔۔۔
                 ****************
وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا جب اُسکا کسی سے زور کا تصادم ہوا اُسنے بروقت مقابل کو کلائی سے پکڑا ورنہ وہ بڑے زور کا گیرتی۔۔۔۔
آپ آنکھیں کھول سکتی ہیں مس علیزے۔۔۔۔اُسنے اُسکی کلائی چھوڑتے ہوئے کہا اور علیزے تو یہ آواز ہزاروں میں پہچان سکتی تھی اُسنے فٹ سے آنکھیں کھولیں مگر سامنے اذلان کو دیکھ کر اُسکی آنکھوں میں حیرت وضع تھی۔۔۔۔
ا ا ا آپ۔۔۔اُسے صرف اتنا ہی بولا گیا۔۔۔
ج ج جی میں وہ بھی اسی کے انداز میں بولا اور علیزے میڈم اپنی نقل اُتارے جانے پر جھنمپ گئی وہ بغیر اُسکی طرف دیکھے جانے لگی جب اس نے اُسے پُکارا۔۔۔۔
علیزے۔۔۔۔وہ رکی مگر پلٹی نہیں تھی
بس کچھ نہیں۔۔۔اُسکی بات پر علیزے مسکراہٹ دباتی وہاں سے چلی گئی کتنا اچھا لگتا تھا نہ اُسکے منہ سے اُسکا نام ہائے۔۔۔۔

                       **************
سب لوگ کھانے کی میز پر جمع تھے وہ اُسکے سامنے والی کُرسی پر بیٹھا تھا اور بڑی فرصت سے اُسکا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔
شکل سے کتنا شریف لگتا ہے اور گھور ایسے رہا ہے جیسے کچا چبا جائے گا اگر گھورنا ہی ہے تو اچھے سے گھورے یہ تو ایسے گھور رہا جیسے میں نے اسکی بکری چرا لی ہو ہنہ۔۔۔۔دنین نے حداد کو دیکھ کر کڑھ کر سوچا جو چہرے پر سنجیدہ تاثرات لیے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
                       ***************
رات کو وہ سونے کی تیاری کر رہی تھی جب اذلان اُسکے کمرے میں ایا۔۔۔
اپیا آپ کو دا جی اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں
اچھا چلو میں اتی ہوں وہ سلیقے سے دوپٹہ سیٹ کرتی دا جی کے کمرے کی طرف چلدی۔۔۔۔
                               ***********
اسلام علیکم دا جی۔۔۔وہ کمرہ  کا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوئی اور دا جی کے برابر والی کُرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
وعلیکم اسلام میری جان۔۔۔۔انہوں نے اپنی پیاری پوتی کو دیکھا۔۔۔
اپنے بلایا تھا سب خیریت۔۔۔۔اُسے پریشانی ہوئی۔۔۔
الحمداللہ بچے سب ٹھیک ہے ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے حازم کے دوست کی فیملی سے تو آپ آج مل ہی چکی ہونگی۔۔۔۔
جی۔۔۔اُسنے اُلج کر اُنہیں دیکھا
انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے آپکا رشتہِ مانگا ہے۔۔۔۔اُنکی بات پر اُسکی آنکھوں کے سامنے بقول اُسکے گھوری کی مشین یعنی حداد کا چہرہ آگیا۔۔۔
لیکن دا جی میری پڑھائی ایک دو مہینے بعد میرے پیپرز شروع ہونے والے ہیں۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی۔۔۔
اُنہیں آپکی پڑھائی سے کوئی مسئلہ نہیں آپ شادی کے بعد بھی پڑھائی مکمل کر سکتی ہے مجھے اور آپکے ابو کو یہ رشتہِ کافی پسند ایا ہے لیکن آخری فیصلہ آپکا ہی ہوگا۔۔۔۔کتنی اُمید تھی اُنکے چہرے پے کتنا مان تھا جیسے وہ جانتے تھے وہ اُنکا مان نہیں تھوڑے گی اور اُسنے تھوڑا بھی نہیں تھا۔۔۔۔
اگر اپنے فیصلہ کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا دا جی مُجھے یہ رشتہ منظور ہے۔۔۔اُسکے سر جھکا کر کہنے پر اُنکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔
ہمیں آپسے یہی اُمید تھی بچے۔۔۔
                          *************
کمرے میں آتے ہی وُہ بستر پر لیٹ گئی لیکن نیند اُسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔
لیکن کوئی اور بھی تھا جسکی رات آنکھوں میں کٹنے والی تھی۔۔۔
وہ سٹڈی میں بیٹھا سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا مگر آج اُسکی سوچو کا رکھ ماضی نہیں وہ لڑکی تھی یا پھر اُسکی آنکھیں ہاں اُسکی آنکھیں بلکل ویسی ہی تھی وہی رنگ اُس دِن مال میں بھی وہ اُسکی آنکھیں دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔۔۔۔
            کون دے گا سکون آنکھوں کو
            کسے دیکھوں جو نیند آجائے
                     **************
وہ دونوں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھی تھی پریاب کتابوں میں سر دیے بیٹھی تھی اور وہ آسمان پر بادلوں کو دیکھ رہی تھی جب اُسّے ارحم کی آواز سنائی دی۔۔۔
میری بہنیاں بنے گی دلہنیا اوہ ہو اہ ہا۔۔۔وہ گانے کی ٹانگ توڑتا اُسکے برابر میں بیٹھ گیا جبکہ اُسکے بیٹھنے پر پرياب اُچھل کر دور ہوئی تھی لیکن پھر دوبارہ سر کتابوں میں دے دیا۔۔۔
اف ارحم مجھے تو لگا یونی میں کوئی مانگنے والا آگیا ہے ویسے یونی ختم ہونے کے بعد تم یہ کام شروع کر سکتے ہو نوکری تو تمہیں کہیں ملنی نہیں ہے۔۔۔دنین نے اُسے نادر مشورے سے نوازا۔۔۔
ٹوبہ توبہ لڑکیاں اپنی شادی کی بات پر شرماتی ہیں اور تم یوں منہ پاڑ کر ہنس رہی ہو اللہ اللہ کیا زمانہ ا گیا ہے۔۔۔وہ بڑے بزرگوں کی طرح سر پیٹتے ہوئے بولا۔۔۔
تم تو مجھے شرم وحیا کے پاٹ نہ ہی پڑھاؤ تو اچھا ہے ہوں بے شرم انسان نہ ہو تو ۔۔۔وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ٹکا کے جواب دیا تھا اُسّے۔۔۔
ہم تو بے شرم تھے ہیں اور رہینگے ہم سے ٹکر نہ کرنا بچا منہ کی کھاؤگی۔۔۔ارحم نے فرضی کولر چڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔
مُجھے کوئی شوق بھی نہیں ہے تم سے ٹکرانے کا تم جیسے موٹے سے ٹکراکے مجھے مرنے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔۔  ارحم تو منہ کھولے اُسے دیکھنے لگا بھئی اچھا خاصا ہینڈسم بندہ تھا وہ بھورے بال بھوری روشن آنکھیں چہرے پر ہمہ وقت رہتی شوخی اور مسکراتے وقت اُسکی گال پر پڑتا ڈمپل اگر معصوم چہرے کے ساتھ شیطانی دماغ ہونا ایک نعمت تھی تو جی ارحم صاحب اس نعمت سے مالا مل تھے کہی لڑکیاں مرتی تھی اُس پر جبکہ اُسکے موٹا کہنے پر پریاب کی ہنسی بے ساختہ تھی  اُسے ہنستا دیکھ ارحم صاحب بھی اپنی بےعزتی بھولائے مسکرانے لگے ایسے ہی تو ڈھیٹ مشہور نہیں ہوا تھا ارحم کا ماننا تھا کہ وہ بے عزتِی پروف پیدا ہوا تھا اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں تھی ایک بار اگر ارحم صاحب کسی کے پیچھے پر جاتے تو اُسے منت سماجت کرنے کے بعد بھی بخشش نہ ملتی ارحم کی نظر یونی میں لگے cctv کیمرہ سے بھی زیادہ تیز تھی سٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ ٹیچر بھی اس آفت سے پنا مانگتے تھے لڑکیوں میں وہ ہینڈسم مصیبت کے نام سے مشہور تھا۔۔۔۔
                         *************
وہ اپنی کلاس کی طرف جا رہی تھی جب کسی سے اُسکا بڑے زور کا تصادم ہوا۔۔۔۔
What the hell۔۔۔
اُسکے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے جب اُسنے اپنے سامنے سہمی کھڑی لڑکی کو دیکھا ایسا لگ رہا تھا کچھ دیر میں وہ رونا شروع کر دیگی۔۔۔
س س سوری میں نے آپکو د دیکھا نہیں تھا۔۔۔اُسکے لیے تو بولنا ہی مُشکِل ہو گیا تھا۔۔۔
ارے پری تم یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔۔اوہ ہیلو مسٹر ایسے کیا گھور رہے ہو ہاں۔۔۔ارحم نے وہاں آتے ہی پری کو مخاطب کیا وہ اُسّے اُسکا جرنل دینے ایا تھا جو وہ گراؤنڈ میں بھول گئی تھی مگر اس لڑکے کو پریاب کو گھورتے دیکھ اُسکا پارا ہائی ہو گیا اور مسٹر پھڈے باز کی روح اس میں سما گئی وہ کہاں برداشت کر سکتا تھا اپنی محّبت پر کسی کی نظر۔۔۔
اوہ ہیلو تم سے بات کر رہا ہوں۔۔اُسنے اَپنی آستین چڑھاتے ہوئے کہا مگر مجال جو مقابل کو فرق پڑا ہو وہ ابھی بھی اسی طرح نظرے جھکائے ارحم کے پیچھے چھپی پریاب کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ار۔۔ ا۔۔ ارحم چھوڑے ن ۔۔نا چلے یہاں س ۔۔سے اُسنے رندھے ہوئے لہجے میں اُسکی آستین کا کونا پکڑ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
تم تم۔کیوں رو رہی ہو یار۔۔۔اُسنے اُسکے آنسو پونچھنے کے لیے ہاتھ برہایا تھا جب اُسنے اُسکا ہاتھ پکڑ کر منت بھرے لہجے میں کہا
ارحم پلیز۔۔وہ تو تھی ہی صدا کی ڈرپوک مگر نہ جانے کیوں اُس شخص کی نظروں سے اُسّے خوف ا رہا تھا۔۔۔
اچھا چلو ۔۔۔وہ اُسّے اپنے ساتھ لے گیا مگر جاتے ہوۓ اُس لڑکے کو گھورنا نہیں بھولا تھا۔۔۔
                       **************

         
اسلام علیکم ریڈرز۔۔۔کیسے ہے آپ سب تو کیسا لگا آپکو آج کا episode ضرور بتائیے گا ۔۔

راہِ عشقTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang