آئی ایم سوری مسٹر خان"ڈاکٹر کے الفاظ اُسے کس نوکیلی چیز کی طرح اپنے کانوں میں چوبتے محسوس ہو رہے تھے۔۔
"خون بہت بہنے کی وجہ سے وہ کوما میں چلے گئے ہیں"ڈاکٹر کے باقی الفاظ نے اُسے کچھ راحت بخشی تھی۔۔۔
"ہم ایک بار بھائی کو دیکھ سکتے ہیں پلیز"جضلان نے نم لہجے میں پوچھا کتنا مُشکِل ہوتا ہے نہ ہر پل بولنے والے کو مذاق کرنے والے کو یوں خاموش دیکھنا۔۔۔
"سوری ابھی اُنہیں انڈر اوبزارویشن رکھا گیا ہے یہ تین گھنٹے اُنکے لیے کافی سیریس ہیں آپ اُنسے تین گھنٹے بعد مل سکتے ہیں جب ہم اُنہیں روم میں شفٹ کردیں گے"ڈاکٹر اپنی بات مکمل کرکے چلا گیا تو وہ پھر اپنی سابقہ جگہ بیٹھ گئے۔۔۔
"اذلان تم بابا کو فون کرکے ارحم کے بارے میں بتا دو ورنہ وہ خفا ہونگے"شمس نے اذلان کو کہا تو وہ گھر کال ملانے لگا سب کو اطلاع دینے کے بعد اب وہ وقت گزرنے کا انتظار کر رہے تھے جو گزر ہی نہیں رہا تھا بعض اوقات آپ چاہتے ہیں کے وقت جلدی کٹ جائے مگر اُسے تو اپنی رفتار سے ہی چلنا ہوتا ہے ابھی تھوڑی دیر گزری تھی جب عصر کی اذان کی آواز اُنکے کانوں میں پڑی وُہ تینوں اٹھ کر ہسپتال میں موجود مسجد میں نماز ادا کرنے چلے گئے بیشک اُس رب کے آگے جھک کر سچے دل سے مانگا جائے تو سب ملتا ہے بس ایک کن تقدیریں بدل دیتی ہے وہ رب کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا بس کبھی کبھی تقدیر کسی کی دعا کے انتظار میں ہوتی ہیں۔۔۔
وہ جائے نماز پر بیٹھی عشق بہا رہی تھی جب سے اُسّے ارحم کے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلا تھا وُہ خدا کے حضور بے آواز آنسو بہ رہی تھی اُسنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو جیسے لفظ ختم ہو چکے تھے روتے روتے اب اُسکی ہچکیاں بند چک تھیں۔۔۔
"یا میرے اللہ آزمائش کے قابل نہیں ہوں میں مجھ پر اپنی رحمت کر دیں اللہ جی مجھ سے میرا سائبان نہ لے اللہ جی میں آپکی گنہا گار بندی ہوں لیکن آپ بہت رحیم ہے میری دعا آپکے ایک کن کی محتاج ہے اللہ جی مجھے میری محّبت لوٹا دیں مجھے میرا محرم لوٹا دیں اللہ جی"وہ اپنے خدا سے اپنا صاحبان اپنا محرم مانگ رہی تھی اور بیشک اللہ تو دلوں کے حال بھی جانتا ہے لیکن وہ چاہتا ہیں اُس سے مانگا جائے یہ اُسکی شان ہے کیونکہ وہ بادشاہ ہے وہ اپنے بندے کی ہر بات سنتے ہیں دعا تو ایک ایسا عمل ہے جو تقدیر کو مات دے سکتی ہے گرتے آنسو اور ٹوٹے دل کی قدر صرف وہ ذات کرتی ہے جس نے دل بنایا ہے اور وہ اُسّے جوڑنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔۔۔
ارحم کو روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا ڈاکٹرز نے کہا تھا اُسے اُٹھنے میں دِن میہنے یا سال بھی لگ سکتے ہیں ایسے کیسز میں وقت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں پیکنگ کر رہی تھی جب حداد اندر داخل ہوا اُسکے چہرے پر پریشانی کے تاثرات رقم تھے۔۔۔
"دنین تم تیار ہو جاؤ ہمیں ہسپتال جانا ہے"حداد نے نرم لہجے میں کہا۔۔
"ہسپتال ک کیوں جانا ہے"دانی کو نہ جانے کیوں کچھ غلط محسوس ہوا تھا۔۔
"ارحم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے"وہ اُسکی طرف دیکھے بغیر بولا۔۔
"آپ ,آپ مذاق کر رہے ہیں نہ اُس نے آپکو مجھ سے ایسا بولنے کا کہا ہے نہ"اُسکی آنکھوں میں آنسو چمکے
"میں مذاق نہیں کر رہا دنین"اُسنے نظریں چراتے ہوئے کہا اُن انسوں نے اُسے تکلیف دی تھی۔۔
دنین چادر لے کر حداد کے پیچھے چلی گئی ادھے گھنٹے بعد وہ ہسپتال پونچھ چکے تھے وہ حداد کی محیط میں چلتی اُس روم تک ائی جہاں پر ارحم تھا سب لوگ وہاں موجود تھے ایک بار پھر اُسکی آنکھیں بھیگنے لگی وُہ لڑتے تھے جگرتے تھے لیکن وہ اُسّے بھائیوں کی طرح عزیر تھا سامنے پٹیوں میں جکڑا ارحم کا وجود بے سود بستر مرگ پر تھا کوں جانتا تھا یوں ہر پل ہنستا مسکراتا ارحم اچانک خاموش ہو جائے گا۔۔
وقت کا کام گزرنا ہوتا ہے اور وہ اپنی رفتار سے گزر جاتا ہے یہی وقت کی خاصیت ہے ارحم کو ہسپتال میں دو ہفتے ہو چُکے تھے ایکسیڈنٹ کے دو دن بعد ہی اُسے ہوش آگیا تھا اُسکی حالت میں بھی کافی بہتری ا چکی تھی آج اُسے ڈسچارج ہونا تھا وہ آنکھیں موندے لیٹا تھا جب وہ کمرے میں داخل ہوئی مگر اُسنے آنکھوں سے ہاتھ نہیں ہٹایا تھا وہ اُسکے بیڈ کے برابر رکھے سٹول پر بیٹھ گئی وہ اتنے دنوں میں آج پہلی بار اُسے ملنے ائی تھی اور یہی بات ارحم کی ناراضگی کی وجہ تھی۔۔
"ارحم"پریب نے نم آواز میں اُسّے پکارا تو وہ اپنی ناراضگی بلائے اُسے دیکھنے لگا۔۔
"کیا ہوا پری یار مت رو تمہارا رونا تکلیف دیتا ہے مجھے"اُسکی بات پر پری نے نم آنکھیں اٹھا کر اُسے دیکھا۔۔
"میں بہت ڈر گئی تھی ارحم"آنسوؤں نے اُسکا چہرہ بھیگونا شروع کر دیا ۔۔
"اور اب مجھے ڈرا رہی ہو یار روتے ہوئے بلکل چوڑیل لگتی ہو تم"اُسکی بات پر پری نے اُسے خفگی سے دیکھ کر چہرہ موڑ دیا جو ناراضگی کا اظہار تھا۔۔
"آہ یار پری دیکھو مُجھے یہاں بہت درد ہو رہا ہے ہائے اللہ"ارحم نے اپنی ڈرامے بازی دکھائی اور بیچاری پریاب پریشان ہوتی اُسکی طرف لپکی
"کیا ہوا ارحم کہاں درد ہو رہا ہے میں ڈاکٹر کو۔ بلاؤں"اُسنے اُسے دیکھتے پریشانی سے پوچھا
"جب تم ناراض ہوتی ہو نہ تو یہاں درد ہوتا ہے"ارحم نے اُسکا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھتے کہا۔۔
" میں وہ ہاں میں تایا ابّو سے پوچھ لوں کب جانا ہے"اُسنے جلدی سے راہ فرار ڈھونڈی اور بغیر اُسکا جواب سنے باہر نکل گئی وہ بس مُسکرا کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسلام علیکم ڈیڈ اپنے بلوایا تھا"حداد نے لون میں اُنکے برابر بیٹھتے کہا۔۔
"ہاں میں نے ہی بلایا ہے مجھے کچھ بات کرنی تھی"انہوں نے اپنے ازلی نرم لہجے میں کہنا شروع کیا۔۔
"جی ڈیڈ"وہ اب پوری طرح اُنکی طرف متوجہ ہوا۔۔
"مسٹر ملک والی کنسائیمنٹ کی ڈیلنگ اُن لوگوں نے سکرڈو میں ہماری نئی سائٹ پر کرنی ہے تو تم دانی کو بھی اپنے ساتھ ہی لیے جانا"اُنکی بات پر اُسنے کوفت سے آنکھیں گھمائی۔۔
"جی ڈیڈ جیسا اپ کہیں"اُن سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا چند ایک باتوں کے بعد وہ کمرے کی طرف چلا گیا جہاں دنین بیڈ پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔۔
'کیا ہوا ہے تمہیں کیوں رو رہی ہو رونا تو مُجھے چائیے جو تم میرے پلے باند دی گئی ہو"اُسے روتا دیکھ اسے اور کوفت ہوئی تھی۔۔
"انس کی ڈیت ہو گئی شاہ"اُسکی بات کا شاہ نے کوئی اثر نہیں لیا اب اتنے دِن اُسکے ساتھ رہنے کے بعد اُسے پتہ چل چُکا تھا کے وہ کسی افسانوی کردار کے مرنے پر متام کر رہی ہوگی۔۔۔
"اچھا"اُسنے اتنا کہا اور ورڈروب کی طرف چلا گیا وہ ابھی آفس سے ایا تھا اور اتے ہی ارسل شاہ کا بلاوا آ گیا تھا...
"صرف اچھا اپ میں انسانیت ہے بھی یا نہیں شاہ"اُسنے نم آواز میں کہا۔۔۔
"دیکھو دانی بی بی میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں کے میں کسی ناول کریکٹر کی موت پر افسوس کرتا پھروں"اُسنے سیدی بات کی۔۔
"لیکن میں تو افسانوی کردار نہیں ہوں میرا ہی کچھ خیال کرلیں"وہ پہلے ہی انس کی موت پر عشق بار تھی اپر سے اُسکا رویہ اُسّے اور دکھ ہونے لگا۔۔
"میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں"اُسنے جھنجلا کر کہا۔۔
"آپکو مجھ سے محّبت نہیں ہو سکتی"اُسنے اُمید سے اُسکی طرف دیکھا ہادی تو دو پل کے لیے ٹھہر سا گیا تھا۔۔۔
"تمہیں مجھ سے نفرت نہیں ہو سکتی"اُسنے بھی ترقی با ترکی جواب دیا۔۔
"میں چاہ کر بھی آپسے نفرت نہیں کرسکتی۔۔اُسنے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے یقین سے کہا"۔۔۔
"اور میں چاہ کر بھی تم سے محبت نہیں کرسکتا"وہ اُسکے دل پر اپنے لفظوں کے تیر چلا رہا تھا۔۔
"آپکی محّبت نہ سہی آپکی عادت تو ضرور بنجاؤں گی اور عادت محبت سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے"وہ اُسکے کوٹ سے نادیدہ گرد صاف کرتے ہوئے بولی۔۔
وہ اُسکے اتنے یقین سے کہنے پر حیران رہ گیا تھا لیکن پھر خود کو سنبھالتا وہاں سے چلا گیا وہ اب وہی غلطی دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا تھا وہ اپنے جذبات سے کھیلنے کی اجازت پھر کسی کو نہیں دینا چاہتا تھا۔۔
جبکہ دنین ایک بار پھر کتاب لیکر بیٹھ گئی مگر اب کتاب میں دل کہاں لگنا تھا اُسے حداد سے محّبت تھی یہ بات وہ قبول کر چکی تھی اور جن سے محبت ہو اُنکی ذرا سی بے رخی انسان کو حد سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اُن لوگوں کو سکرڈو کے لیے نکلنا تھا اُنکے واپس اتے ہی شمس کے نکاح کی تاریخ رکھی گئی تھی اُن لوگوں کا وہاں ایک ہفتے کا سٹے تھا وہ لوگ بائے روڈ جا رہے تھے ابھی اُنہیں نکلے آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا جب دنین نے اُسکی طرف رخ کرکے اُسے دیکھا۔۔۔
"آپ پہلے بھی سکرڈو گئے ہیں شاہ"اُسنے ٹوری پر ہاتھ ٹکائے بولی ایسا کرتی وہ حداد کو بہت معصوم لگی تھی۔۔۔
"معصوم اور یہ کیا ہو گیا ہے حداد ار یو آؤٹ اف یور مائنڈ"اُسنے سوچتے ہی جھرجھری لی۔۔
"ہاں"اُسنے اُسّے نظرے چراتے ہوئے کہا اگر وہ مزید اُن آنکھوں میں دیکھتا تو شاید کبھی نظریں نہیں ہٹا پاتا۔۔
"کب"ایک اور سوال تیار تھا۔۔
"بچپن میں ایک بار گیا تھا بابا کے ساتھ حویلی"وہ چاہ کر بھی اُسکے سوالات نظرانداز نہیں کر پا رہا تھا۔۔
"آپکو پتہ ہے مجھے حویلی دیکھنے کا بہت شوق ہے میں نے ناولز میں بھی بہت پڑھا ہے اُنکے بارے میں"اُسنے اَپنی معلومات فراہم کی۔۔۔
"میں نے تم سے پوچھا جو تم مجھے بتا رہی ہو"اُسے اُسکی باتیں اچھی لگ رہیں تھی اور یہی بات اُسے پریشان کر رہی تھی اس لیے اُسنے سکتی سے کہا۔۔
اُسکے سختی سے کہنے پر دنین نے چہرہ دوسری طرف موڑ دیا اور باہر دوڑتے مناظر دیکھنے لگی لیکن حداد کے دل نے خواہش کی تھی وہ بولے اُس سے لڑے وُہ اپنے دل کو ڈپٹتا ڈرائیونگ پر دھیان دینے لگا

DU LIEST GERADE
راہِ عشق
Romantikیہ میرا پہلا ناول ہے اس سے پہلے میں ایک کہانی لکھ چکی ہوں لیکن یہ ناول کافی مختلف ہے اُمید کرتی ہوں آپکو پسند ایگا ۔ محبت کرنا آسان ہوتا ہے نبھانا نہیں اس کہانی میں آپکو انسان کی محبت کے ساتھ اُسکے عشق کی داستان بھی دیکھنے کو ملے گی۔۔۔