تیری یاد

89 14 2
                                    

میرے رگ و پے میں سما گیا وہ شخص۔۔
میری زندگی میں چاہ گیا وہ شخص۔۔
میرے دل سے دل ملا گیا وُہ شخص۔۔
مُجھے خوش نصیب بنا گیا وُہ شخص۔۔
مُجھے دے گیا اپنی ہر خوشی۔۔
میری آنکھوں سے نیند چرا گیا وہ شخص۔۔
جانے کیا بات تھی ایسی اُس میں۔۔
مُجھے محبت کرنا سیکھا گیا وہ شخص۔۔
کاغذ پر قلم کو گھسیٹتے آنکھوں میں اُس کا حسین چہرہ موجود تھا آج یہ پہلی بار ہوا تھا کے لکھتے ہوئے اُسے کسی کی یاد ائی ہو کاغذ پر لکھا ہر لفظ اُسّے اپنی حالت پر لکھا محسوس ہو رہا تھا اُسنے تھک کر قلم کتاب میں رکھ کر کتاب بند کردی اور کُرسی پر بیٹھے آنکھیں موند گیا۔۔۔
                              ***********
وہ کافی دیر سے سو رہی تھی آج اُسکا خان ولا میں دوسرا دن تھا  فریحہ بیگم نے اُسکے لیے کل ہی ایک کمرہ سیٹ کروا دیا تھا اور کل سے ہی وہ اس کمرے میں بند تھی فریحہ بیگم نے اُسے کھانے کے لیے بلایا تو اُسنے سر درد کا کہہ کر منا کر دیا تھا اس وقت وہ کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی وہ نیند میں تھی جب دروازے پر ہوتی مستقل دستک سے ہڑبڑا کر اٹھی اور دروازہ کھول نے کے لئے اٹھی۔۔۔
سامنے دروازے پر دنین چہرے پر پریشانی لیے کھڑی تھی۔۔
"سب خیریت تو ہے نہ دانیہ اپی میں کب سے دروازہ بجا رہی تھی"۔۔وہ اُنہیں دیکھ کر فکر مندی سے بولی
"ہاں وہ میں سو رہی تھی سوری"۔۔۔وہ شرمندہ ہوکر بولی۔۔۔
"ارے کوئی بات نہیں چلے میں آپکو لینے ائی تھی"۔۔اُسنے اُسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
"مگر کہا جا رہے ہیں ہم"۔۔۔ ارے آپ چلے تو صحیح میرے ساتھ۔۔۔وہ دانی ہی کیا جو کسی کی سن لے اُسے اپنے ساتھ ایک کمرے میں لے گئی جہاں ساری جوان ٹولی جمع تھی سوائے شمس کے وہ اس وقت آفس میں تھا دانی نے اُسے اپنے برابر بیڈ پر بیٹھا دیا جہاں پریاب پہلی ہی بیٹھی تھی جبکہ اذلان جزلن اور ارحم سامنے رکھے صوفہ پر براجمان تھے۔۔۔
"اسلام علیکم اپی"۔۔اُن سب نے اُسکے اتے ہی ایک آواز ہوکر کہا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اُسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔
"آپ سوچ رہی ہونگی ہم نے آپکو یہاں کیوں بلایا ہے تو میں آپکی اس کنفیوژن کو دور کر دیتا ہوں"۔۔۔ارحم نے کھڑے ہو کر کسی ماہر پروفیسر کی طرح کہا تو سب ہنس دیے جبکہ اُسنے صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔۔۔
"جیسے کے آپ ہمیں نہیں جانتی تو میں نے سوچا کیوں نہ ہم سب آپکو ایک اچھا سا انٹرو دیدیں تو سب سے پہلے شمس لالہ ہے جنکو تو آپ جانتی ہی ہے پھر آتا ہے بندہ ناچیز کا نمبر"۔۔اُسنے سر کو تسلیم کم کرتے بڑے انداز سے کہا تھا۔۔۔
"میں ہوں آپکا کیوٹ ہینڈسم اور ڈیشنگ سا بھائی ارحم آپکو کوئی بھی مسئلہ ہو تو آپ مُجھے بتا سکتی ہے میں دو منٹ میں حل کر دونگا مُجھے سب پتہ ہوتا ہے ہر مسئلے کا حال موجود ہے آپکے اس ذہین بھائی کے پاس"۔۔۔اور ارحم صاحب اپنی تعریفوں کے پل باندھنا شروع ہو چکے تھے جیسے بریک دانی نے مداخلت کرکے لگائی تھی۔۔۔
"ارحم اگر تمہاری تعریفوں کا پل بند چکا ہو تو اب پری کی باری ہے"۔۔اُسنے دانت کچکچا کر کہا۔۔
"ہاں ہاں بولو پری شاباش" اُسنے ایسے کہا جیسے کسی بچے کو بہلا رہا ہو۔۔۔
'میرا نام پریاب ہے اور میں دنین کی بڑی بہن ہوں"۔۔اف یہ سادگی اُسنے دھیمی آواز میں ایک ہی لائن میں اپنا انٹرو کروادیا جس پر ارحم کا منہ بن گیا۔۔۔
"یہ کیسا پھیکا سا انٹرو ہے میں دیتا ہوں اسکا انٹرو بھی"۔۔۔ارحم نے مداخلت کی بیچارے کا اپنی زبان پر اختیار جو نہیں ہے۔۔۔
"تو دانیہ اپی جیسے کے میں آپکا بھائی ہوں تو یہ آپکی بھابھی ہے آپکے ہینڈسم بھائی کی خوش نصیب منکوحہ ویسے راز کی بات بتاؤں تو کافی سگھڑ بھی ہیں یہ میڈم۔۔۔آخری بات اُسنے کچھ رازداری سے کہیں تھی اور اُسکی باتیں سنتی پریاب تو شرم سے لال ہوگئی تھی۔۔۔
اب میری باری ہے دانیہ اپی میں دنین ہوں مگر آپ مجھے دانی بولا سکتی ہیں میں مائنڈ نہیں کرونگی اُسنے دانیہ کی توجہ اپنی طرف دلائی اور اپنا تعارف کروایا۔۔۔
آپ دونوں اپنا تعارف نہیں کروائیں گے۔۔۔اُسنے خاموش بیٹھے اذلان اور جازلان کو مخاطب کیا اب وُہ خود کو کافی comfortable فیل کر رہی تھی۔۔۔
کروناگے نہ وُہ دونوں ایک ساتھ بولے
میں جازلان ہوں مجھے کتابیں پڑھنا بہت پسند ہے۔۔
اور میں اذلان ہوں اس گھر میں سب سے چھوٹا۔۔اُن دونوں نے باری باری اپنا تعارف کروایا اور پھر سب باتوں میں مشغول ہوگئے اس سب کا مطلب دانیہ کو سب کے ساتھ comfortable کرنے کا تھا جس میں وُہ کافی حد تک کامیاب ہوئے تھے۔۔۔
                            ************
دانی۔  تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔۔وہ اپنا ہرا دوپٹہ سر پر ٹھیک کرتی دنین سے بولی جو آئینے کے سامنے کھڑی بال سیٹ کر رہی تھی پنک کلر کا پھولوں والا فروک اور ہمرنگ پجاما پہنے وہ کافی حسین لگ رہی تھی۔۔۔
ہاں بس ہوگئی تیار چلو اسنے پریاب کو دیکھ کر کہا جو پنک اور ہرے رنگ کا ڈریس پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور ناک میں پہنی لونگ اُسے مزید حسین بنا تھی تھی۔۔۔
دنین ۔۔پریاب جلدی کرو آنٹی تم دونوں کو نیچے بلا رہی ہیں کالے رنگ کا کرتا ٹراؤزر پہنے اُسکے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ لیے اور ساتھ لال رنگ کی پھولوں والی چادر لیے وہ سادگی میں بھی ہمیشہ کی طرح دل مح لینے کا ہنر رکھتی تھی وہ اب کافی حد تک یہاں ایڈجسٹ کر چکی تھی۔۔۔
ہاں بس اپی چلیں۔۔وہ دونوں کہتی اُسکے ساتھ نیچے چلی گئیں جہاں گاڑیوں میں سب اُنکا انتظار کر رہے تھے سب بڑے آگے والی دو گاڑیوں میں تھے جن میں سے ایک شمس اور دوسری حازم شاہ ڈرائیو کر رہے تھے جبکہ دنین پری دانیہ اذلان اور جذلن ارحم کے ساتھ تھے۔۔۔
                           *************
پری سنو۔۔وہ سب شاہ ہاؤس میں اندر جا رہے تھے جب ارحم نے اچانک اُسے پُکارا اور وہ یوں اچانک پکارے جانے پر اُچھل کر مڑی جس پر ارحم نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔۔
جی اُسنے نظرے جُھکا کر کہا۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔اُسنے سرگوشی کے انداز میں کہا جس پر وہ شرماتی اندر بھاگ گئی اور وہ بھی اُسکے پیچھے چل دیا۔۔۔
                            ************
سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جبکہ جذلاں علینا کو ٹک ٹکی باندے دیکھے جا  رہا تھا جس پر وُہ بار بار پہلو بدل رہی تھی وہ ایسا نہیں تھا یوں لوگو کی موجودگی فراموش کرکے لڑکیوں کو گھورنے والا مگر وُہ کہتے ہے نہ
عشق نے نکما کر دیا غالب
ورنہ آدمی ہم بھی بڑے کام کے تھے۔۔
اور آج تو اُسنے اُسکا پسندیدہ سبز رنگ پہن رکھا تھا جس کی وجہ سے اُسکے لیے نظرے ہٹانا مُشکِل ہو گیا تھا۔۔۔۔
بدتمیز لوگوں میں بیٹھنے کی تمیز نہیں ہے ہوں کیسے جاہلوں کی طرح گھور رہا ہے ایک بار بات کرلی تو فری ہو رہا ہے۔۔۔اُسنے کڑھ کر سوچا اُسکا بس نہیں چل رہا تھا سامنے پڑا شو پیس اُسّے دے مارے مگر بیچاری کا بس ہی تو نہیں چل رہا تھا۔۔۔
جبکہ دوسری طرف علیزے اذلان کی بولتی نظروں سے بار بار شرمائے جا رہی تھی سفید رنگ کی ٹروزر شرٹ کے ساتھ پنک دوپٹہ پہنے آنکھوں میں کاجل ڈالے وُہ اُسکا دل دڑھکا رہی تھی۔۔۔
                        *************
ڈنر کافی خوشگوار ماحول میں کیا گیا تھا ڈنر کے بعد سب لوگ باہر لان میں بیٹھے تھے بڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے جبکہ نوجوان ٹولی الگ کونے میں کرسیوں پر بیٹھی تھی ارحم نے سب سے دانیہ کا تعارف کروایا تھا اور سب باتوں میں مصروف تھے جب دانی کو خود پر کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا اُسنے سامنے دیکھا تو حداد آج بھی اُسے اسی دن کی طرح دیکھ رہا تھا مگر اُسکے دیکھنے پر اُسنے نظرے پھیر لی۔۔
او تو یہ گھوری کی مشین آج پھر مجھے گھور رہے ہے انہیں تو میں شادی کے بعد سیدہ کرونگی ہوں بڑے ائے مجھے گھورنے والے۔۔۔وہ مستقبل کے پلان بنا رہی تھی مگر کون جانے کل کو اُسکے لیے قسمت کونسے امتحان لیۓ بیٹھی تھی۔۔۔
                            ************
نکاح کی تاریخ اس ہفتے کی آخر میں رکھی گئی تھی حداد نے صاف کہہ دیا تھا کے وہ منگنی جیسے فضول رسمو میں نہیں پڑنا چاہتا نکاح سے دو دن بعد مہندی اور مایوں کی ڈیٹ فکس کی گئی تھی اُسکے بات رُخصتی اور ولیمہ طے پایا گیا تھا مسٹر شاہ نے اسرار کرکے جلدی شادی کا کہا تھا جس وجہ سے اب دونوں گھروں میں افرا تفری کا ماحول تھا آج ارحم اذلان اور جازلاں اُن تینوں لڑکیوں(دانی٫پری اور دانیہ)کو شاپنگ پر لے جانا تھا جبکہ گھر کے بڑے باقی تیاریوں میں busy تھے۔۔۔دوسری طرف علیزے اور علینا نے حداد کے منت سمجت کرکے اُسے شپنگ کے لئے منہ ہی لیا تھا۔۔۔
                            ************

راہِ عشقWhere stories live. Discover now