ملاقات

115 14 3
                                    

وُہ فون پر بات کرنے کے بعد واپس اُس دکان کی طرف چل دیا جہاں علیزے اور علینا تھیں۔۔
یار علینا جلدی کرلوں میرا شو شروع ہونے والا ہے صرف آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے۔۔۔۔
ایک دن شو میں کال نہیں کروگی تم تو وہ rj فوت نہیں ہوجائے گا۔۔۔علینا نے منہ بگاڑ کر کہا۔۔۔
اللہ نہ کرے اُسّے کچھ ہو۔۔الیز تو رونے والی ہوگئی تھی۔۔
بھائی نہیں کہتی کچھ تمہارے اس mr rj کو ۔۔۔۔
***********
وہ شاپنگ بیگ لیے اپنے دھیان میں چل رہی تھی جب کسی سے اُسکی زوردار ٹکر ہوئی۔۔۔
آج تو یہ لڑکی گئی اليز نے علینا کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھ کر نہیں چل سکتی آپ مس۔۔حداد نے سخت لہجے میں مقابل کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
اور دنین میڈم جن کی زبان ہر وقت پٹر پٹر چلتی رہتی ہے آج چُپ چاپ سر جھکائے کھڑی تھی۔۔
آنکھوں کے ساتھ کیا کان بھی خراب ہیں آپکے۔۔اُسکے طنز پر دانی کی آنکھوں میں نمی جمع ہوگئی اُسنے ہلکا سا سر اٹھا کر مقابل کو دیکھا۔۔۔۔
اُسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر وہ ٹھٹکا تھا لیکن پھر اُسّے نظرانداز کرتا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔

**************
گھر آتے ہی سب سے پہلے اُسنے شو چلایا تھا۔۔۔ ابھی شو شروع ہونے میں پانچ منٹ تھے۔۔
وہ بیٹھی وقت کے گزرنے کا انتظار کر رہی تھی جب کسی کی گھمبیر آواز کمرے میں گونجی۔۔۔
اسلام علیکم کراچی دیس اس یور ار جے اذلان شاہ ۔۔۔
کیسے ہیں آپ لوگ۔۔
اُمید ہے خریت سے ہونگے۔۔۔
تو آج کا ہمارا موضوع ہے زندگی۔۔۔
اُسکی آواز سنتے ہی علیزے کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ پھیل گئی اُسنے فون اٹھاتے ہوئے کسی کو کال ملائ۔۔۔
اسلام علیکم دس از علیزے فروم کراچی۔۔۔اسپیکر سے اُسکی آواز گونجی تھی وہ اُسکے شو کی ریگولر کالر تھی اب تو اُسکا نام بھی اُسے یاد ہو چکا تھا۔۔۔
وعلیکم اسلام تو کیسی ہے آپ مس علیزے۔۔
الحمدللہ۔۔۔اُسنے یک لفظی جواب دیا۔۔۔
آج کے موضوع کے بارے میں کیا کہنا چائے گی آپ۔۔۔
زندگی بھی کسی کتاب کی طرح ہوتی ہے ہم لمحہ با لمحہ وقت کے کورے کاغذ پر اپنی خوشیوں اور غموں کی سیاہی سے اُسمے پل پل کا احوال درج کرتے ہیں کسی ورق پر ہمارے غم تحریر ہوتے ہیں تو کسی پر ہماری خوشیاں۔۔۔۔وہ دھیمی آواز میں کحے رہی تھی اور فون کے اُسپار بیٹا وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اُسکی گہرائی میں کہیں بات پر حیران ہوا تھا۔۔۔۔
                  ****************
اُف دانی اف تم نے اس سریل کی اتنی باتیں کیوں سنی۔۔۔وہ کمرے میں ٹہلتے ہوئے کڑ کر سوچ رہی تھی اُسّے اپنے آپ پر بہت غصّہ آرہا تھا کیوں اس نے اُسّے منہ توڑ جواب نہیں دیا تھا۔۔۔
                     **************
پریاب۔۔وہ اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب ارحم نے اُسّے پُکارا اور اُسکے پکارنے پر وہ اُچھل کر مڑی اُسکے اچھلنے پر ارحم نے اپنی مسکراہٹ دبائی
جی۔۔اُسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اُسنے اس پاس بھی نظر دوڑائی۔۔۔
ارحم نے اُسکی طرف ایک لال ڈبا بڑھایا۔۔۔
یہ کیا ہے۔۔اُسنے گھبرا کر پوچھا۔۔
یار ایسے کیوں گھبرا رہی ہو تمہارے لیے بریسلیٹ لایا ہوں کوئی بم تھوڑی ہے جو ایسے ڈر رہی ہو۔۔اُسنے مذاق میں کہا۔۔۔
لیکن میں یہ کیسے لے سکتی ہوں۔۔۔وہ چہرہ جُھکا کر بولی اور ہمیشہ کی طرح ارحم کا دل اُسکی اٹھتی گیرتی پلکوں میں اٹکا تھا۔۔۔
ایسے۔۔اُسنے ایک ہاتھ میں ڈبی کو پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن امی کہتی ہیں کے۔۔۔۔وہ ابھی بول رہی تھی جب ارحم نے اُسے ٹوک دیا۔۔۔
چاچی جان نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ شوہر کی ہر بات مانتے ہیں۔۔۔
بتایا ہے لیکن آپ میرے شوہر تو نہیں ہیں۔۔۔اُسنے کنفیوز ہوتے ہوئے کہا۔۔
نکاح کے بعد لڑکا لڑکی میاں بیوی ہوتے ہیں سمجھی۔۔کہتے ساتھ ہی اُسنے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسکے ہاتھ میں بریسلیٹ پہنا دیا۔۔۔۔ تیرا کیا بنیگا ارحم بیٹا اُسنے دل میں سوچا۔۔۔
                            ***********
رات کے بارہ بج رہے تھے وہ اپنے کمرے میں ہاتھوں میں کوئی کتاب لیے بیٹھی تھی آنکھوں میں سے آنسو رواں تھے جیسے جیسے وہ آگے پڑھتی جا رہی تھی انسئوں  میں مزید شدت آتی جا رہی تھی پھر اچانک دروازہ کھلا اور انے والی شخصیت کو دیکھ کر اُسکی آنکھیں خوف سے پھیل گئی۔۔۔
ا۔۔ام۔۔امی آ۔۔آپ۔۔اُسنے اُنہیں دیکھ کر ہکلاتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں میں اب تمہارا کوں ہوتا سوتا مار گیا جو یوں رو رہی ہو۔۔۔انہوں نے تیوری چڑھائی۔۔۔
ہائے اماں ملیحہ مر گئی۔۔۔۔اُسّے گحرا صدمہ لگا تھا۔۔
کوئی نئی بات نہیں ہے یہ تمہاری آن منحوس ناولوں میں تو روز کوئی نہ کوئی مرتا ہی رہتا ہے دو مجھے یہ منحوس کتاب سارا دن اس میں گھسی رہتی ہو پریاب بھی تمہاری ہی بہن ہے کبھی دیکھا ہے اُسّے یوں نالائقوں کی طرح دیر تک جاگتے ہوئے۔۔۔
اماں جو کہنا ہے مجھے کہیں مگر میری ناول کے بارے میں میں کچھ نہیں سنو گی۔۔۔اُسکی بات پر امی نے اُسے ایک گھوری سے نوزنے کے بعد کتاب اُسکے ہاتھ سے چھین لی اور دروازے کی طرف بڑھ گئیں جب پیچھے سے اُسکی آواز ائی ۔۔
اماں اتنی ظالم نہ بنے کیوں مجھ سے میرے جینے کی وجہ چھین رہی ہیں۔۔۔اُسنے کمال ایکٹنگ کا مظاہرہ کیا۔۔۔مگر وہ بھی اُسکی ہائی ماں تھی اُسے نظرانداز کرتی چلی گئیں۔۔۔
ضرور ابا سے جھگڑا کیا ہوگا huh تبھی مجھ پے غصّہ نکل رہی ہیں۔۔۔وہ بڑبڑاتی سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔

راہِ عشقDonde viven las historias. Descúbrelo ahora